اختلافات اور الزامات کی ہوا چل پڑی
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے راہ نماؤں میں سخت بیانات کا تبادلہ
سندھ کے سیاسی محاذ پر صورتِ حال کشیدہ نظر آرہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے مابین سیاسی قربتیں دم توڑ چکی ہیں۔
ایم کیو ایم نے حکومتِ سندھ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور دونوں سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کی جانب سے سخت بیانات اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اتوار کو ایم کیو ایم نے پاکستان اور لندن کی رابطہ کمیٹی کے مشترکہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اپنے حصے کی قربانی دے چکی ہے، اب اپنا حق اور صوبہ لے کر رہیں گے۔
پارٹی کے مرکز نائن زیرو پر رابطہ کمیٹی کے ارکان کے علاوہ قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین اور کارکنان موجود تھے۔ گذشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف سخت بیان سامنے آیا تھا، جس کے بعد ان جماعتوں میں کشیدگی بڑھی۔ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیوایم 1997 تک مہاجر قومی موومنٹ تھی اور پیپلز پارٹی کے 93 کے اس سیاہ دور میں ایک بدترین آپریشن کا سامنا کر کے عوام کے سامنے آئی تھی۔ اگر لاشوں اور نفرت کی سیاست کرنی ہوتی تو اس وقت پیپلز پارٹی نے ہمارے لیے میدان سجا دیا تھا، لیکن الطاف حسین نے نفرتوں کے خاتمے اور عوام کو جوڑے رکھنے کی سیاست کی اور مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی 1989 میں حیدر آباد میں مہاجر نوجوانوں کو شہید کر کے سندھ کے شہری اور دیہی عوام میں خلیج ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن اس وقت بھی الطاف حسین نے نفرت کو ختم کرنے کی بات کی اور جب ایک سندھی کو وزیر اعظم بننے کے لیے ہمارے اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پڑی تو ان کی حمایت کی اور جب آصف علی زرداری اس دہلیز پر ہماری حمایت مانگنے آئے تو انہیں بھی مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی پی پی کے چیئر مین بلاول زرداری نے بلاجواز الطاف حسین کا نام لے کر انہیں دھمکی دی، جس سے ایم کیو ایم کے کارکنان کے سینے میں غم و غصہ تھا، لیکن ہمارے قائد نے ہمیں صبر کرنے کی تلقین کی۔
خورشید شاہ نے لفظ مہاجرکو گالی قرار دیا اور پھر بلاول زرداری کی جلسے میں تقریر کے بعد پیپلز پارٹی کی حمایت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے طے ہوا تھا کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں گے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، پاکستان کی آبادی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ صوبوں کے قیام کا مطالبہ کیا تھا تاکہ عوام کو با اختیار بنایا جا سکے، لیکن اس مطالبے کو بھی نفرت کی نگا ہ سے دیکھا گیا۔ تاہم اب ایم کیو ایم صوبوں کے مطالبے سے کسی طور دست بردار نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھاکہ پیپلز پارٹی کی قیادت جاگیر داروں اور وڈیروں پر مشتمل ہے اور جہاں وڈیرا شاہی ہو وہاں انصاف اور تعلیم کی فراہمی ممکن نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ الطاف حسین سے متعلق سخت زبان پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ الطاف حسین نے سندھ کے شہری علاقوں کے 98 فی صد مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس نوجوانوں کو اسمبلی میں پہنچا کر ان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بلاول زرداری کا چیئر مین منتخب ہونے کا پیمانہ موروثی سیاست ہے تو بھی بھٹو کا وارث بھٹو ہی ہو گا، زرداری نہیں ہوسکتا۔ بلاول زرداری بیمبینو سنیما کے تو وارث ہوسکتے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی کے نہیں۔ انہوں نے بلاول کے ایک بیان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ الطاف حسین کا جینا حرام کرنے کی بات کر رہے ہیں، لیکن عوا م کو یہ تو بتائیں کہ کیا اپنی ماں کے قاتلوں کا جینا حرام کیا، اپنی جماعت کے قائد اور بانی ذوالفقار علی بھٹو، مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کا جینا حرام کیا؟ ہم نفرت کے جواب میں نفرت کی زبان میں با ت کرنا نہیں چاہتے، لیکن اب ہم جس راستے پر چلیں گے، منزل اسی راستے پر ہے۔ ایم کیو ایم کے حکومت سے علیحدگی کے اعلان کے بعد وہاں موجود کارکنا ن نے گو زرداری گو، گو بلاول گو اور الطاف حسین حق میں نعرے لگائے۔
ہفتے کے روز کراچی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا گیا، جس میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطاب میں کہا کہ جمہوریت اور ملک کا نظام درہم برہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بیرونی طاقتیں پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ انہوں نے جہاں آمریت کے خلاف بات کی، وہیں اپنی تقریر میں مخالف سیاسی جماعتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی سب کا شہر ہے، کراچی میں پیپلز پارٹی کے خلاف دھاندلی ہوئی، لیکن ہم نے تحریک نہیں چلائی، پی ٹی آئی لاہور کی ایم کیو ایم بننا چاہتی ہے، شفاف الیکشن ہوئے تو کراچی کو آزادی ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور ہم اسے دنیا کا عظیم شہر بنائیں گے، وزیر اعظم کراچی کو اس کا حق دیں۔ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم کراچی کو یتیم نہیں چھوڑیں گے۔ بلاول بھٹو نے سانحۂ کارساز کے شہدا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2007 میں اسی تاریخ کو آمریت کے مارے ہوئے لوگوں کو امید کی کرن نظر آئی تھی، جب بھٹو کی بیٹی اس ملک میں آمریت کے خاتمے کا عزم لے کر آئی، جسے آمریت کے پرستاروں نے خون میں نہلا دیا۔ جلسہ گاہ میں موجود شرکا کے ہاتھوں میں پارٹی کے جھنڈے، شہید ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی تصاویر تھیں اور جلسہ گاہ میں پارٹی ترانوں اور نعروں کی گونج سنائی دیتی رہی۔
اندرون سندھ اور دیگر صوبوں سے آنے والے قافلوں کا استقبال نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے پر کیا گیا۔ کراچی کی حدود میں پی پی پی کے استقبالیہ کیمپ لگائے گئے تھے۔ جلسے میں شریک ہونے سے قبل کارکنان کی بڑی تعداد نے سانحۂ کارساز کی یادگار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔
ایم کیو ایم نے حکومتِ سندھ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور دونوں سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کی جانب سے سخت بیانات اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اتوار کو ایم کیو ایم نے پاکستان اور لندن کی رابطہ کمیٹی کے مشترکہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اپنے حصے کی قربانی دے چکی ہے، اب اپنا حق اور صوبہ لے کر رہیں گے۔
پارٹی کے مرکز نائن زیرو پر رابطہ کمیٹی کے ارکان کے علاوہ قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین اور کارکنان موجود تھے۔ گذشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف سخت بیان سامنے آیا تھا، جس کے بعد ان جماعتوں میں کشیدگی بڑھی۔ پریس کانفرنس میں ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ایم کیوایم 1997 تک مہاجر قومی موومنٹ تھی اور پیپلز پارٹی کے 93 کے اس سیاہ دور میں ایک بدترین آپریشن کا سامنا کر کے عوام کے سامنے آئی تھی۔ اگر لاشوں اور نفرت کی سیاست کرنی ہوتی تو اس وقت پیپلز پارٹی نے ہمارے لیے میدان سجا دیا تھا، لیکن الطاف حسین نے نفرتوں کے خاتمے اور عوام کو جوڑے رکھنے کی سیاست کی اور مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی 1989 میں حیدر آباد میں مہاجر نوجوانوں کو شہید کر کے سندھ کے شہری اور دیہی عوام میں خلیج ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن اس وقت بھی الطاف حسین نے نفرت کو ختم کرنے کی بات کی اور جب ایک سندھی کو وزیر اعظم بننے کے لیے ہمارے اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پڑی تو ان کی حمایت کی اور جب آصف علی زرداری اس دہلیز پر ہماری حمایت مانگنے آئے تو انہیں بھی مایوس نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی پی پی کے چیئر مین بلاول زرداری نے بلاجواز الطاف حسین کا نام لے کر انہیں دھمکی دی، جس سے ایم کیو ایم کے کارکنان کے سینے میں غم و غصہ تھا، لیکن ہمارے قائد نے ہمیں صبر کرنے کی تلقین کی۔
خورشید شاہ نے لفظ مہاجرکو گالی قرار دیا اور پھر بلاول زرداری کی جلسے میں تقریر کے بعد پیپلز پارٹی کی حمایت کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے طے ہوا تھا کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں گے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، پاکستان کی آبادی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ صوبوں کے قیام کا مطالبہ کیا تھا تاکہ عوام کو با اختیار بنایا جا سکے، لیکن اس مطالبے کو بھی نفرت کی نگا ہ سے دیکھا گیا۔ تاہم اب ایم کیو ایم صوبوں کے مطالبے سے کسی طور دست بردار نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھاکہ پیپلز پارٹی کی قیادت جاگیر داروں اور وڈیروں پر مشتمل ہے اور جہاں وڈیرا شاہی ہو وہاں انصاف اور تعلیم کی فراہمی ممکن نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ الطاف حسین سے متعلق سخت زبان پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ الطاف حسین نے سندھ کے شہری علاقوں کے 98 فی صد مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس نوجوانوں کو اسمبلی میں پہنچا کر ان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بلاول زرداری کا چیئر مین منتخب ہونے کا پیمانہ موروثی سیاست ہے تو بھی بھٹو کا وارث بھٹو ہی ہو گا، زرداری نہیں ہوسکتا۔ بلاول زرداری بیمبینو سنیما کے تو وارث ہوسکتے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی کے نہیں۔ انہوں نے بلاول کے ایک بیان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ الطاف حسین کا جینا حرام کرنے کی بات کر رہے ہیں، لیکن عوا م کو یہ تو بتائیں کہ کیا اپنی ماں کے قاتلوں کا جینا حرام کیا، اپنی جماعت کے قائد اور بانی ذوالفقار علی بھٹو، مرتضیٰ بھٹو کے قاتلوں کا جینا حرام کیا؟ ہم نفرت کے جواب میں نفرت کی زبان میں با ت کرنا نہیں چاہتے، لیکن اب ہم جس راستے پر چلیں گے، منزل اسی راستے پر ہے۔ ایم کیو ایم کے حکومت سے علیحدگی کے اعلان کے بعد وہاں موجود کارکنا ن نے گو زرداری گو، گو بلاول گو اور الطاف حسین حق میں نعرے لگائے۔
ہفتے کے روز کراچی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا گیا، جس میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطاب میں کہا کہ جمہوریت اور ملک کا نظام درہم برہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بیرونی طاقتیں پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ انہوں نے جہاں آمریت کے خلاف بات کی، وہیں اپنی تقریر میں مخالف سیاسی جماعتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی سب کا شہر ہے، کراچی میں پیپلز پارٹی کے خلاف دھاندلی ہوئی، لیکن ہم نے تحریک نہیں چلائی، پی ٹی آئی لاہور کی ایم کیو ایم بننا چاہتی ہے، شفاف الیکشن ہوئے تو کراچی کو آزادی ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور ہم اسے دنیا کا عظیم شہر بنائیں گے، وزیر اعظم کراچی کو اس کا حق دیں۔ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم کراچی کو یتیم نہیں چھوڑیں گے۔ بلاول بھٹو نے سانحۂ کارساز کے شہدا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2007 میں اسی تاریخ کو آمریت کے مارے ہوئے لوگوں کو امید کی کرن نظر آئی تھی، جب بھٹو کی بیٹی اس ملک میں آمریت کے خاتمے کا عزم لے کر آئی، جسے آمریت کے پرستاروں نے خون میں نہلا دیا۔ جلسہ گاہ میں موجود شرکا کے ہاتھوں میں پارٹی کے جھنڈے، شہید ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی تصاویر تھیں اور جلسہ گاہ میں پارٹی ترانوں اور نعروں کی گونج سنائی دیتی رہی۔
اندرون سندھ اور دیگر صوبوں سے آنے والے قافلوں کا استقبال نیشنل ہائی وے اور سپر ہائی وے پر کیا گیا۔ کراچی کی حدود میں پی پی پی کے استقبالیہ کیمپ لگائے گئے تھے۔ جلسے میں شریک ہونے سے قبل کارکنان کی بڑی تعداد نے سانحۂ کارساز کی یادگار پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