دنیا میں خوراک کا بحران …
ہم کوئی بہت امیرکبیر،آسودہ حال ملک کے شہری ہیں بد قسمتی سے یہ تصویرکا ایک رخ ہے۔
جس تناسب سے پاکستان میں ملکی و غیر ملکی فوڈزچینز، ہوٹلز اور ڈھابوں کی بھرمار ہو رہی ہے وہ دکانیں جہا ں کبھی کتابوںکے خریدار آتے تھے، وہاں اب انواع واقسام کے کھانوں کا کاروبار عروج پر ہے عوام میں اس وقت سب سے منافع بخش کاروبار اسے ہی تسلیم کیا جاتا ہے عوام کی بھوک کا اندازہ فوڈ چینلز کی بھرمار ان پر دکھائے جانے والے گراں قدرکھانے کی تر اکیب جسے دیکھ کر عوام کی بھوک میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔
اسی سال رمضان میں ایک سیاسی جلسے کے دوران لوگوں نے روزہ کھلنے کا انتظار بھی نہیں کیا ۔مغرب کی اذان سے بہت پہلے روزہ افطار کرنے کی ویڈیو ٹی وی پر دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا کھانے کے لیے اتنی بھگڈر اتنا ہجوم خدا کی پناہ؟اسی موضوع سے ملتا ہو ا ایک ایس ایم ایس بھی پڑھ لیجیے اگر آپ کو قیامت کا منظر دیکھنا ہو تو شادی ہالوں میں کھانا کھلنے کے منظر پر نظر ڈال لیجیے کھانا کھلنے کی دیر ہوتی ہے، تمام تہذیب ،ادب وآداب کو بالائے طاق رکھ کر کوئی کسی کو نہیں پہچانتا، مائیں بچوں کو بھول کرکھانا لینے دوڑتی ہیں ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے۔
ایسا لگتا ہے گویا آخری کھانا ہو اس کے بعد پھر کبھی نصیب نہ ہو گا یہ مناظر ہمارے قومی مزاج کی پہچان ہیں کہ ہم ایک ناشائستہ اور بھوکی قوم ہیں ہم اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ کھانے کے بعد ہم جس طرح بہت سارا کھانا اپنی پلیٹوں میں ضایع کرتے ہیں۔
اس سے لگتا ہے کہ ہم کوئی بہت امیرکبیر،آسودہ حال ملک کے شہری ہیں بد قسمتی سے یہ تصویرکا ایک رخ ہے دوسری جانب ہمیں گھنٹوں دھوپ میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے بوڑھے مرد وخواتین نظرآتے ہیں جو چند مٹھی بھر راشن کے لیے ذلت اٹھاتے ہیں انتظامیہ اور پولیس کی دھتکار اور ڈنڈوں کو برداشت کرتے ہیں کئی ایک اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھوتے ہیں پورے سال ملک میں کبھی آٹا، چینی، چاول، ٹماٹر یا پیاز وغیرہ کی قلت کا عوام شکار رہتے ہیں۔
ہمارے حکمراں لمبے لمبے خوشحالی کے دعوے کرتے تو نظر آتے ہیں لیکن وہ حالات کی سنگینی پر سنجیدہ نہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ ان کے محلوں کو بھوک نامی بلا سے کوئی واسطہ نہیں پڑا ،یا پھر انھیں تاریخ سے سبق لینا نہیں آتا۔ جب1789 فرانس میں آٹا بازار سے غائب ہو گیا عوام بھوک اور غربت کے ہاتھوں تنگ آکر شاہی محل کے سامنے بھوک بھوک کی صدا لگا رہے تھے۔
یہ نعرے ملکہ اینٹونیٹ کو سخت برے لگ رہے تھے، اس نے کہا ''کہ اگر تم لو گوں کو رو ٹی نہیں ملتی تو تم کیک کھا لو'' جواب میں روٹی کا نعرہ لگانے والوں میں بغاوت کی چنگاری بھڑکی وہ اپنے گھروں سے نکلے انھوں نے بیٹائل جیل کا رخ کیا اور ان تمام لوگوں کو رہائی دلائی جو بے گناہی کی سزا بھگت رہے تھے اس کے بعد پورے فرانس میں ان تمام کسانوں، مزدوروں اور بے روزگاروں کو جو آسودہ حال نظر آیا انھوں نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا ملکہ کو پھانسی دے دی گئی یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ملکہ کو پھانسی بھی 16اکتوبر کے دن دی گئی جسے عالمی ادارے نے یوم خوراک کا دن مقرر کیا۔
سارا شاہی خاندان مارا گیا جاگیردار، امراء اور پادری مارے گئے، اس دور میں حالت یہ ہو گئی کہ فرانس میں جو شخص خوبصورت اور صحت مند نظر آتا اس کے بال لمبے ،ہاتھ خوبصورت نظر آتے عوام اسے قتل کردیتے تمام پولیس اور فوج بھی مل کر اپنے حکمرانوں کو نہ بچا سکی۔ آج بھی پوری دنیا اس وقت جس معاشی اور مالی بحران سے دوچار ہے اس میں غریبوں کی حالت سب سے بدتر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔
پوری دنیا میں 16اکتوبر 1985کو عالمی ادارہ فوڈ اینڈ ایگری کلچرآرگنائزیشن (فائو) کا دن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دنیا میں پھیلے ہو ئے بھوک کے اژدھے سے مقابلہ کرے۔ عالمی یوم خوراک منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ پیٹ بھرے لوگوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اپنی اس خوش نصیبی میں دوسروں کو برابر کا شریک سمجھیں جنھیں اس کی توفیق نہیں ہوتی وہ اس کا احساس ضرور کر یں۔ ہر سال ڈیڑھ سو ممالک میں منائے جانے والے اس دن دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی تنظیمیں، یورنیورسٹیوں، کانفرنسوں اور ورکشاپوں میں خوراک کی پیداوار، تقسیم اور حفاظت کے بارے میں خصوصی اقدامات پر غورکرتی ہیں۔
اس سال عالمی ادارہ خوراک کا دن دنیا بھر میں غذائی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے منایا جا رہا ہے جس میں اس سال کا مو ضوع ہے ''خوراک کی قیمتوں میں بحران سے استحکام ''دنیا کے غریب ترین ممالک کے لوگوں کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا اسی فی صد حصہ اپنے کھانے پر خرچ کر تے ہیں۔ غذائی قیمتوں میں اضافے سے مزید غربت میں اضافہ ہوا ہے جب کہ دوسری جانب فاؤ کا شکوہ ہے امریکا سمیت تمام امیر ممالک عالمی ادارہ خوراک کو وعدے کے مطابق مالی امداد فراہم نہیں کر رہے سال بہ سال اس کی کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ 1980میں یہ رقم نو ارب ڈالر تھی جو اب پانچ ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے وہ ممالک جو خانہ جنگی ، ایڈز اور ٹی بی کے عذاب میں مبتلا ہیں وہاں بھوکوں کی تعداد میں اضافہ تشویش ناک امر ہے۔
فائو کانفرنس میں عہد کیا گیا تھا کہ2015ء تک دنیا سے بھوک اور غربت میں کمی کی جائے گی مگر افسوس اس پر عمل درآمد نہ ہو سکے گا اب سے چندسال قبل غربت کی نچلی تر ین سطح پر گزر بسر کر نے والوں کی جو تعداد ایک ارب تھی اب تین ارب پر پہنچ چکی ہے ۔
پاکستان میں بنیادی ضرورتوں سے محروم پاکستانیوں کی تعداد کے بارے بے نظیر انکم سپورٹ کی انچارج فرزانہ راجہ کے مطابق37لا کھ سے بھی زائد ہے یہ وہ لو گ ہیں جو انتہائی حد تک کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے جس کے پاس افرادی قوت ،اچھی آب وہوا اوردنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ اس کی 75فی صد سے زائد آبادی بلواسطہ یا بلاواسطہ زراعت کے پیشے پر انحصار کرتی ہے جب کہ پورے ملک کی نصف سے زیادہ کاشتکاری پنجاب میں ہوتی ہے۔
پنجاب کا شمار دنیا کے زرخیز علاقوں میں ہوتا ہے مگر ہماری غلط پالیسیوں اور اصلاحات کی وجہ سے پورے ملک میں کاشتکاری کا تناسب کم سے کم ہوتا جا رہا ہے دوسال سے سیلا ب کی تباہ کاریوں کے بعد جو حالات ہیں ان میں قدرتی آفات سے زیادہ غلط اصلاحات اور ہمارے پالیسی سازوں کے ناقابل حد تک بڑھے ہو ئے غیر پیداواری اخراجات ہیں اس میں بیوروکر یسی ، افسر شاہی اور حکومتی ارکان شامل ہیں اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک مخلص اعلیٰ قیادت کی ضرورت ہے جو ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔
افسوس کہ ہمارے معاشر ے میں کس قدر تضاد ہے ایک طرف اشرافیہ طبقہ دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹنے اور پیٹ بھرنے میں مگن ہے طر ح طرح کے انواع واقسام کے کھانے اس کے دستر خوان پر سجتے ہیں انھیں سمجھ نہیں آتا کیا کھائیںکیا نہ کھائیں اور دوسری جانب وہ لوگ ہیں جنھیں ایک وقت پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ۔
اسی سال رمضان میں ایک سیاسی جلسے کے دوران لوگوں نے روزہ کھلنے کا انتظار بھی نہیں کیا ۔مغرب کی اذان سے بہت پہلے روزہ افطار کرنے کی ویڈیو ٹی وی پر دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا کھانے کے لیے اتنی بھگڈر اتنا ہجوم خدا کی پناہ؟اسی موضوع سے ملتا ہو ا ایک ایس ایم ایس بھی پڑھ لیجیے اگر آپ کو قیامت کا منظر دیکھنا ہو تو شادی ہالوں میں کھانا کھلنے کے منظر پر نظر ڈال لیجیے کھانا کھلنے کی دیر ہوتی ہے، تمام تہذیب ،ادب وآداب کو بالائے طاق رکھ کر کوئی کسی کو نہیں پہچانتا، مائیں بچوں کو بھول کرکھانا لینے دوڑتی ہیں ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوتی ہے۔
ایسا لگتا ہے گویا آخری کھانا ہو اس کے بعد پھر کبھی نصیب نہ ہو گا یہ مناظر ہمارے قومی مزاج کی پہچان ہیں کہ ہم ایک ناشائستہ اور بھوکی قوم ہیں ہم اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ کھانے کے بعد ہم جس طرح بہت سارا کھانا اپنی پلیٹوں میں ضایع کرتے ہیں۔
اس سے لگتا ہے کہ ہم کوئی بہت امیرکبیر،آسودہ حال ملک کے شہری ہیں بد قسمتی سے یہ تصویرکا ایک رخ ہے دوسری جانب ہمیں گھنٹوں دھوپ میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے بوڑھے مرد وخواتین نظرآتے ہیں جو چند مٹھی بھر راشن کے لیے ذلت اٹھاتے ہیں انتظامیہ اور پولیس کی دھتکار اور ڈنڈوں کو برداشت کرتے ہیں کئی ایک اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھوتے ہیں پورے سال ملک میں کبھی آٹا، چینی، چاول، ٹماٹر یا پیاز وغیرہ کی قلت کا عوام شکار رہتے ہیں۔
ہمارے حکمراں لمبے لمبے خوشحالی کے دعوے کرتے تو نظر آتے ہیں لیکن وہ حالات کی سنگینی پر سنجیدہ نہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ ان کے محلوں کو بھوک نامی بلا سے کوئی واسطہ نہیں پڑا ،یا پھر انھیں تاریخ سے سبق لینا نہیں آتا۔ جب1789 فرانس میں آٹا بازار سے غائب ہو گیا عوام بھوک اور غربت کے ہاتھوں تنگ آکر شاہی محل کے سامنے بھوک بھوک کی صدا لگا رہے تھے۔
یہ نعرے ملکہ اینٹونیٹ کو سخت برے لگ رہے تھے، اس نے کہا ''کہ اگر تم لو گوں کو رو ٹی نہیں ملتی تو تم کیک کھا لو'' جواب میں روٹی کا نعرہ لگانے والوں میں بغاوت کی چنگاری بھڑکی وہ اپنے گھروں سے نکلے انھوں نے بیٹائل جیل کا رخ کیا اور ان تمام لوگوں کو رہائی دلائی جو بے گناہی کی سزا بھگت رہے تھے اس کے بعد پورے فرانس میں ان تمام کسانوں، مزدوروں اور بے روزگاروں کو جو آسودہ حال نظر آیا انھوں نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا ملکہ کو پھانسی دے دی گئی یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ملکہ کو پھانسی بھی 16اکتوبر کے دن دی گئی جسے عالمی ادارے نے یوم خوراک کا دن مقرر کیا۔
سارا شاہی خاندان مارا گیا جاگیردار، امراء اور پادری مارے گئے، اس دور میں حالت یہ ہو گئی کہ فرانس میں جو شخص خوبصورت اور صحت مند نظر آتا اس کے بال لمبے ،ہاتھ خوبصورت نظر آتے عوام اسے قتل کردیتے تمام پولیس اور فوج بھی مل کر اپنے حکمرانوں کو نہ بچا سکی۔ آج بھی پوری دنیا اس وقت جس معاشی اور مالی بحران سے دوچار ہے اس میں غریبوں کی حالت سب سے بدتر ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔
پوری دنیا میں 16اکتوبر 1985کو عالمی ادارہ فوڈ اینڈ ایگری کلچرآرگنائزیشن (فائو) کا دن مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دنیا میں پھیلے ہو ئے بھوک کے اژدھے سے مقابلہ کرے۔ عالمی یوم خوراک منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ پیٹ بھرے لوگوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اپنی اس خوش نصیبی میں دوسروں کو برابر کا شریک سمجھیں جنھیں اس کی توفیق نہیں ہوتی وہ اس کا احساس ضرور کر یں۔ ہر سال ڈیڑھ سو ممالک میں منائے جانے والے اس دن دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی تنظیمیں، یورنیورسٹیوں، کانفرنسوں اور ورکشاپوں میں خوراک کی پیداوار، تقسیم اور حفاظت کے بارے میں خصوصی اقدامات پر غورکرتی ہیں۔
اس سال عالمی ادارہ خوراک کا دن دنیا بھر میں غذائی اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے منایا جا رہا ہے جس میں اس سال کا مو ضوع ہے ''خوراک کی قیمتوں میں بحران سے استحکام ''دنیا کے غریب ترین ممالک کے لوگوں کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا اسی فی صد حصہ اپنے کھانے پر خرچ کر تے ہیں۔ غذائی قیمتوں میں اضافے سے مزید غربت میں اضافہ ہوا ہے جب کہ دوسری جانب فاؤ کا شکوہ ہے امریکا سمیت تمام امیر ممالک عالمی ادارہ خوراک کو وعدے کے مطابق مالی امداد فراہم نہیں کر رہے سال بہ سال اس کی کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔ 1980میں یہ رقم نو ارب ڈالر تھی جو اب پانچ ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے وہ ممالک جو خانہ جنگی ، ایڈز اور ٹی بی کے عذاب میں مبتلا ہیں وہاں بھوکوں کی تعداد میں اضافہ تشویش ناک امر ہے۔
فائو کانفرنس میں عہد کیا گیا تھا کہ2015ء تک دنیا سے بھوک اور غربت میں کمی کی جائے گی مگر افسوس اس پر عمل درآمد نہ ہو سکے گا اب سے چندسال قبل غربت کی نچلی تر ین سطح پر گزر بسر کر نے والوں کی جو تعداد ایک ارب تھی اب تین ارب پر پہنچ چکی ہے ۔
پاکستان میں بنیادی ضرورتوں سے محروم پاکستانیوں کی تعداد کے بارے بے نظیر انکم سپورٹ کی انچارج فرزانہ راجہ کے مطابق37لا کھ سے بھی زائد ہے یہ وہ لو گ ہیں جو انتہائی حد تک کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے جس کے پاس افرادی قوت ،اچھی آب وہوا اوردنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے۔ اس کی 75فی صد سے زائد آبادی بلواسطہ یا بلاواسطہ زراعت کے پیشے پر انحصار کرتی ہے جب کہ پورے ملک کی نصف سے زیادہ کاشتکاری پنجاب میں ہوتی ہے۔
پنجاب کا شمار دنیا کے زرخیز علاقوں میں ہوتا ہے مگر ہماری غلط پالیسیوں اور اصلاحات کی وجہ سے پورے ملک میں کاشتکاری کا تناسب کم سے کم ہوتا جا رہا ہے دوسال سے سیلا ب کی تباہ کاریوں کے بعد جو حالات ہیں ان میں قدرتی آفات سے زیادہ غلط اصلاحات اور ہمارے پالیسی سازوں کے ناقابل حد تک بڑھے ہو ئے غیر پیداواری اخراجات ہیں اس میں بیوروکر یسی ، افسر شاہی اور حکومتی ارکان شامل ہیں اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک مخلص اعلیٰ قیادت کی ضرورت ہے جو ہمیں کہیں نظر نہیں آتی۔
افسوس کہ ہمارے معاشر ے میں کس قدر تضاد ہے ایک طرف اشرافیہ طبقہ دونوں ہاتھوں سے دولت لوٹنے اور پیٹ بھرنے میں مگن ہے طر ح طرح کے انواع واقسام کے کھانے اس کے دستر خوان پر سجتے ہیں انھیں سمجھ نہیں آتا کیا کھائیںکیا نہ کھائیں اور دوسری جانب وہ لوگ ہیں جنھیں ایک وقت پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ۔