’’لاحاصلی‘‘

ایک طرف حکومت کی مصلحتی معذوریاں ہیں تو دوسری طرف عدلیہ کی ازخود نوٹسی مجبوریاں۔


Abbas Athar September 29, 2012
ایک طرف حکومت کی مصلحتی معذوریاں ہیں تو دوسری طرف عدلیہ کی ازخود نوٹسی مجبوریاں۔

بلوچستان کے رہنما اختر مینگل نے سپریم کورٹ میں جو بیان دیا ہے اسے ''تاریخی'' کہا جا سکتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ یہ بیان ''تاریخ ساز'' بھی ثابت ہو یعنی کبھی ایسا وقت آئے کہ بلوچستان کا تذکرہ لکھنے والے اس بیان کا بھی حوالہ دیں۔ سپریم کورٹ نے اختر مینگل کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا تھا۔ اس طرح سپریم کورٹ کا یہ اقدام بھی ''تاریخی'' ہو سکتا ہے لیکن تاریخ توآنے والے زمانے میں بننی ہے۔ دورحاضر کا سوال یہ ہے کہ اختر مینگل کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد اور اس سے پہلے بلوچستان کے ایشو پر سپریم کورٹ کی ساری کارروائی سے کیا حاصل ہو گا۔ بلوچستان کا مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے اور اب اس میں اتنے زیادہ فریق ملوث ہوچکے ہیں کہ محض عدالت کے حکم یا انتظامی ہدایت نامے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ سپریم کورٹ بھی یہ حقیقت جانتی ہے لیکن پھر بھی ایک بظاہر لاحاصل مشق میں لگی ہوئی ہے۔

کراچی کے معاملے میں یہ ''لاحاصلی'' پہلے بھی ثابت ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے کراچی جا کر عدالت لگائی اور کئی روز کی سماعت کے بعد یہ حکم دے کر کراچی کے حالات پر ازخود نوٹس کا کیس نمٹا دیا کہ حالات ٹھیک کیے جائیں۔ اس دوران کراچی کے افسران کی طلبیاں ہوتی رہیں۔ ان کی جواب طلبی ہوئی' کافی حوصلہ افزا ریمارکس بھی آتے رہے۔ لگتا تھا کہ جج صاحبان آئے ہیں تو کوئی ٹھیک ٹھاک فیصلہ دے کر ہی جائیں گے لیکن جب فیصلہ آیا تو لوگوں نے اس پر ایسے ایسے تبصرے کیے کہ چند جملے یہاں نقل کر دوں تو میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو جائے گی۔ اس معاملے پر یہ لطیفہ قابل برداشت ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مریض کی حالت خراب ہو گئی۔

ایک ''سیانا'' لپک کر وہاں پہنچا اور بولا، سب ہٹ جاؤ' میں مسئلہ حل کرتا ہوں۔ لوگ ہٹ گئے' سیانا کافی دیر تک مریض کا معائنہ کرتا رہا اور پھر با رعب لہجے کے ساتھ حکم سنایا کہ اس آدمی کو ضرور کوئی نہ کوئی بیماری ہے' اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔

بلوچستان کا کیس ہو یا لاپتہ افراد کا اجتماعی معاملہ' سپریم کورٹ جانتی ہے کہ یہ وہ امور ہیں جن پر حکومت کا بس چلتا ہے نہ کسی عدالت کی مانی جاتی ہے۔ پھر ان مسئلوں کی گرہیں کھولنے سے جو ہاتھ میں آتا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ بہت سے افسروں کی شامت آ جاتی ہے۔ ان کی پیشیاں اور طلبیاں ہوتی ہیں' وہ ڈانٹ ڈپٹ سن کر کچھ نہ کچھ کرنے کا یقین دلاتے ہیں لیکن واپس جا کر وہی کچھ کرتے ہیں جس کی انھیں اجازت ہوتی ہے یا جو ان کے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے۔

افسروں کے وقت کے ضیاع کے علاوہ ایسی ہر کارروائی سے عدالتوں کا اصل کام متاثر ہوتا ہے۔ فائدہ صرف میڈیا کو ہوتا ہے جسے کوئی نہ کوئی بریکنگ نیوز یا شہ سرخی آسانی سے مل جاتی ہے۔ ازخود نوٹسوں کے علاوہ آئینی' سیاسی امور میں عدلیہ اس حد تک الجھ گئی ہے کہ بے شمار دوسرے مقدمات سماعت سے محروم رہ گئے ہیں۔ ایک مشہور عدالتی اصول کے مطابق انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔ پچھلے تین چار سال سے عدلیہ زیادہ تر ایسے معاملات کی سماعت کرتی رہی جس کی اصلاح کے لیے اس کے پاس براہ راست اختیار ہے' نہ انتظامیہ ہے نہ عملدرآمد کی طاقت۔ لازمی طور پر عدلیہ بہت کچھ جانتی ہے لیکن اس نے ازخود نوٹس لینے کی جو مہم شروع کی تھی، اس سے پیچھا چھڑانا اب اس کے اپنے لیے مشکل ثابت ہو رہا ہے۔

