Natural Balance

مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ اتنی ترقی ،علم و دانش کے بعد بغداد بے حسی اور بے عملی کی طرف مائل ہوچکا تھا۔


ڈاکٹر عفان قیصر October 26, 2014
www.facebook.com/draffanqaiser

سیانے کہتے ہیں ہر عروج کو زوال ہے،اور ہر زوال کو عروج ہے،اسی پر دنیا قائم ہے۔اس دنیا کو اپنے مقرر وقت تک قائم رکھنے کے لیے قدرت کا بھی ایک الگ نظام قائم ہے۔اس نظام کو Natural Balance کہتے ہیں۔مثال کے طور پر کسی جنگل میں ہرن کی تعداد زیادہ ہوجائے ،تو شیر ان کا شکار کر کر کے انھیں ختم کر دیتے ہیں،یوں ہرن تعداد میں کم ہوجاتے ہیں،شیروں کو شکار نہیں ملتا،وہ بھوک سے مرنے لگتے ہیں،شیروں کی تعداد کم ہوجاتی ہے اور ہرن پھر بڑھنے لگتے ہیں۔یہ قدرتی توازن کا نظام ہے۔اگر یہ نظام نہ ہوتا تو آج دنیا ختم ہوچکی ہوتی۔

کہتے ہیں ایسا عمل فطرت کی بنائی ہر شے پر لاگو ہوتا ہے۔انسان بھی جب ضرورت سے زیادہ تعداد یا علم میں بڑھنے لگ جاتے ہیں،تو جنگیں ہوتی ہیں،قحط آتے ہیں،قدرتی آفات آتی ہیں اور انسان اپنے علم سمیت فنا ہوجاتے ہیں۔ اڈولف ہٹلر،اسٹالن سمیت ہر ظالم و جابر شائد قدرت کے اسی عمل کو پورا کرنے کے لیے پیدا کیا گیا۔منگول خاندان کا بانی چنگیز خان عرف تیموجن اپنے تمام جاہ و جلال کے ساتھ 1227ء میں مر گیا۔اس کی موت کے بعد اس کی سلطنت پانچ حصوں میں تقسیم ہوگئی۔منگولوں نے اپنا عروج جاری رکھا۔1229ء میں منگولوں نے پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے 3 محاذوں پر عظیم جنگوں کا آغاز کیا۔ان سب محاذوں پر منگولوں کو عظیم کامیابی حاصل ہوئی۔

1251ء میں منگو خان کو منگولوں کا سردار منتخب کیا گیا۔اس نے سب سے پہلے اپنے بھائی قبلائی خان کو جنوبی چین اور اپنے جانباز سپاہی ہلاکو خان کو بغداد فتح کرنے روانہ کیا۔یہاں سے بغداد کی تباہی کی کہانی شروع ہوتی ہے ،جِسے مورخ Siege of Baghdad کے نام سے یاد کرتے ہیں۔تاریخ کی کتابوں میں بہت سی حکایات اس تباہی کا رونا روتی نظر آتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بغداد اس وقت اسلام کا قلعہ ہوا کرتا تھا اور پوری دنیا کا علم اس وقت بغداد کی لائبریریوں میں قید تھا۔جہاں فلسفی موت کی حقیقیت جان چکے تھے،وہیں وہ ستاروں پر دنیا بسانے کے قریب تھے۔آبِ حیات سے لے کر نجانے کیسی کیسی حکایات اس علم کی بربادی کا رونا روتی نظر آتی ہیں۔جون 1258ء میں بغداد کو ہلاکو خان کی فوجوں نے گھیر لیا۔یہ سب اس وقت کی غیر اسلامی قوتوں کی سازشوں کا حصہ تھا،جو اسلام اور امت دونوں کو اس دنیا سے فنا کرنا چاہتی تھیں۔

ایک ہفتے ہلاکو خان نے جو ظلم و بربریت اس شہر پر ڈھائی اس کی ہولناکیاں بیان کرنے کے لیے مورخوں کے پاس آج تک الفاظ موجود نہیں ہیں۔دس لاکھ کے قریب زندہ انسانوں کو ذبح کر ڈالا گیا۔بغداد کے حاکم اور عباسی خاندان کے فرمانروا کو ایک کارپٹ میں لپیٹ کر گھوڑوں کے ساتھ اس کا جسم باندھ کر چاروں طرف گھوڑے دوڑا کر چیر ڈالا گیا۔تمام مساجد تباہ کردی گئیں۔لائبریریوں کو آگ لگا دی گئی،مگر علم اتنا تھا کہ آگ کم پڑ گئی تو دریا میں ان کتابوں کو بہا دیا گیا۔کہتے ہیں دریائے دجلہ کے پانی کا رنگ ان کتابوں کی سیاہی سے کالا پڑگیا۔پانچ صدیوں میں بنائے گئے عباسی دور کے ڈیم تباہ کردیے گئے۔عورتوں بچوں کے ساتھ جو ظلم کیا گیا وہ یہاں بیان کرنا ناممکن ہے۔ہلاکو خان کے اس ظلم نے دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ شہر کو کھنڈر بنا دیا۔دریائے دجلہ میں وہ علم بہا دیا گیا ۔

جس کے حصول کے لیے بعد کے ہزار سال بھی کم پڑگئے۔بغداد کی اس تباہی کے بارے میں دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ اگر اس وقت بغداد تباہی سے بچ جاتا تو اسلام اپنا عروج پا لیتا،پوری دنیا پر مسلمانوں کا راج ہوتا، مگر دوسری تھیوری اس سے بالکل مختلف ہے۔دوسری تھیوری فطرت کے قدرتی توازن کے نظام کو سامنے رکھتی ہے۔ان کے نزدیک یہ زوال امت کو دوبارہ متحد کرکے جرات، بے خوفی اور بہادری کے ساتھ لازوال حیثیت سے زندہ کرنے کا واحد ذریعہ تھا۔اس نظریے کے سب سے بڑے وکیل مولانا روم اور ابنِ خلدون ہیں کہ جن کی کتابیں آج پورا یورپ اپنے کورس کے طور پر پڑھتا ہے۔ان کے مطابق منگولوں کی آمد عالمِ اسلام کے لیے نعمت اور رحمت تھی۔بغداد جل گیا ، مگر اس کی راکھ سے قاہرہ، تبریز، دلی، بخارہ، اصفہان جیسے علم و دانش کے کئی شہروں نے جنم لیا۔اس راکھ نے مغلیہ دور کو جنم دیا جنھوں نے برصغیر کو سونے کی چڑیا بنا دیا۔خلافتِ عثمانیہ ، امام غزالی سمیت ہر عروج ، بغداد کے اس زوال کا ثمر ثابت ہوا۔

مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ اتنی ترقی ،علم و دانش کے بعد بغداد بے حسی اور بے عملی کی طرف مائل ہوچکا تھا۔ان میں عیش و عشرت عروج پر تھی۔بے ایمانی، بددیانتی، ؒمنافقت،بے انصافی ان کا خاصہ بن چکی تھی۔ بغداد کا زوال قدرت کا ایک Natural Balance تھا۔اگر وہ زوال نہ آتا تو شائد واقعی اس کے بعد امت عروج نہ دیکھ پاتی،شائد اسلام کو اپنی حقیقی روح میں زندہ رکھنے کے لیے قدرت نے منگولوں کو اس خطے پر بھیجا تھا۔

آج کے دور کی ترقی،برق رفتاری اور اس پر چیچنیا، بوسنیا،کشمیر،فلسطین،پاکستان،افغانستان،عراق،شام میں نیو ورلڈ آرڈر کے ایندھن بنتے مسلمانوں کی آہوں کی گونج یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ قدرت آج پھر Natural Balance کے نظام پر امت میں توازن پیدا کررہی ہے۔اسلام کو تاقیامت اپنی حقیقی روح کے ساتھ قائم رہنا ہے۔غیر مسلموں کا اتحاد ،ان کی ترقی اور مسلم امہ کی بے راہ روی اور ربطِ ملت کی کمزوری کا شائد واحد علاج یہی تھا کہ یہود، ہنود،نصاریٰ ہمیں نیست اور نابود کرنے کے لیے ہم پر چڑھ دوڑیں،بالکل ویسے جیسے بغداد پر ہلاکو خان نے چڑھائی کی تھی ،ہم ہدایت پکڑیں،بطور امت زندہ ہوں اور اسلام تاقیامت اپنی اصل حالت میں محفوظ رہے۔

سیانے صحیح کہتے ہیں ہر عروج کو زوال ہے،اور ہر زوال کو عروج ہے،اسی پر دنیا قائم ہے۔ہمیں اب اس زوال کو دیکھ کر ہرگز مایوس نہیں ہونا،بس خدا سے اپنے گناہوں کی استغفار طلب کرنی ہے،خدا کو راضی کرنا ہے اور سیدھی راہ پر گامزن ہونا ہے۔یہ Natural Balance کو قائم رکھنے کے لیے قدرت کا ایک امتحان ہے،اس زوال کو ایک بار پھر عروج آنا ہے،ہمیں بطور امت اس وقت کے لیے اپنے قبلے درست کرنا ہوں گے اور عروج کے بعد بھی جہاں ہم نے پھر غلطی کردی فطرت بھی ہمیں معاف نہیں کرے گی اور یوں ہی قیامت تک چلتا رہے گایہ Natural Balance۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