نقل کا بے لگام عفریت… اُمّ عادل
امتحان کا مقصد طلبا کی قابلیت کی جانچ ہوتا ہے، جو اس نقل زدہ طریقۂ امتحان سے ممکن نہیں
میں اپنے بیٹے کے اسکول کی ماہانہ فیس جمع کروانے کے لیے میڈم کے آفس میں موجود تھی کہ ایک نو دس سالہ بچی نے آ کر میڈم سے کہا۔ میڈم میرے پیٹ میں درد ہے، مجھے آدھی چھٹی چاہیے۔ بچی چوتھی جماعت کی طالبہ تھی، میڈم نے پیار سے کہا ٹھیک ہے جا کر اپنے ہاتھ سے درخواست لکھ کر لائو، پھر دیکھتے ہیں۔
بچی چلی گئی۔ میڈم پھر مجھ سے باتوں میں مشغول ہوگئیں۔ تھوڑی ہی دیر میں بچی ہاتھ میں ایک صفحہ پکڑے دوبارہ آفس میں داخل ہوئی اور اپنی درخواست میڈم کے سامنے ٹیبل پر رکھ دی۔ درخواست پر نظر پڑتے ہی ہنسی کا ایک فوارہ اُن کے منہ سے نکلا اور اُنھوں نے ہنستے ہوئے وہ درخواست میری طرف کھسکا دی۔ میں نے پڑھا، ہنسی آنا بے اختیار تھا۔ وہ کچھ دیر قبل پیٹ میں درد کی وجہ سے چھٹی مانگ رہی تھی، مگر کلاس روم میں جا کر اپنی کاپی سے جو درخواست نقل کر کے لائی تھی وہ کلاس ٹیچر نے اُسے روٹین ورک میں لکھوائی ہوگی، اُس میں لکھا تھا۔ میرے والد معمولی محنت کش ہیں،
میں فیس ادا نہیں کرسکتی، لہٰذا میری فیس معاف کر دی جائے۔ لمحاتی ہنسی کے ساتھ یہ واقعہ ایک گہری سوچ دے گیا کہ آج ہمارا طالب علم ، واقعی علم سے کتنا دُور ہے، وہ نقل کردہ الفاظ کے مطالب سے بے بہرہ ہے۔ مشہور مقولہ ہے: ''نقل کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم یہاں کسی پیروڈی کا ذکر نہیں کر رہے بلکہ یہاں تذکرہ طلبا کی اُس نقل کا ہے، جس میں عقل کی نہیں بلکہ ایک کتاب یا پھر چند نوٹس کی ضرورت پڑتی ہے۔ گئے وقتوں میں طالب علم کتاب اس لیے خریدتا تھا کہ اگر کتابیں نہ ہوں گی تو وہ سارا سال کیا پڑھے گا اور امتحان کی تیاری کیسے ہوگی۔ مگر اب طالب علم کو سارا سال کتابوں کی چنداں فکر نہیں ہوتی۔ فکر کرنے کے لیے بے چارے طالب علم کو اور بہت سے جھنجھٹ ہیں، مثلاً کیبل صاف نہیں آرہا، اُس کی درستگی، انٹرنیٹ کے بل کی ادائیگی ورنہ وہ بند ہوجائے گا۔
نئی سِم کی خریداری یا گم شدہ سم کا ازسرِنو اجراء، نئی سی ڈیز کی تلاش میں خواری اور پھر ڈھیر سارے اپنے جیسے نکمّے دوستوں کے SMS کے جوابات اور سب سے اہم موبائل پر بنائے گئے دوستوں کے ساتھ کسی پارک یا ہوٹل میں ڈیٹ پر جانا، اب بھلا اتنے سارے مسائل میں ایک بے زبان کتاب کا کہیں گم ہو جانا کون سا حیران کن مسئلہ ہے، پھر کتاب کے ساتھ ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اس کے ہاتھ میں آتے ہی نیند دبوچ لیتی ہے جب کہ آج کے نوجوان کو کروائے گئے پیکیجز کو استعمال کرنے کے لیے رات بھر جاگنا ہے، اب تو کتاب کے لیے وہ صرف امتحان کے دن فکرمند ہوتا ہے، جسے سامنے رکھ کر امتحانی پرچے پر جوابات چھاپ سکے۔ گزرے وقتوں میں بھی نقل کا رجحان پایا جاتا تھا، مگر بہت کم یعنی محض چند فیصد آج کی طرح سو فیصد نہیں، اُس وقت نقل اور موجودہ طرزِ نقل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اُس وقت یہ قبیح فعل بہت چھپ چھپا کر پکڑے جانے کے لرزہ خیز خوف کے ساتھ کیا جاتا تھا،چند طلبا ہی اس کے مرتکب ہوتے تھے۔
