جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے ہم امریکا اور مغرب کی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں کیا یہی ہمارا گناہ ہے۔
اسلام آباد میں سینیٹر رحمان ملک سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بڑے عرصے سے متشدد فرقہ وارانہ ماحول پروان چڑھ رہا ہے جہاں لوگوں کو بسوں سے اتار کر گولیاں مارنا یا بم دھماکوں میں انسانوں کی جانیں لینا معمول بنا چکا ہے،آخر بتایا جائے کہ صوبے میں پراکسی وار کیوں لڑی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا قصور کیا ہے سیکیورٹی ادارے مجھ پر ہونے والے حملے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں، بلوچستان کالعدم تنظیموں کے ہاتھ پاؤں کھلے چھوڑ دیئے گئے آخر یہ سب کچھ کون کر رہا ہے اور ہمارے ملکی ادارے کہاں ہیں، وزیراعظم فوری طور پر موجودہ صورتحال کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہمارا بنیادی اصول یہی ہے کہ اولین ترجیح پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات اور ملکی مفادات ترجیح ہونا چاہیئے، آخر کیا وجہ ہے کہ ہم نے ہر جگہ اپنے پڑوسیوں کو شکایات کا موقع دیا اور ہر طرف پنگے لے رہے ہیں، پالیسی ساز اداروں سے اختلاف ہو سکتا ہے جس کا اظہار مختلف انداز سے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض تنظیمیں پاک ایران تعلقات کو خراب کرنے کی کوششیں کررہی ہیں جبکہ ایران نے بھی پاکستان کو دھمکیاں دیں اس لئے وزیراعظم ساری صورت حال کو سنجیدگی سے لیں۔