بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس

بجلی پاکستانی عوام کی بنیادی ضرورت ہے لیکن یہاں پر بھی ایران سے بجلی وہ بھی کم مقدار میں درآمد کی جاتی ہے۔


ایم آئی خلیل October 25, 2014
[email protected]

KARACHI: نیپرا جوکہ ملک میں بجلی کے نرخ مقرر کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اس نے حکومت کو تجویز ارسال کی تھی کہ بجلی کے نرخوں میں مزید ایک روپے 38 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا جائے۔ اس طرح فی یونٹ قیمت 13 روپے 80 فیصد مقرر کرنے کی تجویز پیش کی تھی لیکن وزیراعظم نے اضافے کی منظوری نہیں دی، اور اضافے کا فیصلہ واپس ہوگیا۔

بات دراصل یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے جب بھی مذاکرات ہوتے ہیں تو اس میں اسی بات کی شرط لگا دی جاتی ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جائے۔ حالانکہ پاکستان میں بجلی کے نرخ پہلے ہی خطے کے دیگر ملکوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ اول تو ملک میں ہمیشہ سے بجلی کی کمی واقع رہی ہے، ملک کے ہزاروں دیہات آج بھی ایسے ہیں جہاں بجلی نہیں پہنچی ہے۔ بجلی نہ ہونے کے باعث وہاں کے افراد تمام تر سہولیات سے محروم ہیں۔ پھر جن دیہاتوں قصبوں اور شہروں میں بجلی موجود ہے، وہاں اب ہونا نہ ہونا برابر ہو کر رہ گیا ہے۔ بجلی نہ ہونے کے باعث کام کے اوقات میں کاریگر فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔

ملک بھر میں ایسے ہزاروں چھوٹے چھوٹے پیداواری یونٹس ہیں جہاں بجلی کے ذریعے پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ ہزاروں دکانیں ہیں جن کا روزگار ہی بجلی کے ذریعے چل رہا ہوتا ہے۔ جس وقت لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چل رہا ہو آپ کسی مارکیٹ سے گزر جائیے۔ درزی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوں گے۔ لیس لگانے والے، کاج بنانے والے، سناروں کی دکان پر کام کرنے والے کاریگر، لیتھ مشین والے حتیٰ کہ گوشت کی دکان پر چلے جائیں تو قیمہ بنانے والی مشین بیکار پڑی ہوگی۔

لوگ گھنٹوں بجلی کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ جیسے ہی بجلی آئے ان کا روزگار چلے، ان کو معاوضے کے طور پر کچھ پیسے مل جائیں۔ لیکن افسوس بعض علاقوں صبح بجلی جاتی ہے اور شام گئے تک نہیں لوٹتی۔ موجودہ حکومت نے بجلی کی فوری پیداوار بڑھانے، لوڈشیڈنگ کے دورانیے کو کم سے کم کرنے کے وعدے کیے تھے۔ لیکن وہ سب ہوا ہوکر رہ گئے۔ حتیٰ کہ گزشتہ کئی سال سے ایران سے بجلی درآمد کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔

بجلی پاکستانی عوام کی بنیادی ضرورت ہے لیکن یہاں پر بھی ایران سے بجلی وہ بھی کم مقدار میں درآمد کی جاتی ہے، اس پر بھی امریکی پابندیاں آڑے آرہی ہیں۔ حال ہی میں ایک اطلاع کے مطابق وزیر خزانہ نے ہدایت کی ہے کہ ایران سے بجلی کی درآمد کی ادائیگی جلد ازجلد کرنے کے لیے ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جو امریکی پابندیوں کی زد میں نہ آتا ہو۔ جس کے لیے وزارت تجارت کے حکام نے بھارت اور ترکی کے ماڈل کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔

ترکی جوکہ پہلے سے ایران سے بڑی مقدار میں گیس حاصل کر رہا ہے اور کسی بھی قسم کی امریکی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لاتا جب کہ پاکستان کے لیے ایران سے گیس کے حصول میں ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں۔ آج سے کئی سال قبل جب اس منصوبے کا آغاز کیا گیا تھا اور ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن بچھا بھی دی ہے اور پاکستان بھی اگر اس منصوبے پر عمل درآمد کرچکا ہوتا تو آج ملک میں گیس کی قلت بھی نہ ہوتی۔

بجلی کے بہت سے پیداواری یونٹ جوکہ تیل سے چلائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے پیداواری لاگت کہیں 40 روپے فی یونٹ بھی آرہی ہے۔ اس میں بہت حد تک کمی واقع ہوچکی ہوتی۔ ترکی، ایران سے بڑی مقدار میں تیل بھی خریدتا ہے۔ تیل کی خریداری کے عوض اسے قیمتی دھاتیں فراہم کرتا ہے۔ بھارت بھی بڑی مقدار میں ایران سے تیل حاصل کر رہا ہے۔ سردست پاکستان اپنے سرحدی علاقوں کے لیے 74 میگاواٹ بجلی حاصل کر رہا ہے جس کے واجبات بھی 10 کروڑ ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اس سے قبل ایران سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی درآمد کرنے کی باتیں ہو رہی تھیں۔

کئی عشروں سے اس بات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کے بحران کو حل کیا جاسکتا ہے۔ اور اس کے ملک بھر میں بڑے ہی مواقع موجود ہیں۔ موجودہ حکومت پنجاب جوکہ گزشتہ 7 سال سے پنجاب میں موجود ہے۔ اب کہیں جاکر حکومت پنجاب نے صوبے میں چھوٹے سولر منصوبوں کے لیے 46 مقامات کا انتخاب کیا ہے۔ اس سلسلے میں جرمن سولر ماہر نے پنجاب کے حکام کو تفصیلی بریفنگ بھی دی۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک ملک میں توانائی کا بحران ختم نہیں ہوتا روزگار کے مواقع نہیں بڑھیں گے۔ پیداوار میں اضافہ ممکن نہیں ہوگا۔ ملک میں توانائی بحران کے باعث معیشت کے تمام شعبوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جس انداز میں لوڈشیڈنگ سے دوچار کیا گیا جس کے باعث ٹیکسٹائل کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوئے جس کے باعث ٹیکسٹائل برآمدات میں کمی واقع ہوگئی۔

ادھر 27-28 اکتوبر 2014 کو اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس منعقد ہونے والی ہے۔ جس میں بتایا جاتا ہے کہ 150 سے زائد غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کار شرکت کر رہے ہیں۔ یقینی طور پر ان سرمایہ کاروں کے لیے سب سے زیادہ دلچسپی کا شعبہ توانائی کا رہے گا۔ پاکستان میں کوئی بھی سرمایہ کار آکر سستی بجلی فراہم کرتا ہے تو یہ بات خوش آیند ہوگی۔ لیکن ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار اپنی آمد کو منسوخ کرتے چلے جا رہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے چینی صدر کی آمد کے ساتھ توقع کی جا رہی تھی کہ توانائی سے متعلق بہت سے منصوبوں پر پیش رفت ہوجائے گی۔ کیونکہ چین اس بات کا بار بار اعادہ کرتا رہتا ہے کہ وہ پاکستان کو توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے ہر وقت مدد کے لیے آمادہ ہے۔ اگر چین کی جانب سے ایسے توانائی کے منصوبے شروع کیے جاتے ہیں جن سے نسبتاً سستی بجلی حاصل ہوجائے تو اس طرح پاکستان کے لیے ترقی کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ کیونکہ سستی بجلی ملک و صنعت و زراعت کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔

اس وقت بھی 11 روپے 52 پیسے فی یونٹ ادائیگی کی عوام میں سکت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ زائد بلنگ کے ذریعے عوام کا چین و سکون لوٹا جا رہا ہے۔ بجلی کی موجودہ قیمت میں کم ازکم 50 فیصد کمی ہونی چاہیے۔ سستی بجلی کے حصول کے لیے کافی عرصے سے دیامیر بھاشا ڈیم سے ساڑھے 4 ہزار میگاواٹ بجلی کے حصول کا منصوبہ جوکہ قابل عمل ہے لیکن فنڈز کی کمی کے باعث تعطل پیدا ہوا ہے۔ مختلف عالمی ادارے اس پر فنڈنگ کے لیے کسی حد تک تیار بھی ہو رہے تھے۔ لیکن اب انڈیا نے یہ شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ ڈیم متنازعہ علاقے میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔

لہٰذا امریکا اس ڈیم کے لیے سرمایہ کاری نہ کرے۔ یہ ڈیم جوکہ گلگت، بلتستان کے علاقے میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ خود انڈیا کتنے ہی پاکستانی دریاؤں پر ڈیمز تعمیر کرچکا ہے۔ حکومت اس پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے عالمی سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لے اور اس ڈیم پر کام کا فوری آغاز کردے اگرچہ اس میں بھی 5-6 سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ لیکن مزید تاخیر کرتے چلے گئے تو کئی عشرے بیت جائیں گے۔ کیونکہ حکومت آخر بجلی کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ کب تک واپس لیتی رہے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ممکن طریقے سے ملک میں سستی ترین اور فوری بجلی کے حصول کے لیے پیداواری منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ عوام صنعت تجارت و زراعت کو سستی بجلی حاصل ہو اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں