بلاول کی تقریر

پیپلزپارٹی کی حکومت اچھی طرز حکومت پر یقین نہیں رکھتی اور وفاق میں 4 بار اور سندھ میں 5ویں بار اقتدار میں آچکی ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan October 22, 2014
[email protected]

کراچی میں پیپلزپارٹی کے جلسوں کی بہار آئی، نوجوان بلاول نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ۔ پیپلزپارٹی نے 18اکتوبر 2007کو بے نظیر بھٹو شہید کی کراچی آمد پر لاکھوں لوگوں کو ایئر پورٹ پر جمع کیا تھا، اس دن مزار قائد کے سامنے محترمہ کو جلسے سے خطاب کرناتھا مگر رات گئے کارسازکے قریب دھماکوں میں کارکنوں کی ہلاکت کے بعد یہ جلسہ منسوخ ہوگیا تھا ۔ اس دفعہ پورے ملک سے لوگ کراچی آئے، اندرون سندھ سے آنے والے قافلوں سے جلسے کا میدان سج گیا، کراچی شہر سے شرکت کرنے والے کم تھے لیاری جو پیپلزپارٹی کا گڑھ ہے، کالعدم امن کمیٹی نے پیپلزپارٹی کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی اور اپنے رہنماؤں کوجو گینگ وار میں ملوث ہیں کے وارنٹ منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کے انکار پر لیاری کے مختلف علاقوں میں لگے استقبالیہ کیمپ بند کردیے گئے اس کے باوجود بہت سے کارکنوں نے جلسے میں شرکت کی ، جلسے میں صحافیوں پر تشدد کرکے جیالے کارکنوں نے برداشت کے ناپید ہونے کا مظاہرہ کیا ۔

بلاول زرداری نے بہترین انداز میں ایک گھنٹے سے زیادہ تقریر کی۔ انھوں نے اردو زبان پر عبور نہ رکھنے کے باوجود تحریر شدہ مواد کو خوبصورتی سے تقریر کے ذریعے سامعین تک منتقل کیا۔ یوں ان کے بارے میں ذہنوں میں موجود خدشات دورہوئے ۔ بلاول زرداری نے اپنی تقریر میں اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ بے نظیر بھٹو کا ذکر کیا ۔ انھوں نے بھٹو کے مختلف کارنامے گنوائے جن میں چین سے دوستی ، چین سے امریکا کی دوستی ، کشمیر کے مسئلے پر بھٹو کا موقف پھر 1973کے آئین بنانے کا ذکر کیا اس طرح انھوں نے بے نظیر بھٹو کے میثاق جمہوریت کے کارنامے پر روشنی ڈالی ۔

بلاول بھٹو نے نوا ز شریف ، عمران خان، طاہر القادری اور ایم کیو ایم پر تنقید کی ۔ 18اکتوبر 2007کے خود کش حملوں کے ذمے داروں اور 27دسمبر 2007کولیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملے کے ذمے داروں کو سزا نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کیا ۔ بلاول بھٹو نے مناسب الفاظ میں میاں نواز شریف کے طرز حکومت کی مذمت کی۔ خاص طور پر ماڈل ٹاؤن واقعے کو میاں صاحب کی حکومت کی بدترین ناکامی قرار دیا اور ان کی حکومت کے غیر موثر ہونے کا ذکر کیا ،سارے مسائل کا حل میاں صاحب کو یہ بتایا کہ وہ ضیاء ازم چھوڑ کر بھٹو ازم کو اپنائیں ، بلاول کی یہ تنقید اس لحاظ سے اہم ہے ، مسلم لیگ ن کے اب بھی کالعدم جہادی تنظیموں سے روابط ہیں اور ان تنظیموں کے دباؤ پر پنجاب کی حکومت کو فیصلے تبدیل کرنے پڑتے ہیں اور پنجاب میں جنون کی ایک ایسی فضا قائم ہے جو اقلیتوں کے علاوہ روشن خیال اور ترقی پسند سوچ رکھنے والے لوگوں کو قتل کررہی ہے ۔

اس فضاء میں راشد رحمن ایڈوکیٹ جیسے بہت سے لوگ قتل ہوچکے ہیں ، بلاول نے جرات کے ساتھ آسیہ بی بی کے مقدمے کا ذکر کیا ۔ اس طرح بلاول نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر بھی مثبت اندا ز میں تنقید کی مگر تحریک انصاف کو لاہور میں ایم کیو ایم کی طرح کا کردار ادا کرنے کا کہہ کر تحریک انصاف کے ساتھ زیادتی کی ،اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی ناراضی مول لی ، انھوں نے سندھ میں پیپلزپارٹی کے ذکر پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے کے بجائے سید قائم علی شاہ حکومت کا دفاع کیا اور یہ سوال کیا کہ ایم کیو ایم 20سال سے سندھ پر حکومت کررہی ہے اس کے دوران ہی کراچی، حیدرآباد میں کیا کیا ہوا، اگر چہ بلاول نے اپنے وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کو سراہا مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کر گئے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت اچھی طرز حکومت پر یقین نہیں رکھتی اور وفاق میں 4 بار اور سندھ میں 5ویں بار اقتدار میں آچکی ہے تو وفاقی سطحی کے پارٹی کے قیادت کو سندھ کی سطح کی پارٹی کی کارکردگی کے موازنے کا کوئی جواز نہیں ہے وہ اپنی تقریر میں یہ بات فلک شگاف اندا ز میں کہہ سکتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی کی ترقی کے لیے خاطر خواہ ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے جس کے نتیجے میں شہر میں نمایاں تبدیلی آئی تھی ۔

بے نظیربھٹو کے دوسرے دورمیں کراچی میں کچھ ترقیاتی کام ہوئے اس طرح اندرون سندھ سڑکوں ، پلوں کی تعمیر پرتوجہ دی گئی ۔ 2008سے 2013تک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی ناقص رہی ۔ بلاول بھٹو زرداری اگر واقعی پیپلزپارٹی کا عروج چاہتے ہیں تو انھیں اس حقیقت کے خاتمے کے لیے انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں کرپشن کا معیار بڑھ گیا ، سفارش کے بغیر کسی کام کی تکمیل کا تصور ختم ہوگیا تھا ۔ آصف زداری نے اپنے دور اقتدار میںچین کے بے شمار دورے کیے مگر وہ سندھ اور خاص طور پر کراچی کی ترقی کے لیے کوئی خاطر خواہ منصوبہ پیش نہیں کرسکے ، چینی حکومت اور سرمایہ کاروں کے لیے سندھ میں سرمایہ کاری کے لیے کوئی کشش نہ رہی ، اگر پیپلزپارٹی 1970کی دہائی سے زیر التوا کراچی ماس ٹرانزٹ پروجیکٹ کو شروع کروا دے ، کراچی میں زیر زمین ریل ٹرام سروس اور بڑی بسوں کے فلیٹ سڑکوں پر چلنا شروع کردے تو ان کا موقف مضبوط ہوسکتا ہے۔ بلاول نے وفاق سے کراچی کے لیے کراچی پیکیج کا مطالبہ کیا ہے ۔18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں مکمل خود مختارہیں ۔

سندھ کی حکومت چین یا کسی اور ملک کی مدد سے کراچی میں ترقیاتی منصوبے شروع کرسکتی ہے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہبازشریف نے ترکی کی مدد سے لاہور میں میٹرو بس کا منصوبہ شروع کیا تھا ۔ بلاول کی تقریر میں کشمیر کا معاملہ عسکری مقتدرہ کی خواہشات کی تکمیل کے لیے شامل کیا گیا، ان کے نانا نے کشمیر کے مسئلے پر پنجاب کے عوام کے جذبات کو مشتعل کر کے مقبولیت حاصل کی تھی اور معاہدہ شملہ کر کے بھارت سے دوستی کا سفر شروع کیا تھا ۔ بلاول کو ماضی کے سستے نعروں کے بجائے بھارت افغانستان سمیت دنیا بھر کے دوسرے ممالک سے دوستی کے نعرے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے اور عوام کو جذباتیت پرمبنی پیغام دینے کے بجائے حقائق پر مشتمل پیغامات دینے چاہییں ۔ اس طرح عوام میں جنون پیدا نہیں ہوگا اور بلاول کا ملکی اور بین الاقوامی سطح پر امیج بہتر انداز میں ابھرے گا اس جلسے میں اعتزاز احسن کی تقریر اس ضمن بہت اہم ہے کہ انھوں نے تجویز دی ہے کہ پیپلزپارٹی کے 50 سال سے زیادہ عمر کے رہنما نوجوانوں کے لیے راستہ چھوڑ دیں ۔ بلاول اور ان کی مشاورتی ٹیم کو اس مشورے پر عمل کرنا چاہیے اس طرح نوجوان قیادت سامنے آئے گی اس پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہوگا یہ قیادت نہ صرف بھٹکے ہوئے کارکنوں کو واپس لائے گی بلکہ نوجوانوں کو پیپلزپارٹی کی طرف متوجہ کرے گی ۔

بلاول نے ایک اچھے انداز میں سیاسی سرگرمیاں شروع کردی ہیں انھیں اگلے تین ماہ میں لاہور میں جلسے کی تیاری کرنی چاہیے اور لاہور کے جلسے سے پہلے پیپلزپارٹی کی قیادت میں موجود کرپٹ اور طالع آزما قوتوں سے ماضی میں ملاپ کرنے والے رہنماؤں کو فارغ کردینا چاہیے ۔ بلاول کی تقریر سے ایم کیو ایم ناراض ہوگئی ہے یوں ان کی تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ چلنے کی اپیل عملی طور پر ناکام ہوگئی ۔ ایم کیو ایم کی ناراضگی کی ایک وجہ صوبائی حکومت کا شہری علاقوں کے ساتھ برا سلوک اور بلدیاتی نظام کو نظر انداز کرنا ہے۔ بلاول اور ان کے ساتھیوں کو اس صورتحال پر غور کرنا چاہیے۔ سندھ میں نوجوان قیادت کو حکومت میں لانا چاہیے ، کراچی کے لوگوں کی کم شرکت کے اسباب کا جائزہ لینا چاہیے۔ ملک کے مظلوم طبقات اور اقلیتوں کی نمایندگی پیپلزپارٹی بہتر انداز میں کرسکتی ہے بشرطیکہ پیپلزپارٹی کی ترجیحات تبدیل ہوجائیں اور پرانی قیادت ریٹائرڈ ہوجائے اور نیا خون شامل ہو اور عوام کی امنگوں کو پورا کرسکے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں