اندھوں کے دیس میں تین بھکشو
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی سیاسی سرگرمیاں فقط اکتاہٹ بڑھاتی ہیں۔ دونوں طرف خاندان۔ دونوں طرف عہد قدیم کی سیاست
KARACHI:
دانائی ہمالیہ کی چوٹیوں پر نہیں، صوفی کی گٹھری میں پوشیدہ ہے۔ حقیقت تک رسائی مشکل نہیں۔ بس، مسافر ہونا شرط۔ کوئی سچ کی تلاش میں نکلے، تو ہر موڑ پر بیری کا پیڑ۔ اور ہر پیڑ تلے ایک بدھ برا جمان۔ بدھ، جو کہا کرتا تھا: ''علم خاموشی کی سلوٹوں میں پنہاں ہے۔''
گیانیوں کے سادہ سے اقوال آگہی کے نور سے لبریز ہیں۔ پر جو اندھے ہوں، اُن کے لیے تاریکی اور روشنی ایک سی۔ اور یہ اندھا پن شعوری ہے، جسے پرتگالی ادیب، ہوزے سارا ماگو نے اپنے ادبی شاہ کار "Blindness" میں قلم بند کیا۔ ناول، جو دیکھنے والے اندھوں کی بپتا ہے۔ جو دیکھ سکتے ہیں، پر نہیں دیکھتے۔
پُرسکون جھیل میں کنکری پھینکیں، تو دائرے کی صورت جنم لیتی لہریں آپ کے روبرو رقص کریں گی۔ مگر غصیل دریا میں چٹان بھی پھینک دیں، تو وہ خاموشی سے غائب ہوجائے گی۔
ایک معمولی کنکری نے تو نشان چھوڑا، پر بھاری بھرکم چٹان بے نشان رہی۔ اِس میں نہ تو کنکری کا کمال، نہ ہی چٹان کا کوئی قصور۔ یہ فرق اُس خاموش سکون کی دَین ہے، جو جھیل میں سانس لیتا ہے، اور جس سے دریا محروم ہے۔
تو صاحبو، علم ہر سوں بکھرا ہے۔ بس ذرا کشادہ ہونے کی دیر ہے۔ تھوڑی خاموشی درکار ہے۔ یہ خود ہی ہمکتا ہوا، مہکتا ہوا، آپ تک چلے آئے گا۔ مگر کشادگی ہمارا نصیب کہاں۔ خاموشی خواب ہوئی۔ ہم تو انتشار کے عہد میں زندہ ہیں۔ شور شرابا۔ غل غپاڑا۔ جلسوں کی بھرمار۔ بے لطف تقریریں۔ الزامات ،دعوے، وعدے اور انتشار کے ذمے دار وہ، جنھیں ہم نے ووٹوں سے منتخب کیا، اور پارلیمنٹ پہنچ کر وہ ہمیں بھول گئے۔ ہمیں دھوکا دینے والے اگر بازی گر ہوتے، تب بھی غنیمت تھا، یہ تو مداری ہیں۔ ہمیں نچا رہے ہیں۔ کبھی حب الوطنی، کبھی مذہب اور کبھی قومیت کے نام پر۔ اور خود یہ اِن بھاری بھرکم الفاظ کے معنوں سے ناواقف ہیں۔ ڈھیٹ ایسے کہ لاکھ آئینہ دِکھائیں، مگر چہرے پر شرم کی رمق تک نہ اُبھرے۔
ارجن کا رتھ تو کرشن جیسے گیانی نے سنبھالا تھا، مگر ہماری زندگیوں کے فیصلے ایسے ہاتھوں میں، جن پر خون کے دھبے۔ آستینوں میں بت۔ مفادات کے پجاری ہمارے رتھ سنبھالے ہوئے ہیں۔ اِن چیختے چنگھاڑے لوگوں سے خیر کی کیا امید۔ یہ علم سے اتنے دور، جتنا صحرا سمندر سے۔ اور آگ پانی سے۔ ہمارے سیاست دانوں نے قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اپنے دقیانوسی نعروں سے مسلسل زوال کی سمت کھینچ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی سیاسی سرگرمیاں فقط اکتاہٹ بڑھاتی ہیں۔ دونوں طرف خاندان۔ دونوں طرف عہد قدیم کی سیاست۔ عمران خان اور طاہر قادری نئی سیاست کے داعی، مگر اوزار وہی پرانے۔ دیگر چھوٹی بڑی جماعتیں بھی تعصبات اور مفادات کے جال میں قید۔ اسٹیبلشمنٹ کا ذکر ہی کیا۔ ایسے میں ترقی کا امکان کہاں۔ الزامات کی گھٹن میں وہ کشادگی کافور ہوئی، جو علم کو اپنی سمت کھینچتی ہے۔ ایک دوسرے کو اتنی شدت سے رد کیا جارہا ہے کہ قبولیت کا امکان مر گیا۔
اِن خودپسندوں کے تذکرے کا مطلب جی جلانا ہے۔ اُن کے بیانات پر غورکرنا خود کو ہلکان کرنے کے مترادف۔ اور ان پر یقین کرنا لگ بھگ خودکشی۔ المیہ یہ کہ ملک کی باگ دوڑ اُن ہی کے ہاتھ۔ انتخابی مہم میں کروڑوں لگائیں گے، مگر کبھی کوئی یونیورسٹی نہیں بنائیں گے۔ جلسوں کے پنڈال سجائیں گے، مگر اسپتالوں کی بنیاد رکھنے کا معاملہ ہو، تو کنی کترا کر نکل جائیں گے۔ ان فیصلہ سازوں نے زندگی کے ہر شعبے کو گُھن لگا دیا۔ شعبہ اسپورٹس کا ہو، یا پیشہ صحافت کا، میدان ادب کا ہو، یا صنعت کا؛ ہر جگہ سیاست کا ناسور پھیل گیا۔ اندھا پن غالب آگیا۔
پیپلزپارٹی کے جلسے سے پہلے ہی شہر قائد کی فضاؤں میں غیرضروری انتشار لپکنے لگا تھا۔ 18 اکتوبر کے بعد اکتاہٹ مزید بڑھی۔ فرسودہ سیاست کا شور سمع خراشی کا باعث بنا۔ خیبر سے کراچی تک ایک جیسی کہانیاں دہرائی جارہی ہیں۔ کوئی نیا پن نہیں۔ ہم تو اُکتا گئے ہیں، مگر داستان گو ایسے اڑیل کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہے۔
کہتے ہیں، جب تاریکی دبیز ہو، تو صبح قریب ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں جب یاسیت نے حملہ کیا، تو ایک قدیم حکایت یاد آگئی، جو اوشو اکثر سُنایا کرتا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں:
یہ تین بھکشوؤں کی کہانی ہے۔ وہ ہمیشہ ساتھ دکھائی دیتے۔ ہر وقت ہنستے، مسکراتے، قہقہے لگاتے۔ عام طور سے جنگل میں رہتے۔ اور جب کبھی شہر آتے، تو قہقہے لگاتے ہوئے بازار میں جا کھڑے ہوتے۔ اُن کے قہقہوں سے بازار گونج اٹھتا۔ لوگ اپنا کام دھندا چھوڑ کر اُنھیں تکنے لگتے۔ پہلے ان بے وجہ قہقہوں کی وجہ پوچھتے۔ وہ کوئی جواب نہ دیتے، بس ہنستے رہتے۔ پھر لوگ جملے اچھالتے۔ کچھ دیر بعد یہ سوچ کہ بے چارے دیوانے ہیں، خاموش ہو جاتے۔ پر بھکشوؤں کے قہقہے جاری رہتے۔ اور تب کچھ رونما ہوتا۔ لوگوں میں خواہش جنبش کرتی کہ وہ بھی مسکرائیں۔ تھوڑا ہنس لیں۔ بے سبب ہی سہی، تھوڑا خوش ہولیں۔ تو یوں خوشی کا مرض چپکے چپکے پھیلنے لگتا۔ لوگ پہلے مسکراتے۔ پھر ہنستے۔ پھر اُن تین دیوانوں کی طرح قہقہے لگانے لگتے۔ خوشی کا مرض اُنھیں لاحق ہوچکا ہوتا۔
کچھ برس بعد ایک سنیاسی کا انتقال ہوگیا۔ شہر میں خبر پھیلی، تو لوگ جنگل کی سمت گئے۔ سوچا، آج وہ ضرور اداس ہوں گے، ان کی خوشیوں کا ایک ساتھی جو چلا گیا۔ مگر جب وہ اُن کی کٹیا کے قریب پہنچے، تو حیران رہ گئے۔ دونوں بھکشو اپنے ساتھی کی لاش کے پاس کھڑے قہقہے لگا رہے تھے۔ کسی نے غم کے اِس پل یوں ہنسنے کا سبب پوچھا۔ انھوں نے اپنے ساتھی کی سمت اشارہ کیا: ''وہ بازی لے گیا۔ کامل خوشی سے جاملا۔'' لوگوں نے مرے ہوئے بھکشو کی سمت دیکھا۔ وہ بھی زیر لب مسکرا رہا تھا۔
تو بے ہنگم نعروں، بے ربط دعوؤں، جھوٹے وعدوں کے شور میں اوشو کی سُنائی ہوئی یہ قدیم حکایت یاد آئی۔ گھٹن کچھ کم ہوئی۔ ہنسنے کو جی چاہا۔ کچھ کشادگی میسر آئی۔ کچھ قبولیت پیدا ہوئی۔
سوچتا ہوں، کاش اندھے لوگوں کے اِس دیس میں ایسے تین بھکشو ہوتے، جو بے سبب جنم لینے والی خوشی ساتھ لاتے، اور ہم میں لطافت کا مرض پھیل جاتا۔
پھر سوچتا ہوں، کیوں ناں ہم سب ہی ہنسنے والے بھکشو بن جائیں۔ کچھ کھلا پن، کچھ تازگی در آئے ۔ حبس گھٹے اور ہم اندھوں کی بینائی لوٹ آئے ۔
دانائی ہمالیہ کی چوٹیوں پر نہیں، صوفی کی گٹھری میں پوشیدہ ہے۔ حقیقت تک رسائی مشکل نہیں۔ بس، مسافر ہونا شرط۔ کوئی سچ کی تلاش میں نکلے، تو ہر موڑ پر بیری کا پیڑ۔ اور ہر پیڑ تلے ایک بدھ برا جمان۔ بدھ، جو کہا کرتا تھا: ''علم خاموشی کی سلوٹوں میں پنہاں ہے۔''
گیانیوں کے سادہ سے اقوال آگہی کے نور سے لبریز ہیں۔ پر جو اندھے ہوں، اُن کے لیے تاریکی اور روشنی ایک سی۔ اور یہ اندھا پن شعوری ہے، جسے پرتگالی ادیب، ہوزے سارا ماگو نے اپنے ادبی شاہ کار "Blindness" میں قلم بند کیا۔ ناول، جو دیکھنے والے اندھوں کی بپتا ہے۔ جو دیکھ سکتے ہیں، پر نہیں دیکھتے۔
پُرسکون جھیل میں کنکری پھینکیں، تو دائرے کی صورت جنم لیتی لہریں آپ کے روبرو رقص کریں گی۔ مگر غصیل دریا میں چٹان بھی پھینک دیں، تو وہ خاموشی سے غائب ہوجائے گی۔
ایک معمولی کنکری نے تو نشان چھوڑا، پر بھاری بھرکم چٹان بے نشان رہی۔ اِس میں نہ تو کنکری کا کمال، نہ ہی چٹان کا کوئی قصور۔ یہ فرق اُس خاموش سکون کی دَین ہے، جو جھیل میں سانس لیتا ہے، اور جس سے دریا محروم ہے۔
تو صاحبو، علم ہر سوں بکھرا ہے۔ بس ذرا کشادہ ہونے کی دیر ہے۔ تھوڑی خاموشی درکار ہے۔ یہ خود ہی ہمکتا ہوا، مہکتا ہوا، آپ تک چلے آئے گا۔ مگر کشادگی ہمارا نصیب کہاں۔ خاموشی خواب ہوئی۔ ہم تو انتشار کے عہد میں زندہ ہیں۔ شور شرابا۔ غل غپاڑا۔ جلسوں کی بھرمار۔ بے لطف تقریریں۔ الزامات ،دعوے، وعدے اور انتشار کے ذمے دار وہ، جنھیں ہم نے ووٹوں سے منتخب کیا، اور پارلیمنٹ پہنچ کر وہ ہمیں بھول گئے۔ ہمیں دھوکا دینے والے اگر بازی گر ہوتے، تب بھی غنیمت تھا، یہ تو مداری ہیں۔ ہمیں نچا رہے ہیں۔ کبھی حب الوطنی، کبھی مذہب اور کبھی قومیت کے نام پر۔ اور خود یہ اِن بھاری بھرکم الفاظ کے معنوں سے ناواقف ہیں۔ ڈھیٹ ایسے کہ لاکھ آئینہ دِکھائیں، مگر چہرے پر شرم کی رمق تک نہ اُبھرے۔
ارجن کا رتھ تو کرشن جیسے گیانی نے سنبھالا تھا، مگر ہماری زندگیوں کے فیصلے ایسے ہاتھوں میں، جن پر خون کے دھبے۔ آستینوں میں بت۔ مفادات کے پجاری ہمارے رتھ سنبھالے ہوئے ہیں۔ اِن چیختے چنگھاڑے لوگوں سے خیر کی کیا امید۔ یہ علم سے اتنے دور، جتنا صحرا سمندر سے۔ اور آگ پانی سے۔ ہمارے سیاست دانوں نے قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اپنے دقیانوسی نعروں سے مسلسل زوال کی سمت کھینچ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی سیاسی سرگرمیاں فقط اکتاہٹ بڑھاتی ہیں۔ دونوں طرف خاندان۔ دونوں طرف عہد قدیم کی سیاست۔ عمران خان اور طاہر قادری نئی سیاست کے داعی، مگر اوزار وہی پرانے۔ دیگر چھوٹی بڑی جماعتیں بھی تعصبات اور مفادات کے جال میں قید۔ اسٹیبلشمنٹ کا ذکر ہی کیا۔ ایسے میں ترقی کا امکان کہاں۔ الزامات کی گھٹن میں وہ کشادگی کافور ہوئی، جو علم کو اپنی سمت کھینچتی ہے۔ ایک دوسرے کو اتنی شدت سے رد کیا جارہا ہے کہ قبولیت کا امکان مر گیا۔
اِن خودپسندوں کے تذکرے کا مطلب جی جلانا ہے۔ اُن کے بیانات پر غورکرنا خود کو ہلکان کرنے کے مترادف۔ اور ان پر یقین کرنا لگ بھگ خودکشی۔ المیہ یہ کہ ملک کی باگ دوڑ اُن ہی کے ہاتھ۔ انتخابی مہم میں کروڑوں لگائیں گے، مگر کبھی کوئی یونیورسٹی نہیں بنائیں گے۔ جلسوں کے پنڈال سجائیں گے، مگر اسپتالوں کی بنیاد رکھنے کا معاملہ ہو، تو کنی کترا کر نکل جائیں گے۔ ان فیصلہ سازوں نے زندگی کے ہر شعبے کو گُھن لگا دیا۔ شعبہ اسپورٹس کا ہو، یا پیشہ صحافت کا، میدان ادب کا ہو، یا صنعت کا؛ ہر جگہ سیاست کا ناسور پھیل گیا۔ اندھا پن غالب آگیا۔
پیپلزپارٹی کے جلسے سے پہلے ہی شہر قائد کی فضاؤں میں غیرضروری انتشار لپکنے لگا تھا۔ 18 اکتوبر کے بعد اکتاہٹ مزید بڑھی۔ فرسودہ سیاست کا شور سمع خراشی کا باعث بنا۔ خیبر سے کراچی تک ایک جیسی کہانیاں دہرائی جارہی ہیں۔ کوئی نیا پن نہیں۔ ہم تو اُکتا گئے ہیں، مگر داستان گو ایسے اڑیل کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہے۔
کہتے ہیں، جب تاریکی دبیز ہو، تو صبح قریب ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں جب یاسیت نے حملہ کیا، تو ایک قدیم حکایت یاد آگئی، جو اوشو اکثر سُنایا کرتا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں:
یہ تین بھکشوؤں کی کہانی ہے۔ وہ ہمیشہ ساتھ دکھائی دیتے۔ ہر وقت ہنستے، مسکراتے، قہقہے لگاتے۔ عام طور سے جنگل میں رہتے۔ اور جب کبھی شہر آتے، تو قہقہے لگاتے ہوئے بازار میں جا کھڑے ہوتے۔ اُن کے قہقہوں سے بازار گونج اٹھتا۔ لوگ اپنا کام دھندا چھوڑ کر اُنھیں تکنے لگتے۔ پہلے ان بے وجہ قہقہوں کی وجہ پوچھتے۔ وہ کوئی جواب نہ دیتے، بس ہنستے رہتے۔ پھر لوگ جملے اچھالتے۔ کچھ دیر بعد یہ سوچ کہ بے چارے دیوانے ہیں، خاموش ہو جاتے۔ پر بھکشوؤں کے قہقہے جاری رہتے۔ اور تب کچھ رونما ہوتا۔ لوگوں میں خواہش جنبش کرتی کہ وہ بھی مسکرائیں۔ تھوڑا ہنس لیں۔ بے سبب ہی سہی، تھوڑا خوش ہولیں۔ تو یوں خوشی کا مرض چپکے چپکے پھیلنے لگتا۔ لوگ پہلے مسکراتے۔ پھر ہنستے۔ پھر اُن تین دیوانوں کی طرح قہقہے لگانے لگتے۔ خوشی کا مرض اُنھیں لاحق ہوچکا ہوتا۔
کچھ برس بعد ایک سنیاسی کا انتقال ہوگیا۔ شہر میں خبر پھیلی، تو لوگ جنگل کی سمت گئے۔ سوچا، آج وہ ضرور اداس ہوں گے، ان کی خوشیوں کا ایک ساتھی جو چلا گیا۔ مگر جب وہ اُن کی کٹیا کے قریب پہنچے، تو حیران رہ گئے۔ دونوں بھکشو اپنے ساتھی کی لاش کے پاس کھڑے قہقہے لگا رہے تھے۔ کسی نے غم کے اِس پل یوں ہنسنے کا سبب پوچھا۔ انھوں نے اپنے ساتھی کی سمت اشارہ کیا: ''وہ بازی لے گیا۔ کامل خوشی سے جاملا۔'' لوگوں نے مرے ہوئے بھکشو کی سمت دیکھا۔ وہ بھی زیر لب مسکرا رہا تھا۔
تو بے ہنگم نعروں، بے ربط دعوؤں، جھوٹے وعدوں کے شور میں اوشو کی سُنائی ہوئی یہ قدیم حکایت یاد آئی۔ گھٹن کچھ کم ہوئی۔ ہنسنے کو جی چاہا۔ کچھ کشادگی میسر آئی۔ کچھ قبولیت پیدا ہوئی۔
سوچتا ہوں، کاش اندھے لوگوں کے اِس دیس میں ایسے تین بھکشو ہوتے، جو بے سبب جنم لینے والی خوشی ساتھ لاتے، اور ہم میں لطافت کا مرض پھیل جاتا۔
پھر سوچتا ہوں، کیوں ناں ہم سب ہی ہنسنے والے بھکشو بن جائیں۔ کچھ کھلا پن، کچھ تازگی در آئے ۔ حبس گھٹے اور ہم اندھوں کی بینائی لوٹ آئے ۔