داعش کی حقیقت کیا ہے حصہ اول
داعش کا اصلی مقصد اسلام کے چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔
KARACHI:
حال ہی میں ایک ISISنامی ایک تنظیم یعنی ''داعش'' کا نام سننے میں آیا ہے اور داعش کے معنی الفاظ کے اعتبار سے ''دولت اسلامیہ عراق و شام'' کے ہیں، یعنی اس گروہ کی ابتداء شام میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد ہوئی کہ جہاں اس گروہ نے اپنے غیر ملکی آقاؤں امریکا اور اسرائیل کی ایماء پر بھرپور خدمات انجام دیں لیکن امریکی مدد اور اسرائیلی حمایت ہونے کے باوجود بھی یہ گروہ شام میں موجود شامی حکومت کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہا اس ناکامی کا انتقام لینے کا فیصلہ انھوں نے عراق میں خون خرابہ کرنے کے اعلان سے لیا اور پھر بالآخر عراق کے شمال میں جا پہنچے اور 12جون2014 کو ایک ہولناک خون کی ہولی کھیلی گئی جس میں سیکڑوں عراقی شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔اس دن سے اس دہشت گرد گروہ کا نام لوگوں کی زبانوں پر آنا شروع ہو گیا ہے، مختصراً یہ کہ اس گروہ کے لوگ پہلے القاعدہ میں شامل تھے ، لیکن پھر اندرونی اختلافات کے بعد القاعدہ سے جدا ہوئے، شام میں جاری محاذ پر انھوں نے ایک اور تنظیم کی بنیاد رکھی جسے ''النصرۃ فرنٹ'' کانام دیا گیا اور پھر بعد میں اس گروہ سے خود کو جدا کر کے ایک اور گروہ داعش نام رکھ لیا گیا۔
اگرچہ داعش یا امارت اسلامی ظاہری طور پر اسلامی احکام کے اجرا پر تاکید کرتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کے افکار و نظریات مکمل طور پر اسلام مخالف ہیں۔ شریعت کے نفاذ کا نعرہ اس لیے لگا رہے ہیں تاکہ دنیا والوں پر یہ ظاہر کریں کہ وہ ایک اسلامی گروہ ہیں۔ اس کا مقصد ایک طرف اسلام کے چہرے کو بدنام کرنا ہے اور دوسری طرف عالم اسلام میں مذہبی اور فرقہ وارانہ جنگ کی آگ بھڑکانا ہے۔
داعش کا اصلی مقصد اسلام کے چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ ان کی جانب سے انتہائی درجے کی بے رحمی اور قساوت قلبی کے ساتھ بیگناہ انسانوں کا قتل عام کیا جانا، مذہبی اور مقدس مقامات اور انبیائے الٰہی اور اولیائے خدا کے مزارات مقدسہ کی تخریب اور اسی طرح کے دوسرے جرائم کا ارتکاب محض اس لیے انجام پا رہے ہیں کہ دنیا والوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ جب مسلمان خود ہی اپنے مسلمان بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہیں تو اسرائیل کو فلسطینی مسلمانوں کے قتل عام پر برا بھلا کیوں کہیں؟
تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اپنے جرائم، شدت پسندی اور غیر انسانی اقدامات کی باقاعدہ طور پر سوشل نیٹ ورک پر تشہیر کرتا ہے۔ مساجد، مقدس مقامات، انبیائے الٰہی اور اولیائے خدا کے مزارات کو تخریب کرنے کے بعد ان کی ویڈیو بنا کر فیس بک اور دوسری ویب سائٹوں پر شائع کی جاتی ہے۔ آپ کے خیال میں اس کا کیا اثر پڑے گا؟ آیا کل جب اسرائیل کی غاصب صہیونی ستی رژیم قبلہ اول مسجد اقصٰی کو شہید کرے گی تو عوام یہی نہیں کہیں گے کہ کوئی بڑا مسئلہ رونما نہیں ہوا، خود مسلمان بھی تو اب تک مساجد اور انبیاء کے مزاروں کو نابود کرتے آئے ہیں؟ لوگ اسرائیل کی جانب سے انجام پانے والی شدت پسندی اور غیر انسانی اقدامات کو بھول جائیں گے۔
تکفیری دہشت گرد گروہ ''داعش'' خطے میں پائے جانے والے ممالک کی جغرافیائی حدود کو تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اس نے فرقہ وارانہ تعصب اور مذہبی جنگ کی آگ بھڑکانے کا ہتھکنڈہ استعمال کیا ہے۔ خطے میں قائم حکومتوں کو علوی، سنی اور دروزی حکومتوں میں تقسیم کیے جانے کا مقصد یہودی حکومت کے قیام جسے ''گریٹر اسرائیل'' کہا جاتا ہے کا جواز فراہم کرنا ہے۔ داعش خطے میں قومی اور مذہبی جنگ ایجاد کرنا چاہتی ہے اور اسے شیعہ سنی جنگ کا رنگ دینا چاہتی ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ عالم اسلام میں مسئلہ فلسطین کو بھلا دیا جائے گا یا کم از کم مسلمانوں کی پہلی ترجیحات سے نکل جائے گا اور مسلمان ممالک دوسرے مسائل میں الجھ کر رہ جائیں گے۔
خطے میں انجام پانے والے اکثر دہشت گردانہ حملوں میں داعش کے کردار کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر لبنان میں ایرانی سفارتخانے پر خودکش بم حملے میں داعش نے ایک فلسطینی خودکش بمبار کو استعمال کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد بھی شیعہ سنی جنگ کی آگ بھڑکانا تھا۔ ایسے اقدامات کا مقصد عالم اسلام میں انارکی پیدا کرنا ہے۔ جب داعش کے دہشت گرد فلسطینی پرچم کی توہین کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس پرچم کو داعش کے پرچم سے تبدیل کر دینا چاہیے، تو اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ وہی مقصد ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔
یعنی فلسطین کو بھلا دیا جائے، مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال دیا جائے اور حتٰی کہ فلسطینی پرچم کا وجود بھی ختم کر دیا جائے۔ داعش کے دہشت گردوں نے مرتدین اور منافقین کے خلاف جنگ کا نعرہ لگا رکھا ہے جب کہ وہ اسرائیلی صیہونیوں کو اہل کتاب قرار دیتے ہیں اور ان کے خلاف جہاد نہیں کرتے۔ اسرائیل کے غاصب صہیونی جو اس وقت غزہ کے معصوم اور بیگناہ فلسطینی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اور ان کے گھروں کو مسمار کر رہے ہیں، کا مقابلہ نہیں کرتے۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل شام اور عراق میں زخمی ہونے والے دہشت گردوں کو اپنے ملک میں لے جا کر ان کا مفت علاج کرتا ہے جب کہ فلسطینی بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے خون کا پیاسا ہے۔ ان حقائق سے کیا معلوم ہوتا ہے؟ ذرہ بھر شک باقی نہیں رہ جاتا ہے، دہشت گرد گروہ داعش سو فیصد اسرائیل کی ایجاد اور پیداوار ہے۔
خود بہت سے عرب ممالک اس وقت اسلامی بیداری کی تحریک کے نتیجے میں سیاسی بحران کا شکار ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اسلامی بیداری کی امواج ان تک نہ پہنچ پائیں، تاکہ ان کا اقتدار محفوظ رہ سکے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خطے میں دہشت گرد گروہ داعش کے حامی ممالک کو عقل مندی کا ثبوت دینا چاہیے اور اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہی دہشت گرد گروہ کل ان کے گلے بھی پڑ سکتا ہے اور دہشت گردی کی وہ آگ جسے وہ آج خطے میں بھڑکا رہے ہیں، کل ان کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اسلام دشمن عناصر جو اب تک مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں ناکام رہے ہیں اب تکفیری اور بہائی شدت پسند گروہوں کی تشکیل کے ذریعے اپنے منحوس اہداف حاصل کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ وہ خطے میں مذہبی تعصب اور جنگ پھیلا کرمسلم قوتوں کو کمزور اور گوشہ نشینی کا شکار کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح خطے میں جنم لینے والی اسلامی بیداری کی تحریک کو دبا دینا چاہتے ہیں۔
داعش کی تشکیل کے بعد اس کی جانب سے اسلام کے نام پر عراق اور شام میں انجام پانے والے غیر انسانی اقدامات اور دہشت گردانہ اقدامات کا اصل مقصد ہی اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرے کو بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ داعش کی جانب سے نہتے عوام کے خلاف بہیمانہ ظلم و ستم انجام پانے کا بڑا مقصد اسرائیل کے چہرے کو سفید کرنا ہے اور عالمی سطح پر اس کے چہرے پر لگے ظلم و بربریت کے لیبل کو ہٹانا ہے۔
صہیونیوں نے اپنی تاریخ کے دوران دوسری قوموں جیسے مسلمان، عیسائی اور حتیٰ کسی مذہب سے تعلق نہ رکھنے والے افراد کے خلاف انتہائی ناروا سلوک روا رکھا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ان کے خلاف انتہائی منفی رائے عامہ پائی جاتی ہے۔ داعش کی تشکیل اس منحوس اسرائیلی منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ایک طرف اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا اور دوسری طرف خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی قوتوں کو کمزور کرنا ہے۔ البتہ حال ہی میں اسرائیل کی غاصب صیہونی ریاست کی جانب سے غزہ میں مظلوم اور بیگناہ فلسطینی عوام کے خون کی ہولی کھیلنے سے اس کی یہ منحوس سازش بری طرح ناکام ہوچکی ہے اور دنیا والوں نے ایک بار پھر صہیونیزم کا وحشیانہ اور خوفناک چہرہ دیکھ لیا ہے۔
مسلم ممالک کے درمیان موجود اختلافات داعش کی جانب سے شام اور عراق پر حملہ آور ہونے کا سبب بنے ہیں۔ لہذا ناپاک صہیونی سازشوں کا مقابلہ کرنے کا بہترین راستہ آپس میں اتحاد اور وحدت کو فروغ دینا ہے۔ مسلمانان عالم کو ہوشیار ہوجانا چاہیے اور انھیں چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کو بظاہر اسلامی لیکن حقیقت میں دہشت گرد گروہوں کے دام میں پھنسنے سے بچائیں۔ اسلام اور عالم اسلام کو جو نقصان ان دہشت گردوں نے پہنچایا ہے، وہ پوری تاریخ میں اسلام دشمن عناصر نے نہیں پہنچایا۔
ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم ممالک کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ عالم اسلام میں مشترکہ ادارے تشکیل دیتے ہوئے صہیونی مغربی بلاک کی جانب سے بولے جانے والے اس عظیم جھوٹ کو برملا کریں اور اپنے اتحاد کے ذریعے اسلام کے حقیقی چہرے کو خدشہ دار ہونے سے بچا لیں۔