پاکستان ایک نظر میں ایدھی صاحب اور کٹہرا
ایدھی صاحب کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ ڈکیتی کے واقعات بار بار کیوں پیش آ رہے ہیں؟
اگر آپ دن رات ایک کر کے اپنے خون پسینے سے کمائی ہوئی رقم کسی فقیر کے ہاتھ پراللہ کی رضا کیلئے رکھیں اور دوسرے ہی لمحے وہ فقیر اس رقم کو گٹر میں ڈال دے تو آپ پر کیا بیتے گی؟اللہ کی رضا کا پہلو اورآپ کی تمام تر ہمدردی یقیناًاسی لمحے ہَوا ہو جائے گی اور آپ کو اس فقیر کی نسبت اپنے اوپر زیادہ غصہ آئے گا کہ آپ نے اسے وہ رقم دی ہی کیوںیا آپ یہ کہہ کر آگے چل دیں گے کہ ''اللہ کو یہی منظور تھا''؟ اسی طرح اگر آپ کراچی جیسے شہر کے رہائشی ہوں اور آپ نے اپنا قیمتی سونا اورغیر ملکی کرنسی کسی بااعتبار شخص کو امانتاً دی ہو اور اس شخص سے وہ سب کچھ ڈاکو لوٹ کر لے جائیں تو کیا آپ اس شخص کو اس کوتاہی کا ذمہ دار سمجھیں گے یایہ کہہ کرمسئلہ ختم کر دیں گے کہ ''اللہ کو یہی منظور تھا''؟ نہیں ہر گز نہیں! بقول اقبالؔ
عبدالستار ایدھی،ایک ایسا نام جو کہ اس ملک کے سما جی حلقوں میں انتہائی احترام سے لیا جاتا ہے اور ان کی انسان دوست کاوشوں کا ہر خاص وعام معترف ہے،انسان کا نام جتنا بڑا ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہیں،زمین پر چلنے والا شخص اگر پھسل کر گر جائے تو اسے کم چوٹ آتی ہے لیکن اگر تَنی ہوئی رسّی پر سے کوئی شخص پھسل کر گر جائے تو اس کو لگنے والی چوٹوں کی نوعیت زمین پر چلنے والے شخص کی نسبت کہیں زیادہ سنگین ہو سکتی ہے۔اگرمیری رقم میری کوتاہی سے چوری ہو جائے تو اس کا دکھ صرف مجھے ہوگا لیکن اگر چندے میں ملی ہوئی رقم میری کوتاہی سے ڈاکو لوٹ لیں تواس کا دکھ نہ صرف مجھے ہوگا بلکہ ہزاروں لاکھوں ان چندہ دینے والے افراد کو بھی ہوگا جنھوں نے اپنی کمائی میں سے وہ رقم فلاحی کاموں کیلئے دی تھی اور آئندہ کے لیئے ان افراد کا اللہ کی رضا والا پہلو بھی ہَوا ہو جائے گا اور وہ اگلی دفعہ چندہ دینے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے ضرور۔
ایدھی سنٹر کراچی میں ہونے والی حالیہ ڈکیتی انتہائی قابلِ مذمت ہے مگر مسئلہ صرف مذمت کرنے یا'' اللہ کو یہی منظور تھا'' کہہ دینے سے حل نہیں ہوتا بلکہ تمام عوامل کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالنے اور غیر جانبدارانہ و غیر جذباتی تجزیہ کرنے سے حل ہوتا ہے۔
ایدھی صاحب کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ڈکیتی کے واقعات کیوں پیش آ رہے ہیں؟ ماضی میں ان کی ایک زوجہ ''محترمہ'' ایدھی صاحب کو چونا لگا گئی تھیں اور اس مرتبہ عین ممکن ہے کہ انہوں نے پچھلی رقم ختم ہونے پر مزید رقم لانے کے لیئے اپنے 'ڈاکو بھائی'بھیج دیئے ہوں اورہمارے ہاں جو سیکیورٹی کا معیار ہے وہ تو ویسے ہی ''اللہ کے بھروسے''پر چل رہا ہے اور جو چل رہا ہے وہ بھی مشرف دورسے لیکر موجودہ حکومت تک کی پالیسیزکی طرح کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں سیکیورٹی کا اتنا اعلیٰ نظام قائم ہے کہ بس باہر گیٹ پرآپ کی تلاشی لیئے بِنا اوربغیر تصدیق کیئے آپ کا شناختی کارڈ رکھ لیا جاتا ہے کہ یہ آپ کا ہے بھی یا نہیں، آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ لیپ ٹاپ تو نہیں ہے آپ کے پاس اور آپ کا سر نفی میں ہلتا دیکھ کر انہیں ''تسلّی''ہو جاتی ہے کہ واقعی ایسا نہیں ہے بیشک ڈگی میں ایٹم بم ہی کیوں نہ پڑا ہو اورسیکیورٹی کلیئر کر کے خاموشی کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ ''بیٹا! چل گھس جااندر اور جو مرضی کر''،اب آپ اندر جا کر پٹاخے پھوڑیں یا بم پھوڑیں،سیکیورٹی والوں کی دانست میں انکے پاس آپ کی شناخت موجود ہے اور بس انہیں اپنی جان بچانے کے لیئے اسی شناخت کی ضرورت ہوتی ہے بیشک بعد میں وہ آئڈینٹٹی کسی چالیس سال پہلے دنیا سے رخصت ہوئے انسان کی نکلے۔اور 'اللہ کو یہی منظور تھا'جیسا منظورِ نظر جملہ بڑے بڑے سیکیورٹی فلاز پر پردہ ڈال دیتا ہے تو ایدھی سنٹر کی ڈکیتی کس لالو کھیت کی مولی ہے؟
ایدھی صاحب سے گزارش ہے کہ چندے میں ملنے والے' اندھے پیسے 'کو کسی اندھے کے حوالے نہ کیا کریں بلکہ حقیقی جمہوریت کی طرح حقیقی سیکیورٹی کا بندوبست کریں ورنہ ڈاکو اسی طرح مستقبل میں بھی اپنا 'بندوبست'آپ کے سنٹرکے مال سے کرتے رہیں گے،جس طرح آبدوز کا جب تک زمینی رابطہ نہیں ہوتا وہ اپنا سفرصحیح سمت میں جاری نہیں رکھ سکتی بالکل اسی طرح ڈاکو آپ کے سنٹر کے ملازمین سے 'زیرِزمین' رابطوں کے بغیر ہاتھ کی صفائی نہیں دکھا سکتے۔ کروڑوں پاکستانیوں کو جو آپ پر اعتماد ہے اسے ختم نہ ہونے دیں ورنہ اس قوم کا المیہ یاد رکھیں کہ کہیں آنے والے دنوں میں خدانخواستہ ایسے ہی کسی ڈکیتی کے واقع کے بعد آپ خود ڈکیتی کے ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں نہ کھڑے ہوں کیونکہ ہماری پولیس کی مطابق اگر شوہر قتل ہو تو بیوی قاتل اور اگر بیوی قتل ہو تو شوہر قاتل ہوتا ہے۔ اور آپ کٹہرے میں کھڑے یہ نہ کہہ رہے ہوں کہ ''اللہ کو یہی منظور تھا''۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تقدیر کے پابند نباتات وجمادات
عبدالستار ایدھی،ایک ایسا نام جو کہ اس ملک کے سما جی حلقوں میں انتہائی احترام سے لیا جاتا ہے اور ان کی انسان دوست کاوشوں کا ہر خاص وعام معترف ہے،انسان کا نام جتنا بڑا ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہیں،زمین پر چلنے والا شخص اگر پھسل کر گر جائے تو اسے کم چوٹ آتی ہے لیکن اگر تَنی ہوئی رسّی پر سے کوئی شخص پھسل کر گر جائے تو اس کو لگنے والی چوٹوں کی نوعیت زمین پر چلنے والے شخص کی نسبت کہیں زیادہ سنگین ہو سکتی ہے۔اگرمیری رقم میری کوتاہی سے چوری ہو جائے تو اس کا دکھ صرف مجھے ہوگا لیکن اگر چندے میں ملی ہوئی رقم میری کوتاہی سے ڈاکو لوٹ لیں تواس کا دکھ نہ صرف مجھے ہوگا بلکہ ہزاروں لاکھوں ان چندہ دینے والے افراد کو بھی ہوگا جنھوں نے اپنی کمائی میں سے وہ رقم فلاحی کاموں کیلئے دی تھی اور آئندہ کے لیئے ان افراد کا اللہ کی رضا والا پہلو بھی ہَوا ہو جائے گا اور وہ اگلی دفعہ چندہ دینے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے ضرور۔
ایدھی سنٹر کراچی میں ہونے والی حالیہ ڈکیتی انتہائی قابلِ مذمت ہے مگر مسئلہ صرف مذمت کرنے یا'' اللہ کو یہی منظور تھا'' کہہ دینے سے حل نہیں ہوتا بلکہ تمام عوامل کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اپنی کوتاہیوں پر نظر ڈالنے اور غیر جانبدارانہ و غیر جذباتی تجزیہ کرنے سے حل ہوتا ہے۔
ایدھی صاحب کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ ڈکیتی کے واقعات کیوں پیش آ رہے ہیں؟ ماضی میں ان کی ایک زوجہ ''محترمہ'' ایدھی صاحب کو چونا لگا گئی تھیں اور اس مرتبہ عین ممکن ہے کہ انہوں نے پچھلی رقم ختم ہونے پر مزید رقم لانے کے لیئے اپنے 'ڈاکو بھائی'بھیج دیئے ہوں اورہمارے ہاں جو سیکیورٹی کا معیار ہے وہ تو ویسے ہی ''اللہ کے بھروسے''پر چل رہا ہے اور جو چل رہا ہے وہ بھی مشرف دورسے لیکر موجودہ حکومت تک کی پالیسیزکی طرح کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں سیکیورٹی کا اتنا اعلیٰ نظام قائم ہے کہ بس باہر گیٹ پرآپ کی تلاشی لیئے بِنا اوربغیر تصدیق کیئے آپ کا شناختی کارڈ رکھ لیا جاتا ہے کہ یہ آپ کا ہے بھی یا نہیں، آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ لیپ ٹاپ تو نہیں ہے آپ کے پاس اور آپ کا سر نفی میں ہلتا دیکھ کر انہیں ''تسلّی''ہو جاتی ہے کہ واقعی ایسا نہیں ہے بیشک ڈگی میں ایٹم بم ہی کیوں نہ پڑا ہو اورسیکیورٹی کلیئر کر کے خاموشی کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ ''بیٹا! چل گھس جااندر اور جو مرضی کر''،اب آپ اندر جا کر پٹاخے پھوڑیں یا بم پھوڑیں،سیکیورٹی والوں کی دانست میں انکے پاس آپ کی شناخت موجود ہے اور بس انہیں اپنی جان بچانے کے لیئے اسی شناخت کی ضرورت ہوتی ہے بیشک بعد میں وہ آئڈینٹٹی کسی چالیس سال پہلے دنیا سے رخصت ہوئے انسان کی نکلے۔اور 'اللہ کو یہی منظور تھا'جیسا منظورِ نظر جملہ بڑے بڑے سیکیورٹی فلاز پر پردہ ڈال دیتا ہے تو ایدھی سنٹر کی ڈکیتی کس لالو کھیت کی مولی ہے؟
ایدھی صاحب سے گزارش ہے کہ چندے میں ملنے والے' اندھے پیسے 'کو کسی اندھے کے حوالے نہ کیا کریں بلکہ حقیقی جمہوریت کی طرح حقیقی سیکیورٹی کا بندوبست کریں ورنہ ڈاکو اسی طرح مستقبل میں بھی اپنا 'بندوبست'آپ کے سنٹرکے مال سے کرتے رہیں گے،جس طرح آبدوز کا جب تک زمینی رابطہ نہیں ہوتا وہ اپنا سفرصحیح سمت میں جاری نہیں رکھ سکتی بالکل اسی طرح ڈاکو آپ کے سنٹر کے ملازمین سے 'زیرِزمین' رابطوں کے بغیر ہاتھ کی صفائی نہیں دکھا سکتے۔ کروڑوں پاکستانیوں کو جو آپ پر اعتماد ہے اسے ختم نہ ہونے دیں ورنہ اس قوم کا المیہ یاد رکھیں کہ کہیں آنے والے دنوں میں خدانخواستہ ایسے ہی کسی ڈکیتی کے واقع کے بعد آپ خود ڈکیتی کے ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں نہ کھڑے ہوں کیونکہ ہماری پولیس کی مطابق اگر شوہر قتل ہو تو بیوی قاتل اور اگر بیوی قتل ہو تو شوہر قاتل ہوتا ہے۔ اور آپ کٹہرے میں کھڑے یہ نہ کہہ رہے ہوں کہ ''اللہ کو یہی منظور تھا''۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