گلا سڑا سماج
سقراط نے اپنا آخری بیان دیتے ہوئے کہا تھا ’’معزز اراکین مجلس ! ہم اب مختلف راستوں کے مسافر ہیں۔
KARACHI:
آؤ قریب آؤ ذرا غور سے سنو۔ سقراط کہہ رہا ہے علم حسن ہے علم نیکی ہے۔ سنو، سنو ایک اور آواز قریب ہی سے آرہی ہے جو بیکن کی ہے وہ کہہ رہا ہے علم سب سے بڑی طاقت ہے لیکن کیاکیجیے گا ہم سب بہرے بنے ہوئے ہیں ہم اس قدر مفلس واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے ہاں آج بھی عقل وعلم اور فکرو سوچ کی شدید ترین مخالفت کی جاتی ہے۔ مفکرین واہل دانش کا مذاق اڑایا جاتا ہے فکر کرنے اور سوچنے والوں کو سب سے بڑا مجرم قرار دیا جاتا ہے۔
ابن رشد، رومی، سعدی ، فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، کرشن چندر، منٹو، قرۃ العین حیدر، بوعلی سینا، مصطفی زیدی، غالب، سبط حسن کے نام عقیدت واحترام سے لینا یا ان کی کہی باتوں کا ذکر کرنا گناہ کے زمرے میں ڈالا ہوا ہے۔ ٹیگور نے کہا تھا فکر فکر کو دور کرتی ہے لیکن ہم وہ ہیں جو فکر کے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں۔
سقراط نے اپنا آخری بیان دیتے ہوئے کہا تھا ''معزز اراکین مجلس ! ہم اب مختلف راستوں کے مسافر ہیں میں موت کی تنگ وتاریک گھاٹی کی جانب رواں اور تم شارع زندگی کی طرف گامزن۔ کون سا راستہ ٹھیک ہے یہ نہ تم جانتے ہو نہ میں جانتا ہوں مگر خیر تم سے مجھے کوئی شکوہ نہیں تم تو یہ بھی نہیں جانتے ہو کہ تم کچھ جانتے ہو، ہاں مگر کچھ دنوں بعد تم جان لو گے کہ تم نے ایک ایسا فطین آدمی کھو دیا ہے جو یہ جانتا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔''
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم بھی کچھ نہیں جانتے اورستم یہ ہے کہ ہم بھی یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور ظلم تو یہ بھی ہے کہ ہم کچھ جاننے کی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں تو پھر ظاہرہے ہم شدید ترین جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں، ہمیں ان جرائم کی عقوبت میں وہی اذیتیں برداشت کرنا چاہیے جو ابن رشد، گیلیلیو، فردوسی ، البیرونی کو برداشت کرنا پڑی تھیں۔ ہم اسی سزا کے مستحق ہیں جو سقراط ، برونو ، منصور حلاج اور سرمد کے لیے تجو یز کی گئی تھیں۔
علم اور فکر کے بغیر قومیں مردہ ہوجاتی ہیں ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے صرف ان کے کھنڈرات باقی رہتے ہیں جس طرح پارتھے نون ختم ہوا، یونان ختم ہوا پھر روما آیا اور اس شدت اور تندی سے دنیا پر چھا گیا کہ کبھی گمان بھی نہیں گذر سکتا تھا کہ یہ بھی ختم ہوجائے گا اب اس کا کوئی نشان تک نہیں رہا کریٹ ختم ہوگیا جو ڈیا ، فینیشیا ، کارتھج ، بابل ان دیوتائوں کی مانند ہیں جن کے پرستار ختم ہوگئے ہیں ۔
یہ وہ صنم کدے ہیں جہاں زائرین تو جاتے ہیں لیکن کوئی دست دعا نہیں اٹھاتا ان سب پر موت طاری ہے پھر یورپ آیا ، اطالیہ ، ہسپانیہ، فرانس، انگلستان،جرمنی اور ایک ایسی نئی تہذیب پیدا ہوئی کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی انھوں نے یونانیوں سے بہتر سائنس تعمیر کی ایسی مو سیقی تخلیق کی کہ قدما کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتی تھی اور علم کو جمع کرکے اسے اس پیمانے پر دوسروں تک منتقل کیا کہ اس سے پہلے کبھی ممکن نہ ہوا تھا۔
دوسری طرف ہم بھی مر چکے ہیں ہم میں انحطاط کی تمام علامتیں موجود ہیں، ہمارے ارادے، ہماری جمہوریت، ہماری بدعنوانیاں، ہماری سائنس ،ہمارا فن، ہماری ریاضی،ہمارا سماج ان تمام صفات کا حامل ہے جو قدیم ریاستوں کے فنا ہونے سے پہلے ان میں موجود ہوتی تھیں ۔کہتے ہیں جھوٹ بول کر جیتنے سے بہتر ہے کہ سچ بول کر ہار جائیں یہ سچ ہے کہ ہم سب اپنے مجرم ہیں، تعجب یہ ہے کہ ہم اپنے نامہ اعمال پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے ہیں، ہمیں انسانیت کا سامنا کرنے کی جرأت کس طرح ہوتی ہے ، کس قدر بدنصیب ہیں ہم کہ ہمیں آج بھی ہمیشہ علم اور عقل کی اہمیت ثابت کرنا پڑتی ہے جب کہ دنیا صدیوں پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ ترقی اور خوشحالی صرف علم اور عقل سے ہی ممکن ہے۔
آج جب کہ ترقی یافتہ قومیں کرہ ارض کو فتح کرکے سیاروں کی طرف بڑھ رہی ہیں ہم آج بھی اسی بحث میں مبتلا ہیں کہ علم وعقل کی واقعتا کوئی قدروقیمت ہے یا نہیں ۔ ہمیں آج بھی فکری مسائل چھیڑنے سے پہلے اب بھی یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں بنیاد پرست برہم نہ ہوجائیں کچھ لوگوں نے جائیدادوں کی طرح مذہب کے جملہ حقوق اپنے نام الاٹ کروا رکھے ہیں۔ اختلاف پر فتوئوں کی بارش ہوجاتی ہے، گریز اورفرار کا رویہ ہمارے قومی نشانات بن چکے ہیں۔ ہم نے مسلم خرد افروزی اور روشن خیالی کا گلا گھونٹ دیا ہے انھیں زندہ درگور کردیا۔
ہم عقل ودانش کی لاشوں کو نوچ نوچ کر ادھیڑ رہے ہیں اندھیروں میں رہ رہ کر ہماری عقل میں نفرتوں ، تعصبات اور توہمات کے جالے کے جالے بن گئے ہیں۔ روشنی سے ہمیں نفرت ہے ماضی میں رہنا ہمارا قومی فریضہ بن چکا ہے جب معاشرے میں نئے خیالات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی تو اس معاشرے میں فلسفی ، مورخ ، شاعر، فنکار،مصنفین، ماہر تعمیرات ،ناول نگار یا موسیقی دان پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔
شیکسپیئر نے کہا تھا اپنے خیالات کو اپنا جیل خانہ مت بنائو ، جب تک ہم اپنے رجعت پسند ، فرسودہ اور منفی خیالات کو نئے اور روشن خیالات سے تبدیل نہیں کریں گے کچھ بھی تبدیل نہیں ہونے والا ۔ ہم دراصل اپنے اندر بھٹک رہے ہیں جس طرح نیرو نے جلے ہوئے روم کو دوبارہ تعمیر کیا تھا آئیں ہم اپنے گلے سٹرے بدبودار سماج کی لاش کو دفنا کر ایک نئے سما ج کو تعمیر کریں جس میں دل و ذہن کے تمام دروازے اور کھڑکیاں کھلی ہوئی ہوں جہاں نئے خیالات نئی سوچ اور نئے نظریات کے تازہ جھونکے آرہے ہوں جہاں اختلافات پر کسی کو نہ مارا جائے بلکہ اختلافات پر اتقاق ہو، جہاں بحث و مباحثے ہو رہے ہوں جہاں ایک دوسرے کا احترام ہو جہاں برداشت کی حکمرانی ہو، جہاں مساوات ہو جہاں عقل و علم کا راج چلتا ہو۔
کہا جاتا ہے کہ اصلاح کی بنیاد انسان کے جہل سے شروع ہوتی ہے اور علم کی روشنی میں اس کا اختتام ہوتا ہے ۔ اگر ہم نے اپنی مکمل تباہی اور بربادی کا تہیہ ہی کر رکھا ہے تو پھر اور بات ہے ۔ لیکن اگر ہم اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ایک لمحہ ضایع کیے بغیر ماضی کے بجائے حال میں رہنا ہو گا۔ پہلے ہمیں فکری انقلاب برپا کرنا ہوگا پھر معاشی اور پھر معاشرتی انقلاب اور پھر آپ دیکھیں گے کہ ہمیں کس طرح اپنے عذابوں سے نجات حاصل ہو جاتی ہے ۔
آؤ قریب آؤ ذرا غور سے سنو۔ سقراط کہہ رہا ہے علم حسن ہے علم نیکی ہے۔ سنو، سنو ایک اور آواز قریب ہی سے آرہی ہے جو بیکن کی ہے وہ کہہ رہا ہے علم سب سے بڑی طاقت ہے لیکن کیاکیجیے گا ہم سب بہرے بنے ہوئے ہیں ہم اس قدر مفلس واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے ہاں آج بھی عقل وعلم اور فکرو سوچ کی شدید ترین مخالفت کی جاتی ہے۔ مفکرین واہل دانش کا مذاق اڑایا جاتا ہے فکر کرنے اور سوچنے والوں کو سب سے بڑا مجرم قرار دیا جاتا ہے۔
ابن رشد، رومی، سعدی ، فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، کرشن چندر، منٹو، قرۃ العین حیدر، بوعلی سینا، مصطفی زیدی، غالب، سبط حسن کے نام عقیدت واحترام سے لینا یا ان کی کہی باتوں کا ذکر کرنا گناہ کے زمرے میں ڈالا ہوا ہے۔ ٹیگور نے کہا تھا فکر فکر کو دور کرتی ہے لیکن ہم وہ ہیں جو فکر کے ہی دشمن بنے ہوئے ہیں۔
سقراط نے اپنا آخری بیان دیتے ہوئے کہا تھا ''معزز اراکین مجلس ! ہم اب مختلف راستوں کے مسافر ہیں میں موت کی تنگ وتاریک گھاٹی کی جانب رواں اور تم شارع زندگی کی طرف گامزن۔ کون سا راستہ ٹھیک ہے یہ نہ تم جانتے ہو نہ میں جانتا ہوں مگر خیر تم سے مجھے کوئی شکوہ نہیں تم تو یہ بھی نہیں جانتے ہو کہ تم کچھ جانتے ہو، ہاں مگر کچھ دنوں بعد تم جان لو گے کہ تم نے ایک ایسا فطین آدمی کھو دیا ہے جو یہ جانتا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔''
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم بھی کچھ نہیں جانتے اورستم یہ ہے کہ ہم بھی یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور ظلم تو یہ بھی ہے کہ ہم کچھ جاننے کی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں تو پھر ظاہرہے ہم شدید ترین جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں، ہمیں ان جرائم کی عقوبت میں وہی اذیتیں برداشت کرنا چاہیے جو ابن رشد، گیلیلیو، فردوسی ، البیرونی کو برداشت کرنا پڑی تھیں۔ ہم اسی سزا کے مستحق ہیں جو سقراط ، برونو ، منصور حلاج اور سرمد کے لیے تجو یز کی گئی تھیں۔
علم اور فکر کے بغیر قومیں مردہ ہوجاتی ہیں ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہے صرف ان کے کھنڈرات باقی رہتے ہیں جس طرح پارتھے نون ختم ہوا، یونان ختم ہوا پھر روما آیا اور اس شدت اور تندی سے دنیا پر چھا گیا کہ کبھی گمان بھی نہیں گذر سکتا تھا کہ یہ بھی ختم ہوجائے گا اب اس کا کوئی نشان تک نہیں رہا کریٹ ختم ہوگیا جو ڈیا ، فینیشیا ، کارتھج ، بابل ان دیوتائوں کی مانند ہیں جن کے پرستار ختم ہوگئے ہیں ۔
یہ وہ صنم کدے ہیں جہاں زائرین تو جاتے ہیں لیکن کوئی دست دعا نہیں اٹھاتا ان سب پر موت طاری ہے پھر یورپ آیا ، اطالیہ ، ہسپانیہ، فرانس، انگلستان،جرمنی اور ایک ایسی نئی تہذیب پیدا ہوئی کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی انھوں نے یونانیوں سے بہتر سائنس تعمیر کی ایسی مو سیقی تخلیق کی کہ قدما کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتی تھی اور علم کو جمع کرکے اسے اس پیمانے پر دوسروں تک منتقل کیا کہ اس سے پہلے کبھی ممکن نہ ہوا تھا۔
دوسری طرف ہم بھی مر چکے ہیں ہم میں انحطاط کی تمام علامتیں موجود ہیں، ہمارے ارادے، ہماری جمہوریت، ہماری بدعنوانیاں، ہماری سائنس ،ہمارا فن، ہماری ریاضی،ہمارا سماج ان تمام صفات کا حامل ہے جو قدیم ریاستوں کے فنا ہونے سے پہلے ان میں موجود ہوتی تھیں ۔کہتے ہیں جھوٹ بول کر جیتنے سے بہتر ہے کہ سچ بول کر ہار جائیں یہ سچ ہے کہ ہم سب اپنے مجرم ہیں، تعجب یہ ہے کہ ہم اپنے نامہ اعمال پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے ہیں، ہمیں انسانیت کا سامنا کرنے کی جرأت کس طرح ہوتی ہے ، کس قدر بدنصیب ہیں ہم کہ ہمیں آج بھی ہمیشہ علم اور عقل کی اہمیت ثابت کرنا پڑتی ہے جب کہ دنیا صدیوں پہلے اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ ترقی اور خوشحالی صرف علم اور عقل سے ہی ممکن ہے۔
آج جب کہ ترقی یافتہ قومیں کرہ ارض کو فتح کرکے سیاروں کی طرف بڑھ رہی ہیں ہم آج بھی اسی بحث میں مبتلا ہیں کہ علم وعقل کی واقعتا کوئی قدروقیمت ہے یا نہیں ۔ ہمیں آج بھی فکری مسائل چھیڑنے سے پہلے اب بھی یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں بنیاد پرست برہم نہ ہوجائیں کچھ لوگوں نے جائیدادوں کی طرح مذہب کے جملہ حقوق اپنے نام الاٹ کروا رکھے ہیں۔ اختلاف پر فتوئوں کی بارش ہوجاتی ہے، گریز اورفرار کا رویہ ہمارے قومی نشانات بن چکے ہیں۔ ہم نے مسلم خرد افروزی اور روشن خیالی کا گلا گھونٹ دیا ہے انھیں زندہ درگور کردیا۔
ہم عقل ودانش کی لاشوں کو نوچ نوچ کر ادھیڑ رہے ہیں اندھیروں میں رہ رہ کر ہماری عقل میں نفرتوں ، تعصبات اور توہمات کے جالے کے جالے بن گئے ہیں۔ روشنی سے ہمیں نفرت ہے ماضی میں رہنا ہمارا قومی فریضہ بن چکا ہے جب معاشرے میں نئے خیالات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی تو اس معاشرے میں فلسفی ، مورخ ، شاعر، فنکار،مصنفین، ماہر تعمیرات ،ناول نگار یا موسیقی دان پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔
شیکسپیئر نے کہا تھا اپنے خیالات کو اپنا جیل خانہ مت بنائو ، جب تک ہم اپنے رجعت پسند ، فرسودہ اور منفی خیالات کو نئے اور روشن خیالات سے تبدیل نہیں کریں گے کچھ بھی تبدیل نہیں ہونے والا ۔ ہم دراصل اپنے اندر بھٹک رہے ہیں جس طرح نیرو نے جلے ہوئے روم کو دوبارہ تعمیر کیا تھا آئیں ہم اپنے گلے سٹرے بدبودار سماج کی لاش کو دفنا کر ایک نئے سما ج کو تعمیر کریں جس میں دل و ذہن کے تمام دروازے اور کھڑکیاں کھلی ہوئی ہوں جہاں نئے خیالات نئی سوچ اور نئے نظریات کے تازہ جھونکے آرہے ہوں جہاں اختلافات پر کسی کو نہ مارا جائے بلکہ اختلافات پر اتقاق ہو، جہاں بحث و مباحثے ہو رہے ہوں جہاں ایک دوسرے کا احترام ہو جہاں برداشت کی حکمرانی ہو، جہاں مساوات ہو جہاں عقل و علم کا راج چلتا ہو۔
کہا جاتا ہے کہ اصلاح کی بنیاد انسان کے جہل سے شروع ہوتی ہے اور علم کی روشنی میں اس کا اختتام ہوتا ہے ۔ اگر ہم نے اپنی مکمل تباہی اور بربادی کا تہیہ ہی کر رکھا ہے تو پھر اور بات ہے ۔ لیکن اگر ہم اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ایک لمحہ ضایع کیے بغیر ماضی کے بجائے حال میں رہنا ہو گا۔ پہلے ہمیں فکری انقلاب برپا کرنا ہوگا پھر معاشی اور پھر معاشرتی انقلاب اور پھر آپ دیکھیں گے کہ ہمیں کس طرح اپنے عذابوں سے نجات حاصل ہو جاتی ہے ۔