دھرنے کا اختتام اہم پیش رفت

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپوزیشن اور سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر عمران خان کو بھی دھرنا ختم کرنے پر راضی کرے

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپوزیشن اور سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر عمران خان کو بھی دھرنا ختم کرنے پر راضی کرے۔ فوٹو: آن لائن/فائل

عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے اسلام آباد میں جاری دھرنا ختم کر کے پورے ملک میں دھرنے دینے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے اسلام آباد میں 2 ماہ سے زائد عرصے سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان شرکا سے اپنے آخری خطاب میں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں دھرنا مکمل ہوگیا ہے، ہم نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں، اب پورے ملک میں دھرنے پھیلائیں گے۔

ملک میں جاری اعصاب شکن سیاسی بحران کے پیش نظر اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان بلاشبہ ایک اہم پیش رفت ہے، تاہم سیاسی کشمکش کے تناظر میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ حکومت کی فتح ہے، ہاں البتہ بارش سنگ ختم ہوئی، چونکہ ابھی تحریک انصاف پاکستان کے سربراہ عمران خان اپنے مورچے میں بدستور ڈٹے ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ''نوازشریف کے استعفے کے بغیر کنٹینر سے نہیں نکلوں گا، جعلی اسمبلیوں کو نہیں مانتا، اسپیکر ہمارے استعفے منظور کر لیں، محرم آنے کے باوجود ہم اسلام آباد سے نہیں جائیں گے، محرم کے بعد حکومت ہمارا دباؤ برداشت نہیں کرسکے گی۔'' اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی اہل اقتدار کو ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے استدلال پیش کیا ہے کہ اندازے اگرچہ غلط نکلے، حکومت تبدیل نہیں ہوئی تاہم عوامی شعور بیدار کرنے میں انھیں زبردست کامیابی ہوئی۔

ان کا کہنا ہے کہ انقلاب ایک سفر ہے جو مرحلہ وار جاری رہتا ہے، چنانچہ پیداشدہ صورتحال خاصی چیلنجنگ ہے جس میں دھرنے اور جلسوں کی طرف مائل قوتوں اور وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی حکومتی ٹیم کو اپنے سیاسی عمل میں مثبت پیش قدمی کو مدنظر رکھنا ہوگا، اس امر سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ دھرنوں سے بہرحال ملکی معیشت کمزور ہوئی ہے، حکومت پر سخت مشکل وقت آن پڑا اور اسے اپنے کئی اہم کام موخر کرنا پڑے، غیر ملکی سربراہوں کے دورے منسوخ ہوئے، لیکن حکومت کی طرف سے دھرنوں اور حالیہ دنوں میں جلسوں کے دوران جس تدبر، تحمل اور رواداری کا مظاہرہ کیا گیا وہ مثبت اور قابل تعریف ہے۔


وزیراعظم نے اپنے وزراء اور لیگی رہنماؤں کو دھرنا ختم کرنے کے اعلان پر منفی بیان بازی سے روک کر سیاسی خیر سگالی کا پیغام دیا اور اپنے مفاہمانہ طرز عمل سے حالات کو تصادم اور پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں جانے دیا۔ اسی کشادہ ظرفی کے تحت حکومت نے خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر میں وفاق کی مداخلت اور عدم اعتماد کی تحریکوں سے گریز کرکے ایک صحت مند سیاسی اشارہ دیا ہے۔ یوں بھی پارلیمانی جمہوریت کا اصول ہے کہ بیانات صرف پارٹی پالیسی کے تحت ہی مجاز عہدیدار جاری کرتے ہیں۔ لہٰذا اب دباؤ کے کم ہوجانے سے حکومت کو سانس لینے کا موقع بھی ملے گا جب کہ سیاسی بحران کی شدت میں کمی کے آثار بھی نمایاں ہوں گے جو ملکی مفاد کا تقاضا ہے۔ دوسری جانب دھرنوں کے حوالے سے سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور حکومت کے رویے کا نیا طرز احساس سامنے آیا جو تبدیلی، انقلاب اور آزادی کے نئے مطالب اور آدرش کے ساتھ عوامی قلوب اور لہو کو گرما گیا ہے۔

یہاں یہ صریحاً بے انصافی ہوگی اگر دھرنوں کے شرکا کو داد نہ دی جائے، جنھوں نے دو ماہ تک موسم گرما، بارش اور ہر انتظامی سختی کو استقامت کے ساتھ برداشت کیا، دھرنوں نے اسٹیٹس کو اور جمود زدہ سیاسی نظام کی چولیں ہلا ڈالیں، تبدیلی کا طبل بجایا۔ آئین و قانون کے مطابق دھرنے اور جلسے ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، اس لیے دھرنے کے خاتمہ پر تنقید مناسب نہیں، سیاسی بحران ابھی جاری ہے جسے روکنے کے لیے تمام سیاسی اکابرین کو مشترکہ قومی مفاد کے تحت ملک کو معاشی ترقی، عوامی خوشحالی اور جمہوری طور طریقوں سے منزل کی طرف گامزن کرنا چاہیے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپوزیشن اور سیاسی قوتوں کو ساتھ ملا کر عمران خان کو بھی دھرنا ختم کرنے پر راضی کرے، کیونکہ ملک دہشت گردی، داخلی عدم استحکام اور شدید معاشی مسائل اور غیر ملکی جارحیت کے خطرات میں گھرا ہوا ہے، ملک دشمن عناصر پاکستان کو ساری دنیا سے الگ کردینا چاہتے ہیں۔ جہاں تک جمہوری اور سیاسی عمل کا تعلق ہے دھرنے کی کال دینے والی جماعتوں اور شرکا سمیت میڈیا نے ملکی تاریخ کے اس انوکھے اور منفرد تجربے سے بہت کچھ حاصل کیا، عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری کی جانب سے دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے بعد ''بیرونی سیکیورٹی حصار'' میں 70 پولیس اہلکاروں کی نفری کو مزیدکم کرکے 30 پولیس اہلکار تعینات کردیے گئے جب کہ آئی جی نے عوامی تحریک کے کارکنوں کو بس اڈوں تک فول پروف سیکیورٹی دینے کا حکم دیا۔

ادھر سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طاہر القادری کا انقلاب دھرنا ختم ہونے سے پنجاب حکومت پر دباؤ ضرور کم ہوگا۔ اب وہ دو دن دھرنا دیں یا چار دن، اس کا حکومت پر دباؤ نہیں ہوگا جو اسلام آباد میں مستقل دھرنے سے قائم تھا۔ یہ ن لیگ کی فتح تو نہیں ہے، تاہم گذشتہ ساٹھ سے زائد دنوں کی بدولت لوگوں میں شعور پیدا ہوا ہے، اب روایتی انداز حکمرانی نہیں چل سکتا۔ قوم جاگ گئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی اور جمہوری قوتیں ملک کو درپیش بحران کے خاتمے کے لیے نتیجہ خیز مشترکہ جدوجہد کا آغاز کریں۔
Load Next Story