دُھوپ سے مصوری
فلپائن کا منفرد آرٹسٹ شمسی شعاعوں کی مدد سے فن پارے تخلیق کرتا ہے
FAISALABAD:
دنیا بھر میں شمسی توانائی یعنی دھوپ کو بجلی بنانے میں استعمال کیا جارہا ہے مگر ایک منفرد فن کار ایسا بھی ہے جو سورج کی روشنی سے مصوری کے شاہ کار تخلیق کرتا ہے۔
پائروگرافی، مصوری کی ایک نایاب قسم ہے جس میں فن کار لکڑی کو جلتے ہوئے اوزاروں سے داغ کر اُس پر نقش و نگار اُبھارتے ہیں۔ لکڑی کو داغنے کے لیے اس فن کے ماہر خصوصی اوزاروں کا استعمال کرتے ہیں مگر فلپائن سے تعلق رکھنے والا جورڈن مینگ اوسن یہ کام دھوپ سے لیتا ہے۔ وہ محدب عدسے کی مدد سے شمسی شعاعوں کو لکڑی پر مرتکز کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ ماہرانہ انداز میں محدب عدسے کو حرکت دیتے ہیں اور لکڑی کے کینوس پر دل کش مناظر اُبھرتے چلے جاتے ہیں۔
ایک فن پارہ تخلیق کرنے کے لیے جورڈن لکڑی کے ٹکڑے پر پہلے خاکہ بناتا ہے۔ پھر وہ محدب عدسے کی مدد سے شمسی شعاعوں کو چوبی کینوس کے مطلوبہ حصوں پر مرتکز کرتا جاتا ہے۔ شمسی شعاعوں کی صورت میں لکڑی کی سطح پر پڑنے والا بلند درجۂ حرارت اس کی سطح کو جلاتا ہے۔ اس عمل کو جورڈن اتنی مہارت سے کنٹرول کرتا ہے شعاعیں لکڑی کو جلانے کے بجائے اس کی سطح پر دل کش نقش ہی اُبھار پاتی ہیں۔
نقش و نگار اتنے حقیقی ہوتے ہیں کہ یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ فن کار نے کینوس کو چھوئے بغیر ہی یہ فن پارہ تخلیق کیا ہے۔ مصوری کی یہ صورت انتہائی توجہ اور سخت محنت کی متقاضی ہوتی ہے۔ ایک چوبی کینوس کو فن پارے میں تبدیل کرنے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔
جورڈن کا تعلق فلپائن کے پہاڑی علاقے کورڈیلیرس سے ہے۔ اسکول کے دوران جورڈن نے ڈرائنگ کوبہ طور مشغلہ اپنایا تھا ۔ یہ مشغلہ آگے چل کر اس کا کیریئر بن گیا۔ انیس برس کی عمر میں جورڈن نے اس فن کو بہ طور پیشہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ غریب گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے ابتدا میں اسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس بارے میں جورڈن کہتا ہے،'' اگر آپ ایک فن کار ہیں تو ابتدائی مرحلے میں درپیش ہونے والا پہلا مسئلہ مالی ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ اس صورت میں سنگین ہوجاتا ہے جب آپ نوجوان ہوں اور آپ کی کوئی پہچان بھی نہ ہو۔'' گزراوقات کے لیے جورڈن نے ٹی شرٹ پر چھپائی کرنے اور کارڈز وغیرہ چھاپنے کا کام کیا۔ ساتھ ساتھ اس کا شوق بھی جاری رہا۔
کچھ عرصے تک جورڈن نے چارکول ڈرائنگ بھی سیکھی جس کی بنیاد پر اسے 1988ء میں مصوروں کی مقامی تنظیم کی رکنیت مل گئی۔ وہ تیزاب سے تصویر کشی میں بھی مہارت رکھتا ہے مگر اس کی خصوصیت دھوپ سے نقش کاری کرنا ہے۔ یہ فن اس نے اپنے گُرو اور آبائی گاؤں کے بزرگ مصور سان ٹیاگو بوسی سے سیکھا تھا۔
جورڈن اب اپنے گاؤں کا سب سے مقبول مصور ہے جسے عالمی سطح پر بھی شہرت مل چکی ہے، مگر وہ شہرت کو ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ جورڈن کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ ہر فن پارے میں اپنی ثقافت، اور اپنے لوگوں کو پیش کرے۔ وہ کہتا ہے،'' فن مصوری نے ہمارے علاقے کی قدیم ثقافت کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور میں آخری سانس تک اپنی ثقافت کی ترویج کا سلسلہ جاری رکھوں گا۔''
جورڈن کے تخلیق کردہ فن پاروں میں قدرتی مناظر کے علاوہ انسانی پورٹریٹ بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ وہ اپنا منفرد فن نوجوان نسل کو بھی منتقل کررہا ہے۔ اس مقصد کے لیے وقفے وقفے سے ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں شریک ہونے والے نوجوان مصوروں کو پائروگرافی کی تعلیم دی جاتی ہے۔
جورڈن کو اب تک کئی ایوارڈز مل چکے ہیں۔ فلپائن کے علاوہ اس کے منفرد کام کی نمائش جاپان، جنوبی کوریا، ملائشیا اور آسٹریلیا میں ہوچکی ہے۔
دنیا بھر میں شمسی توانائی یعنی دھوپ کو بجلی بنانے میں استعمال کیا جارہا ہے مگر ایک منفرد فن کار ایسا بھی ہے جو سورج کی روشنی سے مصوری کے شاہ کار تخلیق کرتا ہے۔
پائروگرافی، مصوری کی ایک نایاب قسم ہے جس میں فن کار لکڑی کو جلتے ہوئے اوزاروں سے داغ کر اُس پر نقش و نگار اُبھارتے ہیں۔ لکڑی کو داغنے کے لیے اس فن کے ماہر خصوصی اوزاروں کا استعمال کرتے ہیں مگر فلپائن سے تعلق رکھنے والا جورڈن مینگ اوسن یہ کام دھوپ سے لیتا ہے۔ وہ محدب عدسے کی مدد سے شمسی شعاعوں کو لکڑی پر مرتکز کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ ماہرانہ انداز میں محدب عدسے کو حرکت دیتے ہیں اور لکڑی کے کینوس پر دل کش مناظر اُبھرتے چلے جاتے ہیں۔
ایک فن پارہ تخلیق کرنے کے لیے جورڈن لکڑی کے ٹکڑے پر پہلے خاکہ بناتا ہے۔ پھر وہ محدب عدسے کی مدد سے شمسی شعاعوں کو چوبی کینوس کے مطلوبہ حصوں پر مرتکز کرتا جاتا ہے۔ شمسی شعاعوں کی صورت میں لکڑی کی سطح پر پڑنے والا بلند درجۂ حرارت اس کی سطح کو جلاتا ہے۔ اس عمل کو جورڈن اتنی مہارت سے کنٹرول کرتا ہے شعاعیں لکڑی کو جلانے کے بجائے اس کی سطح پر دل کش نقش ہی اُبھار پاتی ہیں۔
نقش و نگار اتنے حقیقی ہوتے ہیں کہ یہ یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ فن کار نے کینوس کو چھوئے بغیر ہی یہ فن پارہ تخلیق کیا ہے۔ مصوری کی یہ صورت انتہائی توجہ اور سخت محنت کی متقاضی ہوتی ہے۔ ایک چوبی کینوس کو فن پارے میں تبدیل کرنے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔
جورڈن کا تعلق فلپائن کے پہاڑی علاقے کورڈیلیرس سے ہے۔ اسکول کے دوران جورڈن نے ڈرائنگ کوبہ طور مشغلہ اپنایا تھا ۔ یہ مشغلہ آگے چل کر اس کا کیریئر بن گیا۔ انیس برس کی عمر میں جورڈن نے اس فن کو بہ طور پیشہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔ غریب گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے ابتدا میں اسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس بارے میں جورڈن کہتا ہے،'' اگر آپ ایک فن کار ہیں تو ابتدائی مرحلے میں درپیش ہونے والا پہلا مسئلہ مالی ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ اس صورت میں سنگین ہوجاتا ہے جب آپ نوجوان ہوں اور آپ کی کوئی پہچان بھی نہ ہو۔'' گزراوقات کے لیے جورڈن نے ٹی شرٹ پر چھپائی کرنے اور کارڈز وغیرہ چھاپنے کا کام کیا۔ ساتھ ساتھ اس کا شوق بھی جاری رہا۔
کچھ عرصے تک جورڈن نے چارکول ڈرائنگ بھی سیکھی جس کی بنیاد پر اسے 1988ء میں مصوروں کی مقامی تنظیم کی رکنیت مل گئی۔ وہ تیزاب سے تصویر کشی میں بھی مہارت رکھتا ہے مگر اس کی خصوصیت دھوپ سے نقش کاری کرنا ہے۔ یہ فن اس نے اپنے گُرو اور آبائی گاؤں کے بزرگ مصور سان ٹیاگو بوسی سے سیکھا تھا۔
جورڈن اب اپنے گاؤں کا سب سے مقبول مصور ہے جسے عالمی سطح پر بھی شہرت مل چکی ہے، مگر وہ شہرت کو ثانوی حیثیت دیتا ہے۔ جورڈن کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ ہر فن پارے میں اپنی ثقافت، اور اپنے لوگوں کو پیش کرے۔ وہ کہتا ہے،'' فن مصوری نے ہمارے علاقے کی قدیم ثقافت کو زندہ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور میں آخری سانس تک اپنی ثقافت کی ترویج کا سلسلہ جاری رکھوں گا۔''
جورڈن کے تخلیق کردہ فن پاروں میں قدرتی مناظر کے علاوہ انسانی پورٹریٹ بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ وہ اپنا منفرد فن نوجوان نسل کو بھی منتقل کررہا ہے۔ اس مقصد کے لیے وقفے وقفے سے ورکشاپس کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں شریک ہونے والے نوجوان مصوروں کو پائروگرافی کی تعلیم دی جاتی ہے۔
جورڈن کو اب تک کئی ایوارڈز مل چکے ہیں۔ فلپائن کے علاوہ اس کے منفرد کام کی نمائش جاپان، جنوبی کوریا، ملائشیا اور آسٹریلیا میں ہوچکی ہے۔