بلاول کا سیاسی سفر

جمہوری قوتوں کا ساتھ ضرور دینا چاہیے لیکن اپنی سیاست سے دستبرداری دانشمندی نہیں ہے۔


October 21, 2014
[email protected]

پیپلز پارٹی نے بالآخر وہ راستہ اختیار کر لیا جو اس کی سیاسی زندگی کے لیے ضروری ہو گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے لیے وہ وقت آ گیا تھا جس میں اس نے فیصلہ کرنا تھا کہ اس نے زندہ رہنا ہے یا دہشت گردی کے خوف سے ڈرائنگ رومز تک محدود ہونا ہے۔ حالیہ سیاسی بحران میں تحریک انصاف جس طرح عوام میں مقبول ہوئی ہے' اس نے پیپلز پارٹی کو پس منظر میں دھکیل دیا ہے' عمران خان کے کراچی میں کامیاب جلسے اور پھر لاڑکانہ میں جلسہ کرنے کے اعلان سے پیپلز پارٹی سندھ کی لیڈر شپ میں بھی باہر نکلنے کی سوچ بیدار ہوئی ورنہ پہلے وہ وزارتوں اور ایم پی ایز شپ کے نشے میں مست تھی' یہ ماننا پڑے گا کہ عمران نے مزاحمتی سیاست کر کے ایک لیڈر کا روپ دھار لیا ہے۔

پنجاب میں عمران خان کی مقبولیت کا سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی کو ہوا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی یہاں ہمیشہ ایک بڑی اور غالب سیاسی قوت رہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے 2007 سے مفاہمتی سیاست کی راہ اختیار کی' محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری کی سوچ سامنے آئی' جسے میں زرداری ڈاکٹرائن کا نام دیتا ہوں، اس ڈاکٹرائن نے پارٹی کو زیادہ تنہائی کا شکار کیا۔ مئی 2013 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں خاموشی اختیار کر لی' جواز یہ پیش کیا گیا کہ اس کے امیدواروں کو دہشت گردی کا خطرہ ہے' جب قیادت ہی خاموش ہو جائے تو پھر امید وار اور پارٹی تنظیمیں کیسے فعال ہوتے۔یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی بدترین شکست سے دوچار ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کے ووٹرز نے مسلم لیگ ن پر تحریک انصاف کے امیدوار کو ترجیح دی' میں کئی ایسے جیالوں کو جانتا ہوں جنہوں نے لاہور میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی انتخابی مہم چلائی'پنجاب خصوصاً لاہور' گوجرانوالہ' راولپنڈی' پنجاب اور سیالکوٹ میں عمران خان کی مقبولیت کا راز اینٹی نواز شریف اسٹینڈ میں چھپا ہوا ہے۔

حالیہ بحران میں پیپلز پارٹی کا یہ تاثر پختہ ہوا کہ وہ میاں نواز شریف کی حکومت کی اتحادی ہے اور اس کا الگ سے کوئی اسٹینڈ نہیں ہے' آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی اپنی جگہ درست اور حالات کے عین مطابق ہو سکتی ہے لیکن عملی سیاست کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں' سیاسی میدان میں کارکن اپنی سیاسی شناخت چاہتا ہے' وہ ایشو لے کر باہر نکلتا ہے' اسے اپنے ووٹرز کو بتانا ہوتا ہے کہ اس کی جماعت کا نظریہ اور منشور کیا ہے اور وہ حکومت کی غلط، ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف ہر اول دستے کے طور پر باہر نکل کر جدوجہد کر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کا تو خمیر ہی بالادست طبقوں کے خلاف مزاحمت سے اٹھا ہے۔ اگر اس کردار کو ترک کر دیا جائے گا تو پھر پیپلز پارٹی زندہ نہیں رہ سکتی۔جیالوں کے لیے دکھ اور شرمندگی کی بات یہ ہے کہ اسے مسلم لیگ ن کی اتحادی نہیں بلکہ بی ٹیم کا طعنہ سننا پڑ رہا ہے' ایک ایسی پارٹی جوپاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت کہلاتی ہو' اس کے لیے یہ واقعی ندامت اور شرمندگی کی بات تھی۔

کراچی میں بلاول بھٹو نے روایتی پیپلز پارٹی کے احیاء کا اعلان کیا ہے' پیپلز پارٹی کی قیادت نے کسی حد تک بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کیاہے۔ بلاول بھٹو نے پیپلز پارٹی کے روایتی کیڈر اور فلسفے کو آواز دی ہے۔ کراچی کا جلسہ میری نظر میں کامیاب شو ہے' پیپلز پارٹی کے مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ بلاول بھٹو دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں بلکہ پاکستان میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا اگر کسی کو حقیقی خطرہ ہے تو وہ پیپلز پارٹی کی ہی قیادت ہے۔

ایسے خطرات کے باوجود کراچی جیسے بے امن شہر میں بڑا جلسہ کرنا اور وہاں پیپلز پارٹی کی ساری قیادت کا اکٹھا ہونا' یقیناً جرات اور حوصلے کا کام ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی پتہ تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن اس کے باوجود وہ میدان عمل میں اتریں اور انھیں راولپنڈی میں شہید بھی کر دیا گیا لیکن کیا کریں' اگر کسی جماعت نے زندہ رہنا ہے یا کسی لیڈر نے سچائی و رہنمائی کا کردار لینا ہے تو پھر اسے خطرات سے کھیلنا ہو گا' لگتا ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول نے خطرات سے کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ایسا نہ کیا جاتا تو پیپلز پارٹی ختم ہو جاتی۔ اب بلاول بھٹو زرداری میدان میں اتر آئے ہیں' انھوں نے خطرات کی پرواہ کیے بغیر عوام میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ایسی صورت میں پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت اور کارکن کیسے گھروں میں بیٹھ سکتے ہیں۔ کراچی میں بڑا جلسہ کر کے پیپلز پارٹی دہشت گردی کے خوف سے بھی باہر آئی ہے۔ کئی پرانے جیالے برملا کہتے ہیں کہ اگر دہشت گردی سے ڈرنا ہے تو پھر پیپلز پارٹی کی قیادت کو سیاست سے دستبرداری کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ جیالے آزاد ہو سکیں۔

30نومبر کو لاہور میں پیپلز پارٹی نے یوم تاسیس پر کنونشن کرنا ہے' بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں بھی اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں جیالے بولیں گے اور وہ سنیں گے اور یہی پیپلز پارٹی کی پالیسی ہو گی۔ بلاول نے اپنی تقریر میں بار بار ذوالفقار علی بھٹو کی سوچ کا اعادہ کیا' وہ مسلسل عوام کی حکمرانی 'روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کرتے رہے۔ انھوں نے نئے حالات میں دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو بھی پارٹی کی پالیسی بنا دیا ہے۔ ضیا باقیات کی اصطلاح بڑی وسیع معنی رکھتی ہے' یہ اصطلاح درحقیقت تمام رجعت پسند اور انتہا پسند قوتوں کے لیے ہے۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف جو اس وقت پنجاب کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں' نظریاتی اعتبار سے دائیں بازو کی سوچ اور فکر کی نمایندہ ہیں۔ قارئین کو یاد ہے کہ میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں طالبان سے مذاکرات کے حامی ہیں۔عمران خان تو پشاور میں تحریک طالبان کا دفتر کھولنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

وہ اپنے اس موقف پر آج بھی قائم ہیں' نظریاتی لحاظ سے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں پیپلز پارٹی کی حریف ہیں' ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ملک کا دایاں بازو تقسیم کا شکار ہے' دائیں بازو کی سوچ کا حامل ایک گروپ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے جب کہ دوسرا تحریک انصاف کا اتحادی بن چکا ہے' ان حالات میں پیپلز پارٹی آج بھی ملک کی مضبوط اور مقبول سیاسی قوت بن سکتی ہے۔ اس کے لیے اسے کچھ ترامیم و اضافوں کے ساتھ اپنی نظریاتی اساس پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ پاکستان کا روشن خیال اور اعتدال پسند طبقہ سیاسی بیگانیگی کا شکار ہے' وہ حالات سے مایوس اور دلبرداشتہ ہے' یہ طبقہ پیپلز پارٹی کی روح ہے' بلاول بھٹو کو اس پر انحصار کرنا ہو گا' مزدور' کسان' ہاری' دانشور اور مڈل کلاس پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک ہے۔ اعتزاز احسن کی یہ بات بھی پلے باندھنے والی ہے کہ پچاس برس سے زائد عمر کی قیادت پیچھے بیٹھے اور بلاول آگے بڑھ کر پارٹی کی قیادت کرے' میرے خیال میں یہ بڑی اچھی تجویز ہے' پیپلز پارٹی کے پاس اعتزاز احسن' پروفیسر اعجاز الحسن' فخر زمان' اسلم گوداسپوری' الطاف قریشی' افضل وٹو' رانا آفتاب احمد' طارق خورشید ' رضا ربانی جیسے لوگ موجود ہیں' ان کے علاوہ بھی سینئر ہیں' انھیں مشاورت و رہنمائی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔

اس ملک کے لیے جمہوریت ہی بقا و استحکام کی ضمانت ہے' جمہوری قوتوں کا ساتھ ضرور دینا چاہیے لیکن اپنی سیاست سے دستبرداری دانشمندی نہیں ہے' بلاشبہ مسلم لیگ ن نے بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کی ہے۔ وہ دائیں بازو کی جماعت ضرور ہے لیکن اس نے معتدل طرز عمل اختیار کیا اور اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے باہر آئی ہے۔ مسلم لیگ ن کے لیے بھی بہتر راستہ یہی ہے کہ وہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو راستہ دے' اسے اپنی پرانی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہو گی 'اب دنیا بدل گئی ہے' سرد جنگ ختم ہو چکی۔ دائیں اور بائیں کا روایتی تصور بھی نہیں رہا' اب دہشت گردی، انتہا پسندی اور سوشل ڈیموکریسی کے تناظر میں سیاسی نظریات قائم ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں