اُردو ادب میں نظریہ سازی کا فقدان… آخری حصہ
ہمارے ادیب و نقاد یہ حقیقت نہیں جانتے کہ مغرب کا ادب ،تنقید، فلسفہ حتی کہ عمارتیں تک دینیات پر مشتمل ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ بانو قدسیہ کے اس دعویٰ پر تحقیق ہونی چاہیے تھی۔ اگرچہ یہ خیال مذہبی عقیدے کی آغوش سے جنم لے رہا ہے، مگر بہت سے ایسے عقائد ہیں جن کی سائنس نے یا تو تصدیق کی ہے یا تردید کی ہے۔ اس خیال یا دعویٰ کی بھی سائنٹفک بنیادوں پر اگر تصدیق یا تردید کے لیے کوئی اسٹڈی کرائی جاتی تو آج ہمارے ادب میں کچھ نہ کچھ کام خالصتاَ ہمارے اردو ادب کے حوالے سے مباحث کی صورت آگے ضرور بڑھا ہوتا، مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں مذہبی خیال سمجھ کر حقارت سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اس کی ایک وجہ بانو قدسیہ کا خاتون ہونا بھی شاید ہے کیونکہ ہمارے پدر سری معاشرے میں خواتین تنقید نگار نہ ہونے کی وجہ سے بھی خواتین کی تخلیقات نظر انداز ہوتی آئی ہیں۔ دوسری طرف ان لوگوں کی بھی اپنے ادب سے محبت میں کمی ایک وجہ ہے جو سرکاری اداروں میں تعینات تو ہیں مگر اس قسم کی تحقیقی سرگرمیاں انجام دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ایسے لوگ چاہتے تو اس پر ایک اسٹڈی کا انتظام کراسکتے تھے کہ دیوانگی کا شکار افراد کی ایک بڑی تعداد پر تحقیق کی جاتی ، ان کی زندگیوں خاندان اور رہن سہن کے حوالے سے سائنسی اور تحقیقی مقالے تیار کرائے جاتے اور ان افراد کے آباؤ اجداد کی سماجی زندگی اور تاریخ دیکھی جاتی۔ اس کے لیے معیاری اور مقداری دونوں سطح پر انٹرویو اور سرویز کیے جانے چاہیے تھے۔ مغرب کی جہاں اور باتوں میں نقل کی جاتی ہے ایسے کاموں میں بھی کی جاتی یعنی محنت کے کاموں میں تو آج اردو ادب کے دامن میں کچھ نہ کچھ اپنے نظریات یا تنقیدی تصور کے پھول کھلے ہوتے۔ گزشتہ دنوں ایک فورم پر جب میں نے یہی بات کی تو کچھ لوگ کہنے لگے کہ ادب اور دینیات میں فرق ہے، بانو قدسیہ کا ناول ان کے نزدیک دینیات ہے، مگر مغرب کی مثالیں دیتے اور ان کی کاپی کرتے نہ تھکنے والے ہمارے ادیب و نقاد یہ حقیقت نہیں جانتے کہ مغرب کا ادب ،تنقید، فلسفہ حتی کہ عمارتیں تک دینیات پر مشتمل ہیں۔
جہاں الحادی نظریات کو تقویت دینے کی مغرب میں کوششیں ہوئی ہیں وہاں اس سے بھی زیادہ مضبوطی سے انھوں نے اپنے مذہب کو جدید رنگ میں اس طور ڈھالا ہے کہ ان کے رہن سہن، فیشن انڈسٹری، عمارتیں ، سیرگاہیں، فلسفے، ادبی وتنقیدی تھیوریاں ہوں یا معاشی و سیاسی خیالات سب کی بنیاد میں مذہب رواں دواں ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کو بھی آپ نے اگر رد کرنا ہے تو اس کے لیے کوئی دلیل لاؤ،ہمارے سماج کی بنیاد میں مذہب کا ایک اہم کردار ہے جب تک اس کی مذہبی بنیادوں کو از سرِ نو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ڈھالا جائے گا ہمارے سماج کی باقی صورتحال بھی نہیں بدلے گی ۔
بصورتِ دیگر مذہبی دعوے میں یا دلیل کے بنا کسی خیال کو رد کردینے کے عمل میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ جو خیال بانو قدسیہ اپنے ناول میں پیش کر رہی ہیں اس کو عملی سطح پر پرکھنا ضروری تھا خصوصاً تنقید نگاروں کو اس حوالے سے ایک مباحثہ آگئے بڑھانا چاہیے تھا، مگر ہمارے نقادوں نے اپنے ادب کو نظر انداز کیاہے اس حوالے سے جائزہ نہ لے کر، اس کی وجہ محنت سے جی چرانا بھی ہے اور شاید مستحکم نظریات کے خلاف عملی سطح پر کسی نظریے کی پرورش کی صورت عوامی و مذہبی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا خطرہ بھی تھا، دوسری طرف مغربی تھیوریوں کو بنیاد بنا کر تنقید کرنا اس لیے بھی آسان کام تھا اور ہے کہ مغرب والوں کی تنقیدی و ادبی تھیوریاں اور ان کا اپنے ادب پر اطلاق کا طریقہ بھی موجود و میسر ہے اور ان کو جس طرح سے مغرب نے اپنے سماج و ادب سے اخذ کیا اس کی تاریخ بھی موجود و میسر ہے جس سے ہمارے نقاد بلا دریغ فائدہ اُٹھاتے ہیں اور ان کا اطلاق ہمارے ادب پر کیا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ بھی ہمیں ہے کہ ہمارے شعور کی سطح بلند ہوتی ہے ہمیں سوچنے کے نئے نئے زاویے ملتے ہیں مگر یہ بھی دیکھا جاناچاہیے کہ ہمارے ادب کے اندر جو خیالات ہیں ان کا ہمارے سماج سے کیا تعلق بنتا ہے۔
اگرچہ اس میں ہمارے ادیب بھی اتنے ہی قصور وار ہیں جنھوں نے ایک ایسی سوچ کی پرورش نہیں کی جس کے نتیجے میں ہمارے لوگ باشعور ہوتے اور سماج میں کسی بڑی تبدیلی کا باعث ادب ہو سکتا تھا یا ادبی خیالات ہوسکتے، جب کہ ایسا ہونا بہت ممکن ہوتا ہے، کیونکہ سیاسی عمل کے نتیجے میں جو تبدیلی برسوں میں آتی ہے وہ کسی ادبی خیال یا آرٹ کے ذریعے دنوں میں آجاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ناولوں ، افسانوں، ڈراموں اور فلموں میں پیش کیے جانے والے کرداروں سے جلد متاثر ہوتے ہیں اور ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں خصوصاً نوجوان طبقہ، مگر ہمارا المیہ یہ رہا کہ ایک عرصہ تک ہمارے ادیب سوال کرتے رہے کہ ادب کا سماج سے کیا تعلق ہے؟ اور اپنے سوال کا جواب بھی خود کو نفی میں خود ہی دیتے آئے ہیں یہ کہ ادب تو آسمانی ہے، یہ نہیں سوچا کہ جب ادیب زمینی ہے تو ادب بھی زمینی ہے ، اس لیے اس کا تعلق زمین میں بسنے والوں سے براہِ راست ہے۔
اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے ادیب نے بھی اپنے سماج کی ترقی کا نہیں سوچا۔ ادب اور تنقید کا رشتہ جدلیاتی ہے، یہ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، بہت کم ادب پارے ایسے ہیں جنھوں نے کوئی خیال دیا ہو یا باقاعدہ کوئی فکر دی ہو۔ عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں بہت مقبول ہے مگر اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو وہ ایک اہم تاریخی دستاویز ہے جو اس وقت کے حالات کا بہت اچھا بیانیہ ہے، جوتاریخی حوالے سے قاری کو معلومات فراہم کرتا ہے مگر سوچ اور فکر کی کوئی نئی راہ نہیں دکھاتا۔اسی طرح اگر تنقید کا جائزہ لیا جائے تواس میں بہت کام نظر آتا ہے مگر سب کا سب مغربی تھیوریوں کو بنیاد بنا کر ہوا جس کا ہمارے سماج سے کیونکہ کوئی تعلق نہیں تھا اس لیے ہمارے سماج میں نہ تو کوئی تبدیلی آئی نہ اردو ادب کے دامن میں کوئی ایسا پھول کھلاجسے اردو ادب سے وابستہ کیا جا سکے۔اس لیے ہمارے اردو ادب کی بازیافت بہت ضروری ہے اور تنقیدی حوالے سے ہمارے ادب کو بنیاد بنانا اردو ادب میں ادبی نظریے اور تنقیدی تھیوری کے جنم کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے۔
اس لیے اگر جائزہ لیں تو اردو ادب میں اخلاقی تھیوری مل جائے گی جس کی جڑیں ہمارے مذہب میں ہیں۔ہماری سماجی اخلاقیات اور اچھے برے پیمانوںکے استحکام میں ادب کا بنیادی کردار ہے۔جس طرح اصغری اور اکبری کی کہانی ایک اچھی اور بری عورت کے تصور کو لوگوں کے اذہان میں پختہ کرتی ہے اسی طرح ادب کے ذریعے سماج کے ہر شعبے سے وابستہ تصورات کو استحکام بخشا جاسکتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک زبان و ادب کے ذریعے جن اخلاقی پیمانوں یا سماجی رسم و رواج کو فروغ دیا گیا وہ بر سرِ اقتدار طبقات کی سوچ کا نتیجہ ہیں ۔ مگر ادیب کا کام ہی فکر کرنا اور ایسے خیالات کی پرورش کرنا ہوتا ہے جو کسی سماج کے رہنے والوں کے لیے مجموعی سطح پرافادیت کا باعث بن سکیں۔ اس لیے ان پیمانوں کو بدلتے وقت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کے لیے اور سماج کی ترقی کے لیے بدلنا ضروری ہوتا ہے اور یہ کام ادب اور ادبی نظریات کے ذریعے بآسانی ہوسکتا ہے، کیونکہ جب کسی سماج کا مجموعی شعور بلند ہوتا ہے تو عملی تبدیلی جلد ممکن بھی ہوتی ہے اور ترقی یافتہ نظام کا اطلاق بھی آسانی سے ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمارے اردو ادب کی بازیافت بہت ضروری ہے اور تنقیدی حوالے سے ہمارے ادب کو بنیاد بنانا اردو ادب میں ادبی نظریے اور تنقیدی تھیوری کے جنم کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے۔