مراد رسول ﷺ فاتح روم و ایران خلیفۂ راشد امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ
سیدنا فاروق اعظمؓ کے اسلام لانے سے اسلام کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور مسلمانوں نے بیت اﷲ شریف میں۔۔۔
آپؓ کا اسم گرامی ''عمر'' لقب ''فاروق'' اور کنیت ''ابوحفص'' ہے۔ سیدنا عمرؓ کا نسب مبارک نویں پشت پر سیدنا محمدﷺ سے جاملتا ہے۔
آپؓ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی اور آپؓ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ چوںکہ نبی کریم ﷺ سیدنا عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیدنا عمر فاروقؓ کے اسلام لانے پر نبی ﷺ بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپ کو گلے لگایا اور آپؓ کے سینہ مبارک پر دست نبوت پھیر کر دعا دی کہ: اﷲ ان کے سینے سے کینہ و عداوت کو نکال کر ایمان سے بھر دے۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی سیدنا فاروق اعظمؓ کے قبول اسلام پر مبارک باد دینے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے اسلام لانے سے اسلام کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور مسلمانوں نے بیت اﷲ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کرنا شروع کردی۔ آپؓ وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اعلانیہ اسلام قبول کیا اور اعلانیہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے موقع پر طواف کعبہ کیا اور کفار مکہ کو للکار کر کہا کہ میں ہجرت کرنے لگا ہوں یہ مت سوچنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا ہے، جسے اپنے بچے یتیم اور بیوی بیوہ کرانی ہو وہ آکر مجھے روک لے، مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ آپؓ کے مقابل آتا۔
ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق اعظمؓ تمام غزوات میں رسول اﷲﷺ کی معیت میں رہے۔ غزوۂ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ غزوۂ احد میں انتشار کے با وجود اپنا مورچہ نہیں چھوڑا۔ غزوۂ خندق میں خندق کے ایک طرف کی حفاظت آپؓ کے سپرد تھی بعد ازاں بطور یادگار یہاں آپؓ کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ غزوۂ بنی مصطلق میں سیدنا عمر فاروق ؓ نے ایک کافر جاسوس کو گرفتار کر کے دشمن کے تمام حالات دریافت کر کے اسے قتل کردیا، جس کے باعث کفار پر دہشت طاری ہو گئی۔
غزوۂ حدیبیہ میں آپؓ مغلوبانہ صلح پر راضی نہ ہوتے تھے مگر نبی اکرمﷺ کی وجہ سے سرِتسلیم خَم کیا اور جب سورۂ فتح نازل ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ نے آپؓ کو یہ سورت سنائی کیوںکہ اس میں بڑی خوش خبری اور فضیلت انہی کے لیے ہے۔ غزوۂ خیبر میں رات پہرے کے دوران ایک یہودی کو گرفتار کیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ اس سے حاصل شدہ معلومات ہی فتح خیبر کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئیں۔ غزوۂ حنین میں مہاجرین صحابہؓ کی سرداری امیرالمؤمنین عمرؓ کو مرحمت کی گئی۔ فتح مکہ کے بعد سیدنا عمرؓ نے حضور ﷺ سے کعبہ میں عمرہ یا اعتکاف کی اجازت طلب کی تو نبی کریم ﷺ نے اجازت کے ساتھ فرمایا: '' اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا اور ہمیں بھول نہ جانا''۔ سیدنا عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ: نبی ﷺ کے اس مبارک جملے کے عوض اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو میں خوش نہ ہوں گا۔
سیدنا عمر فاروقؓ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی اور منافق کے مابین حضور انورﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیﷺ کے فیصلہ کے بعد یہ آپؓ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو سیدنا عمر فاروقؓ نے اس کو قتل کر کے فرمایا: جو میرے نبیﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔
کئی مواقع پر حضور نبی کریمﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ سیدنا فاروق اعظمؓ نے دیا، قرآن کریم کی آیات مبارکہ اسی کی تائید میں نازل ہوئیں۔ ازواج مطہراتؓ کے پردے ، قیدیان بدر، مقام ابراہیم پر نماز، حرمت ِشراب، کسی کے گھر میں داخلہ سے پہلے اجازت، تطہیر سیدہ عائشہؓ جیسے اہم معاملات میں سیدنا عمرؓ کی رائے، مشورے اور سوچ کے موافق قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں۔ علماء و فقہاء کے مطابق تقریباً 25 آیات قرآنی ایسی ہیں جو براہ راست فاروق اعظمؓ کی تائید میں نازل ہوئیں۔
جب آپؓ تخت خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اعلان فرما دیا کہ: میری جو بات قابل اعتراض ہو مجھے اس پر سرعام ٹوک دیا جائے۔ ''امیرالمؤمنین'' کا لفظ سب سے پہلے آپؓ ہی کے لیے استعمال ہوا، کیوں کہ آپؓ سے پہلے، خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ کو ''خلیفۃالرسولؐ'' کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ آپؓ اپنی خلافت میں رات کو رعایا کے حالات سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ اپنے دور خلافت میں اپنے بیٹے عبداﷲ بن عمرؓ کا وظیفہ 3 ہزار مقرر کیا جب کہ حضرت ِحسنؓ و حسینؓ کا 5، 5 ہزار اور سیدنا اسامہ بن زیدؓ کا 4 ہزار وظیفہ مقرر کیا۔
آپؓ نے اپنے حکام کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر دربان رکھنے سے سختی سے منع فرما رکھا تھا۔ مختلف اوقات میں اپنے مقرر کردہ حکام کی جانچ پڑتال بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ملک شام تشریف لے گئے اس وقت حاکم شام سیدنا امیر معاویہؓ تھے جنہوں نے عمدہ لباس پہنا ہوا تھا اور دروازے پر دربان بھی مقرر کیا ہوا تھا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے سیدنا معاویہؓ سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ چوںکہ یہ سرحدی علاقہ ہے اور یہاں دشمن کے جاسوس بہت ہوتے ہیں اس لیے میں نے ایسا کیا تا کہ دشمنوں پر رعب و دبدبہ رہے، جس پر فاروق اعظمؓ نے سکوت فرمایا۔
اپنے دور خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ملک فتح کیے۔ 1 ہزار 36 شہر مع ان کے مضافات فتح کیے۔ مفتوحہ جگہ پر فوراً مسجد تعمیر کی جاتی۔ آپؓ کے زمانے میں 4 ہزار مساجد عام نمازوں اور 9 سو مساجد نماز جمعہ کے لیے بنیں۔ قبلۂ اول بیت المقدس بھی دور فاروقی میں بغیر لڑائی کے فتح ہوا۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ فاروقی حکم سے جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں لہٰذا آپ اسے فتح نہیں کرسکتے۔ چناںچہ سیدنا عمرو بن العاصؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی اور پھر جناب عمر فاروقؓ کی بیت المقدس آمد پر چابیاں آپؓ کے حوالہ کی گئیں کیوںکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آپؓ کا حلیہ مبارک اپنی کتابوں کے مطابق پالیا تھا۔
قرآنی وعدے اور خوش خبریاں آپؓ ہی کے دور خلافت میں پوری ہوئیں۔ فاروقی دور خلافت 22 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر محیط تھی۔ پولیس کا محکمہ بھی آپؓ ہی نے قائم فرمایا۔ کئی علاقوں میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیمات کے لیے سیدنا معاذ ؓبن جبل، سیدنا عبادہؓ بن صامت، سیدنا ابیؓ ابن کعب، سیدنا ابوالدرداءؓ، سیدنا سعدؓ اور سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ وغیرہ جیسے اجلّہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو مقرر فرمایا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کی حیات مبارکہ پر اگر تفصیلاً تحریر کیا جائے تو کئی کتب کی ضرورت ہے۔
نبی کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق سیدنا عمر فاروقؓ اس امت کے محدث تھے۔ علاوہ ازیں امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ انتہائی معاملہ فہم، دانش مند، زیرک، ذہین اور دور اندیش خلیفہ تھے۔ آپؓ نے مختلف مواقع پر کئی ایسے ارشادات فرمائے جو کہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں انہی ارشادات میں سے چند ایک ملاحظہ فرمائیں۔ اپنے تمام عمال کو یہ فرمان بھیجا '' میرے لیے تمہارے کاموں میں سب سے زیادہ اہتمام کے قابل بات، نماز ہے۔ جس نے نماز کی حفاظت کی اس نے اپنا دین محفوظ کرلیا اور جس نے نماز کو ضائع کر دیا وہ دوسری چیزوں کو بدرجۂ اولیٰ ضائع کر دے گا۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ دعا آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتی ہے یہاں تک کہ نبیﷺ پر درود پڑھا جائے۔ فرمایا کہ سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ فرائض ادا کرے اور منہیات سے اجتناب کرے اور اﷲ کے ساتھ اپنی نیت درست رکھے۔
امیرالمؤمین سیدنا عمر فاروقؓ کے عظیم الشان و بے مثال عہد خلافت کا ایک نمایاں اور زریں طریقہ کار یہ تھا کہ آپؓ راتوں کو گلی محلوں میں گشت فرمایا کرتے تھے تاکہ اپنی رعایا کے حالات واقعات اور ضروریات و حاجات و مشکلات وغیرہ سے باخبر رہ سکیں۔ امیرالمؤمنین عمرؓ کے گشت کے دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے آپؓ کی اعلیٰ ظرفی، حکمت و بصیرت اور دانائی و دور اندیشی سمیت آپؓ کے طرز حکم رانی و خلافت کی داد دینی پڑتی ہے۔ انہی گشت کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ سیدنا عمرفاروق ؓ کی ایک مرتبہ رات کے وقت دوران گشت ایک اعرابی سے ملاقات ہوئی جو اپنے خیمے کے باہر بیٹھا ہوا تھا۔ آپؓ نے اس سے علیک سلیک کے بعد گفت گو شروع فرمائی کہ دفعتاً خیمے کے اندر سے کسی کے رونے کی آواز آئی تو آپؓ کے دریافت کرنے پر اس اعرابی نے بتایا کہ میری بیوی کے دردِ زہ ہے۔
یہ سنتے ہی سیدنا فاروق اعظمؓ اپنے گھر پہنچے اور اپنی اہلیہ کو لے کر اس اعرابی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے اجازت لے کر اہلیہ کو خیمے میں بھیج دیا۔ اور خود اعرابی سے بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ اچانک خیمے سے اہلیہ نے پکار کر کہا کہ امیرالمؤمنین! اپنے دوست کو لڑکے کی ولادت کی خوش خبری دیں۔ اس اعرابی نے جو ''امیرالمؤمنین'' کا لفظ سنا تو کانپ گیا اور جلدی سے باادب ہوگیا اور معذرت کرنے لگا تو آپؓ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، صبح کو میرے پاس آنا اور پھر آپؓ نے اس کے بچے کا وظیفہ مقرر فرما کر اسے کچھ مرحمت فرمایا۔
الغرض آپؓ کا دور خلافت بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ خلافت راشدہ میں سیدنا فاروق اعظم ؓ کے دور خلافت کو ایک نمایاں و ممتاز مقام حاصل ہے۔ 27 ذی الحجہ ایرانی مجوسی ابو لؤلؤ فیروز نے نماز فجر کی ادائیگی کے دوران سیدنا عمرؓ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا اور یکم محرم الحرام اسلام کا یہ بطل جلیل، نبی ﷺ کی دعا، اسلامی خلافت کا تاج دار، 63 سال کی عمر میں شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوا۔ آپؓ کی نماز جنازہ سیدنا صہیب رومیؓ نے پڑھائی۔ روضۂ نبوی میں نبی مکرم ﷺ اور خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی قبور اطہار کے ساتھ سیدنا عمرفاروقؓ کی قبر مبارک بنائی گئی اور وہیں مدفون ہوئے۔ اﷲ پاک اِس عظیم المرتبت شخصیت کی قبر مبارک پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، آمین۔
امام عدل و حریت، پیکر شجاعت سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ
امام عدل و حریت، مرادِ مصطفیٰﷺ، خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لیے خدمات، جرأت و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شان دار کردار و کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔ آپ ؓ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات و ترقی اور عروج کا زمانہ تھا مسلمان اس قدر خوش حال ہو گئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے مستحق کو تلاش کرتے تھے لیکن ان کو زکوٰۃ لینے والا مشکل سے ملتا تھا۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کو حضورﷺ نے بارگاہ خداوندی سے مانگا تھا اسی وجہ سے آپ کو ''مرادِ مصطفیٰؐ'' کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ آپؓ عشرہ مبشرہ ان خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں جن کو دنیا میں ہی حضورﷺ نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔ آپ ؓ کی تائید میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئیں اور آپ کی شان میں چالیس کے قریب احادیث نبویﷺ موجود ہیں اور آپؓ کی صاحبزادی حضرت سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنھا کو حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ اور مسلمانوں کی ماں (ام المؤمنین) ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کا مسلمان ہوجانا فتح اسلام تھا اور ان کی ہجرت ''نصرت الٰہی'' تھی اور ان کی خلافت اﷲ تعالیٰ کی رحمت تھی۔
ایک روز رحمت دو عالم ﷺ گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے ہم راہ دائیں بائیں ابوبکر ؓ و عمرؓ بھی تھے اور آپ ﷺ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اسی حالت میں آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی)
ایک اور موقعے پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیلؑ اور میکائیل ؑ ہیں اور زمین والوں میں سے دو وزیر ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (ترمذی)
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے تمام غزوات و جنگوں میں حصہ لیا اور کفار کے خلاف شجاعت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔
''بدر کے قیدیوں'' کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کو حضرت عمر فاروقؓ کا مشورہ اس قدر پسند آیا کہ آپؓ کی رائے اور مشورہ کی تائید کی میں ''آیت قرآنی'' نازل ہو گئی۔
آپؓ کا نام عمر ابن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے۔ آپ ؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور ﷺ سے ملتا ہے۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی تھا، رخساروں پر گوشت کم اور قد مبارک دارز تھا۔ جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے اونچے نظر آتے۔ ایسا معلوم ہوتا گویا آپؓ سواری پر سوار ہیں۔ آپ ؓ بہت بہادر اور بڑے طاقت ور تھے۔ اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی اسلام لانے کے بعد ویسی شدت اسلام میں بھی ہوئی۔ آپؓ خاندان قریش کے باوجاہت اور شریف ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔
آپؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور و معروف ہے اور آپ ؓ کا اسلام لانا حضور ﷺ کی دعاؤں کا ثمر اور معجزہ تھا۔ آپؓ کے اسلام لانے کے اعلان سے صحابہ کرامؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کفار پر رعب پڑگیا۔ آپ ؓ کے اسلام لانے سے حضورﷺ نے بیت اﷲ میں اعلانیہ نماز ادا کی۔ سیدنا حضرت عمرفاروقؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے قبل بیت اﷲ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ میں ہجرت کر کے مدینہ جا رہا ہوں یہ نہ کہنا کہ میں نے چھپ کر ہجرت کی جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کروانا ہو وہ مجھے ہجرت سے روکے۔ لیکن کفار میں سے کسی کو بھی آپؓ کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آپؓ کے اسلام لانے سے دین اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔
خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کے لیے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے انتخاب کے لیے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ''خفیہ رائے شماری'' کا طریقہ اختیار کیا۔ صحابہ کرامؓ کی ''اعلیٰ مشاورتی کونسل'' اور جلیل القدر صحابہ کرامؓؓ سے مشورہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی جانشینی کا اعلان کیا۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور فرمایا کہ ! اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی جب تم لوگ حضورﷺ اور سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کی نرمی اور مہربانیوں سے فیض یاب تھے۔ میر ی سختی، نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی، اب میں تم پر سختی نہیں کروں گا، اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔
خلیفۃ المسلمین بننے کے بعد آپ ؓ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے جس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ پاؤں رکھتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں تو فرمایا! میرے لیے یہ کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبرؓ کے پاؤں رہتے ہوں۔ آپؓ کے زہد و تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا جو آپؓ کی ضرور ت کے لیے بہت کم تھا اور کئی مرتبہ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے کے لیتے وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔
حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کیے۔ خشیتِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ نماز میں آیت قیامت و آخرت کے ذکر پر بے ہوش ہو جاتے، صدقات بہت کثرت سے دیا کرتے تھے، آخری عمر میں ہمیشہ روزہ سے رہتے تھے سوائے ایام ممنوعہ کے۔ اپنی رعایا کی خبرگیری کے لیے راتوں کو گشت کیا کرتے، جو صحابہ کرامؓ جہاد پر گئے ہوتے ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال رکھتے، بازار سے سامان وغیرہ خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
سیدنا حضرت عمر فاروق ؓجب کسی صوبے یا علاقے میں کسی کو گورنر مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت، لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور پھر اس کو مقرر کرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرتے اور رعایا کو حکم تھا کہ میرے حکام سے کسی کو بھی کوئی شکایت و تکلیف پہنچے تو وہ بے خوف و خطر مجھے اطلاع دیں۔
حضرت عمر فاروقؓ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کا بہت خیال رکھتے اور ان کی شکایات کو ہرممکن دور کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ہوئے احکامات جاری کرتے۔ سفر میں راہ چلتے لوگوں سے مسائل و حالات پوچھتے، دور دراز علاقوں کے لوگ وفود کی صورت میں حاضر ہو کر اپنے مسائل سے آگاہ کرتے اور بعض مرتبہ آپؓ مختلف علاقوں کا خود دورہ کرکے لوگوں کے مسائل و شکایات کو دور کرتے۔
آپؓ کے دورِ خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900 جامع مسجدیں اور 4000 عام مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں خزانے کا محکمہ قائم کیا۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔ جیل خانے اور پولیس کا محکمہ بھی قائم کیا، فوجی دفتر ترتیب دیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کرائے، ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا، پرچہ نویس مقرر کیے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔ مکاتب و مدارس قائم کیے، معلمین اور اساتذہ کے مشاہرے مقرر کیے، مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے ''روزینے'' بھی آپؓ نے ہی مقرر کیے۔ نماز تراویح جماعت سے قائم کی۔ شراب کی حد کے لیے 80 کوڑے مقرر کیے ، وقف کا طریقہ ایجاد کیا، اماموں اور مؤذنوں کی تن خواہیں مقرر کیں اور مساجد میں روشنی کا انتظام کیا۔ عوام کے لیے فلاحی و اصلاحی احکامات آپ ؓ نے جاری کیے۔
علامہ شبلی نعمانیؒ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی سوانح عمری ''الفاروقؓ'' میں لکھتے ہیں کہ! تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکم ران دکھا سکتے ہو؟
جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیص میں دس دس پیوند لگے ہوں، کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر آتا ہو، فرش خاک پر سو جاتا ہو، بازاروں میں پھرتا ہو، جہاں جاتا ہو جریدہ و تنہا جاتا ہو، اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو، دور دربار، نقیب و چاؤش، حشم و خدم کے نام سے آشنا نہ ہو، اور پھر یہ رعب و ادب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو، سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا، عمر فاروقؓ کے ''سفر شام'' میں سواری کے اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا چاروں طرف (شور) غل پڑا تھا کہ ''مرکز عالم'' جنبش میں آگیا ہے۔
تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے والے امیر المومنین فاروق اعظمؓ
دنیا میں ایسی ہستیاں بھی گزری ہیں، جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔ ان ہی اولوالعزم ہستیوں میں حضرت عمرفاروق اعظمؓ کا نام سرفہرست ہے۔
آقائے دوجہاں ﷺ نے غلافِ کعبہ پکڑ کر دعا مانگی تھی کہ اے اﷲ عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) سے اسلام کو قوت عطا فرما۔ چناںچہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمرؓ کی بدولت اسلام کو بے پناہ قوت حاصل ہوئی۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد حضرت عمرفاروقؓ کی درخواست پر رسول اﷲ ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں نے جن کی تعداد اس وقت تک چالیس ہوگئی تھی، مشرکین مکہ کے مظالم کی پروا نہ کرتے ہوئے بیت اﷲ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کی۔
مکہ مکرمہ کے آزمائشوں اور سختیوں سے بھرے دور میں اور پھر ہجرت مدینہ کے بعد تمام غزوات میں آقائے دوجہاں ﷺ کے شانہ بشانہ رہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کی بدولت اسلام کو نہ صرف قوت و شوکت ملی، بلکہ بہت سے اسلامی احکام آپؓ کی تجویز پر نازل ہوئے۔ حضرت شاہ ولی اﷲ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی ستائیس آیات مبارکہ حضرت عمر فاروقؓ کی رائے پر نازل ہوئیں۔ اذان دینے کا سلسلہ حضر ت عمرؓ کی رائے سے شروع ہوا۔ آپؓ کی شان اقدس میں چالیس سے زیادہ احادیث رسول ﷺ موجود ہیں۔
حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا کہ اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو عمرؓ نبی ہوتے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے: اے عمر ؓ جس راستے پر آپ چل رہے ہوں گے، اُس پر تمھیں شیطان چلتا ہوا کبھی نہیں ملے گا وہ مجبور ہوگا کہ اپنا راستہ بدل کر دوسرا راستہ اختیار کرے۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ اہل جنت میں سے ایک اور شخص ابھی ہمارے پاس آنے والا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے دیکھا تو آپؐ کے فرمانے کے بعد حضرت عمر فاروقؓ تشریف لائے۔ تاج دار مدینہ ؐ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ جناتی اور انسانی شیطان عمرؓ سے بھاگتے ہیں۔
ایک مرتبہ سرکار دوعالمﷺ جبل احد پر تشریف لے گئے اس موقع پر پہاڑ میں کچھ حرکت سی پیدا ہوئی تو حضور ؐ نے فرمایا کہ اے احد ٹھہر جا اس وقت تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ حضور اکرمﷺ ایک اور موقع پر ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جنّت میں داخل ہوا اور وہاں ایک محل دیکھا اُس محل کی خوب صورتی کی وجہ سے پوچھا کہ یہ عالی شان محل کس کا ہے تو جواب ملا کہ عمر بن خطابؓ کا۔ حضرت عمر فاروقؓ کو رسول اﷲ ﷺ کے خسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
حضور اکرمﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفۃ المسلمین بنے تو حضرت عمر فاروق اعظم ؓ اسی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ اسلام کی خدمت انجام دیتے رہے اور اپنی بصیرت اور فراست کی بنا پر کئی نازک مواقع پر امت مسلمہ کے اتحاد کو نہ صرف برقرار رکھا، بلکہ اس میں نمایاں اضافہ بھی کیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے آخری وقت میں بعض صحابہؓ کے مشورے سے حضرت عمر ؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ حضرت عمرفاروقؓ کا عہد حکومت اسلامی تاریخ کا زریں باب ہے۔ جس میں عدل و انصاف، رعایا پروری، خداترسی اور خوش حالی کا دور دورہ تھا۔
سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے لباس پر پیوند لگے ہوتے تھے۔ مگر انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں کسریٰ کی پُرشوکت سلطنت اور قیصر کی باجبروت بادشاہت کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا۔ عالمی تاریخ کے دھارے کے رخ کو موڑ دینے والے امیرالمومنین حضرت عمرؓ تھے، جنہوں نے شہنشاہوں کے تاج ہاتھ بڑھا کر اُن کے پُرغرور سروں سے کھینچ کر مسل ڈالے۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں ایران، روم، شام، عراق، ترکستان اور مصر سمیت تین ہزار چھ سو سے زاید علاقے فتح ہوئے اور ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست بائیس لاکھ مربع میل تک پھیل گئی۔
جس بے پناہ قابلیت کے ساتھ فاروق اعظم ؓ نے حکومت کی اور جس اعلیٰ لیاقت کے ساتھ مفتوحہ ملکوں کا انتظام کیا، جس بے نظیر تدّبر کے ساتھ آپؓ نے مختلف دفاتر اور محکمے، جیل خانے، ڈاک کا نظام، باقاعدہ فوج اور فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ جس رواداری کے ساتھ آپؓ نے غیرمسلم رعایا سے سلوک کیا۔ جس بہادری کے ساتھ آپؓ نے ایرانی شوکت، رومی طاقت اور مصری بادشاہت کا مقابلہ کیا، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
آج تک دنیا کے کسی مدبر سے مدبر حکم ران نے بھی ایسی خوبی و حکمت سے حکومت نہیں کی جیسی حضرت عمر ؓ نے کی اور اس وقت تک اس قسم کے عدل و انصاف والا ایک بھی حکم ران نہیں گزرا، جیسے حضرت عمر بن خطابؓ تھے۔ حتیٰ کہ عدل فاروقی ایک تاریخی مثال بن گیا۔ حضرت عمر فاروقؓ کا مشہور قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مرگیا تو عمر سے پوچھا جائے گا۔
ستائیس ذی الحجہ کو امیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓ مسجد نبویﷺ میں فجر کی نماز کی امامت کررہے تھے کہ ایک بدبخت مجوسی ابولولو فیروز نے زہرآلود خنجر سے آپؓ پر وار کئے اور آپؓ زخمی ہوکر گرپڑے ۔ تین روز مو ت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد یکم محرم الحرام سن 24 ہجری کو اسلام کا یہ بطل جلیل اور تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے والا عظیم انسان اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ انہوں نے دس سال چھ ماہ تک حکومت کی۔
انہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرے میں آقائے دوجہاںﷺ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آج بھی اہل ایمان جب حج یا عمرے کی سعادت کے لیے ارضِ مقدس جاتے ہیں اور روضۂ رسول ﷺ پر حاضری دیتے ہیں تو ان کے پہلو میں ان کے دو قریبی ساتھیوں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کو بھی سلام پیش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔
کثیر الجہت شخصیت حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ
ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کا گذر '' بقیع الغرقد '' نامی ایک قبرستان سے ہوا۔ حضرت عمر ؓ نے وہاں کچھ یوں فرمایا : '' السلام علیکم! اے قبرستان والو! ہمارے ہاں کی خبریں تو یہ ہیں کہ تمہاری عورتوں نے دوسری شادی کرلی، تمہارے گھروں میں دوسرے لوگ آبسے ہیں، اور تمہارا سارا مال تقسیم ہوچکا ۔ غیب سے آواز آئی: ''ہمارے ہاں کی خبریں یہ ہیں کہ ہم نے جو نیک اعمال آگے بھیجے ان کا اجر و ثواب ہم نے پالیا، اور جو مال ہم نے اﷲ کی خاطر دوسروں پر خرچ کیا، اس کا نفع ہمیں یہاں مل گیا ہے اور جو مال ہم پیچھے چھوڑ آئے، اس کا ہمیں نقصان ہوا ''
حضرت عمر ؓ کے متعلق جتنا پڑھتے جائیں ایک بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ وہ نہ صرف دنیاوی اعتبار سے بلکہ روحانی اعتبار سے بھی انتہائی حقیقت پسند انسان تھے اور صاف نظر آتا ہے کہ ان کے آخرت پر یقین و ایمان کا ان کی دنیاوی زندگی پر اس قدر زبردست اثر تھا کہ اس مادی دنیا میں ہوتے ہوئے گویا وہ آخرت میں اﷲ تعالیٰ کے سامنے زندگی کے امور سر انجام دے رہے ہیں۔ قبرستان سے متعلق ان کا یہ واقعہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ایک میرا اور آپ کا طرز ِ زندگی ہے کہ ہمارے معاشرتی تعلقات کی بنیاد ہی روپے پیسے کی فراہمی یا دست یابی یا دیگر مفادات ہیں۔ ہم لوگ آخرت میں تو کیا زندہ ہوں گے، اس دنیا میں بھی زندہ نہیں ہیں، بلکہ صرف اپنی ذات میں مٹی ہو چکے ہیں۔
حضرت ابو عبیدہ ابن جراح ؓ ملک ِ شام میں تھے۔ حضرت عمر ؓ ان کے پاس وہاں تشریف لے گئے۔ یاد رہے کہ وہ وہاں سیر و سیاحت کے لیے نہیں جایا کرتے تھے بلکہ لوگوں کے حالات کی جان کاری مقصد ہوا کرتی تھی۔ شہر کے گشت کے لیے نکلے تو حضرت عمر ؓ کے ساتھ دیگر اصحاب ؓ بھی ہم راہ تھے۔ چلتے چلتے پانی کا ایک گھاٹ سامنے آگیا۔ حضرت عمر ؓ اونٹنی پر سوار تھے۔ آپ ؓ اونٹنی سے نیچے اترے اور موزے اتار کر اپنے کندھے پر رکھ لیے اور اونٹنی کی نکیل پکڑ کر گھاٹ میں سے گذرنے لگے۔ حضرت عبیدہ ؓ نے صورت حال دیکھی تو عرض کی '' اے امیر المومنین! یہ آپ کیا کررہے ہیں کہ موزے اتار کر کندھے پر رکھ لیے ہیں اور اونٹنی کی نکیل خود ہاتھ میں تھام لی ہے اور گھاٹ میں سے نکل رہے ہیں! مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہ ہوگی کہ اس شہر والے آپ ؓ کو اس حالت میں دیکھیں! ''
