کراچی کی عالمی اردو کانفرنس
اگر زندہ رہنا ہے تو پھر خطروں کے بیچ بسر کرنا سیکھو تو کیا انھوں نے واقعی خطروں کے بیچ بسر کرنے کے آداب سیکھ لیے ہیں۔
میر صاحب نے تو اب سے بہت پہلے یاروں کو سمجھایا تھا کہ ؎
بہت خوار اس کی گلی میں ہیں میرؔ
جو اٹھ جائیں یاں سے تو اچھا کریں
علامہ طاہر القادری کو بات دیر سے سمجھ میں آئی۔ مگر کوئی مضائقہ نہیں۔ دیر آید درست آید۔ اور جب بات سمجھ میں آ گئی تو انھوں نے پھر ٹالم ٹول نہیں کی۔ مریدوں کو کچھ اس طرح سمجھایا کہ ع
بس ہو چکی نماز مصلیٰ اٹھائیے
اپنا اپنا سامان سمیٹو اور گھروں کی راہ لو۔ دھرنے میں اب کیا دھرا ہے ع
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
ادھر یار غم گسار افسوس کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ؎
اے اسیران خانہ زنجیر
تم نے یاں غل مچا کے کیا پایا
غل تو اچھا خاصا مچایا تھا۔ اور واقعی یہ لگ رہا تھا کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے اور ہمارے دھرنوں سے اغیار کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ ارے بھائی غل مچانے کا معاملہ تو یہ ہے کہ مرنے والے تو ایک دھمکی سے دم توڑ جاتے ہیں مگر حریف کے اعصاب مضبوط ہیں تو پھر غل غپاڑہ بوم رنگ والا کام دکھاتا ہے۔
ارے ہم کہاں پھنس گئے۔ ہم تو سیاست سے بارہ پتھر دور رہتے ہیں اور اسی میں اپنی عافیت جانتے ہیں مگر یہ جانتے ہوئے بھی کہ دھرنوں میں کیا دھرا ہے۔ گاندھی جی نے جو ستیہ گرہ اور مرن برت کے ہتھیار ایجاد کیے تھے تو ان کا صحیح استعمال وہی جانتے تھے۔
ہم ایسا کہاں سے لائیں کہ ان ہتھیاروں کو سلیقہ سے استعمال کر سکے۔ تو یاں یہ قصہ تو درمیان میں آ گیا۔ ہم ذکر کرنے لگے تھے کراچی کی عالمی اردو کانفرنس کا۔ ویسے تو اب ہمارے مشاعرے بھی عالمی مشاعرے کہلانے لگے ہیں۔ لیکن اس کانفرنس میں سچ مچ کے کچھ مندوبین اس طرز کے ہوتے ہیں کہ یہ کانفرنس عالمی کانفرنس بن جاتی ہے۔ یہ جو مصر سے ایک اردو کے اسکالر تشریف لائے ہیں ان میں ہمیں جمال عبدالناصر کی ہلکی سی شباہت نظر آتی ہے۔ سو ہم تو ویسے ہی ان سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ باقی یہ جو مندوبین کینیڈا' فِن لینڈ' لندن وغیرہ سے تشریف لائے ہیں ان کے متعلق ہم کیا عرض کریں۔ ہمارے ہی بھائی بند ہیں لیکن بقول سوداؔ؎
نکل وطن سے' ہے غربت میں زور کیفیت
کہ آب بحت ہے جب تک ہے تاک میں صہبا
دور دور کے دیسوں میں جا کر بس گئے اور لوٹ پوٹ کر دیسی سے بدیشی بن گئے۔ مگر یہ فرزندان کراچی کے سر پہ یہ کیا ادب کا سودا سوار ہوا تھا کہ قطار اندر قطار چلے آ رہے تھے۔ اور اکیلے نہیں خاندان کو ساتھ لے کر اور اپنے بچوں کو بتا رہے تھے کہ وہ جو شخص نظر آ رہا ہے وہ فلاں فلاں ادیب ہے اور اس تعارف کے بعد فوراً برابر آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تقاضا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ تصویر کھنچوائیں گے۔
ارے یہاں کونسا دھرنا ہو رہا ہے کہ کراچی کی خلقت یہاں ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ اور یہ بھی نہیں سوچ رہی کہ زمانہ کتنا پُرآشوب ہے۔ ادھر ایک بڑا جلسہ ہو رہا ہے جس سے نام خدا بلاول خطاب کریں گے۔ اور اس جلسہ سے پہلے وہ اپنے وقت کے لیڈروں اور پارٹیوں پر اتنا گرجے برسے ہیں کہ یار لوگ ڈر رہے ہیں کہ آج کوئی نیا گل کھلے گا اور خون خرابہ ہو گا۔ مگر یہ لوگ کتنے بے پروا ہیں کہ گھر سے نکل پڑے ہیں کہ آرٹ کونسل چلتے ہیں اور ادب کے میلہ کی بہار لوٹتے ہیں۔ کیا انھوں نے واقعی اقبال کے اس بیان کو حرز جان بنا لیا ہے کہ
اگر خواہی حیات اندر خطر ذی
کہ اگر زندہ رہنا ہے تو پھر خطروں کے بیچ بسر کرنا سیکھو تو کیا انھوں نے واقعی خطروں کے بیچ بسر کرنے کے آداب سیکھ لیے ہیں۔ اس رنگ سے کہ ادھر گولیاں چل رہی ہیں' ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے' بم پھٹ رہے ہیں اور ادھر بازاروں میں گہما گہمی ہے۔ بھیڑ اتنی کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ یعنی سر پر خطرے منڈلا رہے ہیں اور کاروبار حیات بھی جاری و ساری ہے اور اگر کوئی مشاعرہ ہو رہا ہے یا کوئی سیمینار منعقد ہو رہا ہے یا کوئی ادبی کانفرنس ہو رہی ہے اور اس میں دور پار کے ادیب آئے بیٹھے ہیں تو ادب کی بہار لوٹنے کے جوش میں پرے کے پرے چلے آ رہے ہیں۔ نیلے پیلے پیرہن کی اپنی بہار ہے۔ نوجوان اپنی ترنگ میں ہیں۔ ہر ہاتھ میں ایک کیمرہ ہے۔
آٹو گراف لے رہے ہیں۔ برابر کھڑے ہو کر دوست کو اشارہ کر رہے ہیں۔ لیجیے کیمرے نے اپنا کام دکھایا' تصویر بن گئی۔ گیلری میں الگ ٹولیوں کی چہل پہل ہے۔ ادھر اندر ہال کھچا کھچ بھرا ہے۔ ادب کے سوال چھڑے ہوئے ہیں۔ بحثیں ہو رہی ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ اسٹیج پر معروف غیر معروف ادیبوں کی ایک لمبی قطار ہے۔ یہ قطار کیسے نمٹے گی۔ حالت یہ ہے کہ مائیک پر کھڑا ادیب رواں ہے۔ گل پھول کھلاتا چلا جا رہا ہے۔ مطلق احساس نہیں کہ وقت کتنا گزر گیا۔ اس کا مضمون لمبا کھنچتا چلا جا رہا ہے۔ آرٹ کونسل کے مدار المہام احمد شاہ اشارے کر رہے ہیں کہ بس کرو۔ وہ بس نہیں کرتا تو لپک کر اسٹیج پر آتے ہیں اس کو گلے لگاتے ہیں کہ خوب چہکے۔ اب کسی دوسرے کو بھی چہکنے مہکنے دو۔
یہاں آ کر پتہ چل رہا ہے کہ ادب کا قصہ طولانی ہے۔ وقت تھوڑا ہے۔ آدمی کی زندگی مختصر ہے۔ ادب کے اتنے مسائل' اتنے قصے قضیے کیسے نمٹیں گے۔
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
ارے ہم نے تو جمعہ کی نماز کا واسطہ بھی دے کر دیکھ لیا۔ مگر بولنے والا فصاحت و بلاغت پر اترا ہوا ہے۔ رہی نماز تو
ہے یہی میری نماز' ہے یہی مرا وضو
اس کا خطبہ جاری ہے۔ اور ہم صم بکم بنے بیٹھے ہیں۔
مگر احمد شاہ آخری حربہ استعمال کرتے ہیں۔ صاحبو کھانا تیار ہے۔ دیگ کھل گئی ہے۔ بولنے والا بے بس ہو جاتا ہے۔ بھوکے بٹیرے کب تک لڑیں گے تو آؤ تھوڑی پیٹ پوجا کر لیں۔ ادب میں جو گرہ پڑی ہوئی ہے اس سے بعد میں نبٹیں گے۔ اور حکومت سے ذرا پوچھیں گے کہ یہ جو ادبی علمی اداروں میں خاک اڑ رہی ہے۔ ان اداروں میں کوئی سربراہ کیوں نہیں ہے۔ کیا ان اداروں کا بستر لپیٹنے کا کوئی منصوبہ ہے۔
ہم نے کہا کہ بابا گر یہ استفسار کرنا تھا تو کسی وزیر یا تدبیر کو یہاں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا ہوتا۔ جو اب ملا کہ ان کے نخرے بہت ہیں۔ انتظار بہت کراتے ہیں اور خدا خدا کر کے تشریف لاتے ہیں تو ایران توران کی سنا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔
پھر کیا کیا جائے۔ بس صبر کیا جائے
بہت خوار اس کی گلی میں ہیں میرؔ
جو اٹھ جائیں یاں سے تو اچھا کریں
علامہ طاہر القادری کو بات دیر سے سمجھ میں آئی۔ مگر کوئی مضائقہ نہیں۔ دیر آید درست آید۔ اور جب بات سمجھ میں آ گئی تو انھوں نے پھر ٹالم ٹول نہیں کی۔ مریدوں کو کچھ اس طرح سمجھایا کہ ع
بس ہو چکی نماز مصلیٰ اٹھائیے
اپنا اپنا سامان سمیٹو اور گھروں کی راہ لو۔ دھرنے میں اب کیا دھرا ہے ع
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
ادھر یار غم گسار افسوس کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ؎
اے اسیران خانہ زنجیر
تم نے یاں غل مچا کے کیا پایا
غل تو اچھا خاصا مچایا تھا۔ اور واقعی یہ لگ رہا تھا کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے اور ہمارے دھرنوں سے اغیار کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ ارے بھائی غل مچانے کا معاملہ تو یہ ہے کہ مرنے والے تو ایک دھمکی سے دم توڑ جاتے ہیں مگر حریف کے اعصاب مضبوط ہیں تو پھر غل غپاڑہ بوم رنگ والا کام دکھاتا ہے۔
ارے ہم کہاں پھنس گئے۔ ہم تو سیاست سے بارہ پتھر دور رہتے ہیں اور اسی میں اپنی عافیت جانتے ہیں مگر یہ جانتے ہوئے بھی کہ دھرنوں میں کیا دھرا ہے۔ گاندھی جی نے جو ستیہ گرہ اور مرن برت کے ہتھیار ایجاد کیے تھے تو ان کا صحیح استعمال وہی جانتے تھے۔
ہم ایسا کہاں سے لائیں کہ ان ہتھیاروں کو سلیقہ سے استعمال کر سکے۔ تو یاں یہ قصہ تو درمیان میں آ گیا۔ ہم ذکر کرنے لگے تھے کراچی کی عالمی اردو کانفرنس کا۔ ویسے تو اب ہمارے مشاعرے بھی عالمی مشاعرے کہلانے لگے ہیں۔ لیکن اس کانفرنس میں سچ مچ کے کچھ مندوبین اس طرز کے ہوتے ہیں کہ یہ کانفرنس عالمی کانفرنس بن جاتی ہے۔ یہ جو مصر سے ایک اردو کے اسکالر تشریف لائے ہیں ان میں ہمیں جمال عبدالناصر کی ہلکی سی شباہت نظر آتی ہے۔ سو ہم تو ویسے ہی ان سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ باقی یہ جو مندوبین کینیڈا' فِن لینڈ' لندن وغیرہ سے تشریف لائے ہیں ان کے متعلق ہم کیا عرض کریں۔ ہمارے ہی بھائی بند ہیں لیکن بقول سوداؔ؎
نکل وطن سے' ہے غربت میں زور کیفیت
کہ آب بحت ہے جب تک ہے تاک میں صہبا
دور دور کے دیسوں میں جا کر بس گئے اور لوٹ پوٹ کر دیسی سے بدیشی بن گئے۔ مگر یہ فرزندان کراچی کے سر پہ یہ کیا ادب کا سودا سوار ہوا تھا کہ قطار اندر قطار چلے آ رہے تھے۔ اور اکیلے نہیں خاندان کو ساتھ لے کر اور اپنے بچوں کو بتا رہے تھے کہ وہ جو شخص نظر آ رہا ہے وہ فلاں فلاں ادیب ہے اور اس تعارف کے بعد فوراً برابر آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تقاضا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ تصویر کھنچوائیں گے۔
ارے یہاں کونسا دھرنا ہو رہا ہے کہ کراچی کی خلقت یہاں ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ اور یہ بھی نہیں سوچ رہی کہ زمانہ کتنا پُرآشوب ہے۔ ادھر ایک بڑا جلسہ ہو رہا ہے جس سے نام خدا بلاول خطاب کریں گے۔ اور اس جلسہ سے پہلے وہ اپنے وقت کے لیڈروں اور پارٹیوں پر اتنا گرجے برسے ہیں کہ یار لوگ ڈر رہے ہیں کہ آج کوئی نیا گل کھلے گا اور خون خرابہ ہو گا۔ مگر یہ لوگ کتنے بے پروا ہیں کہ گھر سے نکل پڑے ہیں کہ آرٹ کونسل چلتے ہیں اور ادب کے میلہ کی بہار لوٹتے ہیں۔ کیا انھوں نے واقعی اقبال کے اس بیان کو حرز جان بنا لیا ہے کہ
اگر خواہی حیات اندر خطر ذی
کہ اگر زندہ رہنا ہے تو پھر خطروں کے بیچ بسر کرنا سیکھو تو کیا انھوں نے واقعی خطروں کے بیچ بسر کرنے کے آداب سیکھ لیے ہیں۔ اس رنگ سے کہ ادھر گولیاں چل رہی ہیں' ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے' بم پھٹ رہے ہیں اور ادھر بازاروں میں گہما گہمی ہے۔ بھیڑ اتنی کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ یعنی سر پر خطرے منڈلا رہے ہیں اور کاروبار حیات بھی جاری و ساری ہے اور اگر کوئی مشاعرہ ہو رہا ہے یا کوئی سیمینار منعقد ہو رہا ہے یا کوئی ادبی کانفرنس ہو رہی ہے اور اس میں دور پار کے ادیب آئے بیٹھے ہیں تو ادب کی بہار لوٹنے کے جوش میں پرے کے پرے چلے آ رہے ہیں۔ نیلے پیلے پیرہن کی اپنی بہار ہے۔ نوجوان اپنی ترنگ میں ہیں۔ ہر ہاتھ میں ایک کیمرہ ہے۔
آٹو گراف لے رہے ہیں۔ برابر کھڑے ہو کر دوست کو اشارہ کر رہے ہیں۔ لیجیے کیمرے نے اپنا کام دکھایا' تصویر بن گئی۔ گیلری میں الگ ٹولیوں کی چہل پہل ہے۔ ادھر اندر ہال کھچا کھچ بھرا ہے۔ ادب کے سوال چھڑے ہوئے ہیں۔ بحثیں ہو رہی ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ اسٹیج پر معروف غیر معروف ادیبوں کی ایک لمبی قطار ہے۔ یہ قطار کیسے نمٹے گی۔ حالت یہ ہے کہ مائیک پر کھڑا ادیب رواں ہے۔ گل پھول کھلاتا چلا جا رہا ہے۔ مطلق احساس نہیں کہ وقت کتنا گزر گیا۔ اس کا مضمون لمبا کھنچتا چلا جا رہا ہے۔ آرٹ کونسل کے مدار المہام احمد شاہ اشارے کر رہے ہیں کہ بس کرو۔ وہ بس نہیں کرتا تو لپک کر اسٹیج پر آتے ہیں اس کو گلے لگاتے ہیں کہ خوب چہکے۔ اب کسی دوسرے کو بھی چہکنے مہکنے دو۔
یہاں آ کر پتہ چل رہا ہے کہ ادب کا قصہ طولانی ہے۔ وقت تھوڑا ہے۔ آدمی کی زندگی مختصر ہے۔ ادب کے اتنے مسائل' اتنے قصے قضیے کیسے نمٹیں گے۔
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
ارے ہم نے تو جمعہ کی نماز کا واسطہ بھی دے کر دیکھ لیا۔ مگر بولنے والا فصاحت و بلاغت پر اترا ہوا ہے۔ رہی نماز تو
ہے یہی میری نماز' ہے یہی مرا وضو
اس کا خطبہ جاری ہے۔ اور ہم صم بکم بنے بیٹھے ہیں۔
مگر احمد شاہ آخری حربہ استعمال کرتے ہیں۔ صاحبو کھانا تیار ہے۔ دیگ کھل گئی ہے۔ بولنے والا بے بس ہو جاتا ہے۔ بھوکے بٹیرے کب تک لڑیں گے تو آؤ تھوڑی پیٹ پوجا کر لیں۔ ادب میں جو گرہ پڑی ہوئی ہے اس سے بعد میں نبٹیں گے۔ اور حکومت سے ذرا پوچھیں گے کہ یہ جو ادبی علمی اداروں میں خاک اڑ رہی ہے۔ ان اداروں میں کوئی سربراہ کیوں نہیں ہے۔ کیا ان اداروں کا بستر لپیٹنے کا کوئی منصوبہ ہے۔
ہم نے کہا کہ بابا گر یہ استفسار کرنا تھا تو کسی وزیر یا تدبیر کو یہاں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا ہوتا۔ جو اب ملا کہ ان کے نخرے بہت ہیں۔ انتظار بہت کراتے ہیں اور خدا خدا کر کے تشریف لاتے ہیں تو ایران توران کی سنا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔
پھر کیا کیا جائے۔ بس صبر کیا جائے