رات کے بعد اک رات نئی آجائے گی

دھرنے والے دن بھر سوتے ہیں اور شام ڈھلے میلہ سچ جاتا ہے، آدھی رات تک ’’سلطان راہی‘‘ ٹائپ تقریریں ہوتی ہیں۔


Saeed Parvez October 21, 2014

آج کل ہمارے دیس میں جو دلچسپ سیاسی تماشے ہورہے ہیں اور جانتے بوجھتے سب کچھ تباہ و برباد کیا جارہا ہے پہلے دھرنوں کی صورت دنیا بھر میں ہم تماشا بنے، اربوں، کھربوں کا نقصان الگ ہوا۔ ملک اور پیچھے چلاگیا اور دھرنے والوں کا کھیل تماشا ملک ہندوستان کو بہت کچھ دے گیا۔

دھرنے والے دن بھر سوتے ہیں اور شام ڈھلے میلہ سچ جاتا ہے، آدھی رات تک ''سلطان راہی'' ٹائپ تقریریں ہوتی ہیں، درمیان درمیان میں پارٹی ترانے بجتے اور اہل دھرنا رقص میں ڈوب جاتے ہیں، ''اوئے! خود ہی چلا جا، نہیں تو میں تجھے سڑکوں پر گھسیٹوں گا'' پارلیمنٹ ہاؤس کی دیوار توڑی گئی، پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت میں دھرنوں والے گھس گے اور توڑ پھوڑ کے علاوہ بھی ''حرکتیں'' کی گئیں۔ سپریم کورٹ کی عمارت کے تقدس کا بھی خیال نہ کیا گیا، چلو! یہ سب کچھ ہوا، اچھا ہوا عوام صدیوں کے ستم زدہ انھیں موقع ملا تو انھوں نے بھی کسی کو نہیں بخشا مگر یہ جو دھرنوں کے سربراہ ہیں، یہ تو عوام نہیں ہیں، یہ تو خواص الخواص ہیں۔

یہ اپنی زہریلی تقریروں سے کارکنوں کے جذبات بھڑکاتے ہیں اور انھیں وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے کا کہتے ہیں، ذرا پھر سے سنیے انھوں نے کیا کہا تھا۔ ''ہم وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھیں گے، سب سے آگے میں ہوں گا، پہلی گولی میں کھاؤں گا'' یہ کہہ کر دونوں دھرنے والے اپنے کنٹینر پر ہی کھڑے رہ جاتے ہیں اور کارکن آگے بڑھ جاتے ہیں، گولیاں کھاتے ہیں، اسپتال پہنچتے ہیں اور رہبروں کو خراش تک نہیں آتی۔ مولانا قادری اپنی بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھے کارکنوں کو گولیاں کھاتے، زخمی ہو کر گرتے دیکھ رہے ہیں، لبوں پر وظیفہ اور ہاتھوں میں تسبیح، دھڑادھڑ دانے گر رہے ہیں، معرکے کے اختتام پر اپنے اپنے کنٹینرز پر کھڑے ہوکر رہبران دھرنا مرنے اور زخمی ہونے والوں کے اعداد و شمار پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

لیڈر بھی سلامت اور ان کے بچے بھی، غریب کارکن مرتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں، لیڈروں کے بچے سڑکوں پر نہیں سوتے، وہ تو اپنے محلوں کے نرم گرم بستروں میں خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں، صبح اپنے مرتبے و مقام کے مطابق اعلیٰ درسگاہوں میں جاتے ہیں، اس کے علاوہ ہمارے ''غم گساروں'' کے بچے لندن، امریکا کی مشہور جامعات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر ہمارے سروں پر مسلط ہونے کے لیے آجاتے ہیں، ہم غریب بیچارے، غم کے مارے جمہوریت کے عشق میں مبتلا پھر ان لیڈروں کا جھوٹ سننے کے لیے جلسہ گاہوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

دھرنوں کے کنٹینروں پر کیسے کیسے آزمائے ہوئے لوگ کھڑے ہیں، جالب کا شعر سن لیں:

جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہنستی ہے
کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں

اور اس غزل کا مقطع بھی دہرائے دیتا ہوں کیوں کہ آج بھی ہم انتظار میں ہیں کہ ہمارا حقیقی نجات دہندہ ضرور آئیگا۔

کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے، دیوانے یاد آتے ہیں

یہ لیڈر بھی جھوٹ بول رہے ہیں اور اے لوگو! فیض کی بات پر یقین رکھو کہ ''چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی'' یہ کنٹینروں پر کھڑے آمروں کے گن گانے والے، یہ آمروں کے وزراء یہ کیسے اور کیوں عوام کے دوست ہوسکتے ہیں۔ یہ ''جاتی امراء'' والے جو آج حکمران ہیں، یہ چلے گئے تو ''بنی گالہ'' والے آجائینگے۔ جالب نے فلم کے لیے ایک گیت لکھا تھا اس کا ایک شعر سن لیں:

