الیکٹرانک میڈیا کی ذمے داری
ہمارا الیکٹرانک میڈیا صرف بھارتی اور پاکستانی لایعنی ڈراموں کے چکر میں ایسا پھنسا ہے کہ اس سے زیادہ کی انھیں نہ۔۔۔
ایک عجیب بے کلی ہے، ہر شخص پریشان ہے۔ سماجی رویوں میں زوال اس حد تک آچکا ہے کہ کوئی سوائے اپنے کسی دوسرے کے بارے میں سوچنے کو تیار ہی نہیں ۔ پہلے ہمسائے ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ اب یہ عالم ہے کہ کون مرگیا اور کون کس حال میں ہے ۔ یہ سوچنا اب تضیع اوقات ہے ۔ لیکن کچھ عرصے سے کئی ایسے لوگوں سے ملاقاتیں رہیں جو مختلف مسائل کا شکار ہو رہے ہیں اور اس جانب نہ کوئی ٹی وی چینل توجہ دیتا ہے نہ ہی کوئی سماجی تنظیم یا سوشل ورکرز؟ میں نے ایک بار پہلے بھی درخواست کی تھی کہ بہت سارے ایشوز ایسے ہیں سیاست کے سوا جن کی جانب توجہ درکار ہے۔
زندگی کے اہم اور سنجیدہ مسائل پرکیے جانے والے ٹاک شوز یقیناً ریٹنگ بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ لیکن ہمارا الیکٹرانک میڈیا صرف بھارتی اور پاکستانی لایعنی ڈراموں کے چکر میں ایسا پھنسا ہے کہ اس سے زیادہ کی انھیں نہ ضرورت ہے نہ توفیق۔ یہی وجہ تھی کہ ان بے مقصد شیطان کی آنت کی طرح لمبے اور ایک جیسے موضوعات پر مشتمل ڈراموں سے اکتائے ہوئے لوگوں نے جب ترکی ڈراموں کو مختلف چینلز پہ دیکھا تو ناظرین کو وہ جملہ بہت یاد آیا۔ وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ ایک نوزائیدہ چینل نے انھی ترکی ڈراموں کی بدولت ناظرین کی تمام توجہ حاصل کرلی۔ اس چینل کو اشتہارات بھی بہت ملنے لگے۔ کیونکہ ان ترکی ڈراموں میں بے حد سنجیدہ اور اہم مسائل کی نشان دہی کی گئی تھی۔ لاجواب اداکاری، بہترین پروڈکشن اور اعلیٰ درجے کی مختلف کہانیاں جو ترکی معاشرت کی آئینہ دار تھیں۔
معاشرہ کس طرح دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے وہاں بھی پرانی روایات زندہ ہیں اور بچپن کی شادیوں کے ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ بے جا آزادی نے نوجوان نسل کو کس طرح برباد کیا۔ شادی شدہ عورتیں اور مرد دونوں اپنے اپنے شریک حیات کو دھوکا دے رہے ہیں ۔ اسکولوں میں بے راہ روی عام ہے ۔ طبقاتی جنگ نمایاں ہے۔ کرپشن ہر جگہ ہے۔ خاص کر اعلیٰ عہدیداروں میں۔ حتیٰ یہ کہ عدالتیں، جج، پبلک پراسیکیوٹر، وکیل، جیل خانوں کا عملہ، وارڈن، سیاست دان، منسٹرز اور دیگر دولت مند لوگ کس کس طرح انصاف کا خون کرتے ہیں۔ عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلے کروالیتے ہیں، قانون صرف بے وقعت اور غریب لوگوں کے لیے حرکت میں آتا ہے۔
بے گناہ جیلیں کاٹتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔ اور گناہ گار آزاد گھومتے ہیں اور ماتھے پہ حکومت کے چہیتوں کا ٹیگ لگا کر گھومتے ہیں ۔ کرپشن تقریباً پاکستان جیسا ہی ہے لیکن وہ ہم سے برتر اس لیے ہیں کہ ان کا میڈیا ایسے حساس اور نازک معاملات کو ڈراموں کے ذریعے سامنے لاتا ہے۔ اسی لیے ان کے ڈراموں کے پلاٹ روایتی نہیں ۔ ہمارا میڈیا صرف ساس بہو کے جھگڑوں تک محدود ہے ۔ ان میں بھی ہر بار ساس کو ظالم، جابر اور سخت گیر اور بہو کو مظلوم دکھایا جاتا ہے ۔ جب کہ آج حقیقت بالکل برعکس ہے۔
چلیے مان لیا کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بوجوہ اس آزادی کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ کرپشن کو ڈراموں کے ذریعے سامنے لائے کیونکہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ میڈیا کی موجودہ آزادی بھی پرویز مشرف کے دور میں ملی تھی جسے نام نہاد قبضہ مافیا اپنے تحفظ اور اقتدار کو بچانے کے لیے زنجیریں پہنانے کے چکر میں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ڈراما انڈسٹری بھی ایک قبضہ مافیا کی گرفت میں ہے ۔ ٹھیکوں پہ کام ہو رہا ہے۔ محنت کون کرے؟ کہاں کی کہانی، کہاں کا پلاٹ؟ مکس چاٹ پلیٹ بک رہی ہے۔ ہاں البتہ یہ ماننا پڑے گا کہ جب ایک پی ٹی وی تھا تو وہ سب پہ بھاری تھا۔ آج کیا ہمارے چینلز اتنا نہیں کرسکتے کہ اپنی اخلاقی ذمے داری نبھاتے ہوئے کچھ سنجیدہ مسائل کے حل کی طرف بھی توجہ دیں اور ان پر پروگرام کریں کہ یہ المیے اور حادثات کیوں جنم لیتے ہیں اور انھیں کس طرح روکا جاسکتا ہے؟ میں صرف چند کیس پیش کر رہی ہوں۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ بحیثیت انسان کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ان کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر دیکھیں؟
سب سے پہلے مسز عباسی کا کیس پیش کرتی ہوں ۔ یہ گلستان جوہر میں اپنی بہن کے ساتھ رہتی ہیں، اولاد کوئی ہے نہیں۔ شوہر کا انتقال ہوچکا ہے۔ عمر کے جس حصے میں ہیں وہاں کام کاج اور دیکھ بھال کے لیے انھیں صبح 10 بجے سے شام پانچ بجے تک کے لیے ایک ملازمہ کی ضرورت ہے ۔ جو تمام کام کاج کرجائے۔ لیکن ان کا یہ مسئلہ حل کیسے ہو؟ نوکرانیوں سے وہ عاجز آچکی ہیں۔ ایک تو چور دوسرے ہر ایک دو مہینے بعد اچانک غائب ہوجاتی ہیں۔ پوری بلڈنگ ان سے پریشان ۔ مہینہ ختم ہونے سے دو دن قبل تنخواہ کا مطالبہ ۔ کپڑے الگ درکار ۔ دیگر نخرے الگ ۔ لیکن اتنی اخلاقیات نہیں کہ جانے سے پہلے بتا دیں کہ گاؤں جا رہی ہیں ۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ کسی گھر سے زیورات اڑا کر بھاگی ہیں ۔ اسی لیے غائب ہوگئیں ۔ پولیس سے مدد لینی بیکار کہ وہ خود ان وارداتوں کے پیچھے ہوتے ہیں اور پھر ان کا یہ کہنا کہ ''آپ نے شناختی کارڈ کیوں نہیں لیا؟'' شناختی کارڈ کا یہ عورتیں بہانہ کردیتی ہیں کہ بنا ہی نہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔
اگر شناختی کارڈ نہیں ہے تو یہ جتھے بنا کر ووٹ کیسے ڈالنے جاتی ہیں؟ بہرحال مسز عباسی نے مجھ سے کہا کہ اس معاملے میں ان کی مدد کروں ۔ اگر کوئی بے سہارا خاتون ہیں تو یہ انھیں مستقل ساتھ رکھنے کو بھی تیار ہیں ۔ میں نے اپنے ذرایع سے ایدھی سینٹر سے بھی بات کی لیکن وہاں سے یہ جواب ملا کہ اول تو وہ گھروں میں ملازمت کے لیے بھیجتے نہیں ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اگر ان عورتوں کو بھیجیں گے بھی تو یہ واپس آجائیں گی ۔ کیونکہ انھیں بغیر کام کیے مفت میں بیٹھ کر کھانے کی عادت ہوچکی ہے۔ تحقیق سے کچھ اور حقائق کا پتا بھی چلا لیکن باوجود کوشش کے نہ تو بلقیس ایدھی صاحب سے رابطہ ہوسکا نہ ملاقات ۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگوں کو مفت خور بناکر کون سا ثواب یا کون سا مقصد حاصل کیا جا رہا ہے۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ ایسی عورتیں جو بالکل لاوارث ہیں انھیں حقارت کے بجائے عزت سے روزی کماکر کھانے کا موقع دیا جائے ۔ اس طرح ایدھی ٹرسٹ کا بھی فائدہ ہوگا۔بدقسمتی سے پاکستان میں ان صاحب حیثیت تنہا معمر افراد کے لیے ایسا کوئی ٹھکانہ نہیں جہاں وہ گھریلو ذمے داریوں سے بری الذمہ ہوکر معقول معاوضہ دے کر ایک دو کمرے پینگ گیسٹ کے طور پر رہائش کے لیے حاصل کرسکیں ۔ یا پھر کچھ صاحب حیثیت شخصیات کچھ ایسے ہوسٹل تعمیر کروا دیں ۔ جہاں پڑھے لکھے باذوق افراد کے لیے ماہانہ معقول کرایہ پر انھیں رہائش فراہم کردی جائے ۔ جس میں ناشتے اور کھانے کا معاوضہ بھی شامل ہو ۔
میری نظر اس معاملے میں بے لوث مخیر حضرات کی جانب اٹھتی ہے ۔ شاید اس لیے کہ وہ یہ نیک کام بڑی آسانی سے کرسکتے ہیں اور واقعی بڑا اور نیک کام ایسے عمر رسیدہ افراد کے لیے ہوسٹل تعمیر کرنا ہے ۔ جہاں انھیں معقول رہائش مناسب معاوضے پر فراہم کردی جائے۔ دو کمروں کے ساتھ چائے وغیرہ بنانے کے لیے کچن کاؤنٹر بھی بنادیا جائے۔ یہ کام جلد ہونا چاہیے۔ یہ کوئی انڈرپاس بنانے جیسا متنازعہ کام نہیں ہے۔ ہوسٹل کراچی کے مختلف علاقوں میں تعمیر ہونے چاہئیں۔ خاص طور سے فیڈرل بی ایریا، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال اور صدر ٹاؤن کے علاقے میں تاکہ مڈل کلاس فیملی ممبر استفادہ کرسکیں۔
بہرحال اس وقت ذاتی طور پر میں مسز عباسی کے مسئلے کے حل کے لیے قارئین سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس نیک کام میں میرا ہاتھ بٹائیں ۔ یا تو میرے ای میل ایڈریس پر رابطہ کریں یا موبائل فون پہ (فون نمبر ایکسپریس سے حاصل کیا جاسکتا ہے) ایکسپریس کے قارئین نے ہمیشہ میری گزارش پہ ضرورت مندوں کی بھرپور مدد کی ہے۔ لیکن اس بار معاملہ مالی معاونت کا نہیں ہے صرف ایک ذمے دار خاتون کو ڈھونڈنا ہے جو معقول معاوضے پر مسز عباسی کے گھر کے کام سنبھال سکیں۔
زندگی کے اہم اور سنجیدہ مسائل پرکیے جانے والے ٹاک شوز یقیناً ریٹنگ بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں ۔ لیکن ہمارا الیکٹرانک میڈیا صرف بھارتی اور پاکستانی لایعنی ڈراموں کے چکر میں ایسا پھنسا ہے کہ اس سے زیادہ کی انھیں نہ ضرورت ہے نہ توفیق۔ یہی وجہ تھی کہ ان بے مقصد شیطان کی آنت کی طرح لمبے اور ایک جیسے موضوعات پر مشتمل ڈراموں سے اکتائے ہوئے لوگوں نے جب ترکی ڈراموں کو مختلف چینلز پہ دیکھا تو ناظرین کو وہ جملہ بہت یاد آیا۔ وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ ایک نوزائیدہ چینل نے انھی ترکی ڈراموں کی بدولت ناظرین کی تمام توجہ حاصل کرلی۔ اس چینل کو اشتہارات بھی بہت ملنے لگے۔ کیونکہ ان ترکی ڈراموں میں بے حد سنجیدہ اور اہم مسائل کی نشان دہی کی گئی تھی۔ لاجواب اداکاری، بہترین پروڈکشن اور اعلیٰ درجے کی مختلف کہانیاں جو ترکی معاشرت کی آئینہ دار تھیں۔
معاشرہ کس طرح دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے وہاں بھی پرانی روایات زندہ ہیں اور بچپن کی شادیوں کے ہولناک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ بے جا آزادی نے نوجوان نسل کو کس طرح برباد کیا۔ شادی شدہ عورتیں اور مرد دونوں اپنے اپنے شریک حیات کو دھوکا دے رہے ہیں ۔ اسکولوں میں بے راہ روی عام ہے ۔ طبقاتی جنگ نمایاں ہے۔ کرپشن ہر جگہ ہے۔ خاص کر اعلیٰ عہدیداروں میں۔ حتیٰ یہ کہ عدالتیں، جج، پبلک پراسیکیوٹر، وکیل، جیل خانوں کا عملہ، وارڈن، سیاست دان، منسٹرز اور دیگر دولت مند لوگ کس کس طرح انصاف کا خون کرتے ہیں۔ عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلے کروالیتے ہیں، قانون صرف بے وقعت اور غریب لوگوں کے لیے حرکت میں آتا ہے۔
بے گناہ جیلیں کاٹتے ہیں اور وہیں مر جاتے ہیں۔ اور گناہ گار آزاد گھومتے ہیں اور ماتھے پہ حکومت کے چہیتوں کا ٹیگ لگا کر گھومتے ہیں ۔ کرپشن تقریباً پاکستان جیسا ہی ہے لیکن وہ ہم سے برتر اس لیے ہیں کہ ان کا میڈیا ایسے حساس اور نازک معاملات کو ڈراموں کے ذریعے سامنے لاتا ہے۔ اسی لیے ان کے ڈراموں کے پلاٹ روایتی نہیں ۔ ہمارا میڈیا صرف ساس بہو کے جھگڑوں تک محدود ہے ۔ ان میں بھی ہر بار ساس کو ظالم، جابر اور سخت گیر اور بہو کو مظلوم دکھایا جاتا ہے ۔ جب کہ آج حقیقت بالکل برعکس ہے۔
چلیے مان لیا کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بوجوہ اس آزادی کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ کرپشن کو ڈراموں کے ذریعے سامنے لائے کیونکہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔ میڈیا کی موجودہ آزادی بھی پرویز مشرف کے دور میں ملی تھی جسے نام نہاد قبضہ مافیا اپنے تحفظ اور اقتدار کو بچانے کے لیے زنجیریں پہنانے کے چکر میں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ڈراما انڈسٹری بھی ایک قبضہ مافیا کی گرفت میں ہے ۔ ٹھیکوں پہ کام ہو رہا ہے۔ محنت کون کرے؟ کہاں کی کہانی، کہاں کا پلاٹ؟ مکس چاٹ پلیٹ بک رہی ہے۔ ہاں البتہ یہ ماننا پڑے گا کہ جب ایک پی ٹی وی تھا تو وہ سب پہ بھاری تھا۔ آج کیا ہمارے چینلز اتنا نہیں کرسکتے کہ اپنی اخلاقی ذمے داری نبھاتے ہوئے کچھ سنجیدہ مسائل کے حل کی طرف بھی توجہ دیں اور ان پر پروگرام کریں کہ یہ المیے اور حادثات کیوں جنم لیتے ہیں اور انھیں کس طرح روکا جاسکتا ہے؟ میں صرف چند کیس پیش کر رہی ہوں۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ بحیثیت انسان کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ان کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر دیکھیں؟
سب سے پہلے مسز عباسی کا کیس پیش کرتی ہوں ۔ یہ گلستان جوہر میں اپنی بہن کے ساتھ رہتی ہیں، اولاد کوئی ہے نہیں۔ شوہر کا انتقال ہوچکا ہے۔ عمر کے جس حصے میں ہیں وہاں کام کاج اور دیکھ بھال کے لیے انھیں صبح 10 بجے سے شام پانچ بجے تک کے لیے ایک ملازمہ کی ضرورت ہے ۔ جو تمام کام کاج کرجائے۔ لیکن ان کا یہ مسئلہ حل کیسے ہو؟ نوکرانیوں سے وہ عاجز آچکی ہیں۔ ایک تو چور دوسرے ہر ایک دو مہینے بعد اچانک غائب ہوجاتی ہیں۔ پوری بلڈنگ ان سے پریشان ۔ مہینہ ختم ہونے سے دو دن قبل تنخواہ کا مطالبہ ۔ کپڑے الگ درکار ۔ دیگر نخرے الگ ۔ لیکن اتنی اخلاقیات نہیں کہ جانے سے پہلے بتا دیں کہ گاؤں جا رہی ہیں ۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ کسی گھر سے زیورات اڑا کر بھاگی ہیں ۔ اسی لیے غائب ہوگئیں ۔ پولیس سے مدد لینی بیکار کہ وہ خود ان وارداتوں کے پیچھے ہوتے ہیں اور پھر ان کا یہ کہنا کہ ''آپ نے شناختی کارڈ کیوں نہیں لیا؟'' شناختی کارڈ کا یہ عورتیں بہانہ کردیتی ہیں کہ بنا ہی نہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔
اگر شناختی کارڈ نہیں ہے تو یہ جتھے بنا کر ووٹ کیسے ڈالنے جاتی ہیں؟ بہرحال مسز عباسی نے مجھ سے کہا کہ اس معاملے میں ان کی مدد کروں ۔ اگر کوئی بے سہارا خاتون ہیں تو یہ انھیں مستقل ساتھ رکھنے کو بھی تیار ہیں ۔ میں نے اپنے ذرایع سے ایدھی سینٹر سے بھی بات کی لیکن وہاں سے یہ جواب ملا کہ اول تو وہ گھروں میں ملازمت کے لیے بھیجتے نہیں ہیں ۔ دوسرے یہ کہ اگر ان عورتوں کو بھیجیں گے بھی تو یہ واپس آجائیں گی ۔ کیونکہ انھیں بغیر کام کیے مفت میں بیٹھ کر کھانے کی عادت ہوچکی ہے۔ تحقیق سے کچھ اور حقائق کا پتا بھی چلا لیکن باوجود کوشش کے نہ تو بلقیس ایدھی صاحب سے رابطہ ہوسکا نہ ملاقات ۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگوں کو مفت خور بناکر کون سا ثواب یا کون سا مقصد حاصل کیا جا رہا ہے۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ ایسی عورتیں جو بالکل لاوارث ہیں انھیں حقارت کے بجائے عزت سے روزی کماکر کھانے کا موقع دیا جائے ۔ اس طرح ایدھی ٹرسٹ کا بھی فائدہ ہوگا۔بدقسمتی سے پاکستان میں ان صاحب حیثیت تنہا معمر افراد کے لیے ایسا کوئی ٹھکانہ نہیں جہاں وہ گھریلو ذمے داریوں سے بری الذمہ ہوکر معقول معاوضہ دے کر ایک دو کمرے پینگ گیسٹ کے طور پر رہائش کے لیے حاصل کرسکیں ۔ یا پھر کچھ صاحب حیثیت شخصیات کچھ ایسے ہوسٹل تعمیر کروا دیں ۔ جہاں پڑھے لکھے باذوق افراد کے لیے ماہانہ معقول کرایہ پر انھیں رہائش فراہم کردی جائے ۔ جس میں ناشتے اور کھانے کا معاوضہ بھی شامل ہو ۔
میری نظر اس معاملے میں بے لوث مخیر حضرات کی جانب اٹھتی ہے ۔ شاید اس لیے کہ وہ یہ نیک کام بڑی آسانی سے کرسکتے ہیں اور واقعی بڑا اور نیک کام ایسے عمر رسیدہ افراد کے لیے ہوسٹل تعمیر کرنا ہے ۔ جہاں انھیں معقول رہائش مناسب معاوضے پر فراہم کردی جائے۔ دو کمروں کے ساتھ چائے وغیرہ بنانے کے لیے کچن کاؤنٹر بھی بنادیا جائے۔ یہ کام جلد ہونا چاہیے۔ یہ کوئی انڈرپاس بنانے جیسا متنازعہ کام نہیں ہے۔ ہوسٹل کراچی کے مختلف علاقوں میں تعمیر ہونے چاہئیں۔ خاص طور سے فیڈرل بی ایریا، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال اور صدر ٹاؤن کے علاقے میں تاکہ مڈل کلاس فیملی ممبر استفادہ کرسکیں۔
بہرحال اس وقت ذاتی طور پر میں مسز عباسی کے مسئلے کے حل کے لیے قارئین سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ اس نیک کام میں میرا ہاتھ بٹائیں ۔ یا تو میرے ای میل ایڈریس پر رابطہ کریں یا موبائل فون پہ (فون نمبر ایکسپریس سے حاصل کیا جاسکتا ہے) ایکسپریس کے قارئین نے ہمیشہ میری گزارش پہ ضرورت مندوں کی بھرپور مدد کی ہے۔ لیکن اس بار معاملہ مالی معاونت کا نہیں ہے صرف ایک ذمے دار خاتون کو ڈھونڈنا ہے جو معقول معاوضے پر مسز عباسی کے گھر کے کام سنبھال سکیں۔