چند غور طلب پہلو
پاکستان کا معاشرتی ڈھانچہ ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا ہے،جہاں جمہوریت سماج کےہر طبقہ کے لیے ایک سیاسی ضرورت بن جاتی ہے۔
ISLAMABAD:
ملتان کے ضمنی انتخابات میں جاوید ہاشمی ہار گئے ہیں۔ ان کی شکست صاف نظر آ رہی تھی، کیونکہ وطن عزیز اس وقت جس ہیجانی عبوری دور (Transition) سے گزر رہا ہے، اس میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ ایک طرف الجھے ہوئے معاملات و مسائل کا انبار ہے، دوسری طرف نظم حکمرانی کا بحران شدید ہوتا چلا جا رہا ہے۔
سول سوسائٹی سمیت سماج کے مختلف طبقات نظم حکمرانی کے حوالے سے بدترین فکری تقسیم کا شکار ہیں۔ ایک حلقہ موجودہ نظام کے تسلسل کو جمہوریت سے مشروط کرتا ہے، جب کہ دوسرا حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ سیٹ اپ پر کڑا وار کیے بغیر بہتری کا امکان نہیں ہے۔ مسائل کا صائب اور حقیقت پسندانہ حل تلاش کرنے کے بجائے دونوں فکری رجحانات کے حامل حلقے دو انتہائوں پر جا کھڑے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ملک کو درپیش سیاسی معاملات کی تہہ تک پہنچنے اور اس بحران سے نکلنے کی کوئی واضح تدبیر نظر نہیں آ رہی۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا معاشرتی ڈھانچہ ابھی اس مقام تک نہیں پہنچا ہے، جہاں جمہوریت سماج کے ہر طبقہ کے لیے ایک سیاسی ضرورت بن جاتی ہے۔ اس لیے اہل قلم پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جمہوری نظم حکمرانی کے ثمرات کے بارے میں معاشرے کی ہر سطح پر آگہی دیں مگر اہل دانش و قلم خود فکری ابہام میں مبتلا ہونے کی وجہ سے نظم حکمرانی اور جمہوری اقدار کے بارے میں واضح نہیں ہیں۔
دوسری طرف سیاسی جماعتیں بھی عوام کو متحرک و موبلائز کرنے کے بجائے سیاسی طاقت کا بے جا استعمال (Power Abuse) کر کے جمہوریت کی رسوائی کا سبب بن رہی ہیں، جس کی وجہ سے معاشرے میں مزید فکری انتشار پھیل رہا ہے اور جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کے بارے میں مختلف نوعیت کے مغالطے پیدا ہو رہے ہیں۔
اس بات پر توجہ دینے پر کوئی حلقہ آمادہ نہیں کہ یہ جمہوری نظم حکمرانی ہے، جس نے آزادی، مساوات اور اخوت جیسے اعلیٰ تصورات کی آبیاری کی ہے۔ آج جمہوریت محض سرمایہ دار طبقہ کی نہیں بلکہ معاشرے کے غریب طبقات کے بنیادی حقوق کی بھی ضامن ہے۔ اگر کہیں یہ نظام صحیح طور پر ڈیلیور نہیں کر رہا تو یہ جمہوریت یا جمہوری عمل کا نقص نہیں بلکہ اس معاشرے کے اندر موجود اسقام اور پائے جانے والے تضادات ہیں، جن کی وجہ سے جمہوری نظام کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پارہے۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی کوشش کی جانی چاہیے کہ معاشرے میں رائج نظام میں کیا خامیاں اور نقائص پائے جاتے ہیں؟
دوسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ ایک سوشل انجینئر کا کام کسی مخصوص جماعت کی حمایت اور دیگر جماعتوں کی مخالفت نہیں ہوتا، بلکہ اسے پورے سیاسی و سماجی ڈھانچے کا وسیع بنیادوں پر مطالعہ کرتے ہوئے اپنے مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں تجاویز مرتب کرنا ہوتا ہے۔ تجزیہ نگار بھی اپنے کام کے اعتبار سے سوشل سائنٹسٹ ہی ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں جاری نظام حکمرانی اپنے اندر ان گنت کمزوریاں، خامیاں اور خرابیاں رکھتا ہے۔ یہ ایک قسم کا اشرافیائی نظام ہے، جو اپنی سرشت میں انتہائی فرسودہ اور عوام دشمن ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کی درستگی کا طریقہ کار کیا ہو؟ کیا اس نظام کو لپیٹ دیا جائے اور اس کی جگہ نیا تجربہ کرنے کی کوشش کی جائے؟
ان سوالات کا پاکستان کی مختصر تاریخ کے تناظر کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وطن عزیز میں چار فوجی آمریتیں اسی جواز کے ساتھ قائم ہوئیں کہ سویلین حکومتیں کرپٹ، بدعنوان اور نااہل ہیں، مگر طویل عرصہ تک ملک پر قابض رہنے والی یہ آمریتیں نہ تو ملک کو کرپشن سے پاک کر سکیں اور نہ ہی نظم حکمرانی میں کسی قسم کی بہتری لا سکیں۔ بلکہ ملک کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں ایسی پیچیدگیاں اور الجھنیں پیدا کر گئیں، جن کی وجہ سے آج پاکستان ان گنت مسائل اور بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، جن سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ بہترین آمریت بھی بدترین جمہوریت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔
اب جہاں تک انقلابات کا تعلق ہے، تو تاریخ کے غیر جانبدارانہ جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ بظاہر ایک خوبصورت اور پرکشش اصطلاح ضرور ہے، مگر اس کے نتیجے میں کسی بھی انسانی معاشرے میں کوئی ٹھوس تبدیلی نہیں آ سکی۔ اگر جدید دنیا کی تاریخ سے صرف دو مثالوں کو سامنے رکھ کر بات کی جائے تو بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ پہلا انقلاب فرانس میں بپا ہوا، اس انقلاب نے بے شک بعض نئے تصورات ضرور متعارف کرائے، لیکن ساتھ ہی نپولین کی شخصی آمریت بھی ورثے میں دی، جس نے انقلاب کے اصل اہداف کو بری طرح متاثر کیا۔
دوسری مثال اکتوبر 1917ء کا سوویت انقلاب ہے، اس انقلاب نے محنت کشوں سمیت معاشرے کے محروم طبقات کے اقتدار میں آنے کے تصور کو اجاگر کیا تھا، مگر اسٹالن کی آمریت کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی اور بیوروکریسی کی اقتدار اعلیٰ پر بالادستی نے اس تصور کو خاصی حد تک مجروح کر دیا۔ یوں سوویت عوام انقلاب کے ثمرات سے محروم ہو گئے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہر انقلاب کے بعد ایک ایسی آمریت مسلط ہو جاتی ہے، جو جبر استبداد کی نئی تاریخ رقم کرتی ہے۔
تاریخ اور جدید سیاسیات کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہو گا، ابھی تک جمہوریت کا متبادل نظام متعارف نہیں ہو سکا ہے۔ اس لیے آج کی دنیا میں جمہوریت ہی وہ واحد نظام حکمرانی ہے، جو عوام کو فیصلہ سازی کا حق دیتا ہے۔ جہاں تمام قومی نوعیت کے فیصلے صرف اور صرف پارلیمان میں ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ اہل قلم اور سول سوسائٹی کی ذمے داری ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالیں کہ تمام فیصلے پارلیمان میں کیے جائیں۔ دوئم، انھیں مجبور کیا جائے کہ وہ ہر مسئلہ پر بحث کی روایت کو عام کریں۔ اس کے علاوہ جمہوریت کی بقا اور استحکام کے لیے جن فوری اقدامات کی ضرورت ہے، ان میں تاخیر جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لیے ان اقدامات پر اولین توجہ دینا ضروری ہے۔
اول، انتخابی قوانین، طریقہ کار اور انتظام میں مناسب تبدیلیاں لائی جائیں۔ دوئم، جمہوری عمل کو شراکتی بنانے اور عوام کو ترقیاتی منصوبہ سازی کا حصہ بنانے کے لیے پورے ملک میں یکساں مقامی حکومتی نظام فوری متعارف کرایا جائے۔ سوئم، نظام کی شفافیت کے لیے اراکین پارلیمان کو طاقت کے بے جا استعمال (Power Abuse) سے روکنے کے لیے انھیں ذہنی طور پر احتساب اور جوابدہی پر آمادہ کیا جائے۔ چہارم، اقتدار و اختیار میں مناسب فاصلہ کے لیے قانون سازی کی جائے۔
ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آج دنیا کو بیشمار مسائل کا سامنا ہے، جن میں سے بیشتر کا تعلق ماحولیات کو درپیش خطرات سے ہے۔ اس کے علاوہ کرہ ارض پر آبادی میں ہونے والا اضافہ اور خوراک کے مسائل بھی عالمی سطح پر تشویش کا سبب ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دنیا بھر کے اہل قلم و اہل دانش ان معاملات پر غور و فکر کرتے ہوئے اپنی تجاویز سینہ قرطاس پر منتقل کر رہے ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کے معاملات کئی دہائیاں ہوئیں طے ہو چکی ہیں۔
البتہ تیسری دنیا کے ممالک کے حوالے سے کبھی کبھار کوئی نہ کوئی تحریر اس موضوع پر بھی آ جاتی ہے۔ لیکن ہم 68 برس گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ طے ہی نہیں کرسکے کہ کونسا نظم حکمرانی ہمارے لیے مناسب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں آج بھی جمہوریت کی مبادیات پر بحث ہوتی ہے اور ابھی تک یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ ملک میں صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی۔ حالانکہ ہم نے ابھی تک پارلیمانی نظام کا بھی صحیح طور پر تجربہ ہی نہیں کیا کہ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کر سکیں۔
ملتان کے ضمنی انتخاب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے احتجاج کا حق اپنی جگہ، لیکن نظام حکمرانی میں بہتری بہرحال جمہوری طریقہ ہی سے ممکن ہے۔ آج تحریک انصاف عامر ڈوگر کی کامیابی پر مسرور ہے۔ یہ خوشی اسے انتخاب میں کامیابی کی وجہ سے میسر آئی ہے۔ لہٰذا ہر چند برس بعد نظام لپیٹنے اور نیا ایڈونچر کرنے سے ملک کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتے، بلکہ کسی نظام کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کے لیے کئی دہائیوں کے تجربات درکار ہوتے ہیں۔