رات کے بعد اک رات نئی آجائے گی
اس گھر میں ہوگی نہ سحر، خاموش رہو

ذرا غور کرلو، کیسی کیسی راتیں ''اس گھر'' میں اترتی رہیں اور عوام سحر کو ترستے ہی رہے۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح لب مرگ تھے، وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے، اپنے آبائی شہر اپنی جنم بھومی کراچی کے مضافات کا ماری پور روڈ تھا، قریب ان کی بہن فاطمہ جناح کھڑی تھیں۔ واقعہ بہت تلخ ہے اور پوری قوم کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رسوائی دے گیا ہے۔ یہ 10 ستمبر 1948 کی چلچلاتی گرم دوپہر تھی، اگلے روز 11 ستمبر 1948 کو قائداعظم انتقال کرگئے۔

میں یہ کالم 16 اکتوبر کو لکھ رہا ہوں ہے، مجھے نہیں یاد مگر صبح ایکسپریس کا پورا ایک صفحہ قائد ملت لیاقت علی خان کے بارے میں شایع ہوا ہے، تو مجھے یاد آیا کہ آج قائد ملت کی برسی کا دن ہے، آج سے ٹھیک 62 سال پہلے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہمارے پہلے وزیراعظم کو گولی مار کر شہید کردیا گیا تھا۔ اسی اخبار کی ایک ذیلی سرخی لکھ رہا ہوں ''نوابی سے چند روپوں کے بینک اکاؤنٹ تک'' ہمارے آج کے لیڈروں کے لیے یہ مقام شرم ہے کہ جن کے بیرون ملک اور اندرون ملک اربوں کے اکاؤنٹ ہیں۔ کہتے ہیں اسپتال میں جب لیاقت علی خان کی شیروانی اور کرتا اتاراگیا تو سامنے پیوند لگی بنیان تھی اور شہید کی جیب سے ساڑھے چودہ آنے نکلے تھے۔

بس لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ''سازشی ٹولے'' نے کام دکھانا شروع کردیا اور پنڈت جواہر لعل نہرو کو کہنا پڑا ''اتنی میں دھوتیاں نہیں بدلتا، جتنی وزارتیں پاکستان بدلتا ہے'' اسکندر مرزا آیا، پھر فیلڈ مارشل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیا الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف اور جالب تاریخ کو شعر بند کرتا رہا۔

جو لوگ جھونپڑوں میں پڑے تھے، پڑے رہے
کچھ اور اہل زر نے بنالیں عمارتیں

آج بھی ملتان کے جلسے میں ہجوم اور شدید گرمی کے باعث بیہوش ہوتے اور مرتے عوام کے بارے میں پیر شاہ محمود قریشی اسٹیج سے کہتا ہے ''چیئرمین عمران خان کا خطاب جاری ہے، بیہوش ہوتے عوام کی وجہ سے چیئرمین کا خطاب نہیں روکا جاسکتا''

کوئی کچھ بھی کہے کرو تقریر
کوئی مرتا مرے کرو تقریر

کیا خیبر پختونخوا کا گورنر ہاؤس تعلیمی درسگاہ بن گیا؟ کیا خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ ہاؤس اسپتال بنادیا گیا؟ سارے ملک کے گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس سلامت نہیں، عمران خان! تم نے بھی یونہی کہہ دیا تھا مگر تمہاری حکمرانی میں بھی گورنر ہاؤس اور وزیراعلیٰ ہاؤس تمام تر جاہ و جلال کے ساتھ موجود ہیں اور تم نے توڑا تو سرگودھا کا اسٹیڈیم توڑ دیا جہاں کھلاڑی کھیلتے تھے تمہارے خطاب کی خاطر اسٹیڈیم کا ٹکٹ گھر اور دیوار توڑ دی گئی تاکہ تمہارے اسٹیج کے لیے کنٹینر اسٹیڈیم میں داخل ہوسکیں۔

ہم عوام تو آج بھی وہیں ہیں جہاں آغاز سفر میں تھے، کیونکہ فاصلے بھی ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور رستہ نہیں کٹ رہا، اس دکھ کو جالب نے یوں بیان کیا:

کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں

پشاور میں بھی بلاول ہاؤس بنانے کے لیے آصف زرداری نے 25 ایکڑ زمین خرید لی ہے، کراچی، لاہور، اسلام آباد کے بعد پشاور اور پھر کوئٹہ کی باری بھی آجائیگی اور جالب کی آواز پر دھیان نہیں ہے:

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
18
اکتوبر کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کراچی میں ہوا، جس میں بلاول بھٹو زرداری نے جلسے سے خطاب کیا۔ ذرا سی ترمیم کے ساتھ اس شعر پر اجازت

جھگی والے تو روتا رہے گا
اور جو ہونا ہے ہوتا رہے گا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں