بات کچھ اِدھر اُدھر کی جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے
ہم اگرچپ بیٹھے رہےاورروایتی طرزِحکومت برقراررکھا تو وہ دن دور نہیں جب ناکام ریاستوں کی فہرست میں بھی ہم سرفہرست ہوںگے۔
جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو کبھی کبھار اساتذہ بتاتے تھے کہ کیسے دنیا ترقی کر گئی اور برِصغیر کے مسلمان پیچھے رہ گئے. جب انگریز بحری جہاز اورتوپ بنا رہے تھے تب ہماری قوم اس الجھن کا شکار تھی کہ داڑھی کی لمبائی کتنی مناسب ہے اور حقہ پینا جائز ہے یا حرام فعل. مگر یوں لگتا ہے کہ وہ دور صدیوں بعد پھر واپس آ گیا ہے تاکہ ہم کھلی آنکھوں سے اپنی کمزوری اور نا اہلی کو بجاے سننے کے حقیقت میں دیکھ سکیں.
آج پوری دنیا کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے جب کہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی الجھنوں سے ہی باہر نہیں آ رہے۔
اس وقت عالمی برادری کی نظریں دو بڑھتے ہوے خطرات پر ہیں اور سارا مغربی میڈیا اس پر بحث کر رہا ہے جب کہ ہمارے چینلز یہاں پہ چونچیں لڑا رہے ہیں کہ کس نے جلسے کو کتنی زیادہ کوریج دی، کس کے پاس ہیلی کمیرا ہے اور کون بڑا میڈیا گروپ ہے.
ایبولا سے اب تک 4500 اموات ہو چکی ہیں اور اس وبا کو روکنے کا ابھی تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا. افریقہ میں یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے اور پوری دنیا ریڈ الرٹ پر ہے، امریکا کے ایک مصنف رچرڈ پریسٹن نے1992 میں اپنی کتاب ''دی ہاٹ زون'' میں ایبولا کا پہلی دفعہ خدشہ ظاہر کیا تھا اور آجکل یہ کتاب دوبارہ مارکیٹ میں ہے اور اب تک دیڑھ لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
دنیا بھر میں ہر بڑے ائیرپورٹ پر ایبولا اسکینرز لگا دیے گئے ہیں تا کہ افریقہ سے آنے والے مسافروں کو سکین کر کے ملک میں داخلے کی اجازت دی جاے. لیکن ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ دارلحکومت کا ائیرپورٹ دنیا کے بدترین ائرپورٹس کی لسٹ میں سرفہرست ہے .
جہاں تک دوسری وبا اسلامی اسٹیٹ "آئی ایس آئی ایس" کا معاملہ ہے تو اس نے جس طرح سے اسلام کو بدنام کیا ہے اور نہتے لوگوں کے سر قلم کیے، دوسرے فرقے کے لوگوں کو دن دیہاڑے گولیوں سے بھون کر ویڈیوز جاری کیں اور لڑکیوں کو زبردستی اپنے گروپ میں شامل کرنے کی غرض سے اٹھایا وہ پوری دنیا کو معلوم ہے اور اس کے خلاف کاروائی بھی جاری ہے مگر یہ ''مرض اور بڑھتی گئی جوں جوں دوا کی'' والی صورتحال بن گئی ہے اور یہ تنظیم بہت تیزی سے سوشل میڈیا اور دوسرے طریقوں سے اپنا پروپیگنڈا پھیلا رہی ہے.
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف، ہمارا ایک امیج تو ''پولیو زدہ'' ملک کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے اب اگر ایبولا ہماری طرف آ گیا تو کیا ہو گا؟
ہماری ایک تصویر اسامہ بن لادن کا یہاں سے برآمد ہونا اور طالبان کی اس ملک میں موجودگی کے طور پر جانی جاتی ہے اب اگر اسلامک اسٹیٹ یا داعش کی تنظیم بھی یہاں آ جاتی ہے تو ہم کیا ان کا مقابلہ کر پائیں گے؟ آپ آج سروے کی غرض سے نکل جائیں آپکو ستّر فیصد پاکستانی ان دونوں سے لاعلم نظر آئیں گے، جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں انھیں شاید تھوڑا بہت علم ہو۔
ہم پچھلے دس سال سے تحریکِ طالبان پاکستان سے لڑ رہے ہیں جس میں اب تک ساتھ ہزار جانیں جا چکی ہیں۔اگر ایسے میں ایک ایسی تنظیم جو پوری دنیا میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے ہمارے یہاں نازل ہو جاتی ہے تو ہم کیا کریں گے؟؟
ہمارے محترم وزیرِاعظم صاحب کو اپنا استعفی مانگنے والوں کی تعداد کا علم ہے مگر یہ معلوم نہیں کہ اس ملک کے مسائل کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ یقیناً دھرنے میں بیٹھے لوگوں کی تعداد چند سو یا محض چند ہزار ہو گی مگر وہ آپکو چار کروڑ روپے خرچ کر کے نیویارک کا شاہانہ دورہ کرنے سے نہ روک سکے پھر آپکے منصوبوں اور ترقی کو ان سے کیا خطرہ ہے؟
ہم اس وقت اپنے مسائل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، ایک طرف سے بھارت ہم پر فائرنگ کر رہا ہے تو دوسری طرف سے افغانستان ہم پر دہشتگردی ایکسپورٹ کرنے کے الزام لگا رہا ہے اور رہی سہی کسر ایران کی طرف سے ہماری سرحد کے اندر فائرنگ نے پوری کر دی.
ہم اگر چپ بیٹھے رہے اور اپنا روایتی طرزِ حکومت برقرار رکھا تو وہ دن دور نہیں جب ناکام ریاستوں کی فہرست میں بھی ہم سرفہرست ہوں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آج پوری دنیا کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے جب کہ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی الجھنوں سے ہی باہر نہیں آ رہے۔
اس وقت عالمی برادری کی نظریں دو بڑھتے ہوے خطرات پر ہیں اور سارا مغربی میڈیا اس پر بحث کر رہا ہے جب کہ ہمارے چینلز یہاں پہ چونچیں لڑا رہے ہیں کہ کس نے جلسے کو کتنی زیادہ کوریج دی، کس کے پاس ہیلی کمیرا ہے اور کون بڑا میڈیا گروپ ہے.
ایبولا سے اب تک 4500 اموات ہو چکی ہیں اور اس وبا کو روکنے کا ابھی تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا. افریقہ میں یہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے اور پوری دنیا ریڈ الرٹ پر ہے، امریکا کے ایک مصنف رچرڈ پریسٹن نے1992 میں اپنی کتاب ''دی ہاٹ زون'' میں ایبولا کا پہلی دفعہ خدشہ ظاہر کیا تھا اور آجکل یہ کتاب دوبارہ مارکیٹ میں ہے اور اب تک دیڑھ لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔
دنیا بھر میں ہر بڑے ائیرپورٹ پر ایبولا اسکینرز لگا دیے گئے ہیں تا کہ افریقہ سے آنے والے مسافروں کو سکین کر کے ملک میں داخلے کی اجازت دی جاے. لیکن ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ دارلحکومت کا ائیرپورٹ دنیا کے بدترین ائرپورٹس کی لسٹ میں سرفہرست ہے .
جہاں تک دوسری وبا اسلامی اسٹیٹ "آئی ایس آئی ایس" کا معاملہ ہے تو اس نے جس طرح سے اسلام کو بدنام کیا ہے اور نہتے لوگوں کے سر قلم کیے، دوسرے فرقے کے لوگوں کو دن دیہاڑے گولیوں سے بھون کر ویڈیوز جاری کیں اور لڑکیوں کو زبردستی اپنے گروپ میں شامل کرنے کی غرض سے اٹھایا وہ پوری دنیا کو معلوم ہے اور اس کے خلاف کاروائی بھی جاری ہے مگر یہ ''مرض اور بڑھتی گئی جوں جوں دوا کی'' والی صورتحال بن گئی ہے اور یہ تنظیم بہت تیزی سے سوشل میڈیا اور دوسرے طریقوں سے اپنا پروپیگنڈا پھیلا رہی ہے.
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف، ہمارا ایک امیج تو ''پولیو زدہ'' ملک کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے اب اگر ایبولا ہماری طرف آ گیا تو کیا ہو گا؟
ہماری ایک تصویر اسامہ بن لادن کا یہاں سے برآمد ہونا اور طالبان کی اس ملک میں موجودگی کے طور پر جانی جاتی ہے اب اگر اسلامک اسٹیٹ یا داعش کی تنظیم بھی یہاں آ جاتی ہے تو ہم کیا ان کا مقابلہ کر پائیں گے؟ آپ آج سروے کی غرض سے نکل جائیں آپکو ستّر فیصد پاکستانی ان دونوں سے لاعلم نظر آئیں گے، جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں انھیں شاید تھوڑا بہت علم ہو۔
ہم پچھلے دس سال سے تحریکِ طالبان پاکستان سے لڑ رہے ہیں جس میں اب تک ساتھ ہزار جانیں جا چکی ہیں۔اگر ایسے میں ایک ایسی تنظیم جو پوری دنیا میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے ہمارے یہاں نازل ہو جاتی ہے تو ہم کیا کریں گے؟؟
ہمارے محترم وزیرِاعظم صاحب کو اپنا استعفی مانگنے والوں کی تعداد کا علم ہے مگر یہ معلوم نہیں کہ اس ملک کے مسائل کیا ہیں اور کتنے ہیں۔ یقیناً دھرنے میں بیٹھے لوگوں کی تعداد چند سو یا محض چند ہزار ہو گی مگر وہ آپکو چار کروڑ روپے خرچ کر کے نیویارک کا شاہانہ دورہ کرنے سے نہ روک سکے پھر آپکے منصوبوں اور ترقی کو ان سے کیا خطرہ ہے؟
ہم اس وقت اپنے مسائل میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، ایک طرف سے بھارت ہم پر فائرنگ کر رہا ہے تو دوسری طرف سے افغانستان ہم پر دہشتگردی ایکسپورٹ کرنے کے الزام لگا رہا ہے اور رہی سہی کسر ایران کی طرف سے ہماری سرحد کے اندر فائرنگ نے پوری کر دی.
ہم اگر چپ بیٹھے رہے اور اپنا روایتی طرزِ حکومت برقرار رکھا تو وہ دن دور نہیں جب ناکام ریاستوں کی فہرست میں بھی ہم سرفہرست ہوں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