منشور اور سیاسی پارٹیاں
1970ء کی بات کیا یاد دلاؤں روٹی کپڑا اور مکان نے سوشلسٹوں کے 50 برس کے کام پر پانی پھیر دیا۔
ISLAMABAD:
منشور وہ انتخابی دستاویز ہے جس کی سیڑھی پر چڑھ کر انتخاب لڑا جاتا ہے، یہی وہ مسودہ جس کی تیاری میں اہل نظر اور صاحب الرائے بھرپور حصہ لیتے ہیں۔ درحقیقت منشور وہ دستاویز ہے جس کی تیاری عوامی ضروریات، بدلتے حالات کے تحت کی جاتی ہے مگر پاکستان میں منشور نام کی کوئی چیز ہے نہیں، اگر ہے تو اس پر عمل درآمد کرنا پارٹیوں کا شیوہ نہیں، یہ محض گمراہ کرنے کی ایک دستاویز ہے۔
1970ء کی بات کیا یاد دلاؤں روٹی کپڑا اور مکان نے سوشلسٹوں کے 50 برس کے کام پر پانی پھیر دیا۔ اس نعرے کی ناکامی نے سوشلزم کے نعرے سے اعتماد اٹھا لیا اور اب جب کوئی بھٹو ازم کی بات کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ بھٹو ازم بلاول ہاؤس کے اندر قید ہے کراچی میں جو جلسہ کیا گیا اس میں پارٹی کا منشور پیش نہ کیا گیا بلکہ نعروں کی گونج تھی منشور کی کوئی بازگشت نہ تھی۔
لیاری جو کبھی مرکز تھا وہاں کی کثیر آبادی جلسہ گاہ تک نہ آئی کیونکہ وہ علاقہ اجاڑ دیا گیا وہاں بھتہ خوروں اور قبضہ گروپوں کا راج ہے اب سیاست دانوں کا عدلیہ پر زور ہے اس کا زور دیکھا جا رہا ہے گو کہ عملاً ابھی عدلیہ پر کنٹرول نہیں ہے۔ مگر عدلیہ اگر پارٹیوں کے منشورکو اپنے ریکارڈ میں رکھے اور 2 سال تک اس کی مدت عمل اور کارکردگی کا جائزہ لے کہ کن پروگراموں پر عمل کیا گیا؟
اگر ایفائے عہد نہ کیا گیا تو اس کی وزارت یا پارٹی کو حکومت کے لیے نااہل قرار دیا جائے تو جو حکومت اپنے منشور پر عمل نہ کرے وہ خود بخود ختم ہو جائے گی، کیونکہ یہ عمل عوام کو دھوکا دینے کے مترادف ہے ورنہ پاکستان یوں ہی کاغذ کی ناؤ بنا رہے گا۔ پاکستان کے تین بڑے بارڈر ہیں، بھارت، افغانستان اور ایران، تینوں پڑوسی ملکوں سے دراندازی جاری ہے اور ایک ملک چین ہے جس کا سرحدی جھگڑا ایوب خان نے ہزاروں مربع میل دے کر حل کیا۔
اس کی وجہ خارجہ پالیسی کا قلم دان ہمیشہ نااہلوں کے پاس رہا جو بھی حاکم آیا عوام کو دھوکا دے کر آیا۔ اس نے اپنے اپنے منشور کو نظرانداز کیا۔ اب پھر جھنڈوں کے ساتھ منشور بھی ہوا میں لہرائے جا رہے ہیں بھٹو صاحب کے دور میں آزاد خارجہ پالیسی کا منشور تھا سو وہ کسی حد تک بہتر ہوا مگر معاہدہ تاشقند کے خلاف ایک شور برپا تھا جس کا مقصد محض سوویت یونین کے جنوب مشرقی ایشیا میں اس کے اثرات کو کم کرنا تھا اور وہ اس میں کامیاب رہے۔
حالانکہ شملہ معاہدہ کیا گیا جو معاہدہ تاشقند سے کم تر تھا اس طرح امریکا کی خوشنودی مقصود تھی سو وہ پوری ہوئی یہ عجیب بات ہے کہ سوشلزم کو اپنی معیشت کی بنیاد قرار دینے والے ذوالفقار علی بھٹو شہید نے صنعتوں کو قومیانے کے علاوہ کچھ نہ کیا اور کرپٹ بیوروکریسی نے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا رہ گیا کسانوں کی فلاح کے لیے کوئی منصوبہ نہ بنایا گیا اس طرح سوشلسٹ معیشت کے ستون گرا ڈالے گئے کسانوں کے حالات نہ بدلے بلکہ بدتر ہوتے گئے ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں نہ موبائل فون تھے اور نہ چینلوں کا جال اور نہ کوئی پارٹی تھی۔
ان کا استقبال قریہ قریہ کوچہ بہ کوچہ کو بہ کو نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) کے کارکن کر رہے تھے بھٹو صاحب کو بنی بنائی تحریک ملی وہ تحریک جس کی آبیاری دانشوروں نے کی۔ اس راہ پر چلنے والے اکثر زندہ درگور بنا دیے گئے اور حسن ناصر شہید 1962ء میں قلعہ لاہور میں پھانسی پر چڑھا دیے گئے ان کا جرم صرف عوامی جمہوریت، مزدور کسان راج کا مطالبہ تھا جس کا نعرہ آج کل علامہ طاہر القادری لگا رہے ہیں جب کہ نام نہاد سوشلسٹ عناصر نواز شریف کے گیت گا رہے ہیں سب نہیں کچھ لیڈران جو مراعات یافتہ ہیں۔
حسن ناصر کو قلعہ لاہور میں پھانسی ایوب خان کے دور میں دی گئی ان دنوں بھٹو وزیر خارجہ تھے لہٰذا میجر اسحاق اور فیض احمد فیض نے پروگرام بنایا کہ وہ ذوالفقارعلی بھٹو سے ملاقات کریں گے اور حسن ناصر کو آزاد کرائیں گے یہ وہی حسن ناصر تھے جن کی آواز پر سائٹ ایریا میں مزدوروں کے بڑے بڑے اجتماع ہوتے تھے اور اس وقت کے ایک شاعر سعید رضا سعید یہ نظم پڑھا کرتے تھے جس کا ایک مصرعہ:
یارو ایک لڑائی ہے' سیگاؤں سے منگھو پیر تلک
(سیگاؤں ویتنام کا وہ شہر جس پر امریکی قابض تھے)
مگر فیض احمد فیض اور میجر اسحاق کی کوشش بار آور نہ ہوئی۔ یہی وہ دور ہے جب فوجی حکومت کے خلاف ترقی پسند دانشوروں میں زبردست ہیجان برپا تھا ان تمام ہیجانی صورت حال کو بھٹو صاحب نے کیش کیا۔ 1965ء کی جنگ کو ایوب خان کے خلاف چلنے والی طلبہ تحریک سے منسلک کیا اور مغربی پاکستان کے افق پر چھا گئے خصوصاً پنجاب کے اقتدار میں آنے کے بعد غوث بخش بزنجو کی معاونت سے پاکستان کا آئین تیار کیا گیا۔ مگر آئین کی شقوں پر عمل نہ کیا گیا جو آج تک جاری ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو پر مختلف سیاسی الزامات لگائے گئے بلوچستان آپریشن، مشرقی پاکستان کی علیحدگی، نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف سازشیں، مگر کرپشن کا الزام نہ لگایا گیا کیونکہ بھٹو کی پہلی حکومت میں سوشلسٹ عناصر موجود تھے جنھیں رفتہ رفتہ پارٹی سے نکالا گیا اور پارٹی بے لگام ہوئی جے اے رحیم، خورشید حسین میر، معراج محمد خان کو غیر فعال کر دیا گیا اور پھر اپنے نظریات سے قربت رکھنے والی پارٹی، پہلے عوامی لیگ پھر نیشنل عوامی پارٹی پر کاری ضرب لگائی گئی نتیجہ یہ ہوا جب انھیں پھانسی دی گئی کوئی جیالا اس روز گھر سے باہر نہ آیا کیونکہ پارٹی کے ہراول دستے طلبہ مزدور اور کسان بے عمل ہوچکے تھے ہاں بی بی شہید نے دل لخت لخت کو جوڑا اور پارٹی کو منظم کیا مگر وہ گزشتہ پانچ برسوں میں تباہ ہوگئی۔ کیونکہ (ن) لیگ اور پی پی میں کوئی فرق باقی نہ رہا جس کی نمائش کراچی کے جلسے میں ہو گئی اس جلسہ گاہ میں پارٹی کی نظریاتی اساس کو نہ ابھارا گیا بلکہ اس کے نسلی رنگ کو اجاگر کیا گیا۔
امارت کا جابجا مظاہرہ کیا گیا اور غیر ضروری طور پر نواز لیگ اور متحدہ پر غیر موثر الفاظ کی بوچھاڑ کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سندھ میں ایک محاذ آرائی کی فضا پیدا ہو گئی اگر اس نوعیت کے چند اور جلسے ہوئے تو پی پی کی باقی ماندہ سیاسی حویلی میں دراڑ پڑ جائے گی جب کہ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک نے اپنے تقریباً تین ماہ کے دھرنے میں لوگوں کو باشعور بنا دیا۔
عمران خان نے معیشت کا پردہ چاک کیا اور علامہ طاہر القادری نے خصوصیت کے ساتھ نہایت عالمانہ طریقے سے بیمار معیشت کا ایکسرے اتارا۔ آئی ایم ایف کے بجائے وہ (BRICS) سے مدد لیں گے۔ برکس عملی طور پر 2014ء میں فعال ہوئی اس میں جو ممالک شامل ہیں ان میں برازیل، انڈیا، چائنا، روس اور ساؤتھ افریقہ ہیں جو سب کے سب G-7 کے رکن ہیں۔ برکس کے پاس کثیر زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اور سیاسی جوڑ توڑ سے مبرا ہو کر امداد دی جاتی ہے دنیا کی 40 فیصد آبادی ان ممالک میں آباد ہے اور یہ دنیا جو تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک ہیں۔
پاکستان کے کسی بھی لیڈر نے ابھی تک اس طرف نگاہ نہ کی تھی کہ سیاسی طور پر آئی ایم ایف سے بہتر متبادل مل سکتا ہے۔ آنے والا وقت دو پارٹی سسٹم پر ضرب کاری لگائے گا کیونکہ عوام نے دونوں پارٹیوں کے مزے چکھ لیے ہیں۔ عام استعمال کی چیزوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے اور چھٹکارا حال کرنے کا صرف انتخابی راستہ رہ گیا ہے، انقلابی راستہ پاکستان میں ممکن نہیں کیونکہ سیکڑوں انقلابی اور دانش ور انقلابی ترانے گاتے گاتے سو گئے بقول بلوچی شاعر گل خان نصیر (1948)
شب و روز فاقے ہیں' عریاں بدن ہے
نہ روٹی نہ کپڑا نہ گور و کفن ہے
جوانی میں پیری کی صورت عیاں ہے
کہ باغ وطن میں خزاں ہی خزاں ہے
اس کو بدلنے کے لیے اجتماعی جدوجہد کی بھرپور ضرورت ہے البتہ اہل وطن کو ایک اور رقت آمیز منظر دیکھنے کو مل سکتا ہے جیسا کہ دھرنے کے خاتمے پر نظر آیا۔ جب عمران خان اور طاہر القادری میں انتخابی حد بندی پر اختلاف ہوا تو اگر ایسا ہوا تو پھر فرسودہ نظام ایک بار پھر چور دروازے سے داخل ہو سکتا ہے۔ سائنسی اور حقیقی بنیادوں پر عمران خان اور علامہ صاحب کو جلد از جلد معاہدے کی ضرورت ہے دونوں پارٹیاں اپنے اعتبار سے تبدیلی اور غربت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔ دیکھیے انقلاب آتا ہے یا بنتا ہے نیا پاکستان۔