ایمان والوں کے دل

جو دل ایمان کے نور سے روشن ہوں، ان میں اﷲ رہتا ہے


ایکسپریس July 13, 2012
جو دل ایمان کے نور سے روشن ہوں، ان میں اﷲ رہتا ہے. فوٹو ایکسپریس

لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب ہمارے دلوں میں رہتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دل خدا کا گھر ہوتا ہے۔ یہ بات بھی بہت سنی ہے کہ جس دل میں ایمان ہو، اس میں ہمارا رب بھی ہوگا، مگر جو دل ایمان کی روشنی سے محروم ہو، اس میں خالق کیسے آسکتا ہے۔ مجموعی طور پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے دلوں میں رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری نیت، ہمارے ارادوں اور ہماری خواہشات کو دیکھتا ہے۔ جن لوگوں کی نیتیں اور ارادے اچھے ہوں، ان کے دلوں میں نیک تمنائیں ہوں، ان دلوں کو اﷲ رب العزت پسند فرماتا ہے اور بندے کے اتنے قریب ہونے کو ہی اس بات سے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کے دل میں رب کا ڈیرا یا خالق کا بسیرا ہوتا ہے۔

مگر یہاں ایک اور سوال بھی اہل ایمان کو پریشان کرسکتا ہے۔ وہ یہ کہ ایک بات تو ثابت ہوگئی کہ اچھے انسان کے دل میں اﷲ ہوتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر جس دل میں ہمارا رب رہتا ہو، اس دل کو تو نہایت صاف ستھرا اور پاکیزہ ہونا چاہیے۔ یہ کتنی عجیب اور حیرت انگیز بات ہے کہ اتنی بڑی اور عظیم الشان ہستی کسی بھی عام انسان کے دل میں آجائے اور گوشت کے اس ننھے منے سے دھڑکتے لوتھڑے میں نہایت آرام اور آسانی کے ساتھ سما جائے۔ یہ سچ ہے کہ وہ بڑی قدرت والا ہے، ہر چیز پر قادر ہے، جو چاہے کرسکتا ہے، اس کی عظیم ہستی سے سب کچھ ممکن ہے۔ مگر یہاں ایک سوال ذہنوں میں یہ ابھرتا ہے کہ کیا ہم اپنے اس عظیم اور بے مثال مہمان کا شایان شان استقبال کرنے کے قابل ہیں۔ کیا ہم نے اپنے دل میں آنے والے اس مہمان کے احترام میں اپنے دل کو پاک و صاف بھی کیا ہے یا نہیں؟ ایسا بظاہر تو نظر نہیں آتا، کیوں کہ ہم جیسے گناہ گار جو لمحہ لمحہ اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہیں، اس کی حکم عدولی کرتے ہیں، اس کی ہدایات و تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں،

کیا ہم اس قابل ہیں کہ وہ ہم سے راضی ہو اور ہمارے دل میں مہمان بن جائے؟ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ پہلے آنے والی مقدس ہستی کی حیثیت اور شان کے مطابق مہماں خانے (دل) کی مکمل تطہیر ہونی چاہیے۔ لیکن جس دل میں گناہ سے پیار اور دنیا سے رغبت ہو، وہ دل اﷲ کا مسکن کیسے بن سکتا ہے؟ کیا ہمارے دل اس قابل ہیں کہ ان میں وہ ذات پاک مہمان بن سکے؟

ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے گھر یا دفتر میں کوئی مہمان آرہا ہوتا ہے تو ہم اس کے مرتبے اور شان کے اعتبار سے اس جگہ کی خوب اچھی طرح صفائی ستھرائی کراتے ہیں۔ وہاں گندگی کا ذرہ بھی باقی نہیں چھوڑتے۔ اس جگہ کو سجاتے سنوارتے ہیں اور ہر طرح سے اس قابل کرتے ہیں کہ اس جگہ بیٹھ کر آنے والا مہمان خوشی اور راحت محسوس کرے۔

