جاگتے رہو…

اب جی ٹی روڈ کا مطلب آپ ہر گز مت یہ سمجھیے گا کہ یہ بادشاہ کا پنجاب ہے بلکہ یہ ہشت نگری ہے۔


انیس منصوری October 22, 2014
[email protected]

اگر کبھی شوہر کو معلوم ہو کہ آج میری ماں، بیوی کو نہیں چھوڑے گی تو میاں چپکے سے کھسک جاتا ہے۔ اس لیے کہ ایک طرف کھائی ہوتی ہے اور دوسری طرف بھی کھائی ہی ہوتی ہے۔ معرکہ ہونے کے بعد شوہر اتنی معصومیت سے گھر میں داخل ہوتا ہے جیسے اُس سے زیادہ معصوم اور لاعلم کوئی مخلوق ہی نہیں۔ اسی لیے تو ہر بار ایک اہم بل اسمبلی میں آنے سے پہلے MQM کا اختلاف ہو جاتا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ ہمیشہ میاں معصوم نظر آئے گا۔ لیکن آج میاں پر بات کم ہی کرنی ہے کیونکہ پچھلے ہفتے جو ہم نے حیدرآباد کی آوارہ مخلوق کو چھیڑا تھا اُس پر بہت زیادہ ہی لوگوں کو خوشی ہوئی تو سوچا کہ کیوں نا میاؤں میاؤں کو میاں میاں کرنے والی بلی کے گلے میں بھی گھنٹی باندھ دی جائے ۔

سیاست کا کمال یہ ہی ہوتا ہے کہ اُس میں ہر شخص سچ بول رہا ہوتا ہے۔ اگر کسی کو یہ دکھانا ہے کہ گندے نالوں میں بہتا ہوا پانی دودھ کی نہریں ہیں تو وہ یقین دلا دے گا کہ کرپشن کی وجہ سے گائے کا چارہ دو نمبر آ رہا ہے اس لیے گائے نے کالا دودھ دینا شروع کر دیا ہے اور اصل میں نالے میں سے جو کالا پانی گزر رہا ہے وہ دودھ ہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے خلاف سازشیں اتنی ہوئی ہیں کہ ہم اس کہانی کو بھی سازش مان کر تسلیم کر لیں گے اور دنیا کے کسی کونے سے کوئی حوالہ بھی ڈھونڈھ لیں گے کہ دنیا کہ کس کونے میں کس صدی میں کرپشن کی وجہ سے گائے نے کالا دودھ دینا شروع کر دیا تھا۔ ایسی سیاست میں کوئی نمبروں کی جیت کو گلے سے لگا کر ناچنا شروع کر دے یا کوئی اپنی ہار کو جمہور کی جیت کہہ دے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم تو بس یہ جانتے ہیں کہ ہمارے گھر کا دال دلیا ٹھیک ہے یا نہیں۔ ہمیں برگر کھانے والوں کے جشن کا کیا لینا۔ بس وہ کم از کم یہ نا کرے کہ ہمارا ''بن کباب'' سڑ جائے ۔ سُنا ہے جب پانی چلتا ہے تو اپنے ساتھ ہر چیز کو چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ پھر بھی پانی کو آئینہ دکھانے سے باز نہیں آتے۔

ہنسنے کی بات تو ہے کہ اگر آپ گدھے پر لکیریں ڈال دو تو زیبرا نہیں بنتا۔ اسی طرح بڑی بڑی باتیں کرنے سے آبادی کم تو نہیں ہو سکتی۔ کسی سے بھی پوچھئے کہ خیبرپختوانخوا حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے تو کوئی کہے گا کہ خواتین کی تصویریں نصاب سے نکال دینا اور کوئی بہت ہی بڑا سچا ہو گا تو وہ ارشاد فرمائے گا کہ پولیس کا بے مثال نظام۔ مجھے نہیں معلوم کے کاغذوں کے اوپر انگریزی میں تحریر نسخوں کو اگر کوئی اپنی کامیابی کہتا ہے یا پھر زمین سے ابلتا لاوا سچا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے ٹوئیٹر والے بھائی اور بہنیں خٹک صاحب کو کتنا جانتے ہیں۔ آئیے پہلے کہانی سنتے ہیں اور بھی تعارف کرانے کی گستاخی کرتے ہیں۔

ایک صاحب تحریک انصاف کے قلعے میں اپنے دوست کے ساتھ جی ٹی روڈ پر جا رہے تھے ۔ اب جی ٹی روڈ کا مطلب آپ ہر گز مت یہ سمجھیے گا کہ یہ بادشاہ کا پنجاب ہے بلکہ یہ ہشت نگری ہے۔ اب ظاہر ہے آپ کو یہ تو بتانا نہیں پڑے گا کہ یہ پشاور ہے۔ معلوم نہیں وہ کیا سمجھے کہ رات گیارہ بجے نکل پڑے۔ کچھ مشکوک مشکوک نظر آنے پر بے خبر پولیس والوں نے انھیں روک دیا ۔ جس پر صاحب نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کڑک لہجے میں کہا کہ وہ تحریک کے رہنما اور پشاور کے سابق سربراہ ہیں۔ جس پر تلخ کلامی ہوئی اور پولیس والے صاحب کو تھانے لے گئے۔ صاحب نے الزام لگایا کہ ایڈیشنل SHO ، کانسٹیبل اور وائرلیس آپریٹر نے اُن کے ساتھ بدسلوکی کی۔

پھر کیا تھا اپنی ہی پولیس کا گھیراؤ کر لیا گیا۔ اور روڈ کو بند کر دیا گیا۔ اوپر نیچے فون جانے لگے۔ اور کیوں کہ پولیس کے سربراہ بھی وزیر اعلیٰ ہی تھے تو انصاف کے علم برادر نے اپنے ہی تھانہ کلچر کے خلاف نعرے لگائے جن کی تعریف اسلام آباد کے جلسوں میں ختم نہیں ہوتی۔ اور پھر عظیم قانون حرکت میں آیا ۔ ایک جرگہ ہوا۔ ایڈیشنل SHO کی کلاس ہوئی معافی مانگی گئی اور انصاف کے علمبردار اپنے رہنما کو ساتھ لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ چھُپ کر جب پولیس سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ صرف تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ لیکن غریب کی کون سنتا ہے۔ دیکھا بچوں آپ نے کتنا بڑا انقلاب آ گیا ہے۔ پولیس کا نظام کتنا اچھا ہو گیا ہے۔ اور تھانہ کلچر ختم ہو گیا ہے۔ اور اب کوئی زمیندار، بدمعاش، دہشتگرد، سرمایہ دار تھانے کلچر کو خراب نہیں کر رہا۔ کوئی جرگہ نہیں ہو رہا اور قوم ترقی کی رہا پر جا رہی ہے۔ اسی دن صاحب کہہ رہے تھے کہ خیبرپختوانخوا میں نیا پاکستان بن رہا ہے۔ بالکل بن گیا ۔

یہ نیا پاکستان تو ہے جہاں کرپشن نہیں جہاں استعفیٰ اور حکومت گرانے کی بات ہو رہی ہے وہاں سب کچھ چل رہا ہے لیکن کیوں کہ دو نئے وزیروں نے حلف خیبرپختواخوا میں اٹھایا ہے اس لیے یہ ٹھیک ہے اور وہاں اگر وزیروں ، مشیروں کی تعداد 25 ہو گئی ہے تو کوئی بات نہیں۔ آخر حلیفوں کو بھی تو خوش کرنا ہوتا ہے۔ سُنا ہے سارے پڑھے لکھے لوگ نیا پاکستان چاہتے ہیں۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ نیا پاکستان بنانے والے پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اس کے لیے میرا ایک مشورہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول میں بہت عرصے سے سائنس کا کوئی ٹیچر نہیں۔ جتنے نوجوان آ رہے ہیں ان میں سے کسی ایک پڑھے لکھے کی ڈیوٹی لگا دیں کی وہ وہاں جا کر پڑھا دے آپ کی صوبائی حکومت نے اپنے وزیروں کی خالی جگہ تو فورا پُر کر دی لیکن اُن بچوں کا بھی سوچ لے۔ کیونکہ وہاں تو نیا پاکستان بن رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ جب یہ بن جائے تو بیچارے غریب محروم رہ جائے ۔۔

مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ پورے پاکستان کو ایک ساتھ نیا کرنا چاہتے ہوں ۔ اور اس کے لیے مشاورت بھی ہو رہی ہو ۔صرف مشوروں اور مشاورت کا یہ حال ہے کہ ڈونر ٹرسٹ فنڈ کے لاکھوں روپے صرف مشاورت میں ہی ختم ہو گئے ۔ اب آپ خود سوچیں کہ نئے پاکستان میں یہ ہو رہا ہے تو پرانے سندھ ، پنجاب اور بلوچستان میں کیا ہورہا ہوگا۔پچھلے ہفتے جب میں نے حیدرآباد کے کتوں اور اسپتال کا حال بتایا تھا تو لوگوں نے واہ واہ اور گو ...گو کے نعرے لگائے تھے ۔ آج بھی واہ واہ کیجیے گا جب آپ کو پتہ چلے کہ پشاور کے اسپتال کی مہنگی ایمرجنسی اس وقت کس حال میں ہے ۔۔ جہاں ڈاکٹر کم اور مریض زیادہ ہیں۔ شب قدر کے اسپتال کی صورت حال بھی دیکھ لیجیے گا ۔ دو بجٹ یہ حکومت دے چکی ہے ۔

وقت گزر گیا ہے اور اب نعروں کی بجائے تھوڑا سا کام بھی کر لیں۔ ورنہ پھر اور بھی باغی پیدا ہونگے ۔ اور یہ ضروری نہیں کہ آ پ ہر ایک کو داغی بنا دیں۔ کیونکہ خیبرپختوانخوا کی یہ روایت نہیں ہے۔ دس سال میں انھوں نے پہلے MMA پھر ANP اور اب آپ کو ووٹ دیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ نیا پاکستان بنتے بنتے خیبرپختوانخوا پرانا ہی رہ جائے اور اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وہ نیا کارتوس ڈھونڈھ لے ...اس لیے جاگتے رہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں