صد ہزار لعنت
شوکت خانم کینسراسپتال کی مثال بھی ایسی ہی ہےکہ عمران خان کی والدہ اس موذی مرض کاشکار ہوئیںتویہ اسپتال معرض وجودمیںآیا
آج سے 87 سال قبل غیرمنقسم ہندوستان کے شہر گجرات کے قصبے بنتوا کے ایک غریب گھرانے میں ایک لاغر سا بچہ پیدا ہوا۔ ابھی وہ گیارہ کا تھا کہ اس کی والدہ کو فالج ہوگیا۔ اس بچے نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا ذمہ خود پر لے لیا۔ وہ اسے دھلاتا، کپڑے پہناتا، کھانا اور دوا کھلاتا، ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھا کر بٹھاتا، لٹاتا غرضیکہ پوری نرسنگ کرتا۔ بیمار اور غرض مند کی خدمت گویا اس کی گھٹی میں پڑی تھی۔
مالی تنگی کے باعث وہ گلی محلے میں بطور سیلز مین عام اشیاء از قسم ماچس اور پنسلیں فروخت کرتا۔ ان ھی وجوہات کی بنا پر اس کی تعلیم بھی ادھوری رہ گئی لیکن ضرورت مندوں، بیماروں، آفت زدگان، بے سہاروں، یتیموں، لاچاروں، مظلوموں، بے گھروں اور ایسے ہی مصیبت زدوں کی مدد اس شخص کی زندگی کا مقصد بن گیا۔ خود اس شخص کے پاس دو کمروں کا مکان، دو جوڑے لباس، روکھی سوکھی روٹی کا کھا لینا اور رات دن خدمت انسانی میں مشغول رہنا مقصد اول و آخر بن گیا۔
یہ ذکر ہورہا ہے اس عظیم سوشل ورکر کا جسے دنیا عبدالستار ایدھی کے نام سے جانتی ہے اور جس کے کارہائے نمایاں زبان زد عام ہیں۔ ایدھی صاحب کے لیے دنیا کا ہر خطہ جہاں ظلم زیادتی، تباہی، آفت، بیماری چاہے انسانی ہو یا قدرتی برابر اور فوری قابل مدد ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کوئی حکومتی مدد نہیں لیتی صرف عطیات پر کام کرتی ہے اور امیر لوگ ہی نہیں اس کے DONOR عام اور مالی طور پر کم حیثیت لوگ زیادہ ہیں۔ جب ایدھی صاحب کسی فلاحی کام کے لیے جھولی پھیلاتے ہیں تو لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر اور خواتین اپنے زیور اتار کر کار خیر میں حصہ لینے کے لیے دیوانہ وار آگے بڑھتے اور ان کی جھولی روپوں اور زیورات سے بھر دیتے ہیں۔
شوکت خانم کینسر اسپتال کی مثال بھی ایسی ہی ہے کہ عمران خان کی والدہ اس موذی مرض کا شکار ہوئیں تو یہ اسپتال معرض وجود میں آیا۔ جہاں تک ایدھی صاحب کا تعلق ہے اپنی والدہ کی بیماری کے دوران گیارہ سال کی عمر ہی سے خدمت کی ابتدا کے ساتھ ان میں وہ جذبات پیدا ہوگئے تھے جن کے پیش نظر 1951ء میں ایدھی فاؤنڈیشن بھی معرض وجود میں آئی اگرچہ خدمت خلق کا کام شروع ہوئے عرصہ بیت چکا تھا لیکن کسی کاغذی کارروائی اور باقاعدہ تنظیم کے بغیر۔
بلقیس ایدھی جو ان کی جدوجہد میں دست راست ہیں ان ھی کی ایک ڈسپنسری میں بطور نرس کام کرتی تھیں۔ 1966ء میں ایدھی صاحب نے بلقیس کی اپنے کام میں لگن دیکھ کر اس سے شادی کرلی اور اب گاڑی کے دو پہیے ہیں جس کا نام ایدھی فاؤنڈیشن ہے۔ ان کا ویلفیئر سینٹر پہلے ایدھی ٹرسٹ میں تبدیل ہوا جو صرف ایک شخص کی کاوش تھا پھر کام بڑھتا گیا اور اس وقت ملک کے شہروں، گاؤں، قصبوں میں تین سو امدادی سینٹر ہیں۔ صرف کراچی میں فاؤنڈیشن کے آٹھ اسپتال ہیں۔ ان کے علاوہ میڈیکل کیئر، آنکھوں کا اسپتال، شوگر سینٹر، سرجیکل یونٹ، چار بستروں کا کینسر اسپتال اور موبائل ڈسپنسریاں ہیں، دو بلڈ بینک ہیں بلکہ ایک لیگل ایڈ ڈیپارٹمنٹ بھی ہے۔
فاؤنڈیشن نے اب تک بیس ہزار لاوارث بچوں کو گھروں میں پہنچایا یا گود دیا۔ چالیس ہزار خواتین اور مردوں کو نرسنگ کی ٹریننگ دی، پچاس ہزار یتیم بچوں کو سہارا دیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس 3500 تنخواہ دار ملازم اور ہزاروں والنٹیئر ہیں جو بوقت ضرورت اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔
عبدالستار ایدھی کے جذبے، ہمت اور ان کی اعلیٰ انسانی صفات کی داستان کی کہانی تو ہم آپ نے سنی اور ان کی انسان سے محبت اور خدمت کے واقعات جو ہر بچے بوڑھے کے علم میں ہیں ان کا مشاہدہ بھی کیا لیکن جو انسانیت کا غلیظ چہرہ اخبار اور TV کے توسط سے ہماری نظروں سے گزرا اور ایدھی صاحب نے بچشم خود دیکھا اس کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ہر چہرہ کالک ملا ہوا نظر آرہا ہے۔ مجھے عظیم انسان کے پہلو میں کھڑے ذلیل انسان بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ انسان کی بلندی اور پستی ساتھ ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔
گزشتہ اتوار کی صبح اخباری رپورٹ کے مطابق آٹھ انسان نما درندے ایدھی صاحب کے گھر پہنچے اور انھیں اسلحہ دکھا کر سیف کی چابیاں طلب کیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ چابیاں بلقیس کے پاس ہیں اور وہ گھر سے باہر گئی ہے۔ اس پر انھوں نے الماریوں کے تالے توڑے اور ان میں سے پانچ کلو گولڈ اور تمام لوکل اور فارن کرنسی نوٹ لے گئے۔ اس میں فاؤنڈیشن کا اور لوگوں کا امانتاً رکھوایا ہوا مال بھی تھا۔ آٹھ دن ہوگئے کسی بھی لیول کے حکمران کو توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے چہرے پر ملی گئی کالک کو دھونے کا جتن کرکے اس اندھیر نگری کے بے حد سنجیدہ معاملے پر اپنے اپنے مسخرہ پن کو ذرا بالائے طاق رکھ کر اپنی نہیں تو ملک کی ساکھ کا خیال کرے اور ننگ انسانیت ڈکیتوں کو کھوج کر انھیں نشان عبرت بنانے کا بیان ہی دے دے۔
جس دکھ اور اذیت میں اس وقت ایدھی صاحب مبتلا ہوں گے، کیا صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور انسپکٹر جنرل پولیس کو اس کا احساس ہے؟ ہر روز کی وارداتوں کی خبریں پڑھ پڑھ کر قارئین تنگ آچکے لیکن مجرموں کو سزائیں ہوتی اور ان پر عملدرآمد ہوتا سننے کے خواہش مندوں کو مایوسی ہی ہوتی ہے۔ چلیے چہرے کی کالک دھونے کے لیے حکمران ایدھی صاحب کے مجرموں کو کراچی ہی کے کسی چوک میں لٹکا کر جرم کے بعد سزا کی ابتدا کرکے اپنی ساکھ بچالیں۔
19 اکتوبر 2014ء کی صبح کو یاد کریں جب ایدھی صاحب کے فلاحی ادارے پر ڈکیتی کی واردات ہوئی تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں اور ہم ذلت کے دریا میں ڈوب جاتے ہیں لیکن ہمیں ملک ریاض کے طریقہ ہائے کاروبار سے کتنا ہی اختلاف ہو جب اسے ہفتہ گزرنے سے بھی پہلے ایدھی صاحب کو چھ کروڑ روپے کا چیک پیش کرتے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ملک صاحب نے ہمارے معاشرے پر لگے بہت سے داغ دھو ڈالے ہیں لیکن یہ کافی نہیں جہاں ڈکیتوں پر صد ہزار لعنت بھیجنے کی تحریک ہوتی ہے وہیں حکومت وقت کو یاد دلانا پڑتا ہے خدارا اس ملک پر اور عوام پر رحم کریں، خود کچھ کرنے کے قابل نہیں تو راستہ چھوڑ دیں۔
مالی تنگی کے باعث وہ گلی محلے میں بطور سیلز مین عام اشیاء از قسم ماچس اور پنسلیں فروخت کرتا۔ ان ھی وجوہات کی بنا پر اس کی تعلیم بھی ادھوری رہ گئی لیکن ضرورت مندوں، بیماروں، آفت زدگان، بے سہاروں، یتیموں، لاچاروں، مظلوموں، بے گھروں اور ایسے ہی مصیبت زدوں کی مدد اس شخص کی زندگی کا مقصد بن گیا۔ خود اس شخص کے پاس دو کمروں کا مکان، دو جوڑے لباس، روکھی سوکھی روٹی کا کھا لینا اور رات دن خدمت انسانی میں مشغول رہنا مقصد اول و آخر بن گیا۔
یہ ذکر ہورہا ہے اس عظیم سوشل ورکر کا جسے دنیا عبدالستار ایدھی کے نام سے جانتی ہے اور جس کے کارہائے نمایاں زبان زد عام ہیں۔ ایدھی صاحب کے لیے دنیا کا ہر خطہ جہاں ظلم زیادتی، تباہی، آفت، بیماری چاہے انسانی ہو یا قدرتی برابر اور فوری قابل مدد ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کوئی حکومتی مدد نہیں لیتی صرف عطیات پر کام کرتی ہے اور امیر لوگ ہی نہیں اس کے DONOR عام اور مالی طور پر کم حیثیت لوگ زیادہ ہیں۔ جب ایدھی صاحب کسی فلاحی کام کے لیے جھولی پھیلاتے ہیں تو لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر اور خواتین اپنے زیور اتار کر کار خیر میں حصہ لینے کے لیے دیوانہ وار آگے بڑھتے اور ان کی جھولی روپوں اور زیورات سے بھر دیتے ہیں۔
شوکت خانم کینسر اسپتال کی مثال بھی ایسی ہی ہے کہ عمران خان کی والدہ اس موذی مرض کا شکار ہوئیں تو یہ اسپتال معرض وجود میں آیا۔ جہاں تک ایدھی صاحب کا تعلق ہے اپنی والدہ کی بیماری کے دوران گیارہ سال کی عمر ہی سے خدمت کی ابتدا کے ساتھ ان میں وہ جذبات پیدا ہوگئے تھے جن کے پیش نظر 1951ء میں ایدھی فاؤنڈیشن بھی معرض وجود میں آئی اگرچہ خدمت خلق کا کام شروع ہوئے عرصہ بیت چکا تھا لیکن کسی کاغذی کارروائی اور باقاعدہ تنظیم کے بغیر۔
بلقیس ایدھی جو ان کی جدوجہد میں دست راست ہیں ان ھی کی ایک ڈسپنسری میں بطور نرس کام کرتی تھیں۔ 1966ء میں ایدھی صاحب نے بلقیس کی اپنے کام میں لگن دیکھ کر اس سے شادی کرلی اور اب گاڑی کے دو پہیے ہیں جس کا نام ایدھی فاؤنڈیشن ہے۔ ان کا ویلفیئر سینٹر پہلے ایدھی ٹرسٹ میں تبدیل ہوا جو صرف ایک شخص کی کاوش تھا پھر کام بڑھتا گیا اور اس وقت ملک کے شہروں، گاؤں، قصبوں میں تین سو امدادی سینٹر ہیں۔ صرف کراچی میں فاؤنڈیشن کے آٹھ اسپتال ہیں۔ ان کے علاوہ میڈیکل کیئر، آنکھوں کا اسپتال، شوگر سینٹر، سرجیکل یونٹ، چار بستروں کا کینسر اسپتال اور موبائل ڈسپنسریاں ہیں، دو بلڈ بینک ہیں بلکہ ایک لیگل ایڈ ڈیپارٹمنٹ بھی ہے۔
فاؤنڈیشن نے اب تک بیس ہزار لاوارث بچوں کو گھروں میں پہنچایا یا گود دیا۔ چالیس ہزار خواتین اور مردوں کو نرسنگ کی ٹریننگ دی، پچاس ہزار یتیم بچوں کو سہارا دیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس 3500 تنخواہ دار ملازم اور ہزاروں والنٹیئر ہیں جو بوقت ضرورت اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔
عبدالستار ایدھی کے جذبے، ہمت اور ان کی اعلیٰ انسانی صفات کی داستان کی کہانی تو ہم آپ نے سنی اور ان کی انسان سے محبت اور خدمت کے واقعات جو ہر بچے بوڑھے کے علم میں ہیں ان کا مشاہدہ بھی کیا لیکن جو انسانیت کا غلیظ چہرہ اخبار اور TV کے توسط سے ہماری نظروں سے گزرا اور ایدھی صاحب نے بچشم خود دیکھا اس کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ہر چہرہ کالک ملا ہوا نظر آرہا ہے۔ مجھے عظیم انسان کے پہلو میں کھڑے ذلیل انسان بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ انسان کی بلندی اور پستی ساتھ ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔
گزشتہ اتوار کی صبح اخباری رپورٹ کے مطابق آٹھ انسان نما درندے ایدھی صاحب کے گھر پہنچے اور انھیں اسلحہ دکھا کر سیف کی چابیاں طلب کیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ چابیاں بلقیس کے پاس ہیں اور وہ گھر سے باہر گئی ہے۔ اس پر انھوں نے الماریوں کے تالے توڑے اور ان میں سے پانچ کلو گولڈ اور تمام لوکل اور فارن کرنسی نوٹ لے گئے۔ اس میں فاؤنڈیشن کا اور لوگوں کا امانتاً رکھوایا ہوا مال بھی تھا۔ آٹھ دن ہوگئے کسی بھی لیول کے حکمران کو توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے چہرے پر ملی گئی کالک کو دھونے کا جتن کرکے اس اندھیر نگری کے بے حد سنجیدہ معاملے پر اپنے اپنے مسخرہ پن کو ذرا بالائے طاق رکھ کر اپنی نہیں تو ملک کی ساکھ کا خیال کرے اور ننگ انسانیت ڈکیتوں کو کھوج کر انھیں نشان عبرت بنانے کا بیان ہی دے دے۔
جس دکھ اور اذیت میں اس وقت ایدھی صاحب مبتلا ہوں گے، کیا صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور انسپکٹر جنرل پولیس کو اس کا احساس ہے؟ ہر روز کی وارداتوں کی خبریں پڑھ پڑھ کر قارئین تنگ آچکے لیکن مجرموں کو سزائیں ہوتی اور ان پر عملدرآمد ہوتا سننے کے خواہش مندوں کو مایوسی ہی ہوتی ہے۔ چلیے چہرے کی کالک دھونے کے لیے حکمران ایدھی صاحب کے مجرموں کو کراچی ہی کے کسی چوک میں لٹکا کر جرم کے بعد سزا کی ابتدا کرکے اپنی ساکھ بچالیں۔
19 اکتوبر 2014ء کی صبح کو یاد کریں جب ایدھی صاحب کے فلاحی ادارے پر ڈکیتی کی واردات ہوئی تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں اور ہم ذلت کے دریا میں ڈوب جاتے ہیں لیکن ہمیں ملک ریاض کے طریقہ ہائے کاروبار سے کتنا ہی اختلاف ہو جب اسے ہفتہ گزرنے سے بھی پہلے ایدھی صاحب کو چھ کروڑ روپے کا چیک پیش کرتے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے ملک صاحب نے ہمارے معاشرے پر لگے بہت سے داغ دھو ڈالے ہیں لیکن یہ کافی نہیں جہاں ڈکیتوں پر صد ہزار لعنت بھیجنے کی تحریک ہوتی ہے وہیں حکومت وقت کو یاد دلانا پڑتا ہے خدارا اس ملک پر اور عوام پر رحم کریں، خود کچھ کرنے کے قابل نہیں تو راستہ چھوڑ دیں۔