ضرورت مند اور لالچی

اکثریتی افراد کو انکی اقتصادی ضرورتیں بدعنوانی پر مجبور کرتی ہیں تاکہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے خوراک کا بندوبست کرسکیں

جنیوا میں قائم ورلڈ اکنامک فورم (ڈبلیو ای ایف) میں بدعنوانی کے خلاف شراکت داری کے عنوان سے انسداد بدعنوانی کے پیغام پر بحث کرتے ہوئے ''اولین ترجیح کے چیلنجز'' اور ''اجتماعی کارروائی'' پر حالیہ اجلاس کے پہلے روز بات چیت ہوئی۔ دیگر موضوعات میں ''عالمگیر خطرات اور رجحانات'' اور ''انسداد بدعنوانی پر قومی اور علاقائی نکتہ نظر'' شامل تھے (راقم الحروف نے بھی مقرر کے طور پر اپنے خیالات پیش کیے)۔

اس اجلاس میں خاص طور پر یہ محسوس کیا گیا کہ اس بھاری اکثریت کی واضح طور پر نشاندہی کی جانی چاہیے جو ضرورت مندوں پر مشتمل ہے جب کہ لالچی عناصر کے زمرے میں آنیوالوں کی شرح مقابلتاً بہت کم ہے۔ضرورت مندوں کی شرح %95 ہے بدعنوانی کا ارتکاب کرنیوالوں میں %95 وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہ فی الحقیقت ضرورت مند ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں غیر قانونی دولت حاصل کرنیوالوں میں لالچی عناصر کی تعداد %5 سے بھی کم ہوتی ہے۔ اکثریتی افراد کو ان کی اقتصادی ضرورتیں بدعنوانی پر مجبور کرتی ہیں تا کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے خوراک کا بندوبست کر سکیں' رہائش کے کرائے' بجلی و پانی کے بل' بچوں کے اسکول کی فیسیں اور میڈیکل کے اخراجات' رکشوں بسوں کے کرائے وغیرہ ادا کر سکیں۔ انھوں نے بدعنوانی کے ذریعے جو رقم حاصل کی ہوتی ہے وہ %100 یعنی ساری کی ساری ملک کی اقتصادیات میں واپس چلی جاتی ہے۔ لیکن لالچ اور طمع سے مرعوب ہونیوالوں کی بھوک کبھی نہیں مٹتی اور وہ ملک کو لوٹتے چلے جاتے ہیں۔

ان کی زیادہ دولت بیرون ملک جمع ہوتی ہے جو کہ ملک کی معیشت کو برباد کر دیتے ہیں۔ لندن کی ہائیڈ پارک کے ارد گرد پر تعیش رہائش گاہوں کی قیمت پاکستانی دولت کی بے تحاشا سرمایہ کاری کے بغیر ادا نہیں ہو سکتی۔ اندرون ملک یہ لالچی عناصر اپنی ضروریات کے علاوہ جو لگژری اشیاء خریدتے ہیں مثال کے طور پر 15000 ڈالر سے 50000 امریکی ڈالر تک کی قیمت کے خواتین کے ہینڈ بیگ جو کہ زیادہ تر درآمد شدہ ہوتے ہیں خریدے جاتے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کی مجالس میں جس خاتون کے پاس متذکرہ قیمت کا ہینڈ بیگ نہیں ہوتا اس کو بے حیثیت تصور کیا جاتا ہے۔ لگژری ہینڈ بیگ بنانیوالوں کی اصل مارکیٹ یہی اعلیٰ سوسائٹی ہوتی ہے۔تیسری دنیا میں کرپشن پر قابو پانے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ اصل میں ترقی یافتہ ممالک کا یہ طرز عمل ہے کہ وہ تلقین کچھ اور کرتے ہیں لیکن ان کا عمل اس کے متضاد ہوتا ہے۔ غیر قانونی دولت کا زیادہ حصہ سفر کر کے امریکا اور یورپی یونین کے ممالک میں پہنچ جاتا ہے جب کہ ایشیاء کے ابھرتے ہوئے ممالک میں بھی اس دولت کا بڑا حصہ صرف ہوتا ہے۔


ان ممالک میں چین خاصہ نمایاں ہے۔ مغربی ممالک میں بدعنوانی کو روکنے کے لیے پرعزم انداز سے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں اور کالے دھن کو سفید کرنے سے روکنے کی ان کی صلاحیت پر بھی کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا لیکن جہاں ان کے اپنے مفاد کا سوال ہو تو وہ اس طرف سے چشم پوشی اختیار کر لیتے ہیں۔ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو اپنی غیر قانونی دولت کو قانونی ثابت کرنے کے لیے سرکاری دستاویزات درکار ہوتی ہیں۔ منشیات کی تجارت کرنے والے اپنی غیر قانونی دولت کو قانونی ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔کالے دھن کو جائز بنانے سے روکنے والے ممالک میں سرفہرست برطانیہ کا یہ عزم نمایاں ہے جس نے ٹیکس چوری روکنے کے سخت قوانین نافذ کر رکھے ہیں لیکن اس کے باوجود انگلینڈ میں کم از کم 19 ایسی کمپنیاں قائم ہیں جن پر منی لانڈرنگ کے شبہات ہیں۔ کمپنی کے ڈائریکٹروں کا نام انگلینڈ میں راز میں رکھنے کی اجازت ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے مجرموں کا سراغ لگانا ممکن نہیں رہتا۔ 'انڈی پینڈنٹ' اخبار کے ڈپٹی بزنس ایڈیٹر جم آرمٹیج کے مطابق یورپ کے منی لانڈرنگ کے خلاف سب سے بڑی کارروائی میں بہت سی کمپنیاں زیر تفتیش ہیں۔

ان کے فنڈ بڑے بڑے مجرموں اور دنیا بھر کے بدعنوان سرکاری افسروں کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں جو اپنی ناجائز دولت کو جائز ثابت کرنے کی کوشش میں وہاں رکھتے ہیں تا کہ انھیں شک و شبہ کے بغیر خرچ کر سکیں۔ جنرل مشرف کے قومی احتساب بیورو (NAB) نے ایک محدود وقت کے لیے آزادی سے کارروائی کی تھی جس کے نتیجے میں ملکی خزانے کو کافی مالی فائدہ حاصل ہوا۔ جرمنی کے غیر معمولی کمانڈر کرنل اوٹو فان سکورزنی (Col Otto Von Skorzeny) نے صحیح کہا ہے کہ سیاست سولجرزکے لیے ایک لعنت ہے۔ مشرف نے دو سال تک اپنے اقتدار کے لیے جمہوری اور قانونی حیثیت حاصل کرنے کی خاطر بالآخر احتساب سے سمجھوتہ کر لیا اور یوں اپنی ساکھ گنوا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر فوجی حکومت کا اصل مقصد کرپشن ختم کرنا ہوتا ہے جیسا کہ مشرف نے بھی اپنی سی کوشش کی لیکن بالآخر وہ بھی اسی کرپٹ نظام کا حصہ بن گئے۔

تھائی لینڈ میں حالیہ فوجی بغاوت کے لیڈر جنرل پرایوٹ چان اوچا (Gen Prayuth Chan-ocha) نے فوج کے زیر اہتمام بدعنوانی کے خلاف منصوبہ بندی کی کوشش کی لیکن وہ خود بھی مالیاتی سیاست کا شکار ہو گیا۔ نیب کو ممکنہ اینٹی کرپشن کیسز کی ہفتہ وار نظرثانی میں لالچی لوگوں کو ہدف بنانے پر زیادہ زور دینا چاہیے۔ جہاں تک ضرورتمندوں کے خلاف مقدمات کا تعلق ہے تو یہ کام صوبائی انسداد بدعنوانی کے محکمے کے سپرد ہونا چاہیے جب کہ وفاقی ملازمین کے خلاف بھی اسی کے مماثل میکنزم اختیار کرنا چاہیے۔ نیب کی ایک کمیٹی کو باقاعدہ طور پر ان مقدمات کی پیش رفت کا جائزہ لینا چاہیے اسی صورت میں نیب کو لالچی کے زمرے میں آنیوالے مقدمات سے نمٹنے کا وقت مل سکے گا۔

کرپشن کے احتساب کے طریق کار میں بھی ضرورت مندوں اور لالچی عناصر کے فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے عوام الناس بڑی شدت سے چاہتے ہیں کہ کرپشن کا احتساب مسلسل جاری و ساری رہنا چاہیے۔
Load Next Story