وہ کسی خالص انتظامی معاملے پر پٹیشن کی سماعت سے انکار کر کے یہ تاثر نہیں دے سکتی کہ وہ آل پاور فل نہیں ہے، اس لیے اسے سنتی اور حکم جاری کر دیتی ہے، خواہ وہ انتظامی لحاظ سے ناقابل عمل ہی کیوں نہ ہو۔ بلوچستان کا مسئلہ جنرل مشرف کا پیدا کردہ ہے۔ ابتدائی برسوں میں موجودہ عدلیہ مشرف کے ساتھ تھی۔ اس وقت وہ حکمرانوں کا ہاتھ روکنے کی کوشش کرتی تو مشرف اس کو گھر بھیج دیتے۔ اس لحاظ سے یہ ٹھیک ہی ہوا کہ عدلیہ نے اس وقت کوئی غیر دانشمندانہ ایڈونچر نہیں کیا لیکن جب مشرف پر کمزوری کے آثار تھے تو عدلیہ اس کا ہاتھ روکنے کی پوزیشن میں آگئی تھی۔ بدقسمتی سے اس وقت بھی عدلیہ نے بعض معاملات میں مصلحت کو ضروری سمجھا، جب مشرف کے دوبارہ انتخاب کا مسئلہ اٹھا تو عدلیہ نے اس کے حق میں فیصلہ دیا۔

مشرف اس وقت عدلیہ سے ایک ٹکرائو کر چکے تھے اور سیاسی جماعتیں آمریت کے خلاف متحد ہوچکی تھیں، اگر اس وقت عدلیہ مشرف کے دوبارہ منتخب ہونے کی کوشش کو غیر آئینی قرار دے دیتی تو ان کیلیے دوبارہ منتخب ہونا ناممکن ہوجاتا لیکن ایسا نہ ہوا۔ عدالتی تائید کی شہ پاکر مشرف شیر ہوگئے اور بلوچستان پر چڑھ دوڑے، اکبر بگٹی کو قتل کیا اور بلوچوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ انتخابات کے بعد سیاسی حکومت آئی تو اس نے بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اسے شروع ہی میں پتہ چل گیا کہ پانی اندازوں سے زیادہ گہرا ہے، جب اس نے معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ اور مشکل دیکھا اور ساتھ ہی یہ بھی جان گئی کہ کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہے تو خاموشی اختیار کر لی۔ بلوچستان کا مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ اس کیلیے ایک مضبوط سیاسی حکومت اور مستحکم سیاسی نظام کی ضرورت ہے۔

ایسا مضبوط نظام جو دوسرے اداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکے۔ ریاست کے اندر ریاست قائم نہ ہونے دے۔ عدالت کی موجودہ فعالیت بلاجواز نہیں لیکن اصل جواز یہ ہے کہ موجودہ سیاسی نظام مضبوط نہیں ہو رہا۔ یہ کہنا ناانصافی ہوگا کہ سیاسی نظام کی مضبوطی میں حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ حکومت قصور وار نہ سہی، کچھ مصلحتوں کی ضرور اسیر ہے، اگر اس میں بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کی طاقت نہیں ہے تو اس راز سے پردہ نہ اٹھانے کی کیا وجہ ہے؟

حکومت شاید یہ سمجھتی ہے کہ اس نے اپنی کمزوری کا اعتراف کر لیا تو اپوزیشن بڑی مشکلات کھڑی کر دے گی اور مقتدر قوتیں بھی ناراض ہو جائیں گی لیکن اس نے معاملے کے اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ اگر وہ اپنی مجبوری یا کمزوری کا اعتراف کرلیتی ہے تو اس کی اخلاقی ساکھ بڑھے گی اور وہ عناصر بھی دبائو میں آجائیں گے جو بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہونے دیتے۔ ایک طرف حکومت کی مصلحتی معذوریاں ہیں تو دوسری طرف عدلیہ کی ازخود نوٹسی مجبوریاں۔ قوم مجبوریوں اور معذوریوں کی اس کشمکش کے پاٹوں میں اس طرح پس رہی ہے کہ اسے ''المدد'' ''المدد'' کی فریاد کرنے کی مہلت بھی نہیں مل رہی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں