علامہ مشرقی سے طاہر القادری تک
ہند کو بولی ہمارے کانوں کو اجنبی ضرور محسوس ہوتی مگر اس میں موجود مٹھاس دل موہ لیتی۔
میری ماں کے کچھ رشتے دار پتہ نہیں کب، کیوں اور کیسے پشاور چلے گئے تھے۔ ان میں سے چند ایک کافی باقاعدگی کے ساتھ مختلف کاموں کے سلسلے میں لاہور بھی آیا کرتے اور ہمارے ہاں ٹھہرتے۔ اپنے قریبی رشتے داروں کے مقابلے میں پشاور سے آئے یہ مہمان ہم بچوں کو بہت خلیق اور نرم خو محسوس ہوتے۔
ان کی ہند کو بولی ہمارے کانوں کو اجنبی ضرور محسوس ہوتی مگر اس میں موجود مٹھاس دل موہ لیتی۔ ہم سورج ڈھلنے کے بہت دیر بعد تک ان کے ساتھ بیٹھے اس وقت کے صوبہ سرحد اور وہاں کے پختون قبائل کے بارے میں ان سے طلسماتی اثر رکھنے والی باتیں سنتے رہتے۔ ذاتی طور پر پشاور جانے سے کئی برس پہلے ان رشتے داروں کی بدولت مجھے جبلی طور پر سمجھ آ چکی تھی کہ صرف برصغیر کے اسی ایک شہر میں قصہ خوانی بازار کیوں موجود ہے۔
پشاور سے جڑی یادوں کے ہجوم میں فی الوقت مجھے اپنی ماں کا ایک دور پرے کا کزن یاد آ رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی کے بالکل آغاز کے کسی دن وہ ہمارے ہاں آئے تو انھوں نے ایک خاکی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ اپنے معمول کے برعکس وہ اس بار ہمارے گھر نہیں ٹھہرے تھے۔ میں نے اس امر پر مایوسی بھری حیرت کا اظہار کیا تو انھوں نے بڑی کوشش سے مجھے سمجھایا کہ خاکسار نام کی کوئی تحریک ہے۔ وہ اس کے باقاعدہ رکن ہیں۔ لاہور میں اس تحریک کا سہ روزہ اجتماع ہو رہا ہے۔ اس میں شریک لوگ ان پورے تین دنوں میں لاہور کے باغ بیرون موچی دروازہ میں لگائے کیمپوں میں رہائش پذیر رہیں گے۔ اپنا کھانا وغیرہ بھی وہیں پکائیں گے اور نہانا دھونا بھی اسی کیمپ میں ہوتا ہے۔
مجھے ان کی بتائی باتیں بہت عجیب لگیں۔ میں اس وقت تک یہ جان چکا تھا کہ موچی دروازے میں سیاسی جماعتوں کے جلسے وغیرہ ہوتے ہیں۔ مگر کسی جماعت کے اراکین کا پورے تین دن وہاں کیمپ لگا کر قیام پذیر ہونے کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا۔ وہ رشتے دار تو اپنی کہانی سنا کر چلے گئے مگر میرے دل میں خاکسار تحریک کے بارے میں کافی تجسس پیدا ہو گیا۔ میں نے اپنے والد سے مزید تفصیل جاننا چاہی تو انھوں نے کافی سنکی انداز میں بس یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ ''خاکسار دیوانے ہوتے ہیں''۔ علامہ مشرقی نام کا کوئی شخص ان کا لیڈر ہے جن کے بارے میں میرے والد نے بڑے اعتماد سے اطلاع یہ بھی دی کہ ''بہت زیادہ پڑھ جانے کی وجہ سے وہ خبطی ہو گیا تھا''۔ یہ فقرہ لکھنے کے بعد مجھے اعتراف یہ بھی کر لینے دیجیے کہ چوک نواب صاحب میں پیدا ہو کر بڑے ہونے والے میرے والد کو ''خبطی'' کا لفظ نہیں آتا تھا۔ انھوں نے اس ضمن میں لفظ کوئی اور استعمال کیا تھا مگر خوفِ فسادِ خلق کی وجہ سے میں اسے لکھنے کی ہمت خود میں نہیں پا رہا۔
چونکہ میرے والد نے مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا۔ اسی لیے میں نے اپنے محلے کے ایک اور شفیق بزرگ سے خاکسار تحریک کے بارے میں کچھ جاننا چاہا۔ یہ بزرگ قطعی اَن پڑھ تھے۔ کسی زمانے میں بڑی سنجیدگی سے پہلوان بن کر ''رستمِ ہند'' بننا چاہا تھا۔ مگر سنا ہے پہلے ہی دنگل میں ان کے حریف نے اکھاڑے میں اُترتے ہی ان کے کندھے مٹی سے لگا دیے تھے۔ محلے والے ان کی اس ناکامی کا اکثر بڑی تحقیر سے ذکر کرتے۔ وہ کبھی اشتعال میں نہ آتے۔
گلی کی ایک نکڑ پر لگائے سگریٹ پان کے کھوکے کے ذریعے سکون کے ساتھ اپنا رزق کمانے میں مصروف رہتے۔ ان کو مگر لاہور میں چلی ہر تحریک کے بارے میں بہت سی کہانیاں یاد تھیں۔ وہ ان سے کوئی سوال کرتا تو داستانیں سنا دیا کرتے اور ایک مؤدب سامع کو اپنے قریب پا کر بڑی فیاضی سے اسے دودھ سوڈا بھی پلا دیتے۔ خاکسار تحریک کے بارے میں انھوں نے مجھے کافی کچھ بتایا مگر میرے والد ہی کی طرح یہ محسوس کرتے بھی سنائی دیے کہ اس تحریک کے بانی اور کارکنوں کی ذہنی حالت شاید نارمل نہ تھی۔
میرا تجسس مزید گہرا ہو گیا اور اسی تجسس کے ہاتھوں ایک دن نمازِ عصر کے بعد میں خاموشی سے اپنے محلے سے نکل کر باغ بیرون موچی دروازہ چلا گیا۔ وہاں ایک فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر میں نے باغ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو کیمپوں سے بھرا ایک شہر آباد نظر آیا۔ غالباََ وہ سالانہ اجتماع کے اختتامی لمحات تھے۔ میرے لیے زیادہ حیران کن بات مگر یہ تھی کہ لاؤڈ اسپیکر سے کسی شخص کے نام کا اعلان ہوتا تو وہ بڑی عاجزی سے میدان کے درمیان موجود ایک جلاد نما شخص کے سامنے کھڑا ہو جاتا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بید تھا۔ جو شخص اس جلاد نما شخص کے سامنے آتا اسے وہ اس بید سے مارتا۔ مار کھانے کے بعد سزا یافتہ شخص برضا و رغبت اپنی جگہ واپس چلا جاتا۔ میری یہ حیرانی مگر اس وقت قطعی شرمندگی میں بدل گئی جب میری ماں کے دور پرے کا کزن بھی بید کھانے کے لیے پکارا گیا۔
وہ جلاد کے سامنے آیا تو میں خوف و شرمندگی سے اپنے گھر کی طرف کھسک گیا۔ دوسری صبح وہ کزن الوادع کہنے ہمارے گھر آئے۔ اپنی تمامتر کوشش کے باوجود میں ان کے سامنے اعتراف کرنے پر مجبور ہو گیا کہ میں نے انھیں خاکسار تحریک کے اجتماع میں کن حالات میں دیکھا تھا۔ وہ بجائے شرمندہ ہونے کے بہت شاداں نظر آئے اور بڑے فخر سے مجھے یہ سمجھایا کہ ان کی تحریک میں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کڑی سزا دی جاتی ہے۔
ان سزاؤں کو برضا و رغبت قبول کرنے کا رویہ ہی خاکسار تحریک کو توانا اور جوان رکھے ہوئے ہے۔ یہ بتانے کے بعد انھوں نے مجھے علامہ مشرقی کے بارے میں بہت کچھ بتایا اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ میں بڑا ہو کر ان کی کتابیں ضرور پڑھوں۔ قرآن شریف کی تفسیر تو ان سے بہتر کوئی لکھ ہی نہیں سکا۔ حالانکہ وہ کوئی روایتی مولوی نہیں تھے۔ انگلستان کے ایک بہت مشہور کالج سے ''انگریزوں سے کہیں زیادہ نمبر لے کر ایک بہت بڑی ڈگری حاصل کی تھی''۔
میں نے علامہ مشرقی کی کتابیں البتہ کبھی نہیں پڑھیں۔ ان کی تحریک سے وابستہ آخری یاد 1965ء کی جنگ کے فوراََ بعد کے وہ دن ہیں جب ''چپ راست'' کرتے ہوئے کندھوں پر بیلچہ رکھے چند افراد ہمارے محلے میں اپنے تئیں شہری دفاع کے فرائض سرانجام دیا کرتے تھے۔ ادبی حوالوں سے اس تحریک کا ذکر البتہ سب سے پہلے میں نے عبداللہ حسین کے ناول ''اداس نسلیں'' میں پڑھا تھا۔ 1940ء میں قراردادِ پاکستان منظور کرنے والے اجتماع کے انعقاد سے غالباََ ایک دو روز قبل خاکساروں نے کوئی بڑا ایجی ٹیشن کیا تھا۔ انگریزوں نے بڑی وحشت سے اس پر قابو پایا اور جب فائرنگ وغیرہ ہو رہی تھی تو عبداللہ حسین کے تخلیق کردہ ایک خاکسار نے اس وقت کے منٹو پارک اور آج کے مینارِ پاکستان سے ملحقہ ہیرا منڈی میں موجود کسی طوائف کے ایک مکان میں پناہ لی تھی۔ منٹو کے افسانوں اور مضامین میں بھی اس تحریک کا سرسری ذکر ہوا ہے۔
''سیاہ حاشیے'' میں لیکن ایک واقعہ منٹو نے بیان کیا ہے جسے میں ابھی تک بُھلا نہیں پایا۔ بقول منٹو خاکساروں کا ایک جلوس چپ راست کرتا لاہور کے مال روڈ پر مارچ کرتا ہوا کشمیر پہنچ کر اسے آزاد کروانا چاہ رہا تھا تو ریگل چوک کے قریب ایک شخص ان کے سالار کے پاس آیا اور اسے اطلاع دی کہ اگر وہ وہاں سے بیڈن روڈ کی طرف مڑ جائیں تو راستہ ''شارٹ کٹ'' ہو جائے گا۔ یہ Tip ملنے کے بعد خاکساروں کا رستہ بیڈن روڈ کی طرف مڑ گیا اور منٹو نے اپنا ''حاشیہ'' وہیں ختم کر دیا۔ میرا ''حاشیہ'' بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ ہاں یہ لکھنا تو بھول ہی گیا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے پیر کے شب اپنے دھرنے کا جو اعلان کیا اس کے بعد پتہ نہیں کیوں مجھے علامہ مشرقی اور ان کی خاکسار تحریک سے وابستہ اپنے بچپن کی یہ باتیں یاد دلا دیں۔
ان کی ہند کو بولی ہمارے کانوں کو اجنبی ضرور محسوس ہوتی مگر اس میں موجود مٹھاس دل موہ لیتی۔ ہم سورج ڈھلنے کے بہت دیر بعد تک ان کے ساتھ بیٹھے اس وقت کے صوبہ سرحد اور وہاں کے پختون قبائل کے بارے میں ان سے طلسماتی اثر رکھنے والی باتیں سنتے رہتے۔ ذاتی طور پر پشاور جانے سے کئی برس پہلے ان رشتے داروں کی بدولت مجھے جبلی طور پر سمجھ آ چکی تھی کہ صرف برصغیر کے اسی ایک شہر میں قصہ خوانی بازار کیوں موجود ہے۔
پشاور سے جڑی یادوں کے ہجوم میں فی الوقت مجھے اپنی ماں کا ایک دور پرے کا کزن یاد آ رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی کے بالکل آغاز کے کسی دن وہ ہمارے ہاں آئے تو انھوں نے ایک خاکی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔ اپنے معمول کے برعکس وہ اس بار ہمارے گھر نہیں ٹھہرے تھے۔ میں نے اس امر پر مایوسی بھری حیرت کا اظہار کیا تو انھوں نے بڑی کوشش سے مجھے سمجھایا کہ خاکسار نام کی کوئی تحریک ہے۔ وہ اس کے باقاعدہ رکن ہیں۔ لاہور میں اس تحریک کا سہ روزہ اجتماع ہو رہا ہے۔ اس میں شریک لوگ ان پورے تین دنوں میں لاہور کے باغ بیرون موچی دروازہ میں لگائے کیمپوں میں رہائش پذیر رہیں گے۔ اپنا کھانا وغیرہ بھی وہیں پکائیں گے اور نہانا دھونا بھی اسی کیمپ میں ہوتا ہے۔
مجھے ان کی بتائی باتیں بہت عجیب لگیں۔ میں اس وقت تک یہ جان چکا تھا کہ موچی دروازے میں سیاسی جماعتوں کے جلسے وغیرہ ہوتے ہیں۔ مگر کسی جماعت کے اراکین کا پورے تین دن وہاں کیمپ لگا کر قیام پذیر ہونے کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا۔ وہ رشتے دار تو اپنی کہانی سنا کر چلے گئے مگر میرے دل میں خاکسار تحریک کے بارے میں کافی تجسس پیدا ہو گیا۔ میں نے اپنے والد سے مزید تفصیل جاننا چاہی تو انھوں نے کافی سنکی انداز میں بس یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ ''خاکسار دیوانے ہوتے ہیں''۔ علامہ مشرقی نام کا کوئی شخص ان کا لیڈر ہے جن کے بارے میں میرے والد نے بڑے اعتماد سے اطلاع یہ بھی دی کہ ''بہت زیادہ پڑھ جانے کی وجہ سے وہ خبطی ہو گیا تھا''۔ یہ فقرہ لکھنے کے بعد مجھے اعتراف یہ بھی کر لینے دیجیے کہ چوک نواب صاحب میں پیدا ہو کر بڑے ہونے والے میرے والد کو ''خبطی'' کا لفظ نہیں آتا تھا۔ انھوں نے اس ضمن میں لفظ کوئی اور استعمال کیا تھا مگر خوفِ فسادِ خلق کی وجہ سے میں اسے لکھنے کی ہمت خود میں نہیں پا رہا۔
چونکہ میرے والد نے مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا۔ اسی لیے میں نے اپنے محلے کے ایک اور شفیق بزرگ سے خاکسار تحریک کے بارے میں کچھ جاننا چاہا۔ یہ بزرگ قطعی اَن پڑھ تھے۔ کسی زمانے میں بڑی سنجیدگی سے پہلوان بن کر ''رستمِ ہند'' بننا چاہا تھا۔ مگر سنا ہے پہلے ہی دنگل میں ان کے حریف نے اکھاڑے میں اُترتے ہی ان کے کندھے مٹی سے لگا دیے تھے۔ محلے والے ان کی اس ناکامی کا اکثر بڑی تحقیر سے ذکر کرتے۔ وہ کبھی اشتعال میں نہ آتے۔
گلی کی ایک نکڑ پر لگائے سگریٹ پان کے کھوکے کے ذریعے سکون کے ساتھ اپنا رزق کمانے میں مصروف رہتے۔ ان کو مگر لاہور میں چلی ہر تحریک کے بارے میں بہت سی کہانیاں یاد تھیں۔ وہ ان سے کوئی سوال کرتا تو داستانیں سنا دیا کرتے اور ایک مؤدب سامع کو اپنے قریب پا کر بڑی فیاضی سے اسے دودھ سوڈا بھی پلا دیتے۔ خاکسار تحریک کے بارے میں انھوں نے مجھے کافی کچھ بتایا مگر میرے والد ہی کی طرح یہ محسوس کرتے بھی سنائی دیے کہ اس تحریک کے بانی اور کارکنوں کی ذہنی حالت شاید نارمل نہ تھی۔
میرا تجسس مزید گہرا ہو گیا اور اسی تجسس کے ہاتھوں ایک دن نمازِ عصر کے بعد میں خاموشی سے اپنے محلے سے نکل کر باغ بیرون موچی دروازہ چلا گیا۔ وہاں ایک فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر میں نے باغ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی تو کیمپوں سے بھرا ایک شہر آباد نظر آیا۔ غالباََ وہ سالانہ اجتماع کے اختتامی لمحات تھے۔ میرے لیے زیادہ حیران کن بات مگر یہ تھی کہ لاؤڈ اسپیکر سے کسی شخص کے نام کا اعلان ہوتا تو وہ بڑی عاجزی سے میدان کے درمیان موجود ایک جلاد نما شخص کے سامنے کھڑا ہو جاتا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بید تھا۔ جو شخص اس جلاد نما شخص کے سامنے آتا اسے وہ اس بید سے مارتا۔ مار کھانے کے بعد سزا یافتہ شخص برضا و رغبت اپنی جگہ واپس چلا جاتا۔ میری یہ حیرانی مگر اس وقت قطعی شرمندگی میں بدل گئی جب میری ماں کے دور پرے کا کزن بھی بید کھانے کے لیے پکارا گیا۔
وہ جلاد کے سامنے آیا تو میں خوف و شرمندگی سے اپنے گھر کی طرف کھسک گیا۔ دوسری صبح وہ کزن الوادع کہنے ہمارے گھر آئے۔ اپنی تمامتر کوشش کے باوجود میں ان کے سامنے اعتراف کرنے پر مجبور ہو گیا کہ میں نے انھیں خاکسار تحریک کے اجتماع میں کن حالات میں دیکھا تھا۔ وہ بجائے شرمندہ ہونے کے بہت شاداں نظر آئے اور بڑے فخر سے مجھے یہ سمجھایا کہ ان کی تحریک میں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کڑی سزا دی جاتی ہے۔
ان سزاؤں کو برضا و رغبت قبول کرنے کا رویہ ہی خاکسار تحریک کو توانا اور جوان رکھے ہوئے ہے۔ یہ بتانے کے بعد انھوں نے مجھے علامہ مشرقی کے بارے میں بہت کچھ بتایا اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ میں بڑا ہو کر ان کی کتابیں ضرور پڑھوں۔ قرآن شریف کی تفسیر تو ان سے بہتر کوئی لکھ ہی نہیں سکا۔ حالانکہ وہ کوئی روایتی مولوی نہیں تھے۔ انگلستان کے ایک بہت مشہور کالج سے ''انگریزوں سے کہیں زیادہ نمبر لے کر ایک بہت بڑی ڈگری حاصل کی تھی''۔
میں نے علامہ مشرقی کی کتابیں البتہ کبھی نہیں پڑھیں۔ ان کی تحریک سے وابستہ آخری یاد 1965ء کی جنگ کے فوراََ بعد کے وہ دن ہیں جب ''چپ راست'' کرتے ہوئے کندھوں پر بیلچہ رکھے چند افراد ہمارے محلے میں اپنے تئیں شہری دفاع کے فرائض سرانجام دیا کرتے تھے۔ ادبی حوالوں سے اس تحریک کا ذکر البتہ سب سے پہلے میں نے عبداللہ حسین کے ناول ''اداس نسلیں'' میں پڑھا تھا۔ 1940ء میں قراردادِ پاکستان منظور کرنے والے اجتماع کے انعقاد سے غالباََ ایک دو روز قبل خاکساروں نے کوئی بڑا ایجی ٹیشن کیا تھا۔ انگریزوں نے بڑی وحشت سے اس پر قابو پایا اور جب فائرنگ وغیرہ ہو رہی تھی تو عبداللہ حسین کے تخلیق کردہ ایک خاکسار نے اس وقت کے منٹو پارک اور آج کے مینارِ پاکستان سے ملحقہ ہیرا منڈی میں موجود کسی طوائف کے ایک مکان میں پناہ لی تھی۔ منٹو کے افسانوں اور مضامین میں بھی اس تحریک کا سرسری ذکر ہوا ہے۔
''سیاہ حاشیے'' میں لیکن ایک واقعہ منٹو نے بیان کیا ہے جسے میں ابھی تک بُھلا نہیں پایا۔ بقول منٹو خاکساروں کا ایک جلوس چپ راست کرتا لاہور کے مال روڈ پر مارچ کرتا ہوا کشمیر پہنچ کر اسے آزاد کروانا چاہ رہا تھا تو ریگل چوک کے قریب ایک شخص ان کے سالار کے پاس آیا اور اسے اطلاع دی کہ اگر وہ وہاں سے بیڈن روڈ کی طرف مڑ جائیں تو راستہ ''شارٹ کٹ'' ہو جائے گا۔ یہ Tip ملنے کے بعد خاکساروں کا رستہ بیڈن روڈ کی طرف مڑ گیا اور منٹو نے اپنا ''حاشیہ'' وہیں ختم کر دیا۔ میرا ''حاشیہ'' بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ ہاں یہ لکھنا تو بھول ہی گیا کہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے پیر کے شب اپنے دھرنے کا جو اعلان کیا اس کے بعد پتہ نہیں کیوں مجھے علامہ مشرقی اور ان کی خاکسار تحریک سے وابستہ اپنے بچپن کی یہ باتیں یاد دلا دیں۔