پاکستان ایک نظر میں بس سازش
ہم اپنی کوتاہیوں کو سازشوں کا نام کیوں دیتے ہیں؟ کیا ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں؟ کیاہم حقیقت سے نظریں چرانا چاہتے ہیں؟
سازش کی کئی اقسام ہیں ،یہودی سازش،ہندوستانی سازش، امریکی سازش،بین الاقوامی سازش، قومی سازش، بیرونی سازش، اندرونی سازش،حکومتی سازش،دفتری سازش، گھریلو سازش، بڑی سازش، چھوٹی سازش، غرض یہ کہ ہم ہر طرف سے سازشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔اور سازش کی ایک سب سے اہم قسم بھی ہوتی ہے جس کا نام ہوتا ہے ''بس سازش''۔ ہمارے پاس ہر مسئلے کا ایک ہی جواب ہوتا ہے جو ہم سازش کا تعین کیئے بغیر اوریہ سو چے سمجھے بغیر کہ آیا سازش ہوئی بھی ہے یا نہیں،دے دیتے ہیں کہ جناب ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے۔اوراگرہم پر کسی جانب سے ایسا سوال آ جائے جس کے نتیجے میں ہمیںیہ خطرہ لاحق ہو جائے کہ ہمارے دعوے کی قلعی کھلنے والی ہے توہم فوراً سازش کی سب سے اہم قسم کا استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہیں نہیں پتا ''بس سازش''ہوئی ہے۔
آپ کو اگر کسی دن قسمت سے فرصت کے لمحات میسر آجائیں تو آپ گھر سے نکل کر بس سٹاپ پر چلے جائیں اورکسی اندرونِ شہر سٹاپ پر جانے والی بس میں سوار ہو جائیں،بس سٹاپ پر پہنچنے سے لیکر مطلوبہ سٹاپ پر اترنے تک آپ کو اپنے گردو نواح سے اوپر بیان کی گئی سازشوں کی اقسام میں سے کسی سازش کا ذکر سننے کو ملے یا نہیں مگر آپ کو ''بس سازش''کہیں نہ کہیں سننے کو ضرور ملے گی۔
بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کو سازشوں کا نام کیوں دیتے ہیں؟ کیا ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں؟ کیاہم حقیقت سے نظریں چرانا چاہتے ہیں؟ہم اپنی کمزوریوں کی ا صلاح کی بجائے صرف ان کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیئے سازش کا لفظ استعمال کرتے ہیں، بعض اوقات ہم پر اٹھنے والی انگلیاں بھی سازش کا لفظ سن کر نیچے ہو جاتی ہیں جو کہ ایک المیہ ہے۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کی بجائے سرکاری فائلوں میں دبا دینے کی طرح ہم بھی مسئلے کو سازش کے لفظ تلے دبا دیتے ہیں۔ دشمن کا کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے مگر وہ ہماری طرف سے دیئے جانے والے موقع کے بعد ہی اس قابل ہوتا ہے کہ سازش کر سکے۔
کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک کا نظام اٹھارہویں صدی کی کسی عمارت سے بھی زیادہ بوسیدہ ہے لیکن اگر عمران خان صاحب اسی نظام کو چیلنج کریں تو ہم اسے یہودی سازش کا نام دیتے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ چار جنگوں کے بعد بھی خطے میں امن قائم نہ ہو سکا لیکن اگر امن ومحبت کے ذریعے نواز شریف صاحب ہندوستان کے ساتھ نئے پر امن روابط قائم کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس سارے سلسلے کو ہندوستانی سازش قرار دیتے ہیں۔ بطور پاکستانی آپ کے ذہن میں ضرور یہ سوال اٹھے گا کہ مودی صاحب کے پاکستان مخالف تلخ بیانات ،مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے غیر سنجیدہ رویے اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے کے سایے میں کس طرح نئے پر امن روابط قائم کیئے جا سکتے ہیں؟