پولیو سے آئندہ نسل کو بچانے کیلئے اجتماعی کوششیں کرنا ہوگی ایکسپریس فورم

افواہیں بہت بڑی رکاوٹ ہیں، اگر سیوریج اور پینے کے پانی کی لائنیں مل جائیں تووائرس بہت پھیلتا ہے، ماہرین

کراچی: پروفیسر اقبال میمن،ڈاکٹر ظفر اعجاز اور ڈاکٹر درناز ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کررہی ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

پولیو وائرس سے بچوں اور آئندہ نسل کوبچانے کیلیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے، پاکستان میں تواتر کے ساتھ پولیو وائرس رپورٹ ہونے پر حکومت کوعالمی دباؤ کا سامنا ہے عوام میں شعور بیدار کرنے کیلیے میڈیا سب سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

انسداد پولیومہم کو کامیاب بنانے کیلیے ایسی تشہیری مہمات چلائی جائیں جن سے عوام میں وائرس سے بچائوکی ترغیب پیدا ہو، اس مہم میں مذہبی شخصیات اور ہر علاقے کے معززین کو بھی شامل کرنا ضروری ہے،کوشش کی جانی چاہیے کہ عوام میں پولیو ویکسین کے حوالے سے موجود غلط فہمیوںکودورکیا جائے، انسداد پولیو ویکسین کا صحیح استعمال اور اس کی دیکھ بھال بہت ضروری ہے تاکہ بچوںکے منہ میں جانے تک اصل حالت میں برقرار رہے۔

ڈاکٹرشکیل آفریدی کے کیس نے بھی قومی پولیومہم کوشدید نقصان پہنچایا، ان خیالات کا اظہار مختلف شخصیات نے پولیووائرس کاپاکستان میں پھیلاؤ، علامات، وائرس کے تدارک کیلیے کیے گئے اقدامات اورآئندہ کی حکمت عملی کے موضوع پرمنعقدہ ایکسپریس فورم میں کیا، کراچی میں منعقدہ مذاکرے میں صدر پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن پروفیسراقبال میمن، ڈائریکٹر ہیلتھ سروسزکراچی ڈویژن ڈاکٹرظفراعجاز اور ڈپٹی پراونشل منیجر ای پی آئی پروگرام ڈاکٹر درنازقاضی نے شرکت کی۔

پروفیسر اقبال میمن نے کہاکہ انسداد پولیومہم کی راہ میں افواہیں بہت بڑی رکاوٹ ہیں، لوگوں کو یہ بات بتانی بہت ضروری ہے کہ انسداد پولیومہم کیلیے ہم پاکستان میں جو ویکسین استعمال کررہے ہیں وہ امریکا اور پوری دنیا میں استعمال کی جاتی ہے، اگر سیوریج اور پینے کے پانی کی لائنیں مل جائیں تو پولیو وائرس بہت بڑے رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتاہے، اس وقت صورتحال اس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ ہمارے لوگ ابھی سورہے ہیں جنھیں جگانے کی ضرورت ہے۔ حکومت اس وقت بہت دباؤ میں ہے کیونکہ تیزی سے پھیلتے وائرس کی وجہ سے اندرونی و بیرونی طورپر پاکستان کی پوزیشن کافی خراب ہورہی ہے۔


حکومت کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح پولیو وائرس کو روکا جائے، اس کیلیے سب کوملکرکام کرنا ہوگا، انھوں نے کہا کہ پولیوکے مرض کا شکار ہونے بچوں میں سے کچھ سرکاری اسپتالوں میں لائے جاتے اور کچھ پرائیویٹ اسپتالوں میںکام کرنے والے ڈاکٹروںکے پاس جاتے ہیں،اس کے علاوہ پولیوکی بیماری میں مبتلا بچوںکی ایک بڑی تعداد نیم حکیموں یا اتائیوں کے پاس بھی جاتی ہے، ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ عوام میں یہ شعور بیدارکرنا بہت ضروری ہے کہ انسداد پولیو کی ویکسین پلانا بچوں کا حق اور ہمارا فرض ہے۔

ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی ڈاکٹر ظفر اعجاز کا کہنا تھاکہ پولیوکا وائرس اس لیے بھی ملک بھر میں تیزی سے پھیلا کہ ہم نے کبھی مسئلے کی جڑوںکو جاننے کی کوشش نہیں کی، سندھ کی سطح پر اس وقت آبادی کے حساب سے انسداد پولیو ورکرز کی تعداد بہت کم ہے جس میں نمایاں اضافہ کیاجانا چاہیے، بعض علاقوں میں خواتین مردوں کے سامنے نہیں آتیں، کراچی کے کچھ علاقوں میں کسی غیرکا جانا معیوب سمجھا جاتا ہے، ہماری تجویز ہے کہ ایسے علاقوں میں علاقے یا محلے کے معززین، مذہبی شخصیات کو ہی انسداد پولیو مہم میں شامل کیا جائے۔

محلے کے لوگ جن افراد یا شخصیات پر اعتماد کرتے ہیں وہ اینٹی پولیومہم کیلیے آگے آئیں گے توگھر والے بھی اپنے بچوں کو قطرے پلانے میں خطرہ محسوس نہیں کرینگے،کراچی کے گڈاپ ٹائون کی یونین کونسل نمبر3 اور 4 پولیوکے حوالے سے سب سے زیاہ خطرناک ہیں، ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ شہرکراچی کے داخلی راستوں(انٹری پوائنٹس )پر اندرون ملک سے آنے والی تمام بسوں میں پولیو کے تدارک کی ویکسین پلائی جاتی ہے، وہاں ہمارے رضاکار موجود ہوتے ہیں لیکن بالائی علاقوں سے آنے والی بسوں میں مسافر اتنے زیادہ ہوتے ہیں اور ان کی نشستوں کی صورتحال بھی ایسی بنائی جاتی ہے کہ ہمارے رضاکار گاڑی کے پچھلے حصے تک جا ہی نہیں سکتے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بسوں میں سے اوورلوڈنگ ختم کی جائے، انھوں نے کہا کہ جس طرح والدین اپنے بچوںکواسکول لیکرجاتے ہیں ، اسی طرح بچوںکو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانا بھی ضروری ہے۔ ڈپٹی صوبائی مینجر ای پی آئی ڈاکٹردرنا زنے کہا کہ انسداد پولیو ٹیموں اور سیکیورٹی حکام کاکبھی بھی رابطہ نہیں ہوپاتا جس کی وجہ سے کراچی کے بعض علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال پیش آتی ہے، اندرون سندھ سیکیورٹی کے حوالے سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں، ہم کوشش کرتے ہیں کہ جتنی ضرورت ہو اس سے کچھ زیادہ مقدار میں انسداد پولیو ویکسین منگائی جائے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ آئندہ ماہ نومبر میں کراچی کے بعض ٹارگٹڈ علاقوں میں پولیو ویکسین انجکشن کے ذریعے دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، ہمیں امید ہے کہ اس مہم کے نتائج بہت حوصلہ افزا نکلیں گے، انھوں نے کہاکہ ای پی آئی میں ویکسین کی افادیت کو برقراررکھنے کیلیے کولڈ چین اسٹوریج کا موثر نظام موجود ہے جہاں ویکسین کومطلوبہ درجہ حرارت میں رکھاجاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو مختلف امراض سے محفوظ رکھنے کیلیے قانون سازی بھی کی جارہی ہے جس میں والدین کواپنے بچے کو اسکول کے داخلے کیلیے ای پی آئی کا ویکسینشن کارڈ دیکھانا لازمی ہوگا انھوں نے کہاکہ اس کا قانونی مسودہ مرتب کرلیا گیا ہے ۔
Load Next Story