شراب نے مارا
عیدالاضحیٰ کے موقع پر ٹارگٹ کلنگ بھی معمول سےکم تھی اورقربانی کی کھالیں چھیننے کے ناخوشگوارواقعات بھی رونما نہیں ہوئے۔
اگرچہ ہم توہم پرستی کے قائل نہیں ہیں تاہم حالات اور واقعات کی بنا پر یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے پیارے شہر کراچی کو شاید کسی کی نظر بد لگ گئی ہے جس کے سبب خوشی کے ہر موقع پر کوئی نہ کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ بقول شاعر: خوشی بھی جب کبھی آتی ہے آنسو بن کے آتی ہے قارئین کرام آپ کو یاد ہوگا کہ عیدالفطر کے مبارک موقع پر ساحل سمندر پر اس وقت قیامت صغریٰ برپا ہوئی تھی جب بپھری ہوئی لہروں نے درجنوں افراد کو لقمہ اجل بناکر نگل لیا تھا۔
کراچی والوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر ٹارگٹ کلنگ بھی معمول سے کم تھی اور قربانی کی کھالیں چھیننے کے ناخوشگوار واقعات بھی رونما نہیں ہوئے تھے مگر شہر کے اوپر منڈلانے والے نحوست کے سائے بھلا کب رکنے والے تھے، اس مرتبہ انھوں نے یہ کام ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں سے لینے کے بجائے زہریلی شراب سے لیا، جس کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد کی زندگیوں کے روشن چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہوگئے۔ مگر زہریلی شراب پینے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کا یہ واقعہ کوئی انوکھا یا نیا نہیں ہے۔ گزشتہ سال چنیسر گوٹھ، اعظم بستی اور محمود آباد کے علاقوں میں 43 افراد زہریلی شراب پینے کی وجہ سے موت کی بھینٹ چڑھ گئے تھے، تب بھی پولیس کی ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں اور مقدمہ درج ہونے کے علاوہ بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے مگر نہ کوئی مجرم پکڑا گیا اور نہ شراب کی فروخت پر کوئی پابندی عائد کی گئی۔
سچ پوچھیے تو اس کاروبار میں کوئی کمی آنے کے بجائے الٹا اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ شراب کی نہ صرف نئی نئی بھٹیاں بن گئی ہیں جس کی وجہ سے شراب کی سپلائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پولیس والوں کے لیے یہ علاقے نوگو ایریا بنے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ جس علاقے میں آپریشن کرنے کے لیے جاتے ہیں وہاں کے جرائم پیشہ افراد خواتین اور بچوں کو اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مگر پولیس کی اس پوری دلیل پر بھلا کیونکر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ پولیس کی غفلت یا چشم پوشی کے بغیر کوئی بھی جرم نہ تو جنم لے سکتا ہے اور نہ پروان چڑھ سکتا ہے، قانون شکن عناصر خواہ کتنے ہی دلیر اور نڈر کیوں نہ ہوں پولیس کی ملی بھگت کے بغیر وہ کوئی بھی گھناؤنا کاروبار کرنے کی ہمت و جرأت نہیں کرسکتے۔ یہ حقیقت کسی سے بھی پوشیدہ نہیں کہ کراچی میں شراب کی فروخت عام سی بات ہے، زہریلی اور کچی شراب پینے کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں جس علاقے میں ہوئیں وہ شرافی گوٹھ کے نام سے مشہور ہے، شنید ہے کہ اس علاقے میں یہ گھناؤنا کاروبار ایک عورت چلارہی ہے۔
اس سے قبل صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد بھی چند روز قبل زہریلی شراب کی خبروں کے حوالے سے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا جہاں متعدد علاقوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے باعث بہت سے گھروں میں کہرام مچ گیا۔ معتبر ذرائع کے مطابق اس شہر میں زہریلی شراب کی فروخت کے اڈوں کی تعداد 200 سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گھناؤنے کاروبار سے پولیس کو مبینہ طور پر لاکھوں روپے کی ماہانہ آمدنی ہوتی ہے۔ ان ہی ذرائع کے مطابق کچی شراب تھیلیوں میں بھر کر فروخت کی جاتی ہے اور ایک تھیلی کی قیمت 100 روپے سے 150 روپے تک مقرر ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی بڑا سنگین نوعیت کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو پولیس حرکت میں آجاتی ہے اور دکھاوے کے طور پر پکڑ دھکڑ شروع ہوجاتی ہے، کچھ عرصے بعد یہ سلسلہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے اور بھولے بھالے عوام سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں جس کے نام کے بالکل شروع میں ''اسلامی'' لگا ہوا ہے، شراب تیار بھی ہوتی ہے اور فروخت بھی کی جاتی ہے۔ دیگر کاروباروں کی طرح یہ بھی ایک کاروبار ہے جو دھڑلے کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
البتہ اس کی فروخت کے لیے اقلیتوں بالخصوص ہندو دھرم کا نام استعمال کیا جاتا ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مسلمان کہلوانے والے یہ بندوق دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر چلاتے ہیں جب کہ اس سے چشم پوشی کرنے والے اور اس حرام کمائی سے اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرنے والے قانون کے نام نہاد رکھوالے بھی خود کو مسلمان ہی کہلواتے ہیں۔ زہریلی شراب کے باعث ہونے والی حالیہ ہلاکتوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رمیش انکورتی نے جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں میں شامل ہیں، کہا ہے کہ یہ بات نہایت توہین آمیز اور جارحانہ ہے کہ یہ کاروبار اقلیتوں، ہندوؤں کے نام پر کیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر رمیش نے یہ بھی کہا ہے کہ انھوں نے جمعیت علمائے اسلام کی ایم این اے آسیہ ناصر کے ساتھ مل کر الکوحل کے مشروبات کے خلاف قومی اسمبلی میں ایک بل بھی پیش کیا تھا لیکن قانون سازی، انصاف اور انسانی حقوق سے متعلق مجلس قائمہ نے 12 اکتوبر کو اسے مسترد کردیا۔ انھوں نے مجلس قائمہ کے سربراہ سے اپیل کی کہ وہ اس بل کی سفارش فرما دیں۔
زہریلی شراب پینے سے ہونے والی ہلاکتوں کی کثیر تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے پولیس کی جانب سے دو تفتیشی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ یہ کمیٹیاں معاملے کی گہری تفتیش کریںگی جس کے بعد ذمے داری کا تعین کیا جائے گا۔ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کا بہت برا حال تھا، ایک جانب وہ اپنے پیاروں کی موت کے صدمے سے بری طرح نڈھال تھے اور دوسری جانب ان کے سر شرم و ندامت سے جھکے ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہلاک شدگان میں زیادہ تر افراد کا تعلق کم آمدنی والے طبقات سے تھا جن میں محنت کش افراد، مزدور، کمپیوٹر آپریٹرز اور پولیس اہلکار شامل تھے، یہ بات انتہائی قابل مذمت ہے کہ پولیس اور ایکسائز کے محکموں کا عملہ اپنی کوتاہی پر پردہ ڈالنے کے لیے ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم کرکے بتاتا رہا۔ سب سے زیادہ دکھ اور شرم کی بات یہ ہے کہ عیدالاضحی جیسے عظیم اور مقدس تہوار کے تینوں روز شراب کھلے عام فروخت ہوتی رہی اور شراب خانوں کے علاوہ بھی دیگر کئی اڈوں اور ٹھکانوں سے شراب کی فروخت کا مذموم اور گھناؤنا سلسلہ دیدہ دلیری کے ساتھ جاری رہا۔
عید کے دنوں میں مختلف علاقوں سے وقفے وقفے سے جنازوں پر جنازے اٹھتے رہے اور ہلاک شدگان کے گھر والے احساس شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے چپ چاپ اپنے پیاروں کو سپرد خاک کرنے میں مصروف رہے۔ شہر قائد اور حیدرآباد میں شراب تیار کرنے والی بھٹیاں کہاں کہاں موجود ہیں اس کا علم تقریباً تمام اہل شہر کو ہے۔ البتہ ہماری پولیس اتنی لاعلم، معصوم اور بھولی بھالی ہے کہ اس بے چاری کو اس بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں ہے، بقول شاعر: جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے یوں تو سال کے 365 دن ام الخبائث کے رسیا زہریلی شراب پینے کی سزا کے طور پر ہلاکت کا شکار ہوتے رہتے ہیں لیکن تقریبات اور تہواروں کے موقع پر مے نوشوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہونا گویا معمول کی بات ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بنانے والے شراب کے نشے کو دو آتشہ کرنے کے لیے اس میں مقررہ مقدار سے زیادہ ہلاکت خیز کیمیائی اجزاء شامل کردیتے ہیں۔
میتھائل اس دیسی زہریلی شراب کا سب سے اہم جزو ہے جو انسانی جسم کے لیے زہر قاتل کا درجہ رکھتا ہے، اس کا استعمال کرنے والا اگر خوش قسمتی سے مرنے سے بچ بھی جائے تو بھی اس کی آنکھوں کی بینائی شدید طور پر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ جگر مراد آبادی کا درج ذیل شعر ام الخبائث کی ہلاکت خیزی پر ہر ثبوت کا درجہ رکھتا ہے۔ سب کو مارا جگر کے شعروں نے اور جگر کو شراب نے مارا مگر سب سے بڑے کمال کی بات یہ ہے کہ جگر صاحب جب تائب ہوئے تو انھوں نے شراب کے متعلق اس تاثر کو حرف بہ حرف غلط ثابت کردیا کہ: چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی