انتخابات اور نظریہ پاکستان

جنھوں نے طالبان کے نظریے کی حمایت کی، جنھوں نے خاموشی اختیار کی وہ انتخابات میں جیت گئے، باقی ہار گئے۔


Syed Mohsin Kazmi October 24, 2014
[email protected]

2013 کے انتخابات میں ایک بات بڑی واضح تھی ، اور وہ یہ کہ جن لوگوں نے طالبان کے نظریے کی حمایت یا ان کی مخالفت نہ کی وہی جماعتیں عام انتخابات میں کامیاب ہوئیں اور طالبان نے ان کے ساتھ یہ رعایت کی کہ نہ ان پر کبھی خودکش حملہ کیا نہ ان کی شخصیات پر اور نہ ہی ان کے جلسہ جلوس پر، جبکہ جتنی جماعتوں نے ان انتخابات میں اپنے پچھلے ریکارڈ کی نسبت بہت کم ووٹ لیے جیسے کہ پاکستان کی سب سے زیادہ ووٹ رکھنے والی جماعت پی پی پی نے پنجاب میں شرمناک شکست حاصل کی جب کہ انھوں نے آئینی طور پر بڑے بڑے کام کیے، گلگت بلتستان کو صوبہ بنایا، صوبائی خود مختاری دی، 1973 کا آئین بحال کیا، آصف علی زرداری نے بحیثیت صدر وہ تمام اختیارات اسمبلی کو دیے جو آئین کا تقاضا تھا۔

سابقہ حکومتوں پر طالبان کا دباؤ تھا۔ دہشت گردی انتہا کو تھی، ان کے پیچھے مال و زر بھی تھا، جو پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتے تھے ان کی آشیرباد بھی تھی اور سابقہ حکومت کو فاٹا، شمالی اور جنوبی علاقوں میں قبائلی نظام توڑنے کی غیرمناسب کارروائی بھی تھی، جبکہ صرف ان لوگوں کو پکڑنا تھا جو بن لادن کے مجاہدین تھے جنھوں نے شمالی اور جنوبی علاقوں میں با قاعدہ سکونت اختیار کی، شادیاںکیں۔ اگر حکومت پاک افواج کے ذریعے سراغ رسانی کے ذریعے ان پر نظر رکھتی، ان کو ملک سے باہر کرتی تو کم سے کم شمالی اور جنوبی وزیرستان کے پرامن قبائلی سردار کبھی اپنے علاقوں سے نکل کر پاکستان کے بڑے شہروں کا رخ نہ کرتے، جس طرح انھوں نے کراچی جیسے شہر میں ہر کونے میں ہر بستی میں ہر علاقے میں رہائش اختیار کرلی ہے، جہاں سے وہ خودکش حملے کروانے میں کامیاب رہے۔

یہ حقیقت بھی کھلی کہ طالبان کا نظریہ سے تصادم ہے ، جنھوں نے طالبان کے نظریے کی حمایت کی، جنھوں نے خاموشی اختیار کی وہ انتخابات میں جیت گئے، باقی ہار گئے۔ ورنہ پی پی پی پنجاب میں اس طرح نہ ہارتی۔ اے این پی بھی خیبرپختونخوا میں نہ ہارتی، جب وہ نہ ہارتی تو نہ عمران خان اتنی سیٹیں لیتے نہ نواز شریف ۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ طالبان کے وہ لوگ جنھوں نے دہشت گردی اختیار کی انھوں نے پاکستان کی ریاست کو کمزور کیا ، بد امنی کو بڑھاوا دیا، یہاں تک کہ فوجی ٹھکانوں پر بھی کامیابی سے دہشت گردانہ کارروائی کی اور سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت وقت نے فوج کو کارروائی نہ کرنے دی۔

سارا پاکستان جانتا ہے جب فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف آئے تو انھوں نے حکومت کو بڑا احساس دلایا کہ اگر ان کے خلاف شمالی اور جنوبی علاقہ جات میں غیر ملکیوں اور دہشت گردوں کے مراکز کا صفایا نہ کیا تو پوری ریاست ختم ہوجائے گی۔ مشکل یہ تھی مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کسی حال میں ان کے خلاف کارروائی کا حکم نہیں دے سکتی تھی کیونکہ یہ اقتدار ان کو انہی کی حما یت سے مل ا۔ لیکن پاک فوج نے ریاست کی حفاظت کی خاطرہ خواہ کارروائی کی جس کا تقاضا کئی برسوں سے تھا اور ضرب غضب نے پاکستان میں کچھ چین پیدا کیا ۔

وقت کا تقاضا یہ تھا کہ پاکستان کی تمام بڑی جماعتیں جو طالبان کے نظریے کے خلاف تھیں جن میں ایم کیو ایم، پی پی پی، اے این پی کو تو چاہیے تھا فوراً ایک متحدہ محاذ بناتیں اور 2013 کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرتیں اور کم سے کم موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ کو مجبور کرتیں کہ وہ دوبارہ عام انتخابات کریں ۔ ان انتخابات کی مشترکہ بات یہ ہونی چاہیے کہ نظریہ پاکستان کو مضبوطی سے بحال کیا جائے اور ان لوگوں کو عام انتخابات میں شرمناک شکست دی جائے جنھوں نے طالبان کے نظریے کی حمایت کی، اور نظریہ پاکستان کے تحت کچھ حکومتی معاملات میں پاک افواج کو ضرور شامل کریں، چاہے ہندوستان سے خارجی معاملات ہوں یا امریکا سے دفاعی معاملات یا افغانستان سے خارجہ پالیسی، کیونکہ پاک افواج کے پاس حل بھی موجود ہیں اور ان کی مشاورت کو اہمیت دی جائے۔ یہ فوج بھی ہماری ہے اور پاکستان کا سب سے زیادہ مضبوط، منظم ادارہ ہے جہاں ہر لمحہ دفاعی حالات کی تحقیق اور تازہ ترین معلومات ہوتی ہے۔ اس طرح پاکستان کی ریاست کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔

یہ وقت سیاسی پارٹیوں کے ایک نظریے پر جمع ہونے کا ہے، اختلافات سے دشمن قوت فائدہ اٹھائے گی۔ 18 اکتوبر کو پی پی پی نے کراچی میں بڑا جلسہ کیا اور بلاول بھٹو جو ابھی صرف 26 سال کے ہیں انھوں نے بہترین تقریر کی، اس طویل ، جذباتی اور لہو گرم کرنے والی تقریر میں انھوں نے پاکستان کی ہر جماعت کا ذکر کیا، لیکن جلسے سے پہلے یہ بیان کہ قائد تحریک الطاف حسین اپنے نامعلوم لوگوں کو روکیں ، اگر یہ بیان یہاں تک ہوتا تو بہت بڑی بات نہ تھی مگر اس کے بعد انھوں نے لندن کے حوالے سے جو کچھ کہا، وہ بہت غیر مناسب، غیر معقول تھا ۔ کیا انھیں علم نہیں کہ جس کے بارے میں انھوں نے دھمکی دی اس کے چاہنے والے اسی شہر کراچی میں ہیں ، جہاںآپ بھی رہتے ہیں اور سندھ کا دارالخلا فہ ہے۔ حالانکہ اگر وہ ایم کیو ایم سے تعاون مانگتے اور اپنے شکوے گلے کسی نجی اجلاس میں کرتے تو بہتر تھا۔

ایسی بات کبھی آصف زرداری نے نہیں کی۔ خورشید شاہ نے جو کچھ کیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ کہنا مثبت انداز میں چاہتے تھے اور کہہ گئے منفی انداز میں اور معافی مانگ کر معاملہ ختم کردیا مگر بلاول بھٹو کی دھمکی کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب اس کا حل یہ ہے وہ اس الفاظ کو واپس لیں اور کہیں کہ جو جو ش حال میں کہہ گیا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں رتی بھر ترقی نہیں ہوسکتی اگر ایم کیو ایم اور پی پی پی میں اتحاد نہ ہوا، بلکہ میں کہوں گا اب شہری اور دیہی کا فرق ختم کریں، ہر ایک کو برابر کا حق دیں، ایک دوسرے کا احترام کریں۔

یہ سب جانتے ہیں کہ الطا ف حسین بہت فراخ دل اور وسیع القلب ہیں، وہ اب بھی معاف کردیں گے اور ان کے کارکن اس معافی کو قبول بھی کرلیں گے۔ لیکن پھر کیوں پاکستان کی تمام وہ جماعتیں جو نظریہ پاکستان کی حمایت میں ہیں، وہ چند ہی ہیں، ان کو آئندہ کے حالات کا مقابلہ کرنا ہے، عنقریب ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں صرف ان کو ووٹ دیجیے جو متعصب نہ ہوں، نہ مذہبی نہ لسانی، جو قائداعظم کے پاکستان اور نظریہ پاکستان کے حامی ہوں تاکہ ایسی حکومت جلد وجود میں آئے جو وطن عزیز کے وقار کو بحال کرسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں