دوستی اور تعاون کا منکر
خارجہ جناب سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کو اسی پس منظر میں چِٹھی بھی لکھی ہے لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
جنوبی ایشیا میں مستقل قیامِ امن کے لیے پاکستان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار رہیں۔ایوب خان سے لے کر اب جناب نواز شریف تک پاکستان کے ہر منتخب اور غیر منتخب حکمران نے بھارت کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے لیکن جواہر لعل نہرو سے لے کر نریندر مودی تک بھارت کے ہر حکمران نے اس بڑھے ہاتھ کو جھٹک دیا ہے لیکن صد افسوس کہ بھارتی حکمرانوں کا پرنالہ وہیں کا وہیں رہا۔ گویا بھارت نے یہ طے کر رکھا ہے کہ اسے پاکستان کی دوستی درکار ہے نہ وہ پاکستان کی طرف سے بڑھایا گیا امن کا ہاتھ تھامنا چاہتا ہے۔
وہ اپنی جغرافیائی وسعت اور نام نہاد بھاری معاشی حجم کے زعم میں پاکستان اور ہمسایہ ممالک (بشمول چین) کو اپنے زیرِ اثر لانے کا ہمیشہ سے خواہشمند رہا ہے۔ نئے عالمی حالات کے تناظر میں اس کی بالادستی کی یہ تمنا مزید انگڑائی لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ خصوصاً بھارت کا نیا وزیر اعظم پاکستان اور بھارت کے درمیان طے شدہ معاہدوں کو بھی روند ڈالنا چاہتا ہے۔ مودی کی گزشتہ ساڑھے چار ماہ کی حکومت کے دوران بھارت نے پاکستان کے خلاف بار بار اور اشتعال انگیزی کی ہے۔
مثال کے طور پر ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری کے اِس پار، بغیر کسی اشتعال کے، بھارت نے بار بار سرحدی خلاف ورزیاں کر کے جو بمباریاں کی ہیں، اس نے ساری دنیا (سمیت یو این او) کو باور کرایا ہے کہ بھارت ایک جارح مملکت ہے۔ پاکستانی افواج اگرچہ بھرپور جواب دے رہی ہیں لیکن اس جواب میں صبر کا عنصر غالب ہے کہ پاکستان کسی بھی شکل میں جنگ کی بھٹی گرمانا چاہتا ہے نہ جنگ کو وسعت دینے کا خواہاں ہے لیکن بھارتی بنیا اس صبر کے غلط معنی اخذ کر رہا ہے۔
وزیر اعظم کے مشیرِ امورِ خارجہ جناب سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کو اسی پس منظر میں چِٹھی بھی لکھی ہے لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ پاک بھارت کے ڈی جی ایم اوز نے فون پر گفتگو بھی کی ہے لیکن بھارتی توپیں خاموش نہیں ہو رہیں۔
بھارت کی یہ کہہ مکرنیاں صرف ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری تک ہی محدود نہیں رہیں، بلکہ اس دائرے کو مزید وسعت دی گئی ہے۔ بھارت ہر سطح پر پاکستان اور اہلِ پاکستان کو زِچ کرنے کے درپے ہے۔ مثال کے طور پر 2012ء کے ویزا پروٹوکول کے مطابق، پاکستان اور بھارت اس امر کے پابند ہیں کہ دونوں ممالک کی بزنس کمیونٹی جب بھی ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کریں گی یا کوئی تجارتی نمائش کریں گی، انھیں تھانوں میں جا کر اپنی آمد کے حوالے سے رپورٹ کرنے سے استثناء حاصل ہوگا۔
پاکستان اسی معاہدے کے تحت گزشتہ ڈیڑھ دو برس کے دوران لاتعداد مرتبہ پاکستان آنے والی بھارتی بزنس کمیونٹی کو یہ سہولت فراہم کر چکا ہے لیکن بھارت نے پاکستان کی بزنس کمیونٹی کو ویزا پروٹوکول دینے سے انکار کر دیا ہے۔ مثلاً: پچھلے ماہ، 11 ستمبر تا 14 ستمبر، مختلف پاکستانی تاجروں نے دہلی میں ''عالی شان پاکستان'' کے زیرِ عنوان ایک نمائش کا اہتمام کیا۔
اس میں فُوڈ اور فیشن کی آئٹمز رکھی گئیں۔ عام بھارتی شہریوں نے تو اس کا مثبت جواب دیا کہ چار روزہ نمائش کے پہلے تین دنوں کے اندر اندر ہی تمام پاکستانی آئٹمز فروخت ہوگئیں لیکن بھارتی حکام اور اسٹیبلشمنٹ نے نمائش لگانے والی پاکستانی بزنس کمیونٹی کا ناطقہ بند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ 2012ء کے ویزا پروٹوکول کے مطابق، پاکستانی تاجروں نے دہلی میں پولیس رپورٹنگ نہیں کروائی تھی۔ اس ''غفلت'' کا بھارتی حکمرانوں نے (وزیر اعظم نریندر مودی کی وضع کردہ پاکستان مخالف نئی پالیسیوں کے مطابق) ہماری بزنس کمیونٹی کو بہت ٹارچر کیا۔
سب سے کہا گیا کہ چونکہ تم لوگ پولیس رپورٹنگ نہ کروانے کے مرتکب ہوئے ہو، اس لیے ہر ایک کو چالیس، چالیس ڈالر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ سب لوگ حیران رہ گئے۔ بھارت نے پاکستانی تاجروں کو جان بوجھ کر ہراساں کیا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھارت خود تو ویزا پروٹوکول کے سائے تلے پاکستان سے سہولیات اور مراعات چاہتا ہے لیکن پاکستان کو اس سے محروم کرتا اور کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ بھارت کسی بھی طرح پاکستان سے دوستی کا خواستگار نہیں۔ ایسے میں نریندر مودی سے کوئی بڑی توقع وابستہ کرنا وقت کا زیاں ہی کہا جائے گا۔
بھارتی حکمرانوں کا یہ قابلِ مذمت رویہ ویزا پروٹوکول تک ہی محدود نہیں رہا۔ یہ آگے بڑھ کر بھارتی ادبی کتابوں میں بھی سرایت کر گیا ہے۔ اس سے قبل بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر بالی وُڈ پاکستان مخالف فلمیں تو بناتا ہی رہا ہے (مثلاً: کارگل جنگ کے پس منظر میں پاکستان دشمن بھارتی فلم ''لکش''۔ اس کی عکسبندی میں بھارتی فوج نے بھارتی فلمساز کو پورا پورا تعاون فراہم کیا) لیکن اب بھارتی خفیہ اداروں (از قسم ''را'') اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر بھارتی ادیبوں نے پاکستان مخالف ناول بھی لکھنے شروع کردیے ہیں۔
مثال کے طور پر مُکل ڈیوا (MUKUL DEVA) کا ناول ''لشکر'' (LASHKAR) ناول نگار مُکل ڈیوا بھارتی فوج کا ایک سابق سینئر افسر ہے۔ اس نے اسامہ بن لادن، آئی ایس آئی، لشکرِ طیبہ اور پاکستان کی دیگر جہادی جماعتوں کے نام کے ساتھ اپنے ناول کی بُنت کاری کرتے ہوئے پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف اپنے خبثِ باطن کا اظہار کیا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار (اقبال) لکھنؤ کا مسلمان ہے جو سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں وارداتیں کرتا ہے۔
ممبئی کو لشکرِ طیبہ کے ہاتھوں ہدف بناتے دکھایا گیا ہے۔ اگر بھارتی لٹریچر بھی بھارت کی مجموعی پاکستان دشمن پالیسیوں کے زیرِ اثر آلودہ ہو چکا ہے اور اس کے ثبوت بھی فراہم کیے جا رہے ہیں تو ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ موجودہ حالات میں نریندر مودی پاکستان سے دوستی اور تعاون کے لیے ہاتھ بڑھائیں گے؟
ان کی پاکستان اور چین کے خلاف وضع کردہ پالیسیوں سے اثر پذیر ہو کر بھارتی میڈیا نے اس وقت بھی نہایت بیہودگی کا مظاہرہ کیا جب گزشتہ ماہ چینی صدر ژی جِن پنگ نے بھارت کا دورہ کیا۔ ایک طرف ژی صاحب بھارت کا دورہ کر رہے تھے، اور دوسری طرف بھارتی میڈیا چین کو ''غاصب'' قرار دے رہا تھا۔ چین نے اگرچہ اس کا سخت نوٹس لیا ہے لیکن بھارتی پرنالہ وہیں کا وہیں نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں ہمارے وزیر اعظم کو چینی حکام سے مل کر کوئی نئی اسٹرٹیجی مرتب کرنا ہو گی۔ خدا کرے اس سلسلے میں جناب نواز شریف کا تازہ دورئہ چین کسی بڑی خوشخبری کا باعث بن سکے۔
وہ اپنی جغرافیائی وسعت اور نام نہاد بھاری معاشی حجم کے زعم میں پاکستان اور ہمسایہ ممالک (بشمول چین) کو اپنے زیرِ اثر لانے کا ہمیشہ سے خواہشمند رہا ہے۔ نئے عالمی حالات کے تناظر میں اس کی بالادستی کی یہ تمنا مزید انگڑائی لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ خصوصاً بھارت کا نیا وزیر اعظم پاکستان اور بھارت کے درمیان طے شدہ معاہدوں کو بھی روند ڈالنا چاہتا ہے۔ مودی کی گزشتہ ساڑھے چار ماہ کی حکومت کے دوران بھارت نے پاکستان کے خلاف بار بار اور اشتعال انگیزی کی ہے۔
مثال کے طور پر ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری کے اِس پار، بغیر کسی اشتعال کے، بھارت نے بار بار سرحدی خلاف ورزیاں کر کے جو بمباریاں کی ہیں، اس نے ساری دنیا (سمیت یو این او) کو باور کرایا ہے کہ بھارت ایک جارح مملکت ہے۔ پاکستانی افواج اگرچہ بھرپور جواب دے رہی ہیں لیکن اس جواب میں صبر کا عنصر غالب ہے کہ پاکستان کسی بھی شکل میں جنگ کی بھٹی گرمانا چاہتا ہے نہ جنگ کو وسعت دینے کا خواہاں ہے لیکن بھارتی بنیا اس صبر کے غلط معنی اخذ کر رہا ہے۔
وزیر اعظم کے مشیرِ امورِ خارجہ جناب سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کو اسی پس منظر میں چِٹھی بھی لکھی ہے لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ پاک بھارت کے ڈی جی ایم اوز نے فون پر گفتگو بھی کی ہے لیکن بھارتی توپیں خاموش نہیں ہو رہیں۔
بھارت کی یہ کہہ مکرنیاں صرف ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری تک ہی محدود نہیں رہیں، بلکہ اس دائرے کو مزید وسعت دی گئی ہے۔ بھارت ہر سطح پر پاکستان اور اہلِ پاکستان کو زِچ کرنے کے درپے ہے۔ مثال کے طور پر 2012ء کے ویزا پروٹوکول کے مطابق، پاکستان اور بھارت اس امر کے پابند ہیں کہ دونوں ممالک کی بزنس کمیونٹی جب بھی ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کریں گی یا کوئی تجارتی نمائش کریں گی، انھیں تھانوں میں جا کر اپنی آمد کے حوالے سے رپورٹ کرنے سے استثناء حاصل ہوگا۔
پاکستان اسی معاہدے کے تحت گزشتہ ڈیڑھ دو برس کے دوران لاتعداد مرتبہ پاکستان آنے والی بھارتی بزنس کمیونٹی کو یہ سہولت فراہم کر چکا ہے لیکن بھارت نے پاکستان کی بزنس کمیونٹی کو ویزا پروٹوکول دینے سے انکار کر دیا ہے۔ مثلاً: پچھلے ماہ، 11 ستمبر تا 14 ستمبر، مختلف پاکستانی تاجروں نے دہلی میں ''عالی شان پاکستان'' کے زیرِ عنوان ایک نمائش کا اہتمام کیا۔
اس میں فُوڈ اور فیشن کی آئٹمز رکھی گئیں۔ عام بھارتی شہریوں نے تو اس کا مثبت جواب دیا کہ چار روزہ نمائش کے پہلے تین دنوں کے اندر اندر ہی تمام پاکستانی آئٹمز فروخت ہوگئیں لیکن بھارتی حکام اور اسٹیبلشمنٹ نے نمائش لگانے والی پاکستانی بزنس کمیونٹی کا ناطقہ بند کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ 2012ء کے ویزا پروٹوکول کے مطابق، پاکستانی تاجروں نے دہلی میں پولیس رپورٹنگ نہیں کروائی تھی۔ اس ''غفلت'' کا بھارتی حکمرانوں نے (وزیر اعظم نریندر مودی کی وضع کردہ پاکستان مخالف نئی پالیسیوں کے مطابق) ہماری بزنس کمیونٹی کو بہت ٹارچر کیا۔
سب سے کہا گیا کہ چونکہ تم لوگ پولیس رپورٹنگ نہ کروانے کے مرتکب ہوئے ہو، اس لیے ہر ایک کو چالیس، چالیس ڈالر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ سب لوگ حیران رہ گئے۔ بھارت نے پاکستانی تاجروں کو جان بوجھ کر ہراساں کیا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ بھارت خود تو ویزا پروٹوکول کے سائے تلے پاکستان سے سہولیات اور مراعات چاہتا ہے لیکن پاکستان کو اس سے محروم کرتا اور کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ بھارت کسی بھی طرح پاکستان سے دوستی کا خواستگار نہیں۔ ایسے میں نریندر مودی سے کوئی بڑی توقع وابستہ کرنا وقت کا زیاں ہی کہا جائے گا۔
بھارتی حکمرانوں کا یہ قابلِ مذمت رویہ ویزا پروٹوکول تک ہی محدود نہیں رہا۔ یہ آگے بڑھ کر بھارتی ادبی کتابوں میں بھی سرایت کر گیا ہے۔ اس سے قبل بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر بالی وُڈ پاکستان مخالف فلمیں تو بناتا ہی رہا ہے (مثلاً: کارگل جنگ کے پس منظر میں پاکستان دشمن بھارتی فلم ''لکش''۔ اس کی عکسبندی میں بھارتی فوج نے بھارتی فلمساز کو پورا پورا تعاون فراہم کیا) لیکن اب بھارتی خفیہ اداروں (از قسم ''را'') اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر بھارتی ادیبوں نے پاکستان مخالف ناول بھی لکھنے شروع کردیے ہیں۔
مثال کے طور پر مُکل ڈیوا (MUKUL DEVA) کا ناول ''لشکر'' (LASHKAR) ناول نگار مُکل ڈیوا بھارتی فوج کا ایک سابق سینئر افسر ہے۔ اس نے اسامہ بن لادن، آئی ایس آئی، لشکرِ طیبہ اور پاکستان کی دیگر جہادی جماعتوں کے نام کے ساتھ اپنے ناول کی بُنت کاری کرتے ہوئے پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف اپنے خبثِ باطن کا اظہار کیا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار (اقبال) لکھنؤ کا مسلمان ہے جو سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں وارداتیں کرتا ہے۔
ممبئی کو لشکرِ طیبہ کے ہاتھوں ہدف بناتے دکھایا گیا ہے۔ اگر بھارتی لٹریچر بھی بھارت کی مجموعی پاکستان دشمن پالیسیوں کے زیرِ اثر آلودہ ہو چکا ہے اور اس کے ثبوت بھی فراہم کیے جا رہے ہیں تو ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ موجودہ حالات میں نریندر مودی پاکستان سے دوستی اور تعاون کے لیے ہاتھ بڑھائیں گے؟
ان کی پاکستان اور چین کے خلاف وضع کردہ پالیسیوں سے اثر پذیر ہو کر بھارتی میڈیا نے اس وقت بھی نہایت بیہودگی کا مظاہرہ کیا جب گزشتہ ماہ چینی صدر ژی جِن پنگ نے بھارت کا دورہ کیا۔ ایک طرف ژی صاحب بھارت کا دورہ کر رہے تھے، اور دوسری طرف بھارتی میڈیا چین کو ''غاصب'' قرار دے رہا تھا۔ چین نے اگرچہ اس کا سخت نوٹس لیا ہے لیکن بھارتی پرنالہ وہیں کا وہیں نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں ہمارے وزیر اعظم کو چینی حکام سے مل کر کوئی نئی اسٹرٹیجی مرتب کرنا ہو گی۔ خدا کرے اس سلسلے میں جناب نواز شریف کا تازہ دورئہ چین کسی بڑی خوشخبری کا باعث بن سکے۔