حضرت عمر ؓ نے ان کی یہ بات سن کر فرمایا :'' افسوس اے عبیدہ! اگر آپ کے علاوہ کوئی اور یہ بات کہتا تو میں اسے ایسی سخت سزا دتیا کہ جس سے حضرت محمد ﷺ کی ساری امت کو عبرت ہوتی۔ ہم تو سب سے زیادہ ذلیل قوم تھے، اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی۔ اب جس اسلام کے ذریعے اﷲ نے ہمیں عزت عطا فرمائی ہے ہم جب بھی اس کے علاوہ کسی اور چیز سے عزت حاصل کرنی چاہیں گے، تو اﷲ ہمیں ذلیل کر دیں گے''
حضرت عمر ؓ کا کندھے پر موزے رکھنا اور اونٹنی کی نکیل کا پکڑنا دراصل اپنے نفس کو غرور اور تکبر سے دور رکھنے کے لیے ان کا ایک ذاتی صوفیانہ اور درویشانہ عمل تھا۔ جب حضرت محمد ﷺ فتح مکہ کے موقع پر اپنے ہزاروں جان نثاروں کے ہم راہ مکہ شہر میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ کا سر مبارک مارے عجز کے اونٹنی کے کوہان سے ٹکرا رہا تھا۔ حضرت عمر ؓ بارگاہ ِ رسالت ﷺ میں عجز و انکساری کا یہ بے مثال نمونہ دیکھ چکے تھے۔
افسوس کہ ہم نے اپنے معتبر اسلاف کے اعمال کی حقیقت کو جاننے کوئی شعوری کوشش ہی نہیں کی۔
حضرت عمر ؓ شہر کے گشت کے لیے نکلے تو کوئی سڑک بلاک نہیں کی گئی، کہیں کوئی ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اہل کار تعینات کرکے لوگوں کی زندگی کو مزید برباد نہیں کیا گیا۔ کیا ہمارے آج کل کے پروٹوکول کے مارے، غرور اور تکبر میں لت پت ان ''بادشاہوں'' اور ان ہی کی طرح کے سرکاری اہل کاروں نے حضرت عمر ؓ کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ جب حضرت عمر ؓ احساس ِ ذمے داری کے پیش ِ نظر فرمایا کرتے تھے کہ اگر دریا کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرا تو ذمے دار عمر ہو گا۔ اے کاش یہی احساس ِ ذ مے داری ہمیں اور ہمارے حکم رانوں کو بھی نصیب ہوجائے۔ آمین
حضرت عمر ؓ مکہ سے دور ایک میدان میں پہنچنے پر رو پڑے اور کہا کہ: ''اﷲ اکبر، ایک وہ وقت تھا کہ یہاں نمدے کا کرتا پہنے تھک ہار کر بیٹھ جایا کرتا اور باپ سے مار کھایا کرتا تھا مگر اب میرے اوپر خدا کے سوا کوئی حکم ران نہیں'' حضرت عمر ؓ نے مسلمانوں کی بہتری کے لیے جو کیا وہ تو خیر ایک حقیقت ہے ہی لیکن آپ ؓ نے مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے بھی وظائف مقرر کیے۔ نہریں کھدوائیں، مردم شماری، محکمہ پولیس، جیل خانوں کا قیام، مسافروں کے لیے سرائے اور بے آسرا بچوں کی کفالت کے لیے وظائف، آپ ؓ کے بڑے کارناموں میں سے چند ایک ہیں۔ ہمیں اور ہمارے حکم رانوں کو سیرت حضرت عمر فاروقؓ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔
آپؓ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی اور آپؓ ستائیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ چوںکہ نبی کریم ﷺ سیدنا عمرؓ کے اسلام قبول کرنے کے لیے بہت دعا فرمایا کرتے تھے اس لیے سیدنا عمر فاروقؓ کے اسلام لانے پر نبی ﷺ بہت خوش ہوئے اور اپنی جگہ سے چند قدم آگے چل کر آپ کو گلے لگایا اور آپؓ کے سینہ مبارک پر دست نبوت پھیر کر دعا دی کہ: اﷲ ان کے سینے سے کینہ و عداوت کو نکال کر ایمان سے بھر دے۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی سیدنا فاروق اعظمؓ کے قبول اسلام پر مبارک باد دینے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کے اسلام لانے سے اسلام کی شوکت و سطوت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور مسلمانوں نے بیت اﷲ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کرنا شروع کردی۔ آپؓ وہ واحد صحابی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اعلانیہ اسلام قبول کیا اور اعلانیہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے موقع پر طواف کعبہ کیا اور کفار مکہ کو للکار کر کہا کہ میں ہجرت کرنے لگا ہوں یہ مت سوچنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا ہے، جسے اپنے بچے یتیم اور بیوی بیوہ کرانی ہو وہ آکر مجھے روک لے، مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ آپؓ کے مقابل آتا۔
ہجرت کے بعد سیدنا عمر فاروق اعظمؓ تمام غزوات میں رسول اﷲﷺ کی معیت میں رہے۔ غزوۂ بدر میں اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ غزوۂ احد میں انتشار کے با وجود اپنا مورچہ نہیں چھوڑا۔ غزوۂ خندق میں خندق کے ایک طرف کی حفاظت آپؓ کے سپرد تھی بعد ازاں بطور یادگار یہاں آپؓ کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ غزوۂ بنی مصطلق میں سیدنا عمر فاروق ؓ نے ایک کافر جاسوس کو گرفتار کر کے دشمن کے تمام حالات دریافت کر کے اسے قتل کردیا، جس کے باعث کفار پر دہشت طاری ہو گئی۔
غزوۂ حدیبیہ میں آپؓ مغلوبانہ صلح پر راضی نہ ہوتے تھے مگر نبی اکرمﷺ کی وجہ سے سرِتسلیم خَم کیا اور جب سورۂ فتح نازل ہوئی تو رسول اﷲ ﷺ نے آپؓ کو یہ سورت سنائی کیوںکہ اس میں بڑی خوش خبری اور فضیلت انہی کے لیے ہے۔ غزوۂ خیبر میں رات پہرے کے دوران ایک یہودی کو گرفتار کیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں لے آئے۔ اس سے حاصل شدہ معلومات ہی فتح خیبر کا بہترین ذریعہ ثابت ہوئیں۔ غزوۂ حنین میں مہاجرین صحابہؓ کی سرداری امیرالمؤمنین عمرؓ کو مرحمت کی گئی۔ فتح مکہ کے بعد سیدنا عمرؓ نے حضور ﷺ سے کعبہ میں عمرہ یا اعتکاف کی اجازت طلب کی تو نبی کریم ﷺ نے اجازت کے ساتھ فرمایا: '' اے میرے بھائی! اپنی دعا میں ہمیں بھی شریک رکھنا اور ہمیں بھول نہ جانا''۔ سیدنا عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ: نبی ﷺ کے اس مبارک جملے کے عوض اگر مجھے ساری دنیا بھی مل جائے تو میں خوش نہ ہوں گا۔
سیدنا عمر فاروقؓ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی اور منافق کے مابین حضور انورﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیﷺ کے فیصلہ کے بعد یہ آپؓ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو سیدنا عمر فاروقؓ نے اس کو قتل کر کے فرمایا: جو میرے نبیﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔
کئی مواقع پر حضور نبی کریمﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ سیدنا فاروق اعظمؓ نے دیا، قرآن کریم کی آیات مبارکہ اسی کی تائید میں نازل ہوئیں۔ ازواج مطہراتؓ کے پردے ، قیدیان بدر، مقام ابراہیم پر نماز، حرمت ِشراب، کسی کے گھر میں داخلہ سے پہلے اجازت، تطہیر سیدہ عائشہؓ جیسے اہم معاملات میں سیدنا عمرؓ کی رائے، مشورے اور سوچ کے موافق قرآن کریم کی آیات نازل ہوئیں۔ علماء و فقہاء کے مطابق تقریباً 25 آیات قرآنی ایسی ہیں جو براہ راست فاروق اعظمؓ کی تائید میں نازل ہوئیں۔
جب آپؓ تخت خلافت اسلامیہ پر متمکن ہوئے تو اعلان فرما دیا کہ: میری جو بات قابل اعتراض ہو مجھے اس پر سرعام ٹوک دیا جائے۔ ''امیرالمؤمنین'' کا لفظ سب سے پہلے آپؓ ہی کے لیے استعمال ہوا، کیوں کہ آپؓ سے پہلے، خلیفہ اول سیدنا صدیق اکبرؓ کو ''خلیفۃالرسولؐ'' کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ آپؓ اپنی خلافت میں رات کو رعایا کے حالات سے آگاہی کے لیے گشت کیا کرتے تھے۔ اپنے دور خلافت میں اپنے بیٹے عبداﷲ بن عمرؓ کا وظیفہ 3 ہزار مقرر کیا جب کہ حضرت ِحسنؓ و حسینؓ کا 5، 5 ہزار اور سیدنا اسامہ بن زیدؓ کا 4 ہزار وظیفہ مقرر کیا۔
آپؓ نے اپنے حکام کو باریک کپڑا پہننے، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھانے اور دروازے پر دربان رکھنے سے سختی سے منع فرما رکھا تھا۔ مختلف اوقات میں اپنے مقرر کردہ حکام کی جانچ پڑتال بھی کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ملک شام تشریف لے گئے اس وقت حاکم شام سیدنا امیر معاویہؓ تھے جنہوں نے عمدہ لباس پہنا ہوا تھا اور دروازے پر دربان بھی مقرر کیا ہوا تھا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے سیدنا معاویہؓ سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ چوںکہ یہ سرحدی علاقہ ہے اور یہاں دشمن کے جاسوس بہت ہوتے ہیں اس لیے میں نے ایسا کیا تا کہ دشمنوں پر رعب و دبدبہ رہے، جس پر فاروق اعظمؓ نے سکوت فرمایا۔
اپنے دور خلافت میں مصر، ایران، روم اور شام جیسے بڑے ملک فتح کیے۔ 1 ہزار 36 شہر مع ان کے مضافات فتح کیے۔ مفتوحہ جگہ پر فوراً مسجد تعمیر کی جاتی۔ آپؓ کے زمانے میں 4 ہزار مساجد عام نمازوں اور 9 سو مساجد نماز جمعہ کے لیے بنیں۔ قبلۂ اول بیت المقدس بھی دور فاروقی میں بغیر لڑائی کے فتح ہوا۔ سیدنا عمرو بن العاصؓ فاروقی حکم سے جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں کے یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہماری کتابوں کے مطابق فاتح بیت المقدس کا حلیہ آپ جیسا نہیں لہٰذا آپ اسے فتح نہیں کرسکتے۔ چناںچہ سیدنا عمرو بن العاصؓ نے سیدنا عمر فاروقؓ کو خط میں صورت حال لکھ بھیجی اور پھر جناب عمر فاروقؓ کی بیت المقدس آمد پر چابیاں آپؓ کے حوالہ کی گئیں کیوںکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے آپؓ کا حلیہ مبارک اپنی کتابوں کے مطابق پالیا تھا۔
قرآنی وعدے اور خوش خبریاں آپؓ ہی کے دور خلافت میں پوری ہوئیں۔ فاروقی دور خلافت 22 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبہ پر محیط تھی۔ پولیس کا محکمہ بھی آپؓ ہی نے قائم فرمایا۔ کئی علاقوں میں قرآن اور دینی مسائل کی تعلیمات کے لیے سیدنا معاذ ؓبن جبل، سیدنا عبادہؓ بن صامت، سیدنا ابیؓ ابن کعب، سیدنا ابوالدرداءؓ، سیدنا سعدؓ اور سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ وغیرہ جیسے اجلّہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کو مقرر فرمایا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ کی حیات مبارکہ پر اگر تفصیلاً تحریر کیا جائے تو کئی کتب کی ضرورت ہے۔
نبی کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق سیدنا عمر فاروقؓ اس امت کے محدث تھے۔ علاوہ ازیں امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ انتہائی معاملہ فہم، دانش مند، زیرک، ذہین اور دور اندیش خلیفہ تھے۔ آپؓ نے مختلف مواقع پر کئی ایسے ارشادات فرمائے جو کہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں انہی ارشادات میں سے چند ایک ملاحظہ فرمائیں۔ اپنے تمام عمال کو یہ فرمان بھیجا '' میرے لیے تمہارے کاموں میں سب سے زیادہ اہتمام کے قابل بات، نماز ہے۔ جس نے نماز کی حفاظت کی اس نے اپنا دین محفوظ کرلیا اور جس نے نماز کو ضائع کر دیا وہ دوسری چیزوں کو بدرجۂ اولیٰ ضائع کر دے گا۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ دعا آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتی ہے یہاں تک کہ نبیﷺ پر درود پڑھا جائے۔ فرمایا کہ سب سے افضل عبادت یہ ہے کہ فرائض ادا کرے اور منہیات سے اجتناب کرے اور اﷲ کے ساتھ اپنی نیت درست رکھے۔
امیرالمؤمین سیدنا عمر فاروقؓ کے عظیم الشان و بے مثال عہد خلافت کا ایک نمایاں اور زریں طریقہ کار یہ تھا کہ آپؓ راتوں کو گلی محلوں میں گشت فرمایا کرتے تھے تاکہ اپنی رعایا کے حالات واقعات اور ضروریات و حاجات و مشکلات وغیرہ سے باخبر رہ سکیں۔ امیرالمؤمنین عمرؓ کے گشت کے دوران کئی ایسے واقعات پیش آئے جن سے آپؓ کی اعلیٰ ظرفی، حکمت و بصیرت اور دانائی و دور اندیشی سمیت آپؓ کے طرز حکم رانی و خلافت کی داد دینی پڑتی ہے۔ انہی گشت کے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ سیدنا عمرفاروق ؓ کی ایک مرتبہ رات کے وقت دوران گشت ایک اعرابی سے ملاقات ہوئی جو اپنے خیمے کے باہر بیٹھا ہوا تھا۔ آپؓ نے اس سے علیک سلیک کے بعد گفت گو شروع فرمائی کہ دفعتاً خیمے کے اندر سے کسی کے رونے کی آواز آئی تو آپؓ کے دریافت کرنے پر اس اعرابی نے بتایا کہ میری بیوی کے دردِ زہ ہے۔
یہ سنتے ہی سیدنا فاروق اعظمؓ اپنے گھر پہنچے اور اپنی اہلیہ کو لے کر اس اعرابی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے اجازت لے کر اہلیہ کو خیمے میں بھیج دیا۔ اور خود اعرابی سے بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ اچانک خیمے سے اہلیہ نے پکار کر کہا کہ امیرالمؤمنین! اپنے دوست کو لڑکے کی ولادت کی خوش خبری دیں۔ اس اعرابی نے جو ''امیرالمؤمنین'' کا لفظ سنا تو کانپ گیا اور جلدی سے باادب ہوگیا اور معذرت کرنے لگا تو آپؓ نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، صبح کو میرے پاس آنا اور پھر آپؓ نے اس کے بچے کا وظیفہ مقرر فرما کر اسے کچھ مرحمت فرمایا۔
الغرض آپؓ کا دور خلافت بہت مبارک اور اشاعت و اظہار اسلام کا باعث تھا۔ خلافت راشدہ میں سیدنا فاروق اعظم ؓ کے دور خلافت کو ایک نمایاں و ممتاز مقام حاصل ہے۔ 27 ذی الحجہ ایرانی مجوسی ابو لؤلؤ فیروز نے نماز فجر کی ادائیگی کے دوران سیدنا عمرؓ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا اور یکم محرم الحرام اسلام کا یہ بطل جلیل، نبی ﷺ کی دعا، اسلامی خلافت کا تاج دار، 63 سال کی عمر میں شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوا۔ آپؓ کی نماز جنازہ سیدنا صہیب رومیؓ نے پڑھائی۔ روضۂ نبوی میں نبی مکرم ﷺ اور خلیفۂ رسول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی قبور اطہار کے ساتھ سیدنا عمرفاروقؓ کی قبر مبارک بنائی گئی اور وہیں مدفون ہوئے۔ اﷲ پاک اِس عظیم المرتبت شخصیت کی قبر مبارک پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، آمین۔
امام عدل و حریت، پیکر شجاعت سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ
امام عدل و حریت، مرادِ مصطفیٰﷺ، خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لیے خدمات، جرأت و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شان دار کردار و کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔ آپ ؓ کا سنہرا دورِ خلافت مسلمانوں کی بے مثال فتوحات و ترقی اور عروج کا زمانہ تھا مسلمان اس قدر خوش حال ہو گئے تھے کہ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے مستحق کو تلاش کرتے تھے لیکن ان کو زکوٰۃ لینے والا مشکل سے ملتا تھا۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کو حضورﷺ نے بارگاہ خداوندی سے مانگا تھا اسی وجہ سے آپ کو ''مرادِ مصطفیٰؐ'' کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ آپؓ عشرہ مبشرہ ان خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں جن کو دنیا میں ہی حضورﷺ نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔ آپ ؓ کی تائید میں بہت سی قرآنی آیات نازل ہوئیں اور آپ کی شان میں چالیس کے قریب احادیث نبویﷺ موجود ہیں اور آپؓ کی صاحبزادی حضرت سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنھا کو حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ اور مسلمانوں کی ماں (ام المؤمنین) ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کا مسلمان ہوجانا فتح اسلام تھا اور ان کی ہجرت ''نصرت الٰہی'' تھی اور ان کی خلافت اﷲ تعالیٰ کی رحمت تھی۔
