پاکستان ایک نظر میں موت ایک بار پھر تھر کے دروازے تک

سندھ کو ماں کہنے والوں سے گزارش ہے کہ کچھ نہیں اپنے لوگوں کو اتنا کھانا دیے دیا کریں کہ اُن میں زندگی کی رمق باقی رہے۔

تھر میں پہلے بھی لوگ بھوک سے موت کا شکار ہورہے تھے اور بھی سب ویسا ہی ہے۔ سندھ کو دھرتی ماں کہنے والوں سے گزارش ہے کہ عیاشی ضرور کریں مگر لوگوں کو صرف اتنا کچھ کھانے پینے کیلئے دے دیا کریں کہ ان میں زندگی کی رمق باقی رہے۔ فوٹو: فائل

لاہور:
تازہ ترین خبروں کے مطابق ریلیف ڈپارٹمنٹ نے سندھ کے تین اضلاع کے ڈیڑھ سو دیہات کو خشک سالی کے باعث آفت زدہ قراردیدیا ہے۔'تھر' میں زندگی نے پھر سسکنا شروع کر دیا ہے۔ قحط کا موسم جو گزشتہ چند سالوں میں ان کے لیے قہر بن چکا ہے، اب ایک مرتبہ پھر اس خطے پر برے وقت کی طرح منڈلا رہا ہے۔

کراچی سے تین سو کلو میٹر دور سندھ کے جنوب مشرق میں 21ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا صحرائے تھرپارکر دنیا کا تیسرا بڑا صحرا ہے۔ یہ خطہ سرحد پار رن آف کچھ اور راجستھان سے شروع ہوکر اندرون ملک خیرپور کے صحرائے نارا سے ہوتا ہوا پاکستان کے ایک عظیم ریگستان چولستان سے جاکر ملتا ہے۔ تھرپارکر 21ہزار اسکوائر کلو میٹر پر مشتمل علاقہ ہے جہاں پر 15 لاکھ سے زائد آبادی ہے۔تھر افلاس و پیاس کا ایک صحرا ہے۔ یہاں کی اکثر آبادی کی ساری زندگی پانی کے حصول میں گزر جاتی ہے۔ اگر پانی کی قلت کا خاتمہ ہوجائے تو تھر میں 80 فیصد بیماریاں، بھوک و افلاس اور غربت دور ہوسکتی ہے۔

گزشتہ روز جب میں نے سندھ میں خشک سالی اور مختلف اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے کی خبریں پڑھیں تو میرے سامنے گزشتہ سال کے مناظر گھومنے لگے۔ جب دسمبر 2013ء سے مارچ 2014ء تک ضلعی ہسپتال مٹھی میں 99 بچوں سمیت 228 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ جبکہ اس خشک سال میں تھر کے باشندے اپنی سب سے قیمتی ذریعہ معاش ہزاروں جانور سے بھی محروم ہو گئے۔

میں سوچنے لگا کہ تھر کے باسی ایک بار پھر مشکلات میں گھرنے والے ہیں۔ بلکہ ایک بار پھر کیا۔ ان کی زندگی ہی مشکلات و مصائب کا مجموعہ ہے۔ لیکن کوئی اس حوالے سے ان کے لیے فکر مند نہیں ہے۔ گزشتہ برس بھی تھر میں ہونے والی اموات اور قحط سالی کے بعد اس آفت زدہ علاقے کے لیے حکومت نے اربوں روپے دینے کا اعلان کیا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدے اس کے علاوہ ہیں۔ مگر میرے خیال میں امداد کے یہ وعدے اور اعلان اس وقت تک ہی رہے ہیں ۔ جن ٹی وی کی ہیڈ لائنز اور خبروں کی سرخیوں کا موضوع تھر رہا ہے۔ اس کے بعد پھر کچھ نہیں ہوا۔


گزشتہ برس بھی جب سندھ میں ہر روز کئی زندگیوں کے چراغ گل ہو رہے تھے۔ سندھ کی سب سے بڑی اور عوامی جماعت پیپلز پارٹی موہنجودڑومیں جشن منا رہی تھی۔ اب بھی جب سندھ کی اکثریت زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ، تھر میں انسان اور جانور ایک ہی جوہڑ سے اپنی پیاس بجھاپر مجبور ہیں۔ خشک سالی کے باعث تھر کے لوگ اپنی بقا کے لیے پھر کسی انجانی منزل کی جانب سفر کر رہے ہوں گے۔ جہاں انہیں چند روز قیام کے عوض کچھ مقدار میں پانی اور جانوروں کے لیے کچھ چارہ مل جائے۔ اسی طرح وہ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

لیکن مصیبت زدہ ان افراد کی مشکلات کی ارباب اختیار کو کوئی فکر نہیں۔ کیونکہ حکمراں جماعت تو کروڑوں روپے لگا کر اپنی طاقت ظاہر کرنے کے لیے بڑے بڑے جلسے کر رہی ہے۔ بے حسی کی انتہا تو یہ ہے کہ جب عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے ایوانوں میں بیٹھنے والے اپنی ذمہ داری سے سرا سر غافل ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ صاحب شراب پی کر مرنے والوں میں شہادت کے سرٹیفکیٹ تقسیم کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف منتخب عوامی نمائندوں سے بننے والی سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراچ درانی ایوان میں بیٹھ کر مچھلی کھلانے کی فرمائش کر رہے ہیں۔ وہ بھی مچھلی کھانے کا شوق صرف اپنے لیے نہیں رکھتے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ اسمبلی کے تمام اراکین کو مچھلی کھلائی جائے۔

جب غربت اور افلاس عوام سے جینے کا حق چھین رہی ہو۔ دو وقت کی روٹی کا حصول عوام کے لئے ناممکن ہو رہا ہے ایسے میں حکمران طبقہ مچھلی کی دعوت اڑائے تو اس سے بڑھ کر بے حسی کیا ہو گی۔ مگر تِکے اور کبابوں کی لذتیں لینے والوں کو بھوک کے ہاتھوں مرنے والوں کی تکلیف کا کیا پتہ؟ یہ تکلیف تو اسی کو معلوم ہوتی ہے جو اس سے گزرتا ہے۔ جنہیں کبھی گرم ہوا نے چھوا تک نہ ہو ، انہیں کیا معلوم بھوک، پیاس، گرمی ، بیماری کس بلا کا نام ہے۔

آخر میں تمام اہل سندھ سے ایک گزارش کرتا چلوں کہ سندھ کوپاکستان کی ماں کہنے والے اس کی تقسیم کا مطالبہ کرنے والوں کے سخت خلاف ہیں۔لیکن اگر کوئی ان سے سوال کرے کے اس ماں دھرتی کے اوپر بسنے والے افلاس و پیاس کے مارے لوگوں کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں تو شاہد کاغذی کارروائی کے علاوہ عملی طور پر کچھ بھی نذر نہ آئے۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ عیاشی ضرور کریں مگر صرف لوگوں کو کچھ اتنا کھانے پینے کے لیے دے دیں کہ ان میں زندگی کی رمق باقی رہے۔ کیوں کہ برحال اگلی بار پھر منتخب ہونے کے لیے ووٹ کی ضرورت تو ہو گی اور ووٹ دینے کے لیے تاحال زندہ ہونا ضروری ہے۔ قبرستان والوں کو فی الحال ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا گیا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story