یہ گلاب دیوی اسپتال کا ا یک منظر ہے، رات کے گیارہ بج چکے ہیں، وارڈ کے باہر مریضوں کے رشتے داروں نے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اُن میں کچھ باتیں کر رہے ہیں، کچھ سو چکے ہیں اور کچھ سونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امید کی وہ کرن جس کی تاکہ اُسے گوجرانوالہ کے ایک نواحی گاؤں سے لاہور کے اس اسپتال میں لائی تھی وہ بجھ چکی ہے ۔ ڈاکٹر اُسے یہ کہہ کر ٹال چکے تھے کہ "بی بی ابھی آپ کے بیٹے کی حالت اتنی زیادہ خراب نہیں کہ اسے اسپتال میں داخل کر لیا جائے اور دوسری بات ہمارے پاس جگہ بھی نہیں ہے ۔ اس لئے آپ انہیں گھر لے جائیں، یہ دوائی میں آپ کو لکھ دیتا ہوں یہ کچھ دن ان کو کھلائیں پھر ہم دیکھیں گے اور ہاں ساتھ یہ کچھ ٹیسٹ بھی کروا لینا"۔
اُس کا مریض بیٹا جسے پچھلے کئی دنوں سے وقفے وقفے سے خون کی اُلٹیاں آ رہی ہیں وارڈ سے نکلتی ہوئی مایوس ماں کی طرف بھاگ کر آتا ہے؛"کیاہوا ماں ؟ کیا کہا ڈاکٹروں نے"؟
اب ایک ماں اپنے جگر گوشے کو کیسے بتاتی کہ ڈاکٹروں نے تیری موت کا پیغام دیا ہےمیرے لعل۔ وہ اپنے غم کو چُھپاتے ہوئے کہتی ہے؛"کچھ نہیں بیٹا ، میں کہاں غمزدہ ہوں میں تو بہت خوش ہوں ، ڈاکٹروں نے کہہ ہے کہ آپ کے بیٹے کو تو کوئی اتنی بڑی بیماری ہی نہیں جس کے لیے اُسے اسپتال میں داخل کرنا پڑے ۔ بس تھوڑا سا مسئلہ ہے جو چند دن دوائی لینے سے ٹھیک ہوجائے گا"۔"یہ دیکھو بیٹا! ڈاکٹر صاحب نے دوائی بھی دی ہے جسے کھانے سے تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے ، اب ہمیں یہاں نہیں آنا پڑے گا"۔"چل پتر اب گھر چلتے ہیں دیکھ رات بہت بیت چکی ہے"۔
"اماں یہ تو اور بھی اچھا ہو گیا، مجھے بھی تو اسپتال میں رہنا اچھا نہیں لگتانا، مجھے اپنے گاؤں کی فضا ہی اچھی لگتی ہے "۔
اندھیرا اس پیغام کو پا کر رات کو اور بھی سیاہ بنا چکا ہے، اسپتال میں ہر سمت اُداسی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک بوڑھی ماں اپنے ڈگمگاتے قدموں کو مضبوطی سے جماتے ہوئے، کچھ جانی انجانی سوچوں میں گم مرکزی دروازے کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں فارمیسی کے باہر لگی لائٹ اپنے ہونے کا احساس دلا رہی ہے۔ اب وہ مین گیٹ سے ہوتے ہوئے سڑک کی طرف بڑھ چکی ہے جہاں تیزی سے گزرتی ، ہارن بجاتی گاڑیوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔
مگر وہ رنگین ِ کائنات سے بے خبر ، عالمِ خیالات میں مگن گاڑی کے انتظار میں فٹ پاتھ پر بیٹھ چکی ہے ۔ خیالوں میں فلم کی مانند چلتے کچھ مناظر اُسے دکھائی دے رہے ہیں آج سے کوئی چارپانچ سال پہلے گزرے ثمر آشام لمحوں کی کچھ تلخ یادیں ہیں جو اُسے ستا رہی ہیں۔ جہاں اُس کی بڑی بیٹی اُس سے شکایت کر رہی ہے۔
"اماں ! آج میں دروازے میں بیٹھی ہوئی تھی اور تیرے پوترے نے مجھے دھکا دیا اور میں گر گئی یہ دیکھ میری بانہوں اور ٹانگوں پر کتنے زخم آئے ہیں"۔
ماں پیار سے کہتی ہے؛"صائمہ بیٹی یہ تو چھوٹا سا ہے ابھی تو اس نے چلنا بھی مشکل سے سیکھا ہے اس نے تمہیں کیا گرانا ہے"؟
"اماں تم نے کبھی بھی میری بات پہ اعتماد نہیں کیا دیکھنا جس دن میں مر بھی گئی نا تو نے اُس دن بھی کہنا ہے کچھ نہیں ہوا ایسے ہی کر رہی ہے "۔
ماں اُس کی بات سن کر رونےلگتی ہے تب گرے آنسوؤں کی نمی آج بھی اُس کی آنکھوں سے عیاں تھی ۔
جب انسان جان لیتا ہے کہ اُس کے مرض کا کوئی علاج نہیں اور اگر ہے بھی تو اُس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ علاج کروا سکے تو پھر اُس کی عمر بھر کی مایوسی طاقت بن جاتی ہے، وہ اپنے گھر والوں، رشتے دار اور دوست واحباب کو حوصلہ دیتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔بالکل ویسے ہی جیسے آج سے چار پانچ سال پہلے اسی اسپتال سے مایوس لوٹتے ہوئے صائمہ اپنی ماں کو دے رہی تھی۔ وہ جان چکی تھی کہ اب اُس کے پاس زیادہ دن باقی نہیں رہے ، اُس کی موت کا پروانہ آچکا ہے ۔ وہ اب خود کی بجائے اپنی بلکتی ماں کو حوصلہ دے رہی تھی۔
"اماں اب چُپ بھی کرو نا، کچھ نہیں ہوگا مجھے، اللہ بڑا کار ساز ہے اور ہاں اماں یہ بات گھر میں کسی اور کو نا بتانا وہ بھی پریشان ہوں گے۔ اللہ نے چاہا تو میں جلد تندرست ہو جاؤں گی"۔
وہ اپنی چادر سے ماں کے آنسو پونچھ رہ تھی مگر آنسوؤں کا سیلاب تھا کہ تھمنے میں نہیں آرہا تھا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