ایلوے کا درخت
دنیا کی تاریخ میں ہر حکومت علمی استعداد رکھنے والی اشرافیہ چلاتی ہے۔
PESHAWAR:
جمہوریت میں صدر یا وزیراعظم کا عہدہ سب سے بڑا سمجھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عہدے پر کون براجمان ہو سکتا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا میںہالی ووڈ کے ایک اداکار ''ریگن'' صدارتی عہدے پر متمکن ہوئے۔ اگر ایک اداکار امریکی صدر بن سکتا ہے تو کل کو کوئی مسخرہ بھی کہیں کا صدر یا وزیراعظم بن سکتا ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پیارے پاکستان میں بیوروکریٹ بننے کے لیے سول سروس کے مشکل ترین امتحان میں کامیاب ہونا لازمی ہے۔ پھر سول سروس اکیڈمی میں اس کی تربیت کی جاتی ہے۔
پولیس میں جانے والے کو بھی پولیس ٹریننگ سینٹر میں دو سال کا کورس کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح فوج میں میجر سے اوپر کے عہدے کے لیے اسٹاف کالج کوئٹہ کے کورسز میں کامیابی ضروری ہے۔ عدلیہ کے ججوں کو جوڈیشل اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنا ہوتی ہے وغیرہ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جمہوریت میں صدر یا وزیراعظم بننے کے لیے سرے سے کوئی قابلیت، کوئی اہلیت، کوئی علمیت، کوئی استعداد، ضروری نہیں۔
صرف عاقل بالغ ہو، انتخابی مہم کے بھاری اخراجات اٹھا سکتا ہو، یعنی طاقت کے حصول کے لیے اپنے مال سے یا سرمایہ داروں کے مال سے سرمایہ کاری کرسکتا ہو تو وہ الیکشن میں حصہ لے سکتا ہے، ملک کا وزیراعظم بھی بن سکتا ہے۔ کیونکہ جمہوریت میں شرط عوامی مقبولیت اور ووٹ حاصل کرنا ہے (اگر چہ یہ بھی ایک التباس ہی ہے)۔ قابلیت تو سرے سے عوامی نمایندوں کے لیے رکھی ہی نہیں گئی ہے۔ جو لوگ ملک و قوم کی قسمت کے فیصلے کریں، ان کا کوئی معیار کوئی پیمانہ نہ ہو، یہ ایک غیر عقلی بات ہے، لیکن دنیا نے اس کو عقل کے نام پر قبول کرلیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت میں اصل طاقت ان کے پاس نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان کو قابلیت پیدا کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاتا۔ صرف پارلیمنٹ دنیا بھر کا وہ واحد یتیم ادارہ ہے جس میں جانے والے کے لیے کسی خاص مہارت کی کوئی قید نہیں۔ بس انگوٹھا لگانے کا عادی ہو۔ اسے صدر یا وزیراعظم بنایا جاسکتا ہے۔ آخر کیوں؟ پارلیمنٹ کے رکن کے لیے کسی اہلیت و قابلیت کی شرط کا عائد نہ ہونا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل اختیارات ان کے پاس ہوتے ہی نہیں، اختیارات تو عالمی اداروں، عدلیہ، ٹیکنو کریسی، بیوروکریسی اور سرمایہ دارانہ اقلیت کے پاس ہوتے ہیں۔
ان انگوٹھا چھاپ لوگوں کا کام تو صرف مختلف قوانین یا بلوں کو منظور کرنا ہے، جو ان غیر منتخب اداروں کی مرضی سے بنتے ہیں۔ جی ہاں غیر منتخب اداروں کی مرضی سے۔ لیکن تاثر عوام کو یہ دیا جاتا ہے کہ تمہارے نمایندوں کی منظوری سے یہ تمام قوانین نافذ ہو رہے ہیں۔ اور تمہارے مفاد کے بارے میں تم سے بہتر تمہارے نمایندے ہی سوچ سکتے ہیں اور اگر بالفرض یہ تمہارے مفاد میں سوچنے سے عاری ہیں، مفاد پرست ہیں، تمہارے دشمن ہیں، تو کوئی بات نہیں، تم صبر سے کام لو، احتجاج، مظاہرے، جلسے، جلوس کرو، اگلے پانچ سال کا انتظار کرو، پھر ان جاہلوں کو ووٹ نہ دینا کسی اور جاہل کو منتخب کرلینا۔ کیوں کہ تمہارے مقدر میں یہی جاہل آئیں گے۔
جاہلوں کے مقدر میں جاہلوں کے سوا کیا آسکتا ہے؟ لہٰذا عوام اگلے پانچ سال تک انتظار کرتے رہیں، پھر نئے جاہل کو منتخب کرکے اگلے پانچ سال تک اسے برطرف کرنے اور شکست دینے کے خواب دیکھنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ خواب دیکھتے دیکھتے زندگی بسر ہو جاتی ہے، اسی کا نام جمہوری عمل ہے، جسے لوگ عوام کی طاقت سمجھتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں ہر حکومت علمی استعداد رکھنے والی اشرافیہ چلاتی ہے۔ اشرافیہ نیک لوگوں پر مشتمل ہو تو حکومت کا کاروبار اچھا چلتا ہے۔ اس اشرافیہ کو پیدا کرنا ہر تہذیب کی بنیادی ذمے داری ہے۔ جمہوریت کے ذریعے صرف اور صرف جہلاء نہیں پڑھے لکھے اور عالم فاضل بھی منتخب ہوسکتے ہیں۔ مگر عملاً منتخب نہیں ہوتے۔ اگر منتخب ہوجائیں تو سرمایہ دارانہ نظام انھیں چلنے نہیں دیتا۔ غیر جمہوری نظام میں بادشاہ کے لیے سخت شرائط اس لیے ہوتی ہیں کہ وہ ہی ریاست کو چلانے کے فیصلے کرتا ہے، لہٰذا اس کا اہل ہونا ضروری ہے۔
جمہوریت میں تمام فیصلے، معاملے، پارلیمان، صدر اور وزیراعظم طے نہیں کرتے، وہ فیصلے غیر منتخب اشرافیہ کرتی ہے مگر منظر پر عوامی نمایندے ہوتے ہیں۔ غیر جمہوری فیصلے جمہوری نمایندوں کے ذریعے عوام پر مسلط کرکے انھیں دھوکا دیا جاتا ہے کہ وہ اقتدار اختیار اور حکومت کے فیصلوں میں شریک ہیں۔ یہ جمہوری نظام کا کمال ہے، لوگ دھوکا بھی کھا لیتے ہیں اور کسی کو دھوکے کا پتہ بھی نہیں چلتا۔
قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکین اسمبلی کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ کوئی تحریک استحقاق پیش کرتا ہے، میرا استحقاق مجروح ہوا، فلاں دفتر میں گیا، اس کے افسر نے میری بے عزتی کی، فلاں پولیس والے نے مجھے دفتر سے نکال دیا، کسی سرکاری افسر نے میری نہیں سنی یا کسی لنگڑے لولے مسئلے پر توجہ دلاؤ نوٹس پر کھڑے ہوجاتے ہیں یا کوئی تحریک التوا پیش کردیتے ہیں اور کوئی مسئلہ ایوان کے سامنے اٹھا دیتے ہیں۔
اگر کچھ پڑھے لکھے ہیں تو کوئی پرائیوٹ بل تیار کرکے اسمبلی میں لے آتے ہیں، اگر کچھ سمجھ دار ہیں، عقل مند ہیں تو اخبارات پڑھ پڑھ کر یا ذہن سے گھڑ گھڑ کر سوالات تیار کرکے وقفہ سوالات میں سوالات کے جوابات حاصل کرلیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی ان بے کار سرگرمیوں کے باعث ان کا نام بار بار اخبار میں آیا، بار بارچینلز پر ان کی خبر چلی، تصویر نکلی اور اپنی جماعت کے کسی اخبار یا رسالے میں اعداد و شمار کا جدول، کہ ہماری جماعت کے اراکین اسمبلی نے اتنے سوالات، اتنے توجہ دلاؤ نوٹس، اتنی تحاریک التواء، اتنے بل، اتنے نکتہ ہائے اعتراض پیش کرکے عوام کی بھر پور نمایندگی کی، لہٰذا آیندہ انتخابات میں ہم کو دوبارہ منتخب کرلیجیے۔
اسلامی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی بھی بس یہ ہی ہوتی ہے۔ اس اچھل کود سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انقلاب کا قافلہ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہماری سنی جارہی ہے۔ مسائل حل ہو رہے ہیں۔ حالانکہ جمہوری نظام میں تنقید سنی جاتی ہے، تاکہ آپ اس سے جڑے رہیں، اسی کے ساتھ چمٹے رہیں اور اسی امید میں زندہ رہیں ۔
مگر یہ پورا عمل نظام حاضر و موجود میں تحلیل ہونے کا عمل ہے، اس رویے سے آپ اس نظام پر مکمل اعتماد و یقین کا اظہار کرتے ہیں اور اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اس کی اصلاح کی کوشش کے ساتھ ساتھ چہرے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب آپ کی تمام تر جدوجہد کا مرکز صرف چہرے بدلنا ہے تو یہ بات خود بخود پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ آپ کو موجودہ نظام جمہوریت و سرمایہ داریت سے کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے، صرف ضیاء الحق، پرویز مشرف، نواز شریف، آصف زرداری کے چہرے آپ کو پسند نہیں ہیں، آپ کو صرف اپنی جماعت کے لوگوں کے ہی چہرے پسند ہیں۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔
موجود و حاضر جمہوری سرمایہ دارانہ نظام کے اندر شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اس مغربی جدیدیت پسند نظام کے اصولوں، اقدار، روایات، رویوں، ما بعد الطبیعیات، اخلاقیات، مقاصد، اہداف، تاریخ اہداف، سے کوئی اختلاف نہیں اس نظام کا سانچہ، ڈھانچہ، بنیادیں، قبلہ، اصول، طریقے سب ٹھیک ہیں، بس نظام جس فرد یا پارٹی کے ہاتھ میں ہے آپ اس کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسے ''نظام کی تبدیلی'' یا ''انقلاب'' کس طرح کہا جا سکتا ہے؟ چھاچھ سے مکھن نہیں نکل سکتا، ایلوے کے درخت پر شہتوت نہیں اگ سکتے اگر اگیں گے تو یقیناً کڑوے ہوں گے۔