پکڑے جانے کی صورت میں اپنے ساتھی طلبا میں بدنامی کا خوف، والدین اور اساتذہ تک خبر پہنچنے کی صورت میں اُن کی سخت سرزنش اور سزا کا ڈر غالب ہوتا تھا، مگر موجودہ دور کا طالب علم یہ مکروہ فعل بڑی دیدہ دلیری اور فخریہ انداز میں انجام دیتا ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ طالب علم کے اس نفرت انگیز فعل کے بارے میں اُس کا استاد اور گھر کے اہم افراد بھی علم رکھتے ہوئے آنکھیں موندھ لیتے ہیں، پھر وہ کمرۂ امتحان سے باہر آ کر اپنے اس نا پسندیدہ عمل کو اپنے ساتھیوں میں فخریہ انداز میں بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے کہ کس طرح اُس نے اپنی بدمعاشی اور اپنے پاس موجود اسلحے کے زور پر کلاس میں موجود ٹیچر کو عاجز کر کے جبراً نقل کا فعل انجام دیا۔ اس بیان بازی سے اُس کے ساتھیوں کو بھی تحریک و حوصلہ ملتا ہے، وہ بھی یہ مکروہ فعل انجام دینے کے بارے میں نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ اگلے پہر میں وہ بھی اس تجربے سے گزر کر نقل کی فیصد میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
قابلِ افسوس امر تو یہ ہے کہ کہیں یہ کام اسلحہ اور بدمعاشی کے بغیر بھی اساتذہ کی کمزوری اور لالچ سے باآسانی انجام پاتا ہے۔ ایک طالب علم کے بیان کے مطابق محض پچاس روپے کی حقیر رقم کے عوض طلبا کو نقل کی اجازت دے کر اُن کے تابناک مستقبل کو تاریک کرنے والے اگر بصیرت سے کام لیں تو وہ حقیقت میں اپنی جیبوں میں رقم نہیں جہنم کے انگارے بھر رہے ہوتے ہیں۔ سب کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔ نوجوان نسل اس ڈگر پر کیسے پہنچی؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟ پیدایشی طور پر کوئی بھی اچھا یا بُرا نہیں ہوتا۔ معاشرے کی نئی نسل کو والدین کی تربیت، نگہداشت، اردگرد کا ماحول، معاشرتی حالات و رویے، اساتذہ کی نگرانی یہ سب عوامل مل کر پروان چڑھاتے ہیں، مگر جہاں والدین و اساتذہ کی تربیت میں غفلت، ارد گرد کا آلودہ ماحول اور سب سے بڑھ کر گھروں میں کیبل پر دیکھے جانے والی بے باک، بے ہودہ اخلاق سوز فلمیں جن میں بچوں کو اپنے والدین اور اساتذہ سے غیر مہذب تڑتڑ گفتگو کرتے دِکھایا جاتا ہے،
پھر ذاتی کاموں میں مشغول اور اپنے منصب سے دُور سرکاری اسکولوں کے اساتذہ، پرائیویٹ اسکولوں کی لالچی انتظامیہ، فیشن زدہ اساتذہ، تعلیمی شعبے کے کرتا دھرتا، غافل سرکاری طبقہ، زیادہ کی ہوس کے بخار میں مبتلا تعلیم کے مقدس پیشے کو کاروبار بنانے والے ٹیوشن سینٹرز، ٹیوٹر حضرات، کتب ناشران سب ہی خوابِ غفلت میں پڑے ہوں، وہاں رہنمائی کی مستحق نسل راہِ راست پر کیونکر رہ سکتی ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے ادھر جوں جوں ذمے داران کی نوجوانوں کی تعلیم و تربیت سے غفلت اور پیسہ اکٹھا کرنے کی رغبت بڑھتی گئی، والدین کی اولاد کی پرورش کی اصل ذمے داری سے انحراف اور دیگر بے جا مصروفیات بڑھتی گئیں، اُدھر توں توں نوجوان نسل ذمے داران کی غفلت سے فائدہ اُٹھا کر تعلیم سے بیزار اور بے بہرہ ہوتی گئی، مگر دُنیا دِکھاوے کو امتحان کا نقلی عمل ہنوز جاری و ساری ہے، لہٰذا بقول شاعر اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے،
لہٰذا امتحانات کے جلتے دریا سے گزرنے کے لیے جب پورا سال نہ کسی نے تیاری کروائی اور نہ کسی نے کی اور جب نقل میں ڈوب کر ہی پار اُترنا ہے تو پھر بُرا کیا ہے، غلط کہاں ہے۔ تنہا طلبا کو دوشی قرار دے کر اُنھیں پکڑ کر میڈیا کے سامنے لانا، رُسوا کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں کہ امتحان کا تکلف ہی تمام کر دیا جائے۔ بغیر امتحان طلبا کو اگلی جماعت میں ترقی دے دی جائے، کیونکہ امتحان کا مقصد طلبا کی قابلیت کی جانچ ہوتا ہے، جو اس نقل زدہ طریقۂ امتحان سے ممکن نہیں، پھر طلبا اور اساتذہ بھی ریلیکس رہیں گے، نہ ہوگا بانس نہ