پولیو زدہ جمہوریت

بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت اور بہترین ڈکٹیٹر شپ سے لولی لنگڑی جمہوریت بہتر ہوتی ہے۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

موجودہ اشرافیائی جمہوریت کی حمایت کرنے والوں میں دو قسم کے لوگ ہیں، ایک وہ جو اس بات پر خلوص نیت سے یقین رکھتے ہیں کہ اگر یہ جمہوریت تسلسل سے چلتی رہی تو ایک نہ ایک دن یہ جعلی جمہوریت اصل میں بدل جائے گی۔ اس جمہوریت کی حمایت کرنے والوں کی دوسری قسم وہ ہے جو اس جمہوریت کے ثمرات سے اپنی جھولیاں بھر رہی ہے۔ انھیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ 67 سال کے دوران یہ جمہوریت عوام کو کچھ نہ دے سکی۔

دونوں ہی قسم کے جمہوریت نواز یہ فرماتے ہیں کہ '' بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت اور بہترین ڈکٹیٹر شپ سے لولی لنگڑی جمہوریت بہتر ہوتی ہے۔'' اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ سیاسی ارتقا کی تاریخ میں جمہوریت حرف آخر ہے۔ کوئی بھی باشعور شخص کسی ایسے نظام کی مخالفت نہیں کرسکتا جو عوامی مفادات سے ہم آہنگ ہوتا ہو۔ ہمارے دونوں قسم کے جمہوری دوست اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جو جمہوریت ہمارے ملک میں 67 سال سے جاری و ساری ہے وہ اب تک ڈلیور نہیں کرسکی یعنی یہ جمہوریت اب تک عوام کو کچھ نہ دے سکی عوام کے مسائل تو حل نہ کرسکی البتہ ان میں اضافہ ضرور کرتی رہی۔

جب اس جمہوریت کے حامی اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ ہماری جمہوریت ڈلیور نہیں کرسکی، تو دو سوال فطری طور پر ذہن میں آتے ہیں کہ ہماری جمہوریت کیوں ڈلیور نہیں کر پارہی ہے؟ دوسرا سوال ذہن میں یہ آتا ہے کہ اسے ڈلیور کرنے میں کتنا عرصہ درکار ہوگا؟ ان دونوں سوالوں کے جواب ہمارے دونوں قسم کے دوستوں کے اس اعتراف میں موجود ہے کہ ہماری جمہوریت اشرافیائی جمہوریت ہے اور اشرافیائی جمہوریت عوام کے لیے بانجھ ہوتی ہے، اس کی حیثیت اس برائیلر مرغی کی ہوتی ہے جو انڈے نہیں دے سکتی صرف گوشت دے سکتی ہے اور پیاز سے اور چائے سے روٹی کھانے والے برائیلر مرغی کے گوشت سے محروم رہتے ہیں، بہت ہمت کی تو عید بقر عید پر مرغی کھا لیتے ہیں ورنہ ان کا گزارا دال روٹی، پیاز روٹی، چائے روٹی ہی پر ہوتا ہے اور یہ صورت حال 67 سال سے جاری ہے، جب سے اس ملک میں جمہوریت کا ظہور ہوا ہے غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر ہو رہا ہے۔

اس حوالے سے ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا کی تاریخ میں جو بھی استحصالی معاشی نظام روشناس ہوا اس نے اپنے استحصالی بدنما چہرے پر کوئی نہ کوئی خوبصورت نقاب ڈالنے کی کوشش کی۔ بھاپ کی دریافت کے ساتھ جو سرمایہ دارانہ نظام بتدریج متعارف ہوا اس کے منصوبہ سازوں نے اس بدترین استحصال کو چھپانے کے لیے اپنے گھناؤنے چہرے پر جمہوریت کی نقاب چڑھالی اور جمہوریت کو انسانی زندگی کی ناگزیریت قرار دینے کے ساتھ اسے سیاسی ارتقا کی تاریخ کا حرف آخر قرار دے دیا۔ جمہوری نظام کو چلانے کے لیے ایک انتہائی درشت اور جانبدار ادارہ تشکیل دیا جسے ریاست کا نام دیا گیا۔

اس ریاست کو چلانے کے لیے ایک ریاستی مشنری تشکیل دی جس میں انتظامیہ، عدلیہ سمیت بے شمار ادارے تخلیق کیے گئے اور کہا یہی گیا کہ یہ تمام ادارے عوام کو سہولت اور انصاف فراہم کرنے عوام کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے بنائے گئے ہیں، لیکن ان تمام اداروں کو ایسی دکانوں میں بدل دیا گیا، ایسی سپر مارکیٹوں میں بدل دیا گیا جہاں اشیائے ضرورت سے لے کر اشیائے تعیش تک قانون سے لے کر انصاف تک ہر چیز حسب ضرورت موجود ہوتی ہے، بس خریداری کے لیے جیب میں کرنسی ہو۔ اس بازار مصر پر جمہوریت کا خوبصورت لیبل لگادیا گیا۔

المیہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے جس جمہوریت کو متعارف کرایا اس سے ہماری جمہوریت کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ یہ اشرافیائی جمہوریت ہے، یعنی اس طبقے کی جمہوریت ہے جس کا واحد کام عوام کو لوٹنا ہے۔ مغرب میں اگرچہ اشرافیائی جمہوریت نہیں ہے اور عوام کے نمائندے برسر اقتدار رہتے ہیں لیکن یہاں بھی سرمایہ دارانہ نظام اس قدر مستحکم ہے کہ جمہوریت کے ثمرات اوپر ہی اوپر اچک لیے جاتے ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بل گیٹس جیسے ارب پتی قومی دولت کے بڑے حصے پر قابض ہیں اور ان کا قبضہ ہر آنے والے دن میں مضبوط تر ہو رہا ہے اور ان کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے، اس ترقی یافتہ جمہوریت نے دو ڈھائی سو سال میں عوام کو صرف بنیادی ضروریات دی ہیں اور قسطوں کی خوش حالی یا سہولت فراہم کی ہے۔


مغربی جمہوریت نے عوام کو جو سہولتیں فراہم کی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی جمہوریت میں قانون ساز اداروں تک عوام کی رسائی کو ممکن بنایا گیا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی کسی نہ کسی طرح قانون ساز اداروں میں عوام کے نمائندے پہنچ رہے ہیں، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے قانون ساز اداروں کے تمام دروازے عوام کے لیے بند کردیے گئے ہیں، انتخابی نظام کے ذریعے موروثی قیادت کے ذریعے، جانبدار الیکشن کمیشن کے ذریعے، جاگیردارانہ نظام کے ذریعے، بلدیاتی نظام کے خاتمے کے ذریعے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نچلی سطح سے اوپر آنے اور قانون ساز اداروں میں عوام کے پہنچنے کے جب تمام دروازے اس اشرافیائی جمہوریت نے بند کر رکھے ہیں تو پھر اس کے تسلسل سے اشرافیہ تو قانون ساز اداروں میں مضبوط ہوسکتی ہے اور ہو رہی ہے۔

اس تسلسل سے لولی لنگڑی جمہوریت کو ہاتھ پاؤں کہاں سے مل سکتے ہیں؟ اس عوام کے لیے بانجھ جمہوریت میں عوامی جمہوریت کے تولد کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟ 67 سال گزر چکے ہیں، اگر قانون ساز اداروں میں عوام کے پہنچنے کے دروازے نہ کھولے گئے تو 67 صدیوں تک بھی یہ جمہوریت ڈلیور نہیں کرسکتی کیونکہ اس جمہوریت کو برائیلر مرغی بنادیا گیا ہے اور ہمارے قانون ساز ادارے اس جمہوریت کے پولٹری فارم بن گئے ہیں۔مجھے حیرت ہے کہ اس جمہوریت کے پرستار اور اس سے بہتری کی امیدیں رکھنے والے ان رکاوٹوں کا ذکر تک نہیں کرتے جو عوام اور جمہوریت کے راستوں میں 67 سال سے کھڑی ہوئی ہیں۔

آج عمران خان اور قادری کے گرد لاکھوں عوام دیوانوں کی طرح کیوں جمع ہورہے ہیں، صرف اور صرف اس لیے کہ یہ دونوں رہنما ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی بات کر رہے ہیں جو جمہوریت اور قانون ساز اداروں میں عوام کی رسائی کی راہ میں آہنی دیوار کی طرح کھڑی کردی گئی ہیں۔ افسوس بلکہ المیہ یہ ہے کہ ان اشرافیائی رکاوٹوں کو دور کرنے کے مطالبے کرنے والوں کو ہماری قلمی اور دانشورانہ ایلیٹ سپورٹ کرنے ان کی ہمت بڑھانے کے بجائے انھیں انتشار پسند اور انارکسسٹ کہہ رہی ہے۔

اشرافیہ ان انتشار پسندوں کی انتشار پسندی کے خطرناک مضمرات سے پوری طرح واقف ہے اور یہ جانتی ہے کہ اگر یہ انتشار پسند اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سیاست قیادت اور اقتدار پر سے ان کی 67 سالہ اجارہ داری ختم ہوجاتی ہے۔ اسی خوف نے اشرافیہ اور ان کے پروردہ عناصر کو ایک مرکز پر جمع کردیا ہے اور وہ جمہوریت کو بچانے کے پرفریب نعرے کے ساتھ ان انتشار پسندوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر سطح پر کوشش کر رہے ہیں اور وقتی طور پر کامیاب ہوتے بھی نظر آرہے ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ اہل قلم اہل دانش کا وہ گروہ ہے جو بھاری معاوضے کے عوض ''انتشار پسندوں'' کی مخالفت کر رہے ہیں، ان سے شکوہ اس لیے بیکار ہے کہ یہ مال ہر دور میں بکاؤ رہا ہے، البتہ وہ ناسمجھ دوست ایسی غلطی کر رہے ہیں جس کا ازالہ آسان نہیں۔ 67 سالہ لٹیری اشرافیہ کے خلاف پہلی بار لاکھوں عوام سڑکوں پر آرہے ہیں۔ اگر ان کی حوصلہ افزائی نہ کی گئی تو عوام میں ایک ایسی مایوسی پیدا ہوجائے گی جسے دور کرنے کے لیے شاید بہت بڑا انتظار کرنا پڑے۔

یہ جمہوریت لولی لنگڑی نہیں بلکہ اشرافیائی پولیو زدہ ہے، اگر اسے چلنے پھرنے کے قابل بنانا ہے تو اس کے پاؤں سے اشرافیہ کو کاٹ کر الگ کرنا پڑے گا ورنہ یہ کبھی چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوسکے گی، ویسے بھی قانون ارتقا کے مطابق جمہوریت حرف آخر نہیں اس سے بہتر نظام آسکتا ہے اور آئے گا یہی ہمارا یقین محکم ہے یہی ارتقا کا اصول ہے۔
Load Next Story