دنیا میں ہم اپنے گھر آنے والی شخصیت کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے اور اس کے ساتھ دلی وابستگی کے اعتبار سے ہی اس مقام کی خوب اچھی طرح صفائی کراتے ہیں جہاں اپنے معزز مہمان کو بٹھانا ہوتا ہے۔ لیکن جب باری تعالیٰ آپ کا مہمان ہو تو کیا آپ نے اس کی صفائی ستھرائی کا اہتمام اس کے شایان شان کیا ہے؟ کیا اس میں مذکورہ معیار کا خیال رکھا گیا ہے یا نہیں؟ ایسے میں تو ہر اہل ایمان کو چاہیے کہ پہلے وہ اپنے خالق اور مالک کا شکر ادا کرے اور اس کا احسان مانے کہ وہ اس کے دل میں اس کا مہمان بننے کا اعزاز مرحمت فرمارہا ہے۔ اس کے بعد اپنے دل اور اپنی روح کا اچھی طرح تزکیہ کرے، کیوں کہ جو ہستی اس دل میں جاگزیں ہوگی، اس کی شان اور احترام کا تقاضا ہے کہ اسے بالکل پاک و صاف کردیا جائے، اس میں سے ہر خرابی، ہر نقص، ہر غلاظت اور ہر طرح کی گندگی کو نکال کر باہر پھینک دیا جائے۔ روحانی پاکیزگی کے پانی سے اس دل کو خوب اچھی طرح دھویا جائے اور پھر سچ اور حق کی عطر سے اسے معطر کیا جائے،

تاکہ اس میں جھوٹ، فریب، دغا بازی، اﷲ کی نافرمانی اور کسی بھی کسی قسم کی خرابی کی بو نہ آنے پائے۔ اس کے بعد ہی یہ دل اس قابل ہوسکے گا کہ اس میں ہم سب کا خالق، ہماری جانوں اور ہمارے مالوں کا مالک اس میں قیام کرسکے۔ انسان کا دل اﷲ کا گھر ہے جس میں اﷲ اپنی مرضی سے رہتا بستا ہے۔ لیکن انسان کے دل کو اﷲ کا گھر ہونے کا شرف اس وقت ملتا ہے جب اس دل کے اندر اﷲ کا ذکر بس جائے اور یہ دل عشق رسولﷺ سے جگمگا اٹھے اور ایسا روشن و منور ہوجائے کہ پھر اﷲ کے سوا کچھ اور نظر ہی نہ آئے۔

دلوں میں ہمہ وقت اﷲ کی یاد اور اس کا ذکر ہو اور اس میں رسول کریمﷺ کی محبت بسی ہوئی ہو، بس مومن کی یہی آرزو ہونی چاہیے۔

اہل ایمان کے دلوں میں بار بار یہ خواہش انگڑائیاں لیتی ہے کہ کسی طرح ہمارا رب ہم سے راضی ہوجائے اور وہ ہمیں اپنے فرماں بردار بندوں میں شامل کرلے۔ اس کے بعد کوئی شر یا برائی ہمارے نزدیک آنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی، کیوں کہ ہمارا رب ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر انسان کے دل میں یہ سوچ، یہ فکر اور یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ہمارا رب بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم بس اس کے ہوکر رہ جائیں، ہمارے دلوں میں صرف وہی ذات ہو، اس کے سوا ہمارے خیالوں اور ہمارے دلوں میں کوئی دوسرا نہ ہو۔ ہماری فکر اور سوچ ایک اﷲ سے شروع ہوکر اسی ایک اﷲ پر ختم ہو۔ اگر ہمارے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوگیا تو سمجھ لیں کہ وہ ہم سے راضی ہے جبھی تو اس کی توفیق سے ہم اسی کے خیالوں میں گم ہوگئے ہیں اور اﷲ سے تعلق کی لذت کی بات ہی کچھ اور ہے۔

شاید اسی لیے ایسے انسان کا پورا جسم اور اس کا رواں رواں چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ میرا آقا اور مالک میرے دل میں رہتا ہے، وہ میرا مہمان ہے۔ گویا اﷲ نے ہی اسے یہ توفیق بھی دی اور اس کے دل میں اپنی موجودگی کا احساس دلا کر یہ حکم دیا کہ اب ہم صرف اسی کے ہوجائیں۔

اس حقیقت سے سبھی اہل ایمان اچھی طرح واقف ہیں کہ مومن کا دل اﷲ کا گھر ہوتا ہے اور اس کی محبت میں جب دل تڑپتا ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے دل میں مہمان بننا چاہتا ہے جس کے لیے وہ پاک اور صاف ستھرے دل ہی کا انتخاب کرتا ہے، اس لیے ہر اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ اﷲ کو اپنے دل کا مہمان بنانے کے لیے اس دل کو صاف رکھے اور اپنے گناہوں سے بار بار توبہ کرتا رہے، اپنے دل کو بالکل پاک کرلے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنی ہر سوچ اور ہر فکر کو ایمانی جذبے سے معمور کرلے، اپنے مزاج میں استقامت پیدا کرے اور نیکیوں پر پوری مستقل مزاجی کے ساتھ جم جائے۔ اس کے بعد اسے اﷲ کی محبت کا انعام مل سکتا ہے اور اسی کے نتیجے کے طور پر اس کے دل میں اﷲ بسیرا کرسکتا ہے۔

جنہیں اﷲ چاہے اور ہدایت دے، وہ اﷲ کے ہوکر رہ جاتے ہیں، اس کے دوست بن جاتے ہیں۔ اﷲ بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم صرف اسی کے ہوکر رہیں، کسی اور کو دل میں جگہ نہ دیں۔ مومن کا دل اﷲ کا گھر ہوتا ہے اور جب اس کی محبت میں دل تڑپتا ہے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اﷲ آپ کے دل میں آنا چاہتا ہے، لیکن چوں کہ اﷲ پاک ہے، اس لیے وہ پاک دل کا ہی انتخاب کرتا ہے اور گناہوں سے پاک قلب کو اپنا مسکن بناتا ہے، اس لیے اہل ایمان پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اﷲ کو اپنے دل کا مہمان بنانے کے لیے اپنے دل کو صاف رکھے اور اپنے گناہوں سے مسلسل توبہ کرتا رہے اور اپنے دل کو بالکل پاک وصاف کرلے تاکہ یہ دل اﷲ کے قیام کے شایان شان ہوجائے۔ لیکن شیطان ہمیں راستے سے بھٹکانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، اس کی تو ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ کسی بھی بندے کو اﷲ کے قریب نہ جانے دے، اس لیے جب کوئی بندہ اﷲ کا ہونا چاہتا ہے تو شیطان انسان کی بے جا خواہشات اور اس کے نفس کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو حسین بناکر اس کے سامنے پیش کردیتا ہے جس کے نتیجے میں گناہ اور برائی سے جو نفرت مومن کے دل میں ہونی چاہیے تھی، وہ ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ جب تک بندہ گناہ کرنا نہیں چھوڑتا، اﷲ کا قرب حاصل نہیں کرسکتا اور اﷲ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''میں صبر کرنے والوں کا دوست ہوں اور ٹوٹے دلوں میں رہتا ہوں۔''

یہاں اس طرف اشارہ دیا جارہا ہے کہ اگر انسان ہر موقع پر اﷲ کا شکر ادا کرے گا اور اس کی ہر عطا پر اس کے حضور سجدۂ شکر ادا کرے گا تو اپنے رب کی رضا پاسکتا ہے اور جب وہ کسی انسان سے راضی ہوگیا تو اس کا بیڑا پار ہے۔ اوپر کی آیۂ مبارکہ میں اﷲ رب العزت نے صابرین کو اپنا دوست قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے یہ رب العالمین کا اعلان ہے، اس لیے اس پر ایمان رکھنا ہمارا فرض ہے۔ گویا صبر وہ کنجی ہے جس کی مدد سے پروردگار عالم کی دوستی حاصل کی جاسکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں جو انسان دکھی ہے یا مسائل کا شکار ہے، وہ خود کو تنہا یا بے یارومددگار محسوس نہ کرے، کیوں کہ خود ہی تو باری تعالیٰ یہ ارشاد فرما رہا ہے کہ وہ ٹوٹے ہوئے دل میں رہتا ہے۔ دل اسی کا ٹوٹتا ہے جو مشکلات میں گھرا ہوا ہو اور اسے ایسا لگتا ہو جیسے ساری دنیا اس سے ناراض ہے یا حالات نے اس کے گرد گھیرا تنگ کردیا ہے۔ مگر اس آیۂ مبارکہ میں ایسے پریشان حال لوگوں کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ وہ فکر مند نہ ہوِں، کیوں کہ ان کے دل میں خدا رہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ سبھی اہل ایمان پر اپنا کرم فرمائے اور انہیں اپنا مقبول اور فرماں بردار بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں