اے خدا تو پاکستان کی حفاظت کر
موجودہ دور کے تمام سیاسی رہنما صدق دل سے یہ فیصلہ کریں کہ کیا وہ بذات خود آئین و قانون کی بات کرتے ہوئے ایمانداری۔۔۔
دنیا میں جتنی بھی تحریکوں نے جنم لیا ان سب کے پیچھے مختلف عوامل کار فرما تھے۔ ان میں ناانصافیاں، محرومیاں، ظلم و ستم، حسد، لالچ و خواہش، نسل پرستی، اناپرستی، علاقائیت، عصبیت، غلط حکومتی پالیسیاں اور مذہبی جنون نمایاں رہے۔ افریقہ ہو یا امریکا، روس ہو یا برطانیہ، فرانس ہو جرمنی، چین ہو جاپان، پاکستان ہو یا بھارت ان عوامل کے چکر میں آ کر جنگ میں الجھ جاتے ہیں۔ بالآخر لاکھوں بے گناہ بے سہارا معصوم عوام اس جنگ کے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
دھرنا ہو یا انقلاب ہر قدم میں کبھی ملک کا کبھی حکومت کا کبھی قوم کا نقصان ہوتا ہے پھر تاریخ رقم ہوتی ہے۔ مسئلے کا حل نہ نکلے تو ہلاکو خان، چنگیزخان، ہٹلر سے ظالم یا پھر قائد اعظم، گاندھی جیسے دور اندیش بانی جنم لیتے ہیں۔ ماؤزے تنگ، آیت اللہ خمینی جیسے انقلابی لیڈر جو ملک اور قوم کو اپنے پاؤں پر لا کھڑا کر دینے والے لیڈر یا پھرکمال اتا ترک اور نیلسن منڈیلا جیسے لیڈر جو عوامی شعور اجاگر کر کے اپنی قوم کی پہچان بنا دیتے ہیں۔ لیکن کامیابی کے بعد بالآخر مذاکرات کی ٹیبل پر آنا پڑتا ہے۔ پھر قانون کی پاسداری اور انسانیت کی بھلائی کے لیے عملی کام شروع کر دیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کی تحریک میں شامل رہنماؤں نے یہ خوبی اپنائی کہ تحریک کے دوران کوئی خون خرابہ نہ ہو۔
بھارت میں قتل عام بہت بڑا فساد برپا نہ ہونے پائے۔ یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگی رہنما بہت کم جیلوں میں گئے۔ چھوٹے موٹے فسادات تو دنیا کے ہر کونے میں ہوتے ہیں۔ البتہ تقسیم ہند کے بعد بھارت اور پاکستان کے راستوں میں ہجرت کے دوران پوری کی پوری ٹرین کے مسافر، بڑے بڑے عوامی قافلے، پورے پورے شہر صفحہ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ تقریباً 10 لاکھ مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ جس نے 1857ء کی یاد تازہ کر دی۔
ٹھیک اسی طرح 1857ء سے پہلے مسلمانوں کا ہر میدان میں استحصال کیا گیا۔ ظلم و جبر کی انتہا کر دی گئی جید علما کرام کو توپ کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا گیا تھا۔ جس سے عوامی سطح پر اس سوچ نے جنم لے لیا کہ مسلمان انگریزی اور برطانوی سامراج ہندوؤں کے زیر سایہ آزاد طریقے سے زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ لہٰذا عوامی سوچ تیزی سے زور پکڑتی چلی گئی اور نفرت کی شاخ پھیل کر تناور درخت بن گئی۔ حالانکہ مسلمان لیڈروں نے اپنی تمام تر توانائی صرف اور صرف تعلیم پر مرکوز کر دی تھی۔ کسی قسم کی کوئی دہشت گرد تنظیم مسلم لیگی رہنماؤں نے نہیں بنائی تھی۔ کوئی مسلح جدوجہد مسلم لیگیوں نے نہیں کی تھی۔ تمام بڑے اکابرین سرآغا خان، قائد اعظم، لیاقت علی خان، نواب سلیم اللہ، مولانا ظفر علی خان، مولانا شوکت علی خان، نواب بہادر یار جنگ سمیت متعدد رہنما بالخصوص سرسید احمد خان نے تعلیم کے ذریعے عوام کا معیار بلند کیا۔ یہ تمام لوگ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کے قائل تھے۔ مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے نوابوں نے اپنی اپنی ریاست پاکستان کے نام قربان کر دی۔
مگر کسی نے بھی دہشت گردی کی لعنت کو نہیں اپنایا۔ خودکش بمبار تیار نہیں کیے، قلم کار، شاعر پیدا کیے۔ ان مخلص نوابوں میں ایک نام خان لیاقت علی خان کا ہے جنھوں نے اپنا تن من دھن مسلم لیگ اور پاکستان کے لیے قربان کر دیا اور جب شہید ہوئے تو نہ بینک بیلنس نہ جاگیر صرف لب پے ایک جملہ تھا ''اے خدا تو پاکستان کی حفاظت کر۔'' آپ 1896ء میں مشرقی پنجاب کے مقام کرنال میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے لیے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیا۔ 1919ء میں ایم اے کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ آکسفورڈ میں داخلہ لیا۔ 1922ء میں بیرسٹری پاس کر کے ہندوستان واپس آئے۔ باضابطہ وکالت کا پیشہ اپنانے کے بجائے آپ پوری مسلم قوم کی وکالت میں لگ گئے۔ 1923ء میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1945ء میں آپ مرکزی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1946ء میں مسلم لیگ پارٹی کے ڈپٹی لیڈر چنے گئے۔
اگست 1947ء کو بحیثیت پہلے وزیر اعظم پاکستان حلف اٹھایا۔ آپ سچے، پکے، کھرے مسلمان رہنما تھے۔ آپ کی دور اندیشی کا یہ حال تھا کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی اقلیتوں کو مساوی شہری حقوق دینے کے لیے لیاقت نہرو معاہدہ کیا۔ تا کہ غیر مسلم قوتوں پاکستان میں انتشار پیدا نہ کر سکیں۔ فرض شناسی کا یہ عالم تھا کہ 1950ء میں ہی امریکا کا دورہ کر کے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے آگاہ کرنے کے علاوہ پاکستان کو عالمی برادری کی صف میں باوقار طریقے سے کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے مسلم ممالک کی اقتصادی وصنعتی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ جذبہ اسلام کا یہ عالم تھا کہ مفتی اعظم فلسطین کو عالم اسلام کے لیے اپنا ہیڈ کوارٹر پاکستان میں بنانے کی عملی طور پر پیش کش کی۔ سب سے بڑھ کر 23 مارچ 1940ء کو کروڑوں مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ''یہ مملکت خدا کی ہے جو ہمارے پاس ایک مقدس امانت ہو گی۔ ہم صرف اس کے قانون کو جاری و ساری کریں گے'' آپ نے علما کے ذریعے قرارداد مقاصد کو اسمبلی میں پیش کر کے آئین کا حصہ بنا دیا۔
قرارداد مقاصد پاکستان کے آئین کا حصہ بنتے ہی غیر اسلامی قوتیں حرکت میں آ گئیں کیونکہ مسلمان جب صدق دل سے حاکمیت صرف اللہ کی سمجھتے ہیں تو جہاد عبادت میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ دنیاوی مال و متاع سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ خوف خدا اجاگر ہو جاتا ہے۔ جس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ مسلمانوں کو اپنا قبلہ درست کرتے دیکھ کر وہ گھبرا اٹھے۔ انھوں نے خفیہ منصوبے کے ذریعے لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951ء کو شہید کروا دیا اور اقتدار مفاد پرستوں کے ہاتھوں سونپ دیا۔ عوام میں مایوسی پھیل گئی۔
ہر طرف صدائے احتجاج بلند ہوا۔ اسپیشل ٹریبونل نے 5 جنوری 1953ء کو راولپنڈی سازش کے مقاصد کا فیصلہ سنایا پاکستانی افواج کے گیارہ افسروں اور چار شہری فیض احمد فیض، سجاد ظہیر اور محمد عطا مجرم قرار دیے گئے۔ مگر خفیہ ہاتھوں نے اپنا کام دکھایا اور امریکا سے محمد علی بوگرہ کو بلا کر وزیر اعظم مقرر کیا۔ فوری طور پر 25 جون 1955ء کو شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت پر نئی رپورٹ شایع کر کے تمام سابقہ لوگوں کو بری الذمہ قرار دیا گیا لیکن عوام کی اکثریت نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اب تک تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہر سال ہم پاکستانی لیاقت علی شہید ڈے پر بڑے بڑے سیمینار، مذاکرے کی محفلیں، جلسے جلوس منعقد کرتے ہیں، لاکھوں روپیہ اور وقت ان کی یاد میں لگاتے ہیں مگر افسوس صد افسوس ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل نہیں کرتے۔ آپ وزیر اعظم، وزیر خزانہ ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی پائی پائی کو عوامی امانت سمجھتے تھے۔ ذاتیات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کے امیج کو اجاگر کرنے کے لیے کام کیا۔ شہر شہر کابینہ کے ذریعے حکومت چلائی تا کہ خزانے پر بوجھ نہ پڑے۔
موجودہ دور کے تمام سیاسی رہنما صدق دل سے یہ فیصلہ کریں کہ کیا وہ بذات خود آئین و قانون کی بات کرتے ہوئے ایمانداری سے آئین کے دائرے میں چل رہے ہیں۔ حکمراں پاکستان کے خزانے کو عوامی امانت سمجھتے ہوئے ایمانداری کے ساتھ جائز جگہوں، منصوبوں پر استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر عوامی ٹھوس منصوبے پر آواز بلند کر رہے ہیں۔ کیا ہماری قوم نے مقاصد قیام پاکستان حاصل کر لیے ہیں۔ اور نہیں تو ہم نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ حال تو یہ ہے کہ ہم اپنی ثقافت اور تہذیب کو بھی بھولتے جا رہے ہیں۔
آئیں ہم عہد کریں پاکستان سے اقربا پروری، رشوت بازاری، خود غرضی اور مذہبی جنونیت کے خاتمے کے لیے مل جل کر کام کریں۔ انا پرستی، فرقہ پرستی، قوم پرستی کو چھوڑ کر اپنے معماروں کے مستقبل اور مضبوط پاکستان کے لیے دن رات یکجا کر دیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی مثبت پالیسیوں کا جائزہ لے کر اپنے ملک میں اپنائیں۔ اپنے اندر، قوم کے اندر، ملک کے اندر کی خامیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں۔