ایک روز رحمت دو عالم ﷺ گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپ ﷺ کے ہم راہ دائیں بائیں ابوبکر ؓ و عمرؓ بھی تھے اور آپ ﷺ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اسی حالت میں آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی)
ایک اور موقعے پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کے دو وزیر آسمان والوں میں سے ہوتے ہیں اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں میرے دو وزیر آسمان والوں میں سے جبرائیلؑ اور میکائیل ؑ ہیں اور زمین والوں میں سے دو وزیر ابوبکرؓ و عمرؓ ہیں۔ (ترمذی)
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے تمام غزوات و جنگوں میں حصہ لیا اور کفار کے خلاف شجاعت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔
''بدر کے قیدیوں'' کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کو حضرت عمر فاروقؓ کا مشورہ اس قدر پسند آیا کہ آپؓ کی رائے اور مشورہ کی تائید کی میں ''آیت قرآنی'' نازل ہو گئی۔
آپؓ کا نام عمر ابن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابوحفص ہے۔ آپ ؓ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور ﷺ سے ملتا ہے۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کا رنگ سفید مائل بہ سرخی تھا، رخساروں پر گوشت کم اور قد مبارک دارز تھا۔ جب لوگوں کے درمیان کھڑے ہوتے تو سب سے اونچے نظر آتے۔ ایسا معلوم ہوتا گویا آپؓ سواری پر سوار ہیں۔ آپ ؓ بہت بہادر اور بڑے طاقت ور تھے۔ اسلام لانے سے قبل جیسی شدت کفر میں تھی اسلام لانے کے بعد ویسی شدت اسلام میں بھی ہوئی۔ آپؓ خاندان قریش کے باوجاہت اور شریف ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔
آپؓ کے ایمان لانے کا واقعہ مشہور و معروف ہے اور آپ ؓ کا اسلام لانا حضور ﷺ کی دعاؤں کا ثمر اور معجزہ تھا۔ آپؓ کے اسلام لانے کے اعلان سے صحابہ کرامؓ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور کفار پر رعب پڑگیا۔ آپ ؓ کے اسلام لانے سے حضورﷺ نے بیت اﷲ میں اعلانیہ نماز ادا کی۔ سیدنا حضرت عمرفاروقؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے قبل بیت اﷲ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا کہ میں ہجرت کر کے مدینہ جا رہا ہوں یہ نہ کہنا کہ میں نے چھپ کر ہجرت کی جس نے اپنی بیوی کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کروانا ہو وہ مجھے ہجرت سے روکے۔ لیکن کفار میں سے کسی کو بھی آپؓ کا راستہ روکنے کی ہمت نہ ہوئی۔ آپؓ کے اسلام لانے سے دین اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔
خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کے لیے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے انتخاب کے لیے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ''خفیہ رائے شماری'' کا طریقہ اختیار کیا۔ صحابہ کرامؓ کی ''اعلیٰ مشاورتی کونسل'' اور جلیل القدر صحابہ کرامؓؓ سے مشورہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی جانشینی کا اعلان کیا۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور فرمایا کہ ! اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی جب تم لوگ حضورﷺ اور سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کی نرمی اور مہربانیوں سے فیض یاب تھے۔ میر ی سختی، نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی، اب میں تم پر سختی نہیں کروں گا، اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔
خلیفۃ المسلمین بننے کے بعد آپ ؓ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے جس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ پاؤں رکھتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں تو فرمایا! میرے لیے یہ کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبرؓ کے پاؤں رہتے ہوں۔ آپؓ کے زہد و تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا جو آپؓ کی ضرور ت کے لیے بہت کم تھا اور کئی مرتبہ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے کے لیتے وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔
حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے لباس میں سترہ پیوند شمار کیے۔ خشیتِ الٰہی کی یہ حالت تھی کہ نماز میں آیت قیامت و آخرت کے ذکر پر بے ہوش ہو جاتے، صدقات بہت کثرت سے دیا کرتے تھے، آخری عمر میں ہمیشہ روزہ سے رہتے تھے سوائے ایام ممنوعہ کے۔ اپنی رعایا کی خبرگیری کے لیے راتوں کو گشت کیا کرتے، جو صحابہ کرامؓ جہاد پر گئے ہوتے ان کے گھروں کی ضروریات کا خیال رکھتے، بازار سے سامان وغیرہ خود خریدتے اور ان کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔
سیدنا حضرت عمر فاروق ؓجب کسی صوبے یا علاقے میں کسی کو گورنر مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت، لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور پھر اس کو مقرر کرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرتے اور رعایا کو حکم تھا کہ میرے حکام سے کسی کو بھی کوئی شکایت و تکلیف پہنچے تو وہ بے خوف و خطر مجھے اطلاع دیں۔
حضرت عمر فاروقؓ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کا بہت خیال رکھتے اور ان کی شکایات کو ہرممکن دور کرنے کی کوشش کرتے۔ آپؓ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ہوئے احکامات جاری کرتے۔ سفر میں راہ چلتے لوگوں سے مسائل و حالات پوچھتے، دور دراز علاقوں کے لوگ وفود کی صورت میں حاضر ہو کر اپنے مسائل سے آگاہ کرتے اور بعض مرتبہ آپؓ مختلف علاقوں کا خود دورہ کرکے لوگوں کے مسائل و شکایات کو دور کرتے۔
آپؓ کے دورِ خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900 جامع مسجدیں اور 4000 عام مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں خزانے کا محکمہ قائم کیا۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔ جیل خانے اور پولیس کا محکمہ بھی قائم کیا، فوجی دفتر ترتیب دیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کرائے، ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا، پرچہ نویس مقرر کیے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔ مکاتب و مدارس قائم کیے، معلمین اور اساتذہ کے مشاہرے مقرر کیے، مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے ''روزینے'' بھی آپؓ نے ہی مقرر کیے۔ نماز تراویح جماعت سے قائم کی۔ شراب کی حد کے لیے 80 کوڑے مقرر کیے ، وقف کا طریقہ ایجاد کیا، اماموں اور مؤذنوں کی تن خواہیں مقرر کیں اور مساجد میں روشنی کا انتظام کیا۔ عوام کے لیے فلاحی و اصلاحی احکامات آپ ؓ نے جاری کیے۔
