اسمبلی سے لے کر دھرنے تک
ہم پاکستانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ذہنی طور پر کتنے کھوکھلے لوگوں کو اپنا لیڈر مانتے رہے ہیں۔
اگر دماغ خالی نہ ہو تو کالم نواز خبروں کی کمی نہیں۔ ہر ایسی کالمانہ خبر کے ساتھ کچھ گستاخی کرنی پڑ جاتی ہے اور یہ گستاخی کالم نویس نہیں خبر ساز کرتے ہیں مثلاً آج کی ایک خبر ہے کہ پنجاب اسمبلی جسے عوام کی خدمت کے لیے قانون سازی کی شاذونادر ہی توفیق ہوتی ہے اپنے ارکان کے لیے بلیو پاسپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اسمبلی نے متفقہ طور پر یہ قرارداد منظور کی ہے اسپیکر وغیرہ کے لیے سفارتی پاسپورٹ کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ ایسے پاسپورٹ ایک نخرہ ہیں۔
ایک میرے بہت ہی مہربان مرحوم ایس کے محمود صاحب نے میرے نام پر نیلا پاسپورٹ جاری کر دیا میں نے یہ استعمال کرنا شروع کردیا لیکن فرق صرف یہ پڑتا تھا کہ جب میں کاؤنٹر پر یہ نیلا پاسپورٹ آگے بڑھاتا تو متعلقہ افسر میری طرف ایک بار غور سے دیکھتا اور پھر اس پر عام پاسپورٹ کی طرح ٹھپہ لگا دیتا۔ بعد میں اس رنگ کے پاسپورٹ کے ساتھ وابستہ کچھ مراعات کا بھی پتہ چلا لیکن میری صحافت کا یہ وہ زمانہ تھا جب میں خود ہی 'مراعات' تھا مجھے کسی نیلی پیلی کاغذی سفارش کی ضرورت نہیں تھی۔
سوال یہ نہیں کہ اراکین اسمبلی کو کس رنگ کا پاسپورٹ ملتا ہے سوال یہ ہے کہ اس اسمبلی نے اپنے صوبے کے مظلوموں کے حق میں بھی کوئی قرار داد پیش کی ہے۔ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کا ایک طویل اجلاس ہوا، اس کے آخری دنوں میں اخبارات نے شور مچایا کہ ہماری پارلیمنٹ کو اپنے ووٹر عوام دکھائی نہیں دیتے یا اراکین اندھے ہو گئے ہیں کہ انھوں نے بھولے سے بھی کسی عوامی مسئلے کا ذکر نہیں کیا اس پر آخری اجلاس میں بعض اراکین نے چلتے چلتے سرسری انداز میں ان عوام کے بعض مسائل کا حوالہ بھی دیا جن کے ٹیکسوں پر وہ لاکھوں اربوں کی مراعات وصول کرتے ہیں۔
میری یہ ایک احمقانہ سی تجویز ہے کہ کسی قانون کے تحت جو کوئی پارلیمنٹ اور اسمبلی کا رکن بنا ہے اس پر دوبارہ اس اعزاز کی پابندی لگا دی جائے۔ میں نے اپنی اس تجویز میں قلمی زور پیداکرنے کے لیے یہ بھی کہا تھا کہ ان اراکین کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے اور ان سے ان کی کارکردگی کے مطابق الاؤنس وغیرہ واپس لے لیے جائیں۔ کئی اراکین ایسے ہیں کہ انھوں نے اسمبلی میں کبھی ایک لفظ تک نہیں کہا ہے۔ ان پر قوم کا جو پیسہ ضایع ہوا اسے وصول کرنا قومی فریضہ ہے۔ مولوی طاہر القادری کا دو ماہی دھرنا بالآخر بلا نتیجہ تتر بتر ہو گیا متعدد قیاس آرائیوں کے ساتھ۔ صوفی غلام مصطفے تبسم کا ایک شعر ہے
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
جب قادری صاحب نے یہ کام شروع کیا تھا تو متنبہ کیا تھا کہ یہ ایک تماشا ہے قوم اس سے بچ کر رہے کوئی بتائے کہ دو ماہ کے اس بلند بانگ ہنگامے کا مقصد کیا تھا اور کس مقصد کو حاصل کر کے یہ دھرنا ختم کر دیا گیا۔ کس مقصد کے تحت یہ شروع کیا گیا تھا اور کس شور و غوغا کے ساتھ یہ برپا رہا۔ میں دھرنے کے دوران اپنے چند مہربان لیڈروں کو بھی قادری صاحب کے دائیں بائیں کہیں دیکھتا رہا اور ان دوستوں کے اس انجام پر رنج کرتا رہا لیکن کسی نے بھی ذرا ٹھہر کر حالات کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ نہیں لیا۔ آج میرے یہ خانہ بدوش ماضی کے کامیاب اور بڑے سیاستدان ہر ایک سے پوچھ رہے ہیں کہ 'منجی کتھے ڈاہواں' کہ میں چار پائی کہاں بچھاؤں۔
ان میں بعض تو پنجاب کے گورنر ہی نہیں اس صوبے کے مالک بھی رہے کوئی ایک وزیر خارجہ رہا اسی طرح کئی دوسرے بھی سابقہ عہدوں کا لیبل لگا کر قادری صاحب کے سامنے پیش ہوتے رہے۔ نہایت افسوس سے یہ جان کر کہ اقتدار کے بعد انسان کی عقل بھی اس سے جدا ہو جاتی ہے اور اقتدار سے جدائی میں وہ دیوانہ ہو کر مجنوں ہو جاتا ہے۔ قادری کے اس دھرنے نے ہمارے کئی لیڈروں کو ایکسپوز کر دیا۔ اب تو شاید قادری کا ٹکٹ بھی الیکشن نہ جتوا سکے۔ ہم پاکستانیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ذہنی طور پر کتنے کھوکھلے لوگوں کو اپنا لیڈر مانتے رہے ہیں۔ یہ سب کسی کا نام لیے بغیر میں عرض کرتا ہوں کہ درحقیقت ہمارے 66 برسوں کی پسماندگی کے ذمے دار ہیں انھوں نے ہمارے پاکستان کے نام کے خزانے کو لوٹ کر کنگال کر دیا جب کہ دنیا اس پر متفق تھی کہ یہ وسائل کے اعتبار سے ایک خوشحال ملک ہے لیکن دنیا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس ملک کے لیڈر شخصی طور پر کنگال ہیں اور وہ اس بھرے پرے ملک کو بھی اپنی طرح بنا دیں گے۔
پہلے تو انھوں نے اس ملک کو دو ٹکڑے کر دیا پھر وہ ایک ٹکڑے کے وزیراعظم بن گئے۔ مجھے لاہور میں اسمبلی ہال کے سامنے جہاں اسلامی سربراہی کانفرنس ہو رہی تھی ایک نوجوان جاوید ہاشمی کو نعرے لگاتے اور روتے پیٹتے دیکھا کہ ہمیں بنگلہ دیش منظور نہیں لیکن اس نوجوان کو معلوم نہیں تھا کہ اس وقت کوئی کانفرنس نہیں ماتم کی ایک محفل برپا ہے اور فاتحہ خوانی ہو رہی ہے۔ ہمارے وزیراعظم خوش ہیں کہ انھوں نے جس ملک کو توڑ دیا تھا آج دنیائے اسلام اس پر خاموش ہے سوائے ایک بادشاہ کے شاہ فیصل کے جس کے آنسو شاہی مسجد کے فرش پر گر رہے تھے اور پتہ نہیں وہ کون سی کیفیت میں نماز ادا کر رہا تھا۔
اس نے زندگی بھر اپنے دوست پاکستان پر فخر کیا اور اب وہ اس دوست کے اتحاد کی وفات پر اشک فشاں ہے۔ یہ باتیں تو دو ماہ تک کروڑوں کے خرچ پر جاری ایک ڈرامے سے یاد آئی ہیں ایک نصف پاکستانی جس کی وفاداریاں ایک عہد نامے کے تحت ملکہ برطانیہ کے سپرد ہیں اور جو ملکہ کے زیر نگیں ایک ملک کینیڈا کا شہری ہے لیکن پاکستان کا شہری بھی ہے ان دنوں اس لٹے پٹے ملک کا لیڈر بن کر پاکستانی قوم کو گمراہ کر رہا ہے وہ قوم جس کو اس کے حکمرانوں نے پہلے ہی سے گمراہ کر رکھا ہے اور اسے ''نیم بھارتی'' بنا رکھا ہے۔ اللہ رحم کرے مگر کیوں کرے کیا ایدھی کے آنسو ہماری کوئی مدد کر سکتے ہیں۔