تو اس کا جواب پہلے ہی دیا جاچکاہے کہ دشمن کا کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے،ہم بہت سی جنگیں میدانِ جنگ میں جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگرگفتگو کی میز پر آ کر ہماری زبانیں گنگ کیوں ہو جاتی ہیں؟ کیوں وہ جواب جو ہم میدان میں تو دشمن کو دے دیتے ہیں گفتگو کی میز پر آ کے نہیں دے پاتے؟جس کے مسائل زیادہ ہوں اسے ہی دوسرے فریق کو میز پر لانے کی کوشش کرنی پڑتی ہے اور کوشش ہمیشہ ایک مضبوط ڈپلومیٹک ڈائیلاگ اورسٹریٹیجی سے کامیاب ہو پاتی ہے اور اس کے ذریعے جنگیں میدان کی نسبت زیادہ آسانی سے جیتی جا سکتی ہیں۔
بات ہو رہی تھی سازش کی تو آج کل ایک نئی ''بس سازش''زبان زدِ عام ہے اور وہ ہے ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل ایوارڈ ملنا ،اس بس سازش کو امریکا سے منسوب کیا جا رہا ہے، ایک صاحب اس حوالے سے بات کر رہے تھے کہ ملالہ کو ایوارڈ ملنا ایک امریکی سازش ہے، اس بچی کو بچپن سے اسلام اور پاکستان مخالف نظریات کی تعلیم دی جا رہی ہے اور اب اسے ایوارڈ دے دیا گیا ہے اور مستقبل میں اسے پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا دیا جائے گا اور پھرپاکستان امریکہ کے حکم کے بغیر چوں بھی نہیں کر سکے گا۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ابھی امریکہ کے حکم کے بغیر چوں کر سکتے ہیں؟ کیا ابھی امریکہ جو چاہتا ہے ہم اسے وہ کام کر کے نہیں دیتے؟کیا ہمارے ملک کی معیشت امریکہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں پر نہیں چل رہی؟ ان سب باتوں کی موجودگی میں بھی کیا امریکہ کو ضرورت ہے کہ وہ ملالہ پر انویسٹمنٹ کرے؟ ان سارے سوالوں کے لیئے ہمیں'' بس سازش'' کے علاوہ کوئی اور جواب ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے جو ہمیں'' کانسپریسی تھیوری'' کی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں داخل کر دے جہاں ہم اس قابل ہوں کہ مسائل کو گفتگو کی میز پرحل کر سکیں اور وہاں دور دور تک ''بس سازش''کا نام ونشان بھی نہ ہو کیونکہ دشمن کا کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے مگر وہ ہماری طرف سے دیئے جانے والے موقع کے بعد ہی اس قابل ہوتا ہے کہ سازش کر سکے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ کو اگر کسی دن قسمت سے فرصت کے لمحات میسر آجائیں تو آپ گھر سے نکل کر بس سٹاپ پر چلے جائیں اورکسی اندرونِ شہر سٹاپ پر جانے والی بس میں سوار ہو جائیں،بس سٹاپ پر پہنچنے سے لیکر مطلوبہ سٹاپ پر اترنے تک آپ کو اپنے گردو نواح سے اوپر بیان کی گئی سازشوں کی اقسام میں سے کسی سازش کا ذکر سننے کو ملے یا نہیں مگر آپ کو ''بس سازش''کہیں نہ کہیں سننے کو ضرور ملے گی۔
بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کو سازشوں کا نام کیوں دیتے ہیں؟ کیا ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں؟ کیاہم حقیقت سے نظریں چرانا چاہتے ہیں؟ہم اپنی کمزوریوں کی ا صلاح کی بجائے صرف ان کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیئے سازش کا لفظ استعمال کرتے ہیں، بعض اوقات ہم پر اٹھنے والی انگلیاں بھی سازش کا لفظ سن کر نیچے ہو جاتی ہیں جو کہ ایک المیہ ہے۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کی بجائے سرکاری فائلوں میں دبا دینے کی طرح ہم بھی مسئلے کو سازش کے لفظ تلے دبا دیتے ہیں۔ دشمن کا کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے مگر وہ ہماری طرف سے دیئے جانے والے موقع کے بعد ہی اس قابل ہوتا ہے کہ سازش کر سکے۔
کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک کا نظام اٹھارہویں صدی کی کسی عمارت سے بھی زیادہ بوسیدہ ہے لیکن اگر عمران خان صاحب اسی نظام کو چیلنج کریں تو ہم اسے یہودی سازش کا نام دیتے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ چار جنگوں کے بعد بھی خطے میں امن قائم نہ ہو سکا لیکن اگر امن ومحبت کے ذریعے نواز شریف صاحب ہندوستان کے ساتھ نئے پر امن روابط قائم کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو ہم اس سارے سلسلے کو ہندوستانی سازش قرار دیتے ہیں۔ بطور پاکستانی آپ کے ذہن میں ضرور یہ سوال اٹھے گا کہ مودی صاحب کے پاکستان مخالف تلخ بیانات ،مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے غیر سنجیدہ رویے اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے تبادلے کے سایے میں کس طرح نئے پر امن روابط قائم کیئے جا سکتے ہیں؟تو اس کا جواب پہلے ہی دیا جاچکاہے کہ دشمن کا کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے،ہم بہت سی جنگیں میدانِ جنگ میں جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگرگفتگو کی میز پر آ کر ہماری زبانیں گنگ کیوں ہو جاتی ہیں؟ کیوں وہ جواب جو ہم میدان میں تو دشمن کو دے دیتے ہیں گفتگو کی میز پر آ کے نہیں دے پاتے؟جس کے مسائل زیادہ ہوں اسے ہی دوسرے فریق کو میز پر لانے کی کوشش کرنی پڑتی ہے اور کوشش ہمیشہ ایک مضبوط ڈپلومیٹک ڈائیلاگ اورسٹریٹیجی سے کامیاب ہو پاتی ہے اور اس کے ذریعے جنگیں میدان کی نسبت زیادہ آسانی سے جیتی جا سکتی ہیں۔
بات ہو رہی تھی سازش کی تو آج کل ایک نئی ''بس سازش''زبان زدِ عام ہے اور وہ ہے ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل ایوارڈ ملنا ،اس بس سازش کو امریکا سے منسوب کیا جا رہا ہے، ایک صاحب اس حوالے سے بات کر رہے تھے کہ ملالہ کو ایوارڈ ملنا ایک امریکی سازش ہے، اس بچی کو بچپن سے اسلام اور پاکستان مخالف نظریات کی تعلیم دی جا رہی ہے اور اب اسے ایوارڈ دے دیا گیا ہے اور مستقبل میں اسے پاکستان کا وزیرِ اعظم بنا دیا جائے گا اور پھرپاکستان امریکہ کے حکم کے بغیر چوں بھی نہیں کر سکے گا۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ابھی امریکہ کے حکم کے بغیر چوں کر سکتے ہیں؟ کیا ابھی امریکہ جو چاہتا ہے ہم اسے وہ کام کر کے نہیں دیتے؟کیا ہمارے ملک کی معیشت امریکہ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں پر نہیں چل رہی؟ ان سب باتوں کی موجودگی میں بھی کیا امریکہ کو ضرورت ہے کہ وہ ملالہ پر انویسٹمنٹ کرے؟ ان سارے سوالوں کے لیئے ہمیں'' بس سازش'' کے علاوہ کوئی اور جواب ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے جو ہمیں'' کانسپریسی تھیوری'' کی دنیا سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں داخل کر دے جہاں ہم اس قابل ہوں کہ مسائل کو گفتگو کی میز پرحل کر سکیں اور وہاں دور دور تک ''بس سازش''کا نام ونشان بھی نہ ہو کیونکہ دشمن کا کام ہی سازش کرنا ہوتا ہے مگر وہ ہماری طرف سے دیئے جانے والے موقع کے بعد ہی اس قابل ہوتا ہے کہ سازش کر سکے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