ایم کیو ایم کی صوبائی حکومت سے علیحدگی کے بعد سندھ اسمبلی میں ارکان نے دھواں دھار تقاریر میں ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جبکہ ایم کیو ایم نے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔
اسپیکر آغا سراج درانی کی سربراہی میں سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الطاف حسین کے خلاف تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا گیا، ایم کیوایم کے رہ نما خواجہ اظہار الحسن کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے تلخ ماضی کو بھلا کر محبت کا پیغام دیا، ہم نے دوسروں کے لئے سب سے پہلے آوازبلند کی، ہم بڑی برد باری سے کام لیتے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں کسے کس طرح مخاطب کرنا ہے، ہم نے کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کے لیڈر پر نکتہ چینی میں پہل نہیں کی لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس کا جب دل چاہے وہ کچھ بھی کہہ دیتا ہے، ہمارے قائد کے لئے کچھ بھی کہہ دیا جاتا ہے جس کی وجہ اس وقت سے ایم کیو ایم کے لاکھوں کارکنوں اور ہمدردوں میں شدید غم وغصہ ہے لیکن الطاف حسین نےکارکنوں کے غم و غصے کو کنٹرول کررکھا ہے۔ سندھ کی حالت افسوسناک ہے، ہم حکومت کی بدعنوانی اور بد نیتی میں حصہ دار نہیں بن سکتے۔ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ساتھ نہیں چلتے سکتے۔ جس کے بعد ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کردیا۔
اجلاس کے دوران صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کوئی کسی پارٹی کی قیادت پرحملہ کرے اور پھر وہ سمجھے کہ اس پرحملہ نہیں ہوگا، اگرتنقید کرتے ہیں تو تنقید کا جواب بھی سنیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے کراچی اور حیدر آباد بھی اسی طرح عزیز ہیں جس طرح لاڑکانہ اور خیرپور۔ اس طرح کی گفتگو نہ کی جائے جس سے تلخیاں بڑھیں۔ اردو بولنے والے اور سندھی بولنے والے سب ہمارے بھائی ہیں۔ وہ گزارش کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا اسے درگزر کریں اور صوبے کی بھلائی کے لئے کام کریں۔ سینئیر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ وہ قربانیاں دے کر یہاں آئے۔ لیکن جب وہ آئے تو یہاں کے بھوکے ننگے لوگوں نے یہاں آنے والے مسلمان بھائیوں کو دل سے تسلیم کیا اور اپنے گھر کے دروازے اور دستر خوان کھول دیئے جس کا وہ اعتراف بھی کرتے ہیں۔
مسلم لیگ ففنکشنل کی مہتاب اکبرراشدی نے کہا کہ یہاں آنے والے سندھ کے لئے نہیں پاکستان کے لیے آئے تھے لیکن ان کی جانب سے جن باتوں کی جانب اشارہ کیا جارہا ہے وہ درست ہیں، صوبے میں کرپشن اور بدانتظامی ہے لیکن یہ کسی ایک شہر تک محدود نہیں بلکہ پورے صوبے میں یہی حال ہے، جب بھی قانون کی خلاف ورزی ہوگی تو پھر ہر شخص کھڑا ہوگا، حکمران جماعت اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرے لیکن حکومت کا رویہ معذرت خواہانہ نہیں ہونا چاہیئے، صوبے میں دیہی اور شہری تقسیم کا تاثر نہیں ہونا چاہیئے صوبے کا ہر شہر اور گاؤں ہمارا ہے، حکومت پہلے صوبے کے عوام کو یقین دلائیں کہ ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوگی، سندھ کے عوام سب کچھ برداشت کرلیں گے لیکن اپنی زبان، زمین اور پانی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ کراچی میں کئی مرتبہ ہڑتالیں کی گئیں لیکن پیپلز پارٹی نے ایک جلسہ کیا اس پر بھی تنقید کی گئی، اگر کوئی ظلم کی بات کرتا ہے تو پیپلز پارٹی سے زیادہ کسی نے بھی ظلم نہیں سہے، موجودہ وزیر اعظم نے پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو بلایا گیا اور ان سے آپریشن کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کی تائید کی، کراچی میں آپریشن بلا تفریق تھا اور ہے، کراچی میں پیپلز پارٹی کے 250 کارکن قتل کئے گئے، یہ پہلی حکومت ہے جس نے دہشتگردوں کو گرفتار کرکے انہیں سزا دلوائی ہے، اس آپریشن کی بدولت شہر میں امن و امان کافی حد تک بحال ہوا، وہ کسی ملزم کی سیاسی وابستگی ظاہر نہیں کرتے لیکن ضروری ہوا تو تمام ثبوت کے ساتھ اس حوالے سے بھی بات کریں گے، موجودہ حکومت کو قائم ہوئے 14 ماہ ہوئے ہیں لیکن ہم تو روٹھنے والوں کو منانے میں ہی لگے ہوئے ہیں، ہم نے سندھ میں ترقی کے لئے سب کو گلے لگایا اور اب بھی سب کو گلے لگانا چاہتے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ ہمیں طعنہ ملتا ہے کہ سندھ میں تو دھول اڑتی ہے وہ انہیں یہ نہیں بتانا چاہتے کہ تھل میں کیا صورت حال ہے، جو لوگ یہ بات کرتے ہیں وہ تھرپارکر دیکھیں، تنقید کرنے والے دیکھیں کہ مٹھی کا اسپتال کیسا ہے۔ اندورن سندھ میں کروڑوں کے منصوبے بنتے ہیں لیکن کراچی میں اربوں کے منصوبے بنتے ہیں، ہم کراچی میں 64 ارب روپے خرچ کرچکے ہیں اور صرف رواں برس 35 سے 40 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ مختص کیا گیا ہے جس میں سے ساڑھے 4 ارب روپے خرچ کئے جاچکے ہیں، نوکریوں کی بات کرنے والے بتائیں کہ کے ایم سی اور کے ڈبلیو ایس بی میں ان کے کتنے لوگ ہیں اور ان کی سربراہی کون کررہا ہے۔ پیپلز پارٹی میں صرف سندھی نہیں بلکہ پنجابی، بلوچ ، پشتون اور مہاجرسمیت ہر زبان سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں، کراچی کو کسی ایک زبان سے تعلق رکھنے والوں نے آباد نہیں کیا سب نے ہی اپنا حصہ ڈالا ہے۔