دستک
اس میں ملک میں پیدا ہونے والے سرمایے کی ایک بڑی مقدار رشوت میں تقسیم ہو کر تحفظ حاصل کرنے کے لیے اڑ کر غیر ملکی۔۔۔
ہفتہ رفتہ میں تواتر سے آگے پیچھے دو تقریریں سننے کے بعد میرے جیسے خوش فہم شخص کو یقین ہو چلا ہے کہ پاکستان انقلاب کے دروازے پر پہنچ گیا اور کچھ وقت جاتا ہے کہ مکمل انقلاب کے نقارے بجنا شروع ہو جائیں گے۔
اس میں سے پہلی تقریر تو عالیشان اثاثے کے حامل نیو ٹیلنٹ بلاول بھٹو زرداری کی معرکۃ الآرا تقریر اور اس کی فنی ادائیگی اور صداقت سے علو جذبات کے اظہار سے انقلاب کی ابتدا ہو گئی کہ ایم کیو ایم نے نہ صرف پی پی پی سے اپنے تعلقات ختم کر دیے بلکہ ردعمل میں نئے صوبے کے قیام کا بیڑا بھی اٹھا لیا۔ بلاول تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جسے پاکستان میں جمہوریت کی علامت سمجھا جاتا ہے لہٰذا ان سے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ ایک پائیدار اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے راہیں ہموار کریں گے۔
ایم کیو ایم جس بات پر زیادہ محتاط ہونے پر مجبور ہوئی ہے وہ غالباً بلاول بھٹو زرداری کا سرسری انداز میں بولا ہوا وہ جملہ ہے کہ ''متحدہ 20 سال سے حکومت میں ہے لیکن الیکشن میں بو کاٹا ہو جائے گا۔'' شاید دوسرے جملوں اور انداز ادائیگی و تنقید پر ایم کیو ایم نے علیحدگی کا فیصلہ کیا ہو گا لیکن یہ جملہ انقلابی اور معنی خیز ہے جو مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاسی طور پر اور بالخصوص تعارفی عوامی تقریر میں بلاول بھٹو زرداری نے انقلاب کی جھلک دکھا دی۔ سیاسی پنڈت کس قدر بھی تجزیہ کرتے ہوئے اپنی دانشمندی کے اظہار کے لیے تقریر میں منشور اور دیگر نکات کو لازم قرار دیتے ہوئے بلاول کی افتتاحی تقریر کو بھرپور قرار نہ دیں لیکن تجزیوں اور تاثرات سے حقائق کو بدلا نہیں جا سکتا۔ بلاول کی تقریر نے پی پی پی سے وابستہ لوگوں میں جذباتیت کے حوالے سے یقین مستحکم کیا ہے کہ نیم کھلے دروازے پاٹوں پاٹ کھول دیے جائیں گے۔ اور جو توقعات آدھی پوری ہوئی ہیں انھیں مکمل کر دیا جائے گا۔
اس تقریر پر تو ابھی اور بہت کچھ کہا جائے گا لیکن ہم دوسری اہم تقریر کا بھی حوالہ دینا چاہتے ہیں جس کی وجہ نزول ہی انقلاب ہے۔ یہ ڈاکٹر طاہر القادری کی وہ تقریر ہے جو مینار پاکستان کے زیر سایہ ایک بہت بڑے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کی گئی۔ اس کا پہلا نکتہ جو انقلاب کا آغاز معلوم ہوتا ہے وہ قائد اعظم کے وژن کا ذکر ہے جسے فی الحال ڈاکٹر صاحب نے کھل کر بیان کرنا مناسب نہیں سمجھا مگر پنجاب کے سات صوبوں کی بات کر کے انقلاب کی نوید سنا دی۔ میرے جیسے کج فہم کے لیے ایک بات تشنہ رہ گئی کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے انقلاب کے خاکے میں کہیں معاشی نظام کا ذکر نہیں کیا۔ جہاں تک میری معلومات ہیں اور میری فہم ہے وہ یہی بتاتی ہے کہ سیاسی انقلاب سے مراد معاشی نظام کی تبدیلی ہوتی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے ضرورت نہیں سمجھی کہ وہ بتاتے کہ مملکت کی جانب سے سرمایہ کاری اور سرمایہ داروں کو جو ٹیکس اور دوسری مراعات کا تحفظ دیا گیا ہے۔
اس میں ملک میں پیدا ہونے والے سرمایے کی ایک بڑی مقدار رشوت میں تقسیم ہو کر تحفظ حاصل کرنے کے لیے اڑ کر غیر ملکی بینکوں میں چلی جاتی ہے۔ ملکی دولت پر جہاں سے چلے تھے وہیں پہنچ کر مزید امداد کی طلب گار بن جاتی ہے۔ جس سے مہنگائی، بے روزگاری روز افزوں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سرمایہ کاری کے مواقعے محدود ہو رہے ہیں۔ اس کے برخلاف ڈاکٹر صاحب نے انقلاب کی جو شناخت بتائی اس میں حکومت کی طرف سے عوام کی امداد ہو گی ہر غریب شخص کو آدھی قیمت پر اشیا خورونوش دستیاب ہوں گی۔ غریب کے یوٹیلٹی بل کی آدھی رقم حکومت ادا کرے گی۔ مفت تعلیم اور مفت علاج کی سہولت ہو گی بے زمین کاشتکار کو مفت زمین دی جائے گی اور اس طرح رہائشی مکانات اور دیگر ضروریات میں حکومت سخی داتا بن کر عوام کے مسائل حل کرے گی لیکن حکومت کی آمدنی کیسے بڑھے گی۔
اس کی مبہم تفصیلات مثلاً بجلی سستی پیدا ہو گی تو صنعت کا زیادہ فائدہ اٹھائے گا مزید منافع دگنا تگنا کرے گا لیکن یہ لفظ ڈاکٹر صاحب نے نہیں بولا کہ صنعت و تجارت پر حکومت کی جانب سے محدودات میں یہ مادر پدر آزادی کی تجدید کی جائے گی تا کہ حکومت کے وسائل بڑھیں جیسا کہ ایوب خان کے دور میں معیشت کو کسی حد تک حکومت کے قوانین کا پابند کیا ہوا تھا جب کہ جمہوریت میں مکمل آزادی ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے ملکی ضرورت نہیں منافعے کی شرح دیکھی جاتی ہے۔ اس سرمایہ کاری میں پیدا ہونے والی شے چاہے تعیش کے کام آتی ہو اور اس کی کھپت بھی کم ہو لیکن منافعے میں شرح کے اعتبار سے زیادہ ہو خواہ اس سے ملک کو معاشی فائدہ نہ پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب نے ممکن ہے مصلحت کے تحت معاشی پروگرام بیان کرنا ضروری نہ سمجھا ہو لیکن انھیں انقلاب کی بات کرنے کے ساتھ ایوب خان کی ڈائری پڑھتے ہوئے وہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے اشتراکی نظام ناگزیر ہے جس کے بغیر معاشرتی اصلاح بھی نہیں ہو سکتی۔
ڈاکٹر صاحب کو اس اشتراکی نظام کی تعریف اور حد بندی کرنا چاہیے جس سے حکومت کی آمدنی بڑھے اور افراد اپنی حدود میں رہ کر سرمایہ کاری کرتے ہوئے منافع کمائیں یہاں اشتراکیت کا لفظ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے کہ فرد کے اوپر معاشرے کے مفادات کو ترجیح دی جائے اولیت معاشرے کے مفادات کو ہو۔ کاش ڈاکٹر صاحب انقلاب کی رو میں اتنا ہی کہہ دیتے کہ ملک میں ایک شخص کو ایک مکان رکھنے کی اجازت ہو گی دوسرا مکان یا وہ بیچ دے ورنہ سرکار ضبط کر لے گی۔ یہ ابتدائی اشارہ معاشرے میں فکری ہیجان پیدا کر دیتا کہ کالی دولت پر گرفت کے امکانات پیدا کیے جا رہے ہیں اور یہیں سے انقلاب کا آغاز ہوتا ہے۔
مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری تقریر میں خیرات کو اہمیت دے کر انقلاب کی راہ دکھائی جس پر ماہرین عمرانیات و معاشیات بہتر طریقے پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔ ہم نے تو اس تقریر سے یہی اندازہ لگایا کہ کچھ نیا ہونے جا رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے معمول سے ہٹ کر تبدیلی کو انقلاب قرار دیا ہے۔ اور وہ اصلاح جس میں معاشرتی اور معاشی نظام الٹ جائیں یا بدل جائیں ڈاکٹر صاحب اس میں ترمیم کر رہے ہیں۔ گویا انقلاب کی دستک تو ہے۔