پہلے کیا مجبوری تھی

مران خان کے بقول پیپلز پارٹی نہیں بلکہ اصل اپوزیشن پی ٹی آئی ہے اور پی پی اور ن لیگ باری باری کھیل رہے ہیں۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پچھلی حکومت میں ہم بوجوہ ڈلیور نہیں کر سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاست میں مخالفت ہوتی ہے دشمنی نہیں، ہم پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایشوز کی سیاست اور عوام کے مفاد کے خلاف ہر حکومتی اقدام کی مخالفت کریں گے۔

سابق صدر اور پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو یہ ساری باتیں اپنی حکومت اور اپنی صدارت کے خاتمے کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد یاد آئی ہیں اور انھوں نے لاہور میں اپنی سیاست کا آغاز اپنی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں سے ملاقاتوں میں شروع کیا ہے اور وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ہماری حکومت کے ہر فیصلے پر ایک دجال چیف جسٹس حکم امتناعی جاری کر دیتا تھا۔

آصف زرداری اپنی صدارت کے 5 سالوں میں اپنے مخالفین اور میڈیا کی مسلسل زد میں رہے اور گھر واپسی کے بعد اب ان پر اتنی تنقید نہیں ہو رہی جتنی ان کے اقتدار کے دور میں ہوا کرتی تھیں۔ یہ بھی درست ہے کہ انھوں نے اپنے اقتدار میں تنقید بردا شت کی اور تنقید کا موقع وہ خود اور ان کی حکومت دیا کرتی تھی اور آصف زرداری خود پر تنقید کا جواب گڑھی خدا بخش میں اپنے شہدا کی برسیوں پر دیا بھی کرتے تھے اور وہ براہ راست تنقید سے گریز نہیں کرتے تھے اور ان کی بھرپور کوشش رہی کہ وہ اور ان کی حکومت اپنی مقررہ مدت ہر حال میں پوری کرے اور بلا شبہ زرداری صاحب اپنی اس کوشش میں مکمل کامیاب رہے اور ان کے مخالفین شیخ رشید اور عمران خان کی طرح حکومت جانے کی تاریخیں دیتے رہ گئے اور اب یہ سلسلہ ڈاکٹر طاہر القادری سمیت ان تینوں رہنماؤں نے نواز شریف کے خلاف شروع کر رکھا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تینوں اور اب چوہدری برادران سب مل کر وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے میں کب کامیاب ہوتے ہیں۔

وزیر اعظم اسے استعفیٰ کے خواہش مندوں میں آصف زرداری کے سابق حلیف چوہدری برادران بھی شامل ہیں۔ جنھوں نے لاہور میں آصف زرداری سے بھی ملاقات کی جس میں نہیں معلوم کہ آصف زرداری نے ان کے مطالبے کی حمایت کی یا مخالفت۔ آصف علی زرداری کی سیاست سمجھنے کے لیے کوئی کہتا ہے کہ پی ایچ ڈی کرنا پڑے گی تو کوئی ان کی سیاست سمجھتا ہے مگر بولتا نہیں اور خاص طور پر شریف برادران نے اس سلسلے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے کیوں کہ دھرنا سیاست نے انھیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ آصف زرداری کو ناراض نہ کریں۔ زرداری صاحب نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایشوز کی سیاست کی بات تو کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ہم اپوزیشن کا رول زیادہ اچھے طریقے سے ادا کرتے ہیں۔


اقتدار میں عوام کے مسائل پر خاموش رہنے، کرپشن کی شکایات پر مفاہمت کو ترجیح دینے والے اب اپوزیشن میں بھی ہیں اور دوسرے بڑے صوبے کا اقتدار بھی ان کے پاس ہے، عمران خان کے بقول پیپلز پارٹی نہیں بلکہ اصل اپوزیشن پی ٹی آئی ہے اور پی پی اور ن لیگ باری باری کھیل رہے ہیں آصف زرداری کی یہ بھی سیاست ہے کہ بطور صدر اور انھوں نے کبھی سابق چیف جسٹس پر تنقید نہیں کی حالانکہ وہ انھیں پہلے بھی دجال لگتے ہونگے مگر زرداری صاحب کی صدارتی مجبوری انھیں ایسا کہنا مناسب نہیں لگتی ہو گی۔

آصف علی زرداری نے جب یوسف رضا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم نامزد کیا اس وقت بھی سپریم کورٹ میں راجہ پرویز کے خلاف مقدمات تھے مگر عدالت عظمیٰ نے کوئی حکم امتناعی بھی نہیں دیا تھا۔ گیلانی اور راجہ کی دونوں حکومتوں نے ہر قسم کی من مانی کی مگر عوام کو کچھ ڈلیور کرنے کا اعلان تک نہیں کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس انھیں روکتے گزشتہ حکومت نے کبھی پٹرول سستا کرنے، ڈالر کو پرانی سطح پر لانے، مہنگائی کم کرنے کا عندیہ تک نہیں دیا تھا کہ سابق چیف جسٹس نے انھیں روکا ہو۔ سابق چیف جسٹس نے تو حکومت کی طرف سے مہنگائی بڑھانے، بجلی مہنگی کرنے پر سوموٹو ایکشن تک نہیں لیا تھا جس کا مطالبہ عوامی حلقے کیا کرتے تھے۔

سابق صدر اب کہتے ہیں کہ ہماری حکومت آئی تو آیندہ وزیر خزانہ کسی تاجر کو بنائیں گے تو گزشتہ حکومت میں انھیں ایسا کرنے سے کس نے روکا تھا۔ صدر زرداری ایک مکمل با اختیار صدر ہی نہیں پی پی کے شریک چیئرمین تھے انھیں عوام کو کچھ ڈلیور کرانے سے گیلانی اور راجہ جیسے وزیر اعظم روکنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے۔ ن لیگ کے سوا تمام اہم سیاسی جماعتیں گزشتہ حکومت کے ساتھ تھیں حکومت اور حلیف پارلیمنٹ میں واضح اکثریت میں تھے اور پارلیمنٹ کے عوامی مفاد میں کیے جانے والے فیصلوں کو روکنے یا رد کرنے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں تھا تو اب آصف زرداری کیسے کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس نے ہمیں ڈلیور کرنے نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کا مفاد کسی حکومت کو نظر نہیں آتا اور اپوزیشن میں آ کر آصف زرداری جیسے جواز پیش کرنے کی باتیں اب عوام کے نزدیک اہم نہیں رہیں وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی بڑے بڑے دعوے کیے تھے وہ عوام کو جلد بجلی دینے، مہنگائی روکنے، عوام کو روزگار دینے کے اعلانات حکومت میں آنے کے لیے کرتے تھے یہ اپوزیشن میں رہ کر وہی باتیں کرتے تھے جو اب اپوزیشن میں آصف زرداری کر رہے ہیں۔

عوام کو دھوکا دینے کے لیے اپوزیشن سنہری خواب دکھاتی ہے اور حکومت میں آ کر مسائل دیکھ کر ان کی آنکھ کھل جاتی ہے اور پھر وہ اپنے وعدوں سے انحراف کرنے لگتی ہے جیسا اب نواز حکومت کر رہی ہے تاجر وزیر اعظم نے اپنے رشتے دار کو وزیر خزانہ بنا رکھا ہے اب کون سی مجبوری وزیر اعظم کو عوام کو کچھ ڈلیور کرنے سے روک رہی ہے۔ در اصل یہ عوام کو گزشتہ حکومت کی طرح کچھ ڈلیور کرنا ہی نہیں چاہتے یہ اپوزیشن میں آ کر آ صف زرداری جیسی باتیں کریں گے۔
Load Next Story