خواہشات کا گرداب
بادشاہ اور شہزادے، شہزادیاں بننا کسے اچھا نہ لگے اور یہاں تو پوچھنے والا کوئی نہیں، کوئی جانچ کرنے والا نہیں۔
اﷲ عالیشان فرماتا ہے کہ ''تم میں سے بہترین وہ ہے جو تقویٰ میں بہترین ہے''۔
جن کے اعمال بہترین ہیں، وہی بہتر ہے اور بہتر اعمال ہی بہتر کردار بناسکتے ہیں۔
گئے وقتوں میں کردار پر بڑا زور دیا جاتا تھا۔ رشتے، ناتے باکردار لوگوں سے جوڑنے کے لیے کوششیں کی جاتی تھی، چاہے برسوں گزر جاتے، لڑکیاں اپنے گھروں میں بوڑھی ہوجاتی تھیں اور والدین تھے کہ اپنے سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتے تھے۔ خواہشات بھی شاید کم تھیں، جو مل جاتا اس کو تقدیر کا لکھا مانا جاتا اور کبھی خوشی خوشی کبھی روتے پیٹتے عمر گزر جاتی۔
مگر جیسے جیسے وقت نے انگڑائی لی خواہشات نے بھی انگڑائیاں لینی شروع کردی۔ آگے بڑھنا ہے، زیادہ سے زیادہ پانا ہے اور ہم کسی سے کم نہیں کے جذبات کروٹیں بدلنے لگے نئے نئے طور طریقے رائج ہونے شروع ہوگئے، معاشرے نے جدت اپنانی شروع کردی۔ ایسے نہیں ایسے، آج نہیں تو کل جو کچھ ہے سب میرا ہے۔ کچھ اس طرح کی سوچیں ہمارے معاشرے میں زور پکڑنے لگیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہر انداز کو، ہر سوچ کو، ہر طریقہ کار کو بھی Upgrade ہونا چاہیے۔ دنیا کے حالات، دنیا کے موسم تک، اثر انداز ہوتے ہیں مثلاً ہم پاکستان میں رہتے ہیں مگر اٹلی کے فیشن پر، فرانس کے فیشن پر ہمارے فیشن ڈیزائنرز کی نظر ہوتی ہے، کہ وہاں کیا چل رہا ہے اور کس طرح سے ہم ان Cuts اور Design کو اپنے لوگوں کے لیے، اپنے موسموں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
تمام بڑے Hotels کے چیف ایگزیکٹو پوری دنیا میں کس طرح کا Cuisine چل رہا ہے یا کس Flavours کی مانگ زیادہ ہے، نظر رکھتے ہیں اور اپنے لوگوں کے مزاج کو سمجھتے ہوئے رد و بدل کرتے رہتے ہیں تاکہ یکسانیت نہ ہو۔
بالکل اسی طرح گورنمنٹ اور عوام میں Coordination کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ عوامی نمایندے عوام کی خواہشات کا خیال رکھیں اور ریاست خیر اور بھلائی کی ریاست بنتی چلی جائے مگر ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹا رہا ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں تو بڑی بڑی جماعتیں اور چھوٹی جماعتیں میدان میں اترتی ہیں۔ عوام کی امنگوں سے بھرے ہوئے سلوگن بنائے جاتے ہیں، اگلے برسوں میں یہ لوگ اس وطن کو جنت بنادیں گے، مہنگائی ختم ہوجائیگی، چوری چکاری ختم ہوگی، تمام برائیوں کو یہ لوگ اقتدار میں آتے ہی جڑ سے اکھاڑ دیں گے اور ہر شہری چین کی بانسری بجائے گا۔
مگر یہ کیا؟ جیسے ہی اقتدار کے تخت پر عوامی نمایندے آکر براجمان ہوتے ہیں آہستہ آہستہ ان کی جھکی ہوئی گردن میں تھوڑی تھوڑی اکڑ اور پھر ایک سریا سا Fit ہوجاتا ہے۔ اب چونکہ وہ اقتدار کا حصہ ہے اس لیے سب سے پہلے تو وہ اپنے آپ کو ایک عام آدمی کی صف سے نکال کر خاص آدمی کی صف میں لے آتے ہیں۔ اب ان کی ''خفیہ خواہشات'' اپنے آپ کو پورا کروانے کے لیے سرگرم ہوجاتی ہیں۔
جس غریب آدمی کا ووٹ لے کر یہ براجمان ہوتے ہیں وہی غریب آدمی برا لگنے لگتا ہے جس کے پاس جاجاکر گھنٹوں کارنر میٹنگ کرتے رہے اور جن کے بازو سے بازو ملاکر بیٹھے رہے، اسی غریب آدمی سے بدبو محسوس ہونے لگی۔ رات اور دن کا فرق سمجھانے لگے۔ جہاں اقتدار میں امیر آدمی براجمان رہا وہاں مڈل کلاس قیادت بھی ابھر کر سامنے آئی اور اس مڈل کلاس کی قیادت کو ان امیر قیادتوں کے طور طریقے، ٹشن ایسے اچھے لگنے لگے کہ خفیہ طورپر انھوں نے آہستہ آہستہ ان کے انداز، ان کے نخرے، ان کی اداؤں کو اپنانا شروع کردیا۔
بادشاہ اور شہزادے، شہزادیاں بننا کسے اچھا نہ لگے اور یہاں تو پوچھنے والا کوئی نہیں، کوئی جانچ کرنے والا نہیں۔ جو جتنا بڑے عہدے پر اتنی ہی خفیہ خواہشات، زیادہ پوری کرنے کی تمنا۔ محسوسات پر تو کسی کا اختیار نہیں، اگر میں محسوس کروں کہ میں بادشاہ ہوں اور چمکتے دمکتے ہیرے کا تاج میرے سر پہ ہے۔ 4 خادم دائیں، 4 بائیں، نوکروں کی فوج، حکم زبان سے نکلے اور پورا ہوجائے، دولت کی ریل پیل ہو، رہنے کو محلات ہوں، تو واہ واہ کیا شاندار زندگی ہے۔
بس یہی خفیہ خواہشات ان عوامی نمایندوں کے دل و دماغ میں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں اور پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ جس موقع کی تلاش ان کو تھی وہ ان کو مل گیا ہے اور وہ یہ موقع کسی طرح ضایع نہیں ہونے دینا چاہتے۔
عوام کی فلاح و بہبود، ریاست کی مضبوطی، قانون کا اطلاق، قانون کے برابر حقوق، زندگی آسان مگر سب کے لیے، تمام وعدے، تمام سلوگن پتہ نہیں کہاں کھوجاتے ہیں۔ ان کی مصروفیات بے انتہا بڑھ جاتی ہے، ملک سے باہر کے دورے بڑھ جاتے ہیں، عوام سے ملنے کے لیے وقت نہیں بچتا ان کے پاس۔
آہستہ آہستہ مڈل کلاس سے آئے ہوئے نمایندے بھی اپنی خفیہ خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں، احساس کمتری ان کو احساس برتری کی طرف لے جانے لگا، سریا بھی ان کی گردنوں میں فٹ ہونے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ لوگ بڑے بڑے کاروبار کے مالک بن جاتے ہیں، چھوٹے گھروں سے نکل کر یہ بڑے بڑے گھروں کو آباد کرتے ہیں، Shoppingملک سے باہر کی جاتی ہیں اور دنیا کے بڑے Designers کے ملبوسات زیب تن کیے جاتے ہیں۔
یہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اب یہ بادشاہ سلامت ہیں اور عوام ان کی رعایا، وہی ہوگا جو یہ چاہیں گے، جھوٹ سے، دھوکے بازی سے، جس طرح یہ اقتدار میں آگئے ہیں اسی طرح یہ اپنی خواہشات پوری کرنا چاہتے ہیں اور ان کو پوری کرنے کے لیے یہ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں، وہ تمام وعدے جو یہ اپنے عوام سے کرتے ہیں، اپنی ریاست سے کرتے ہیں، کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں، بڑے بڑے اقتدار دان ان کے آئیڈیل بن جاتے ہیں، ان کا Life Style ان کا آئیڈیل بن جاتا ہے اور یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ ''تم میں بہتر وہ ہے جو تقویٰ میں بہتر ہے''۔
جب ہم خفیہ خواہشات کی بات کرتے ہیں تو وہ کچھ جو ہمارے بچپن سے ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں اپنے ماحول میں، اپنے گھر میں، اپنے والدین میں، وہ کیوں ہم میں سے Missing ہوجاتا ہے۔ سخت سردیوں میں گرم بستر چھوڑ کر جب والد پیدل مسجد کی طرف نماز فجر کے لیے روانہ ہوتے ہیں وہ کیوں ہم adopt نہیں کرتے، اس میں تو کسی پرانے رسم و رواج یا نئی تہذیب کا چکر ہی نہیں، حکم الٰہی ہے، کرنا تو ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہوگا کہ جب آپ کی آدھی رات کو آنکھ کھلی تو آپ نے والد یا والدہ کو مصلیٰ پر دیکھا ہوگا، اللہ سے گڑگڑاتے ہوئے، روتے ہوئے دعائیں کرتے۔ کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت گھر کے افراد جمع ہوئے ہوں، ذکر الٰہی ہوا اور خوب خوب دعائیں بھی ہوتی ہوں۔
یہ تمام معمولات ہم سب کی زندگی کا حصہ رہے ہوں گے، اکثر ہمارے بزرگ، ہمارے والدین ظالموں سے نجات کے لیے وظیفہ بھی کرتے نظر آتے ہوں گے، تو کیا ہم نے کچھ نہیں سیکھا؟ یہ غرور و تکبر کی خواہشات کیا ان تمام خوبصورت اور حقیقی جذبوں کو مار دیتی ہیں؟ بڑا مشہور قول ہے کہ، کفر کا معاشرہ چل جائے گا لیکن ظلم کا نہیں۔ پیسے کی ہوس، جائیدادوں کی ہوس، محلات بنانا، گردن کا اکڑ جانا، بڑے بڑے ملکوں میں گھومنا، شاپنگ کرنا، بڑے بڑے ہوٹلز کو انجوائے کرنا، کیا یہی طریقہ سیکھا ہم نے؟
جن کے اعمال بہترین ہیں، وہی بہتر ہے اور بہتر اعمال ہی بہتر کردار بناسکتے ہیں۔
گئے وقتوں میں کردار پر بڑا زور دیا جاتا تھا۔ رشتے، ناتے باکردار لوگوں سے جوڑنے کے لیے کوششیں کی جاتی تھی، چاہے برسوں گزر جاتے، لڑکیاں اپنے گھروں میں بوڑھی ہوجاتی تھیں اور والدین تھے کہ اپنے سے کم پر راضی ہی نہیں ہوتے تھے۔ خواہشات بھی شاید کم تھیں، جو مل جاتا اس کو تقدیر کا لکھا مانا جاتا اور کبھی خوشی خوشی کبھی روتے پیٹتے عمر گزر جاتی۔
مگر جیسے جیسے وقت نے انگڑائی لی خواہشات نے بھی انگڑائیاں لینی شروع کردی۔ آگے بڑھنا ہے، زیادہ سے زیادہ پانا ہے اور ہم کسی سے کم نہیں کے جذبات کروٹیں بدلنے لگے نئے نئے طور طریقے رائج ہونے شروع ہوگئے، معاشرے نے جدت اپنانی شروع کردی۔ ایسے نہیں ایسے، آج نہیں تو کل جو کچھ ہے سب میرا ہے۔ کچھ اس طرح کی سوچیں ہمارے معاشرے میں زور پکڑنے لگیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہر انداز کو، ہر سوچ کو، ہر طریقہ کار کو بھی Upgrade ہونا چاہیے۔ دنیا کے حالات، دنیا کے موسم تک، اثر انداز ہوتے ہیں مثلاً ہم پاکستان میں رہتے ہیں مگر اٹلی کے فیشن پر، فرانس کے فیشن پر ہمارے فیشن ڈیزائنرز کی نظر ہوتی ہے، کہ وہاں کیا چل رہا ہے اور کس طرح سے ہم ان Cuts اور Design کو اپنے لوگوں کے لیے، اپنے موسموں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
تمام بڑے Hotels کے چیف ایگزیکٹو پوری دنیا میں کس طرح کا Cuisine چل رہا ہے یا کس Flavours کی مانگ زیادہ ہے، نظر رکھتے ہیں اور اپنے لوگوں کے مزاج کو سمجھتے ہوئے رد و بدل کرتے رہتے ہیں تاکہ یکسانیت نہ ہو۔
بالکل اسی طرح گورنمنٹ اور عوام میں Coordination کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ عوامی نمایندے عوام کی خواہشات کا خیال رکھیں اور ریاست خیر اور بھلائی کی ریاست بنتی چلی جائے مگر ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹا رہا ہے۔ الیکشن ہوتے ہیں تو بڑی بڑی جماعتیں اور چھوٹی جماعتیں میدان میں اترتی ہیں۔ عوام کی امنگوں سے بھرے ہوئے سلوگن بنائے جاتے ہیں، اگلے برسوں میں یہ لوگ اس وطن کو جنت بنادیں گے، مہنگائی ختم ہوجائیگی، چوری چکاری ختم ہوگی، تمام برائیوں کو یہ لوگ اقتدار میں آتے ہی جڑ سے اکھاڑ دیں گے اور ہر شہری چین کی بانسری بجائے گا۔
مگر یہ کیا؟ جیسے ہی اقتدار کے تخت پر عوامی نمایندے آکر براجمان ہوتے ہیں آہستہ آہستہ ان کی جھکی ہوئی گردن میں تھوڑی تھوڑی اکڑ اور پھر ایک سریا سا Fit ہوجاتا ہے۔ اب چونکہ وہ اقتدار کا حصہ ہے اس لیے سب سے پہلے تو وہ اپنے آپ کو ایک عام آدمی کی صف سے نکال کر خاص آدمی کی صف میں لے آتے ہیں۔ اب ان کی ''خفیہ خواہشات'' اپنے آپ کو پورا کروانے کے لیے سرگرم ہوجاتی ہیں۔
جس غریب آدمی کا ووٹ لے کر یہ براجمان ہوتے ہیں وہی غریب آدمی برا لگنے لگتا ہے جس کے پاس جاجاکر گھنٹوں کارنر میٹنگ کرتے رہے اور جن کے بازو سے بازو ملاکر بیٹھے رہے، اسی غریب آدمی سے بدبو محسوس ہونے لگی۔ رات اور دن کا فرق سمجھانے لگے۔ جہاں اقتدار میں امیر آدمی براجمان رہا وہاں مڈل کلاس قیادت بھی ابھر کر سامنے آئی اور اس مڈل کلاس کی قیادت کو ان امیر قیادتوں کے طور طریقے، ٹشن ایسے اچھے لگنے لگے کہ خفیہ طورپر انھوں نے آہستہ آہستہ ان کے انداز، ان کے نخرے، ان کی اداؤں کو اپنانا شروع کردیا۔
بادشاہ اور شہزادے، شہزادیاں بننا کسے اچھا نہ لگے اور یہاں تو پوچھنے والا کوئی نہیں، کوئی جانچ کرنے والا نہیں۔ جو جتنا بڑے عہدے پر اتنی ہی خفیہ خواہشات، زیادہ پوری کرنے کی تمنا۔ محسوسات پر تو کسی کا اختیار نہیں، اگر میں محسوس کروں کہ میں بادشاہ ہوں اور چمکتے دمکتے ہیرے کا تاج میرے سر پہ ہے۔ 4 خادم دائیں، 4 بائیں، نوکروں کی فوج، حکم زبان سے نکلے اور پورا ہوجائے، دولت کی ریل پیل ہو، رہنے کو محلات ہوں، تو واہ واہ کیا شاندار زندگی ہے۔
بس یہی خفیہ خواہشات ان عوامی نمایندوں کے دل و دماغ میں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں اور پھر یہ خیال کرتے ہیں کہ جس موقع کی تلاش ان کو تھی وہ ان کو مل گیا ہے اور وہ یہ موقع کسی طرح ضایع نہیں ہونے دینا چاہتے۔
عوام کی فلاح و بہبود، ریاست کی مضبوطی، قانون کا اطلاق، قانون کے برابر حقوق، زندگی آسان مگر سب کے لیے، تمام وعدے، تمام سلوگن پتہ نہیں کہاں کھوجاتے ہیں۔ ان کی مصروفیات بے انتہا بڑھ جاتی ہے، ملک سے باہر کے دورے بڑھ جاتے ہیں، عوام سے ملنے کے لیے وقت نہیں بچتا ان کے پاس۔
آہستہ آہستہ مڈل کلاس سے آئے ہوئے نمایندے بھی اپنی خفیہ خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں، احساس کمتری ان کو احساس برتری کی طرف لے جانے لگا، سریا بھی ان کی گردنوں میں فٹ ہونے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ لوگ بڑے بڑے کاروبار کے مالک بن جاتے ہیں، چھوٹے گھروں سے نکل کر یہ بڑے بڑے گھروں کو آباد کرتے ہیں، Shoppingملک سے باہر کی جاتی ہیں اور دنیا کے بڑے Designers کے ملبوسات زیب تن کیے جاتے ہیں۔
یہ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اب یہ بادشاہ سلامت ہیں اور عوام ان کی رعایا، وہی ہوگا جو یہ چاہیں گے، جھوٹ سے، دھوکے بازی سے، جس طرح یہ اقتدار میں آگئے ہیں اسی طرح یہ اپنی خواہشات پوری کرنا چاہتے ہیں اور ان کو پوری کرنے کے لیے یہ لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں، وہ تمام وعدے جو یہ اپنے عوام سے کرتے ہیں، اپنی ریاست سے کرتے ہیں، کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں، بڑے بڑے اقتدار دان ان کے آئیڈیل بن جاتے ہیں، ان کا Life Style ان کا آئیڈیل بن جاتا ہے اور یہ بالکل بھول جاتے ہیں کہ ''تم میں بہتر وہ ہے جو تقویٰ میں بہتر ہے''۔
جب ہم خفیہ خواہشات کی بات کرتے ہیں تو وہ کچھ جو ہمارے بچپن سے ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں اپنے ماحول میں، اپنے گھر میں، اپنے والدین میں، وہ کیوں ہم میں سے Missing ہوجاتا ہے۔ سخت سردیوں میں گرم بستر چھوڑ کر جب والد پیدل مسجد کی طرف نماز فجر کے لیے روانہ ہوتے ہیں وہ کیوں ہم adopt نہیں کرتے، اس میں تو کسی پرانے رسم و رواج یا نئی تہذیب کا چکر ہی نہیں، حکم الٰہی ہے، کرنا تو ہے۔ اکثر ایسا بھی ہوا ہوگا کہ جب آپ کی آدھی رات کو آنکھ کھلی تو آپ نے والد یا والدہ کو مصلیٰ پر دیکھا ہوگا، اللہ سے گڑگڑاتے ہوئے، روتے ہوئے دعائیں کرتے۔ کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت گھر کے افراد جمع ہوئے ہوں، ذکر الٰہی ہوا اور خوب خوب دعائیں بھی ہوتی ہوں۔
یہ تمام معمولات ہم سب کی زندگی کا حصہ رہے ہوں گے، اکثر ہمارے بزرگ، ہمارے والدین ظالموں سے نجات کے لیے وظیفہ بھی کرتے نظر آتے ہوں گے، تو کیا ہم نے کچھ نہیں سیکھا؟ یہ غرور و تکبر کی خواہشات کیا ان تمام خوبصورت اور حقیقی جذبوں کو مار دیتی ہیں؟ بڑا مشہور قول ہے کہ، کفر کا معاشرہ چل جائے گا لیکن ظلم کا نہیں۔ پیسے کی ہوس، جائیدادوں کی ہوس، محلات بنانا، گردن کا اکڑ جانا، بڑے بڑے ملکوں میں گھومنا، شاپنگ کرنا، بڑے بڑے ہوٹلز کو انجوائے کرنا، کیا یہی طریقہ سیکھا ہم نے؟