وسائل سے فائدہ اٹھایے

بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں آٹھ سو ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے، تانبے اور دوسری قیمتی معدنیات کےذخائر موجود ہیں.


ذوالقرنین زیدی October 20, 2014

اونچے برفیلے پہاڑ، سطح مرتفع، ہموارمیدان، تپتے صحرا، گہرے سمندر، پھر بہار، خزاں، سردی، گرمی کے چاروں موسم، اور سونا، چاندی، تانبا، لوہا، گندھک، ماربل، زمرد، قیمتی پتھر، نمک اورکوئلے جیسی معدنیات کے زیر زمین ذخائر کی باطنی رعنائی سے لبریز پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کون واقف نہیں؟ سندھ کوئلہ، گیس اور خام تیل کے ذخائر سے سطح زمین اور زیر زمین، سمندر کی تہہ تک دولت سے مالامال ہے، بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں آٹھ سو ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے، تانبے اور دوسری قیمتی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں، دنیا کی مہنگی ترین معدنیات پائیریم کے ذخائراور نیوٹران کے لیے استعمال ہونے والی دھاتیں بھی ریکوڈک میں موجود ہیں۔

مری اور بگٹی قبائل کے علاقوں میں بھی گیس کے مزید ذخائر کا پتہ چل چکا ہے۔ جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق بلوچستان کے پانچ مقامات پر سونے اور تانبے کے 78کروڑ ٹن کے ذخائر موجود ہیں، اگر بلوچستان کے یہ وسائل ناکافی ہوں تو چنیوٹ کے قریب سونے اور تانبے کے ذخائر، گلگت بلتستان کی وادی شگر میں موجود سونے کی کان، چترال میں موجود سونے کے ذخائر، ضلع چاغی میں موجود سونے اور تانبے کی بڑی کان، سوات کا قیمتی پتھر زمرد اور سیسہ جس سے ایلومینیم بنایا جاتا ہے، گلگت بلتستان سے ملنے والا روبی، نیلم، زمرد، سفائیر، ٹوپاز اور ترملین، انتہائی قیمتی دھات یورینیم اور شمالی پنجاب کے نظر انداز کیے جانے والے تیل و گیس کے وسیع ذخائر، یعنی کسی ملک اور قوم کی اقتصادی ترقی کے لیے درکار قدرت کی ہر نعمت پاکستان کے ہر گوشے میں پوشیدہ ہے۔

مگر ہماری بدقسمتی کہ قدرت کے بیش بہا خزانوں کے باوجود ہم بھیک مانگ مانگ کر زندہ رہ رہے ہیں، ہمارے حکمران کمیشنوں کے چکر میں اپنے قدرتی وسائل غیروں کے حوالے کرتے چلے آرہے ہیں، پچھلے سڑسٹھ برسوں میں قدرتی وسائل پر اتنی ہی توجہ دی گئی کہ بس ناں سے ہاں ہوجائے۔ کالاباغ ڈیم کو صوبائی تعصب کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہا، ہر دو چار سال بعد آنے والا سیلاب بار بار ہماری حب الوطنی کو للکارتا رہا مگر قدرت کے بخشے ہوئے ان بے حد و حساب قیمتی خزانوں سے استفادہ نہ کرنے والے حکمرانوں کا کردار بھی ہمیںغربت و افلاس کے کنوئیں میں دھکیلنے والے دشمنوں سے کسی طرح کم مجرمانہ نہیں رہا۔

پاکستان کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند گزشتہ کئی سال سے کہہ رہے ہیں کہ سندھ کے کوئلے سے گیس اور ڈیزل بنا سکتے ہیں، وہ ملک میں توانائی کے بحران کو ختم کرسکتے ہیں، لیکن ہماری حکومتیں نہ جانے کیوں فنڈز کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں۔ تھرکول منصوبے کے تحت ایک سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار کیلیے انڈرگرائونڈ گیسیفکیشن کے لیے حکومت نے دس ارب روپے کی منظوری دی تھی، مگر تین سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک ایک ارب اٹھارہ کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں جب کہ باقی کے آٹھ ارب بیس کروڑ روپے کے لیے ڈاکٹر ثمر مبارک مند ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں۔

ڈاکٹر ثمر کا کہنا ہے کہ فنڈ نہ ملنے کے باعث تنخواہوں اورکرایوں کی مد میں فنڈ ضایع ہو رہے ہیں، اگر رقم مل جاتی تو اب تک ایک سو میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کرچکے ہوتے، ان کا کہنا ہے کہ بقایا فنڈز کی عدم فراہمی کے باوجود بھی ہم مہیا کردہ فنڈز کی مناسبت سے بجلی پیدا کرنے کے قریب ہیں اور بہت جلد یہ بجلی سسٹم میں شامل کردی جائے گی اور اس بجلی کی لاگت بھی چار روپے یونٹ ہوگی۔

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ حکومت چین کے ساتھ جو معاہدے کرنے جارہی ہے اس کے مطابق ہمیں ایک سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے پر ایک سو پچاس ارب روپے لاگت آئے گی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے نام پر بیرونی قرضوں کا بوجھ الگ برداشت کرنا پڑے گا وہ بھی بھاری سود اور بڑی شرائط کے ساتھ جب کہ ہمارے اپنے پاکستانی سائنسدان برسوں سے چلا چلا کر حکومتوں کو سمجھانے کی کوششیں کرتے چلے آئے ہیں کہ ڈیڑھ سو ارب روپے کے بجائے صرف دس ارب روپے میں ایک سو میگاواٹ بجلی ہم پیدا کرکے دیتے ہیں تو حکومت انھیں دس ارب روپے بھی تین سال میں ادا نہیں کرسکی۔

بالکل ایسی ہی صورتحال ریکوڈک منصوبے میں بھی ہے جہاں دوسال قبل سپریم کورٹ کے حکم کے تحت کینیڈین کمپنی کا سونے و تانبے کی کان کنی کا معاہدہ منسوخ ہونے کے بعد ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے یہ منصوبہ اپنے ذمے لیا تھا اور فنڈز کی دستیابی کی شرط پر تیس جون دوہزار سولہ تک پینتیس ہزار ٹن تانبے کی پیداوار شروع کرنے کا دعویٰ کیا تھا، مگر دو سال گزرجانے کے باوجود بھی منصوبے کے لیے مختص دس ارب روپے کی رقم میں سے صرف ایک ارب چالیس کروڑ روپے فراہم کیے گئے ہیں۔

حکومت ہر روز دعوے توکرتی ہے کہ فلاں منصوبہ شروع کردیا گیا اور فلاں، اور شاید حکومت نے وہ سب کچھ بھی بنا ڈالا جو طاہر القادری اور عمران خان بنانا چاہتے ہیں مگر سوچنا یہ ہے کہ ان سب فلک بوس منصوبوں کے کچھ اثرات نچلی سطح تک بھی پہنچے ہیں، کیا ملک کی اسی فیصد غریب آبادی جسے میٹرو بسوں کے جنگلے تک پہنچنا بھی نصیب نہیں ہے ان کو دو وقت کی روٹی ملنے میں کچھ آسانی ہوئی؟ کیا ان کے گھروں میں لوڈ شیڈنگ سولہ اور اٹھارہ گھنٹے سے کم ہوکر ایک یا دو گھنٹے پر آگئی؟، کیا ان کے بچے اسکول میں پڑھنے لگے؟، یہ کچھ یا اس کا نصف یا پھر چوتھائی بھی حکومت اگر اپنے ڈیڑھ سال کے دور اقتدار میں بھی نہیں کرسکی تو 2025 تک بھی صرف ٹوپیاں ہی پہنا سکے گی۔

یہاں ہم نے صرف دو منصوبوں تھرکول اور ریکوڈک کا قصہ چھیڑا ہے، ورنہ ایک دو نہیں سیکڑوں واقعات اس ملک کی تاریخ میں ایسے گزرے ہیں جہاں حکومتوں نے جان بوجھ کر وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ انھیں ناکام ثابت کرنے کے درپہ رہی تاکہ ناخواندہ اور کم فہم قوم کو تاثر دیا جاسکے کہ ہمارے سائنسدان دان کچھ کرنے کے اہل نہیں ہیں بلکہ جو کچھ حکومتیں کرتی ہیں وہی صحیح ہوتا ہے، قرضے لے لے کر نئے نئے منصوبوں کے اعلان کرنا ہی ملک کی اصل ترقی ہے۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ معدنیات ہی کے چکر میں امریکا نے افغانستان میں داخلے کیلیے کیا حربے استعمال کیے، اور کن کن لوگوں نے کن کن حیلے بہانوں سے اس کی مدد کی؟ ہمیں سوچنا ہوگا کہ بلوچستان کے معاملات اس حد تک پہنچانے کے ذمے دار کون لوگ ہیں اور ان کے پس پردہ عزائم کیا ہیں؟، ہمیں جاننا ہوگا کہ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کی حقیقت کیا ہے؟، یہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے ڈرامے کس کے رچائے ہوئے ہیں؟ ہمیں سوچنا ہوگا کہ افغانستان کے ساتھ ملحقہ پرامن سرحد پر آج فوج کا پہرہ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کا فائدہ کس کو اورنقصان کس کو ہوا ہے؟، ہمیں سوچنا ہوگا کہ بھارت ہمارے شہریوں پر بم برسا رہا ہے اور ہم دنیا کی آٹھویں ایٹمی قوت ہونے کے باوجود کیوں معذرت خواہانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں؟ ہمیں ناچ گانوں، احتجاج نعروں سے ہٹ کر بھی کچھ سوچنا ہوگا۔

ہمیں اپنی تاریخ پر نظر دوڑا کر یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ماضی میں ایک عالمی شہرت یافتہ معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے کیا کیا تھا؟، اس کے پیش کردہ پنج سالہ منصوبوں سے کوریا اور ملائشیا ترقی کی منازل طے کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آخر ہم کیوں نہیں؟ کیا آج ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے ساتھ وہی رویے نہیں دہرائے جارہے جو ڈاکٹر محبوب الحق کے ساتھ تھے؟، کیسا ہم واقعی اپنے سائنسدانوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے؟ اور اگر کوئی سائنسدان کامیاب ہو بھی گیا تو اس کا حشر ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسا کرتے رہیں گے؟، کیا ہم اسی طرح غفلت کی نیند سوتے رہیں گے کہ امریکا اور برطانیہ اپنی چالوں کے ذریعے بلوچوں کو علیحدگی پسندی پر اکسانے میں کامیابی کے بعد قبائلی علاقہ جات میں اپنا مشن کامیاب کرلیں اور دوہزار چھ میں جاری کیے گئے نقشے کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوجائیں اور ہم پنجاب اور سندھ کو لے کر انگریزی میں لکھے ہوئے ''مرسوں مرسوں'' کے نعرے لگاتے رہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں