بات کچھ اِدھر اُدھر کی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
20 سال پہلے لاہور میں ایک خوبرونوجوان رہتا تھا، اسے بائیک چلانے کا بےحد شوق تھا، کبھی موٹر سائیکل کو تیز چلاتا اور کھبی کرتب دکھاتا ایک دو دفعہ اس نےایک موٹر سائیکل کمپنی میں ماڈلنگ کے جوہر بھی دکھائے، پھر نجانے اسے کیا سوجھا کہ ایک دن 25 کاروں کے اوپر سے جمپ لگانے کی ٹھان لی۔ انہی دنوں سلطان گولڈن کافی مقبول تھے جو گاڑیوں سے اوپر سے موٹر سائیکل گزارتے اور مختلف کرتب دکھایا کرتے تھے۔
وہ نوجوان سلطان گولڈن کے ریکارڈ کو توڑنا چاہتا تھا، لہذا لاہور فورٹریس اسٹیڈیم میں تقریب کا اہتمام کیا گیا، لیکن فنی خرابی کی وجہ سے وہ نوجوان 25 گاڑیوں کو عبور نہ کرسکا اور ریمپ سے جاٹکرایا۔ اور آج ہم سب کامران سعید دریالیہ کو مرحوم کے نام سے جانتے ہیں۔ اس حادثے نے پورے پاکستان کی عوام کو اشکبار کردیا۔ مں سوچتا ہوں آخر اس کا قصور کیا تھا؟ کیا اس کی موت ایسے ہی لکھی تھی ؟ کیا یہ خطرناک کھیل کھیلنا اس کے لئے بہت ضروری تھا؟ کیا انسانی جان اتنی سستی ہے کہ یوں چلتے پھرتے کرتب بازی میں گنوا دی جائے ؟۔ کامران اپنے شوق کے خاطر بے خبر اپنے ہاتھوں اپنی موت کا سامان اکٹھا کررہا تھا۔
واقعے کے بعد چیلنز اور اخبارات میں چینخ چینخ کی حکومت سے ون ویلنگ کے کھیل پر پابندی لگانے کی استدعا کی گئی، لیکن سب بے سود رہا۔ وقت گزرتا رہا اور 10 سا بعد بھر ایک خوبرو نوجوان سبیح احمد جو پورے لاہور میں ویلنگ اور ریسنگ کا ماہر مانا جاتا تھا اسی موٹرسائیکل کے خطرناک کھیل میں جان ہار بیٹھا۔
یہ خطرناک کھیل ہزاروں نوجوانوں کی جان لے چکا ہے، لیکن حکومت کی جانب سے ہر بار خاموشی ہی سامنے آئی ہے۔ کیا حکمرانوں کو ملک اور قوم کے مستقبل کی بلکل فکر نہیں؟۔ میری حکومت وقت سے گزارش ہے کہ سڑک پرہونی والی ایسی حرکات کا سختی سے نوٹس لے جائے اور پبلک جگہوں پر ون ویلنگ وریسنگ کو ہمیشہ کے لیے بند کیا جائے۔ اگر یہ خطرناک کھیل جاری رکھنا اتنا ہی ضروری ہے تو ان منچلے نوجوانوں کے لئے ریسنگ اور ویلنگ کے مخصوص ٹریک بنائے جایئں یا دنیا بھر کے ممالک کی طرح ریسنگ اسٹیڈیم قائم کئے جائیں۔ ساتھ ہی اس خطرناک کھیل کو محفوظ بنانے کے نئے قواعد وضوابط بنائے جائے جن میں ہیلمنٹ پہننا اور حفاظتی لباس لازمی قرار دیئے جایئں تاکہ انسانی جانوں کو بچایا جاسکے۔
میری ان تمام ویلنگ و ریسنگ کے شوقین حضرات سے درخواست ہے کہ آپ جب بھی بایئک پر تشریف فرما ہوں تو پیچھے مڑ کہ اپنے گھر کی جانب ایک نظرضرور دوڑایئں کہ آپ کے والدین اور بہن بھائی آپ سے بے انتہا محبت کرتے کہیں یہ شوق آپ کو ان سے دور نہ کردے۔ اوراگرآپ کی نظر میں گھر والوں کی اہمیت نہیں تو اپنی زندگی کی تو قدر ہوگی نا۔
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
کاش نوجوان زندگی کی قیمت سمجھ سکیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