حتمی فیصلے کی ضرورت
جن سیاستدانوں کے منہ کو جمہوریت کا خون لگا ہوا ہے وہ ہر قیمت پر اس فراڈ جمہوریت کو بچانے کی کوشش کریں گے۔
پاکستان اپنی سیاسی تاریخ کے ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن دور سے گزر رہا ہے۔ اگرچہ ماضی میں چہرے نہیں نظام بدلو کے نعرے لگائے جاتے رہے لیکن ان کی آواز کمزور رہی، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ نظام بدلو کی آواز 18 کروڑ عوام کی آواز بن گئی ہے اور ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک نظام بدلو کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، اس آواز نے روایتی چہرے بدلو کی سیاست کرنے والوں کے کان کھڑے کر دیے ہیں۔ اس خطرے کی وجہ سے وہ سارے سیاسی رہنما جن کے مفادات Status Quo سے وابستہ ہیں نہ صرف متحد ہو گئے ہیں اور اشرافیائی سیٹ اپ کو بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
14 اگست سے شروع ہونے والی دھرنا تحریک اپنے ابتدائی دنوں میں اس قدر توانا اور موثر لگ رہی تھی کہ حکمران طبقات کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور وہ سراسیمگی کے عالم میں عمران خان اور قادری کے کنٹینروں کا طواف کر رہے تھے لیکن دھرنوں کی قیادت کرنے والوں کی بعض ٹیکنیکل غلط حکمت عملیوں، ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے یہ تحریک نشیب و فراز کا شکار رہی۔
تحریک کی قیادت کو غالباً اندازہ نہیں تھا کہ دھرنوں کی طوالت آخرکار دھرنوں کو غیر موثر کر سکتی ہے اور پرامن دھرنوں کی طوالت دھرنوں میں شامل ہزاروں مرد عورتوں بچوں کو کسی نہ کسی مرحلے پر مایوسی کی طرف لے جا سکتی ہے اور دھرنوں کی طوالت حکومت کے ہاتھ مضبوط کر سکتی ہے اور یہی ہوا، دھرنا جس قدر طویل ہوتا گیا اس کی اہمیت کم ہوتی گئی اور حکمران طبقات اور اس کے اتحادیوں میں جان آتی گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دو ماہ کے طویل عرصے پر محیط دھرنے، دھرنا دینے والوں کی مستقل مزاجی، عزم و حوصلے کا ثبوت تھے اور اس دو ماہ کے دوران 20 کروڑ عوام میں ایک زبردست طبقاتی شعور بھی پیدا ہوا لیکن دھرنے بہرحال وہ مقاصد حاصل نہ کر سکے جس کا اعلان دھرنے کی قیادت کرتی رہی یعنی حکومت کو تبدیل کرنا۔
حکومت کی تبدیلی کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک یہ کہ 1968ء اور 1977ء جیسی ملک گیر تحریک چلائی جائے اور حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ازخود اقتدار سے دست بردار ہو جائے اور دوسرا آئینی طریقہ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ عمران خان اور طاہرالقادری غلط منصوبہ بندی، غلط حکمت عملی کی وجہ سے 1968ء اور 1977ء جیسی تحریک نہ بنا سکے اور اسلام آباد کے ڈی چوک تک محدود ہو کر رہ گئے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ممکن نہیں۔
اسلام آباد سے نکلنے اور ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں کے ذریعے متحرک کرنے کا کام اگرچہ دھرنوں کا نعم البدل بن رہا ہے لیکن یہ کام دھرنوں کے ساتھ کیا جاتا تو تحریک ڈی چوک تک سمٹی نہیں رہتی۔ کراچی، لاہور، میانوالی، ملتان، فیصل آباد، سرگودھا وغیرہ کے جلسوں میں عوام کی ناقابل یقین شرکت سے یہ اندازہ تو ہو سکتا ہے کہ ملک کے عوام اس گلے سڑے کرپٹ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن اس تبدیلی کے لیے کیا کیا ''لوازمات'' کی ضرورت ہے، ایسا لگتا ہے عمران خان اور قادری اس حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہیں۔
عمران خان اور قادری Status Quo توڑنے پر تو متفق ہیں لیکن اس کے لیے جس قسم کی منصوبہ بندی، جس قسم کی حکمت عملی درکار ہے وہ طے کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کمزوری کی وجہ سے حکومت جو اب تک خوف و ہراس کا شکار تھی اور بیک فٹ پر کھیل رہی تھی اب جان پکڑ رہی ہے اور جارحانہ طرز عمل اختیار کر رہی ہے۔ اس صورت حال کا دانشمندی اور موثر حکمت عملی سے مقابلہ نہ کیا گیا تو عوام میں مایوسی پیدا ہو سکتی ہے جو ایک خطرناک علامت ہو گی۔
حکومت کے دھرنوں کے خوف سے نکلنے اور جان پکڑنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس دوران حکومت کو تیسری قوت کی مداخلت کا خوف لاحق تھا اس خوف سے نکلنے اور تیسری قوت کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت اور اس کے اتحادیوں نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر جمہوریت کو ہر قیمت پر بچانے کا اعلان کیا اور تیسری قوت کو یہ پیغام دیا کہ اگر کوئی مداخلت کی گئی تو ''جمہوری قوتوں'' کی طرف سے اس کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔
ہمیں نہیں معلوم کہ 2 سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کس قدر کامیاب رہی البتہ یہ اندازہ ضرور ہوا کہ تیسری قوت کی طرف سے ممکنہ خطرہ ٹل گیا اور حکومت نے جارحانہ طرز عمل اختیار کر لیا۔ مسئلہ تیسری قوت کی مداخلت کا نہیں، کیونکہ کوئی تیسری قوت کبھی نظام بدلنے کی طرف جاتی نہیں دیکھی گئی کیونکہ نظام کی تبدیلی کسی تیسری قوت کے ایجنڈے کا حصہ نہیں رہی۔
محسوس یہ ہو رہا ہے کہ عمران خان تنہا ہی یہ بڑی مہم انجام دینا چاہتے ہیں جس کی کامیابی مشکوک ہے البتہ قادری کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ مشکل مرحلہ طے کرنا کسی ایک پارٹی کا کام نہیں، وہ ایک وسیع تر اتحاد بنانے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں لیکن اسی وسیع تر اتحاد میں شمولیت کے لیے وہ جن جماعتوں کا نام لے رہے ہیں ان کے اپنے علیحدہ ایجنڈے ہیں، ایسے ملغوبہ قسم کا اتحاد نظام کی تبدیلی میں شاید کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ اگر کوئی اتحاد کسی اہم ہدف پر متفق نہ ہو تو اس کامیابی یقینی نہیں ہوتی پھر قادری صاحب یہ بھی فرما رہے ہیں کہ یہ ممکنہ اتحاد انتخابی اتحاد میں بدل جائے گا۔
قادری صاحب جن بھول بھلیوں میں جانا چاہ رہے ہیں وہاں روایتی چہروں کی تبدیلی تو ممکن ہے لیکن اس استحصالی نظام کی تبدیلی ممکن نہیں۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن کا ادراک ان لوگوں کو ہونا چاہیے جو نظام بدلنے اور Status Quo توڑنے کی باتیں کرتے آ رہے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کی بات صرف وہی رہنما اور جماعتیں کر سکتی ہیں جو اشرافیائی جمہوریت کے اسرار و رموز کا ادراک رکھتی ہیں، جو اس جمہوریت کے حامی ہیں وہ نظام کی تبدیلی کی طرف نہیں آسکتے۔
موجودہ صورتحال ایک ایسا موڑ بن گئی ہے جہاں اس بات کا حتمی فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ مڈٹرم الیکشن پہلی ترجیح ہے یا اسٹیٹس کو کو توڑنا ضروری ہے۔ اگر عمران خان اور قادری مڈٹرم الیکشن ہی کو اپنی منزل سمجھتے ہیں تو پھر یہی سسٹم چلتا رہے گا، اگر اسٹیٹس کو کو توڑنا ضروری ہے تو پھر مڈٹرم الیکشن کو پیچھے دھکیل کر اسٹیٹس کو کو توڑنے کو پہلی ترجیح بنانا ہو گا اور ان ساری قوتوں کو ساتھ لینا ہو گا جو اسٹیٹس کو کی مخالف ہیں، اس کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا ہو گا کہ جن سیاستدانوں کے منہ کو جمہوریت کا خون لگا ہوا ہے وہ ہر قیمت پر اس فراڈ جمہوریت کو بچانے کی کوشش کریں گے، ان کے پاس اقتدار ہے، ریاستی مشینری ہے، ملک و قوم کی لوٹی ہوئی اربوں کھربوں کی دولت ہے اور موجودہ نظام میں ''جمہوریت کو بچانے'' میں یہ وسائل حکمران طبقات کی ایک بڑی اور موثر طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کا مقابلہ بہت سخت اور مشکل ہوگا۔
اس صورتحال میں اصل جمہوریت کے اس فلسفے سے رجوع کرنا پڑے گا کہ ''عوام ہی قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں'' اگر قوت کے اس سرچشمے کو ساتھ لیں اور متحرک کریں تو پھر حکمرانوں کی سسٹم بچانے کی ہر پرفریب کوشش کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر بڑے بڑے انقلاب لائے گئے ہیں، اگر اسٹیٹس کو کو توڑنے میں کامیابی ہوتی ہے تو پھر سمجھیں کہ نظام کی تبدیلی سامنے ہو گی۔ اگر مڈٹرم الیکشن کی طرف گئے تو اسٹیٹس کو برقرار رہے گا اور قوم و ملک کا مستقبل تاریخ ہو جائے گا۔
14 اگست سے شروع ہونے والی دھرنا تحریک اپنے ابتدائی دنوں میں اس قدر توانا اور موثر لگ رہی تھی کہ حکمران طبقات کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور وہ سراسیمگی کے عالم میں عمران خان اور قادری کے کنٹینروں کا طواف کر رہے تھے لیکن دھرنوں کی قیادت کرنے والوں کی بعض ٹیکنیکل غلط حکمت عملیوں، ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے یہ تحریک نشیب و فراز کا شکار رہی۔
تحریک کی قیادت کو غالباً اندازہ نہیں تھا کہ دھرنوں کی طوالت آخرکار دھرنوں کو غیر موثر کر سکتی ہے اور پرامن دھرنوں کی طوالت دھرنوں میں شامل ہزاروں مرد عورتوں بچوں کو کسی نہ کسی مرحلے پر مایوسی کی طرف لے جا سکتی ہے اور دھرنوں کی طوالت حکومت کے ہاتھ مضبوط کر سکتی ہے اور یہی ہوا، دھرنا جس قدر طویل ہوتا گیا اس کی اہمیت کم ہوتی گئی اور حکمران طبقات اور اس کے اتحادیوں میں جان آتی گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دو ماہ کے طویل عرصے پر محیط دھرنے، دھرنا دینے والوں کی مستقل مزاجی، عزم و حوصلے کا ثبوت تھے اور اس دو ماہ کے دوران 20 کروڑ عوام میں ایک زبردست طبقاتی شعور بھی پیدا ہوا لیکن دھرنے بہرحال وہ مقاصد حاصل نہ کر سکے جس کا اعلان دھرنے کی قیادت کرتی رہی یعنی حکومت کو تبدیل کرنا۔
حکومت کی تبدیلی کے دو طریقے ہوتے ہیں ایک یہ کہ 1968ء اور 1977ء جیسی ملک گیر تحریک چلائی جائے اور حکومت کو مجبور کیا جائے کہ وہ ازخود اقتدار سے دست بردار ہو جائے اور دوسرا آئینی طریقہ یہ ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ عمران خان اور طاہرالقادری غلط منصوبہ بندی، غلط حکمت عملی کی وجہ سے 1968ء اور 1977ء جیسی تحریک نہ بنا سکے اور اسلام آباد کے ڈی چوک تک محدود ہو کر رہ گئے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ممکن نہیں۔
اسلام آباد سے نکلنے اور ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں کے ذریعے متحرک کرنے کا کام اگرچہ دھرنوں کا نعم البدل بن رہا ہے لیکن یہ کام دھرنوں کے ساتھ کیا جاتا تو تحریک ڈی چوک تک سمٹی نہیں رہتی۔ کراچی، لاہور، میانوالی، ملتان، فیصل آباد، سرگودھا وغیرہ کے جلسوں میں عوام کی ناقابل یقین شرکت سے یہ اندازہ تو ہو سکتا ہے کہ ملک کے عوام اس گلے سڑے کرپٹ نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں لیکن اس تبدیلی کے لیے کیا کیا ''لوازمات'' کی ضرورت ہے، ایسا لگتا ہے عمران خان اور قادری اس حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہیں۔
عمران خان اور قادری Status Quo توڑنے پر تو متفق ہیں لیکن اس کے لیے جس قسم کی منصوبہ بندی، جس قسم کی حکمت عملی درکار ہے وہ طے کرنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کمزوری کی وجہ سے حکومت جو اب تک خوف و ہراس کا شکار تھی اور بیک فٹ پر کھیل رہی تھی اب جان پکڑ رہی ہے اور جارحانہ طرز عمل اختیار کر رہی ہے۔ اس صورت حال کا دانشمندی اور موثر حکمت عملی سے مقابلہ نہ کیا گیا تو عوام میں مایوسی پیدا ہو سکتی ہے جو ایک خطرناک علامت ہو گی۔
حکومت کے دھرنوں کے خوف سے نکلنے اور جان پکڑنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس دوران حکومت کو تیسری قوت کی مداخلت کا خوف لاحق تھا اس خوف سے نکلنے اور تیسری قوت کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت اور اس کے اتحادیوں نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر جمہوریت کو ہر قیمت پر بچانے کا اعلان کیا اور تیسری قوت کو یہ پیغام دیا کہ اگر کوئی مداخلت کی گئی تو ''جمہوری قوتوں'' کی طرف سے اس کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔
ہمیں نہیں معلوم کہ 2 سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کس قدر کامیاب رہی البتہ یہ اندازہ ضرور ہوا کہ تیسری قوت کی طرف سے ممکنہ خطرہ ٹل گیا اور حکومت نے جارحانہ طرز عمل اختیار کر لیا۔ مسئلہ تیسری قوت کی مداخلت کا نہیں، کیونکہ کوئی تیسری قوت کبھی نظام بدلنے کی طرف جاتی نہیں دیکھی گئی کیونکہ نظام کی تبدیلی کسی تیسری قوت کے ایجنڈے کا حصہ نہیں رہی۔
محسوس یہ ہو رہا ہے کہ عمران خان تنہا ہی یہ بڑی مہم انجام دینا چاہتے ہیں جس کی کامیابی مشکوک ہے البتہ قادری کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ مشکل مرحلہ طے کرنا کسی ایک پارٹی کا کام نہیں، وہ ایک وسیع تر اتحاد بنانے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں لیکن اسی وسیع تر اتحاد میں شمولیت کے لیے وہ جن جماعتوں کا نام لے رہے ہیں ان کے اپنے علیحدہ ایجنڈے ہیں، ایسے ملغوبہ قسم کا اتحاد نظام کی تبدیلی میں شاید کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ اگر کوئی اتحاد کسی اہم ہدف پر متفق نہ ہو تو اس کامیابی یقینی نہیں ہوتی پھر قادری صاحب یہ بھی فرما رہے ہیں کہ یہ ممکنہ اتحاد انتخابی اتحاد میں بدل جائے گا۔
قادری صاحب جن بھول بھلیوں میں جانا چاہ رہے ہیں وہاں روایتی چہروں کی تبدیلی تو ممکن ہے لیکن اس استحصالی نظام کی تبدیلی ممکن نہیں۔ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن کا ادراک ان لوگوں کو ہونا چاہیے جو نظام بدلنے اور Status Quo توڑنے کی باتیں کرتے آ رہے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کی بات صرف وہی رہنما اور جماعتیں کر سکتی ہیں جو اشرافیائی جمہوریت کے اسرار و رموز کا ادراک رکھتی ہیں، جو اس جمہوریت کے حامی ہیں وہ نظام کی تبدیلی کی طرف نہیں آسکتے۔
موجودہ صورتحال ایک ایسا موڑ بن گئی ہے جہاں اس بات کا حتمی فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ مڈٹرم الیکشن پہلی ترجیح ہے یا اسٹیٹس کو کو توڑنا ضروری ہے۔ اگر عمران خان اور قادری مڈٹرم الیکشن ہی کو اپنی منزل سمجھتے ہیں تو پھر یہی سسٹم چلتا رہے گا، اگر اسٹیٹس کو کو توڑنا ضروری ہے تو پھر مڈٹرم الیکشن کو پیچھے دھکیل کر اسٹیٹس کو کو توڑنے کو پہلی ترجیح بنانا ہو گا اور ان ساری قوتوں کو ساتھ لینا ہو گا جو اسٹیٹس کو کی مخالف ہیں، اس کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔
اس بات کو ذہن میں رکھنا ہو گا کہ جن سیاستدانوں کے منہ کو جمہوریت کا خون لگا ہوا ہے وہ ہر قیمت پر اس فراڈ جمہوریت کو بچانے کی کوشش کریں گے، ان کے پاس اقتدار ہے، ریاستی مشینری ہے، ملک و قوم کی لوٹی ہوئی اربوں کھربوں کی دولت ہے اور موجودہ نظام میں ''جمہوریت کو بچانے'' میں یہ وسائل حکمران طبقات کی ایک بڑی اور موثر طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کا مقابلہ بہت سخت اور مشکل ہوگا۔
اس صورتحال میں اصل جمہوریت کے اس فلسفے سے رجوع کرنا پڑے گا کہ ''عوام ہی قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں'' اگر قوت کے اس سرچشمے کو ساتھ لیں اور متحرک کریں تو پھر حکمرانوں کی سسٹم بچانے کی ہر پرفریب کوشش کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر بڑے بڑے انقلاب لائے گئے ہیں، اگر اسٹیٹس کو کو توڑنے میں کامیابی ہوتی ہے تو پھر سمجھیں کہ نظام کی تبدیلی سامنے ہو گی۔ اگر مڈٹرم الیکشن کی طرف گئے تو اسٹیٹس کو برقرار رہے گا اور قوم و ملک کا مستقبل تاریخ ہو جائے گا۔