خود کشیاں یا قتل

بدقسمتی سے ہمارے سماج میں جو لوگ برائیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف سینہ سپر ہوتے ہیں یا کسی اہم ٹاسک پر مامور ہوتے ہیں۔

advo786@yahoo.com

لاہور کے ایک ہوسٹل میں خود کشی کرنے والی لڑکی نبیہہ چوہدری کی میت اس کے گھر گلشن اقبال پہنچی، جہاں اس کی نماز جنازہ بیت المکرم مسجد میں ادا کی گئی اور اس کو حسن اسکوائر کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔ یہ چند سطروں کی خبر اس بڑے افسوسناک اور پر اسرار واقعے کا لب لباب ہے جو اس لڑکی کے ساتھ پیش آیا۔ کچھ ہی دنوں میں یہ واقعہ لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوجائے گا۔

اس کی کیس فائل وقت کی گرد میں دفن ہوجائے گی۔ جس طرح مرحومہ کے والد پروفیسر ڈاکٹر سلیم چوہدری کے قتل کی واردات کی فائل ردی میں تبدیل ہوچکی ہے، جو داؤد انجینئرنگ کالج کے پرنسپل تھے۔ جنھیں 25 مارچ 2005 ء کو دن دیہاڑے کراچی کی مرکزی شاہراہ پر بہیمانہ طریقے سے قتل کردیاگیا۔ انھین حکومت پاکستان نے اعلیٰ تعلیمی خدمات پر تمغہ امتیاز سے نوازا تھا۔ نبیہہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی مختصر روداد کچھ اس طرح ہے کہ وہ سی ایس آفیسر تھی اورایک آڈٹ اینڈ اکائونٹ انسٹی ٹیوٹ میں زیر تربیت اور اسی کے ہوسٹل میں رہائش پذیر تھی ۔ بتایا گیا ہے کہ اس نے کمرے میں بند ہوکر خودکشی کرلی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ متوفیہ نے کپڑوں سے دھبہ صاف کرنے کے لیے پٹرول کی بوتل منگوائی تھی اور اس سے خود کو جلا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا ۔ متوفیہ کی والدہ اور بہنوں نے خودکشی کے اقدام کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نبیہہ ایک مذہبی اور مثبت سوچ کی حامل اور اپنی زندگی سے مطمئن اور خوش تھی وہ ایک بہادر لڑکی تھی ۔ وقوعہ والے روز اس نے دن میں دو مرتبہ اپنی والدہ اور بہن سے بات کی اور تصاویر ای میل کیں۔

پولیس نے واقعے کی ابتدائی تفتیش اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا ہے کہ نبیہہ کی موت آگ لگنے کے بعد پھیپھڑوں میں دھواں بھرجانے کے سبب واقع ہوئی ہے۔ متوفیہ کا 90 فیصد جسم جھلس چکا تھا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ متوفیہ کے کمرے سے ایک تحریر ملی ہے کہ ''میں اپنی زندگی ختم کر رہی ہوں'' جو اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ اس نے خودکشی کی ہے۔ مرحومہ کے اہل خانہ، ساتھی افسروں اور آڈٹ اینڈ اکائونٹس اکیڈمی کی انتظامیہ کی رپورٹ پر پولیس نے قتل کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔

پولیس نے نبیہہ کے موبائل فون کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے ۔ اس کا لیپ ٹاپ بھی ایک پولیس اہلکار سے برآمد کرلیا ہے ، پولیس کے مطابق وقوعہ والے دن مرحومہ کی کسی شخص سے 30 منٹ تک بات اور دوبارہ اسی نمبر پر چند منٹ بات ہوئی تھی ، اسی طرح نبیہہ نے ایک دوسرے نمبر پر کئی کالز کیں لیکن کوئی کال اٹینڈ نہیں کی گئی، ان سے مقدمہ کی گتھی سلجھنے اور موت کی وجہ اور مبینہ قاتل تک پہنچنے میں مدد ملے گی ۔

اس سارے معاملے میں بعض امور توجہ طلب ہیں کہ ایک اہم سرکاری افسر کی رہائش گاہ پر یہ واقعہ کیسے رونما ہوا؟ اکیڈمی انتظامیہ اور پولیس اپنی ذمے داریاں نبھانے میں کیوں ناکام رہیں؟ اس معاملے کو خودکشی کا رنگ دینے کی دانستہ کوششیں تو نہیں کی جا رہی؟ اگر یہ قتل نہیں خودکشی کا واقعہ ہے تو اس لڑکی کو اس انتہائی اقدام پر مجبور کرنے والے کون تھے اور ایسا کرانے کی وجوہات کیا تھیں؟

متوفیہ ایک اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ اور کیریئر کی حامل تھی وہ ایک پڑھے لکھے آسودہ حال خاندان سے تعلق رکھتی تھی، اس کے ساتھی افسران کے مطابق وقوعہ کے دن بھی اس نے تمام کلاسز اٹینڈ کیں وہ نہ تو پریشان نظر آرہی تھی نہ ہی اس نے کسی غیر معمولی طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ حکومت کو اس معاملے کی مکمل آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانا چاہیے جو لوگ اس میں ملوث ہوں انھیں نشان عبرت بنادینا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہو پائیں ۔


پچھلے سال بھی ملتان کی 17 سالہ کرکٹر حلیمہ رفیق جو خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی تھی، کی خودکشی کا واقعہ سامنے آیا تھا جو اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی تھی۔ پولیس کے مطابق حلیمہ نے تیزاب پی کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا۔ اس لڑکی کے لواحقین نے بھی متوفیہ کی موت کو خودکشی کا رنگ دیے جانے پر شدید احتجاج کیا تھا۔ حلیمہ کا کہنا تھا کہ میڈیا میں اس کے انکشاف کے بعد سے اسے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں پھر اس کے بعد تیزاب پی لینے کے باعث اس کی موت کا واقعہ پیش آیا تھا اور یہ معمہ حل نہ ہو پایا کہ حلیمہ کی موت خودکشی تھی یا قتل اور اس کے ذمے دار کون تھے؟

اسی طرح کا ایک واقعہ اہلیت، قابلیت اور دیانت داری میں شہرت رکھنے والے نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کامران کے قتل یا خودکشی کا پیش آیا تھا جو قومی اہمیت کے حامل کیسز کی تحقیقات کر رہا تھا، اس افسر کی موت کو بھی خودکشی کا رنگ دیا گیا تھا جس کو اس کے خاندان اور ساتھی افسران کسی صورت ماننے پر تیار نہیں تھے۔ سابق وزیر پیداوار و محنت عمر اصغر کے ساتھ بھی اس قسم کا واقعہ پیش آیا تھا، جس کو خودکشی کا نام دے کر دبانے کی کوشش کی گئی۔

لواحقین نے اس کو قتل کا واقعہ قرار دیا تھا اور اس کے جو ثبوت و شواہد ملے تھے ان سے بھی یہ کسی طور خودکشی کا واقعہ نظر نہیں آتا تھا۔ مشہور زمانہ ایس ایس پی الطاف گوہر کے قتل یا خودکشی کے واقعے کے حالات و واقعات اور محرکات ظاہر کررہے تھے کہ ان کے قتل کے پیچھے کوئی منظم سازش کار فرما تھی۔

خودکشیوں کے جو عمومی محرکات بتائے جاتے ہیں وہ معاشی بدحالی، بیروزگاری، قرضہ، حق تلفی و عدم مساوات، ناکامی و ناکامرانی اور ذہنی انتشار و مایوسی وغیرہ ہیں۔ مذکورہ بالا واقعات میں ان کے دخل کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، ان تمام واقعات میں زندگیاں ہارنے والے افراد کی زندگی رعنائیوں اور امنگوں سے بھرپور تھی، وہ اعلیٰ تعلیم اور سماجی مرتبہ و مقام کے حامل اچھا کیریئر اور دوستوں اور احباب کا حلقہ رکھنے والے افراد تھے۔

لیکن بدقسمتی سے ہمارے سماج میں جو لوگ برائیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف سینہ سپر ہوتے ہیں یا کسی اہم ٹاسک پر مامور ہوتے ہیں، جھکنے اور بکنے کو تیار نہیں ہوتے انھیں راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے یا ان کی زندگیوں کو قابل رحم اور تماشا بنا دیا جاتا ہے۔ جرم کے تمام شواہد مٹا دیے جاتے ہیں، گواہوں کی زندگیاں چھین لی جاتی ہیں، مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر قتل کیس کے گواہوں کا دن دہاڑے قتل ہو یا اسٹیل ملز کرپشن کیس میں اس کے چیئرمین کا قتل یا پھر پولیس کی تحویل میں موجود اس کے ڈائریکٹر کو بینکنگ کورٹ کی بالائی منزل سے پھینک کر خودکشی کا رنگ دے دینا، ایسے واقعات ہیں جنھیں دیکھ کر لوگ انصاف و قانون کی عمل داری و حکمرانی کو سعی لاحاصل سمجھتے ہوئے جرائم و بدعنوانیوں کے خلاف مزاحمت کے جذبے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔

آج ہی سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے کنٹرولر آف ایگزامنیشن نے بورڈ میں کرپشن سے متعلق سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں کہ بورڈ انتظامیہ جعلی اسناد کے دھندوں میں کس حد تک ملوث ہے اور وہ اسناد کی تصدیق کے معاملے میں کس طرح بدعنوانیوں میں ملوث ہے، با اثر سیاست دانوں اور ممبران اسمبلی کے دفاع کی خاطر دھوکا دینے کی مرتکب ہو رہی ہے ۔ حکومت سے تو کوئی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ جرائم کے خلاف سینہ سپر ہونے والوں کو تحفظ فراہم کرسکے گی۔

اس قسم کے واقعات پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے خاموشی اور سرد مہری کا رویہ مایوس کن ہونے کے ساتھ تعجب خیز بھی نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتیں تو عوام اور انسانی حقوق کے نام پر محض پوائنٹ اسکورنگ اور مفادات کے حصول میں لگی ہوئی ہیں۔ اگر اس قسم کے واقعات پر خاموشی، بے حسی اور لا تعلقی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو بحیثیت مجموعی اس کے ملک و قوم اور معاشرے پر بڑے منفی اثرات مرتب ہوںگے۔
Load Next Story