علامہ شبلی نعمانیؒ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی سوانح عمری ''الفاروقؓ'' میں لکھتے ہیں کہ! تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکم ران دکھا سکتے ہو؟
جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیص میں دس دس پیوند لگے ہوں، کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر آتا ہو، فرش خاک پر سو جاتا ہو، بازاروں میں پھرتا ہو، جہاں جاتا ہو جریدہ و تنہا جاتا ہو، اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو، دور دربار، نقیب و چاؤش، حشم و خدم کے نام سے آشنا نہ ہو، اور پھر یہ رعب و ادب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو، سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا، عمر فاروقؓ کے ''سفر شام'' میں سواری کے اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا چاروں طرف (شور) غل پڑا تھا کہ ''مرکز عالم'' جنبش میں آگیا ہے۔
تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے والے امیر المومنین فاروق اعظمؓ
دنیا میں ایسی ہستیاں بھی گزری ہیں، جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔ ان ہی اولوالعزم ہستیوں میں حضرت عمرفاروق اعظمؓ کا نام سرفہرست ہے۔
آقائے دوجہاں ﷺ نے غلافِ کعبہ پکڑ کر دعا مانگی تھی کہ اے اﷲ عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام (ابوجہل) سے اسلام کو قوت عطا فرما۔ چناںچہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمرؓ کی بدولت اسلام کو بے پناہ قوت حاصل ہوئی۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد حضرت عمرفاروقؓ کی درخواست پر رسول اﷲ ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں نے جن کی تعداد اس وقت تک چالیس ہوگئی تھی، مشرکین مکہ کے مظالم کی پروا نہ کرتے ہوئے بیت اﷲ شریف میں اعلانیہ نماز ادا کی۔
مکہ مکرمہ کے آزمائشوں اور سختیوں سے بھرے دور میں اور پھر ہجرت مدینہ کے بعد تمام غزوات میں آقائے دوجہاں ﷺ کے شانہ بشانہ رہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کی بدولت اسلام کو نہ صرف قوت و شوکت ملی، بلکہ بہت سے اسلامی احکام آپؓ کی تجویز پر نازل ہوئے۔ حضرت شاہ ولی اﷲ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی ستائیس آیات مبارکہ حضرت عمر فاروقؓ کی رائے پر نازل ہوئیں۔ اذان دینے کا سلسلہ حضر ت عمرؓ کی رائے سے شروع ہوا۔ آپؓ کی شان اقدس میں چالیس سے زیادہ احادیث رسول ﷺ موجود ہیں۔
حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا کہ اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو عمرؓ نبی ہوتے۔ ارشادِ نبویﷺ ہے: اے عمر ؓ جس راستے پر آپ چل رہے ہوں گے، اُس پر تمھیں شیطان چلتا ہوا کبھی نہیں ملے گا وہ مجبور ہوگا کہ اپنا راستہ بدل کر دوسرا راستہ اختیار کرے۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ اہل جنت میں سے ایک اور شخص ابھی ہمارے پاس آنے والا ہے۔ صحابہ کرامؓ نے دیکھا تو آپؐ کے فرمانے کے بعد حضرت عمر فاروقؓ تشریف لائے۔ تاج دار مدینہ ؐ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ جناتی اور انسانی شیطان عمرؓ سے بھاگتے ہیں۔
ایک مرتبہ سرکار دوعالمﷺ جبل احد پر تشریف لے گئے اس موقع پر پہاڑ میں کچھ حرکت سی پیدا ہوئی تو حضور ؐ نے فرمایا کہ اے احد ٹھہر جا اس وقت تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ حضور اکرمﷺ ایک اور موقع پر ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جنّت میں داخل ہوا اور وہاں ایک محل دیکھا اُس محل کی خوب صورتی کی وجہ سے پوچھا کہ یہ عالی شان محل کس کا ہے تو جواب ملا کہ عمر بن خطابؓ کا۔ حضرت عمر فاروقؓ کو رسول اﷲ ﷺ کے خسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
حضور اکرمﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفۃ المسلمین بنے تو حضرت عمر فاروق اعظم ؓ اسی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ اسلام کی خدمت انجام دیتے رہے اور اپنی بصیرت اور فراست کی بنا پر کئی نازک مواقع پر امت مسلمہ کے اتحاد کو نہ صرف برقرار رکھا، بلکہ اس میں نمایاں اضافہ بھی کیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے آخری وقت میں بعض صحابہؓ کے مشورے سے حضرت عمر ؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ حضرت عمرفاروقؓ کا عہد حکومت اسلامی تاریخ کا زریں باب ہے۔ جس میں عدل و انصاف، رعایا پروری، خداترسی اور خوش حالی کا دور دورہ تھا۔
سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے لباس پر پیوند لگے ہوتے تھے۔ مگر انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں کسریٰ کی پُرشوکت سلطنت اور قیصر کی باجبروت بادشاہت کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا۔ عالمی تاریخ کے دھارے کے رخ کو موڑ دینے والے امیرالمومنین حضرت عمرؓ تھے، جنہوں نے شہنشاہوں کے تاج ہاتھ بڑھا کر اُن کے پُرغرور سروں سے کھینچ کر مسل ڈالے۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں ایران، روم، شام، عراق، ترکستان اور مصر سمیت تین ہزار چھ سو سے زاید علاقے فتح ہوئے اور ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست بائیس لاکھ مربع میل تک پھیل گئی۔
جس بے پناہ قابلیت کے ساتھ فاروق اعظم ؓ نے حکومت کی اور جس اعلیٰ لیاقت کے ساتھ مفتوحہ ملکوں کا انتظام کیا، جس بے نظیر تدّبر کے ساتھ آپؓ نے مختلف دفاتر اور محکمے، جیل خانے، ڈاک کا نظام، باقاعدہ فوج اور فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ جس رواداری کے ساتھ آپؓ نے غیرمسلم رعایا سے سلوک کیا۔ جس بہادری کے ساتھ آپؓ نے ایرانی شوکت، رومی طاقت اور مصری بادشاہت کا مقابلہ کیا، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
آج تک دنیا کے کسی مدبر سے مدبر حکم ران نے بھی ایسی خوبی و حکمت سے حکومت نہیں کی جیسی حضرت عمر ؓ نے کی اور اس وقت تک اس قسم کے عدل و انصاف والا ایک بھی حکم ران نہیں گزرا، جیسے حضرت عمر بن خطابؓ تھے۔ حتیٰ کہ عدل فاروقی ایک تاریخی مثال بن گیا۔ حضرت عمر فاروقؓ کا مشہور قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مرگیا تو عمر سے پوچھا جائے گا۔
ستائیس ذی الحجہ کو امیرالمومنین حضرت عمرفاروقؓ مسجد نبویﷺ میں فجر کی نماز کی امامت کررہے تھے کہ ایک بدبخت مجوسی ابولولو فیروز نے زہرآلود خنجر سے آپؓ پر وار کئے اور آپؓ زخمی ہوکر گرپڑے ۔ تین روز مو ت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد یکم محرم الحرام سن 24 ہجری کو اسلام کا یہ بطل جلیل اور تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے والا عظیم انسان اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ انہوں نے دس سال چھ ماہ تک حکومت کی۔
انہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرے میں آقائے دوجہاںﷺ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ آج بھی اہل ایمان جب حج یا عمرے کی سعادت کے لیے ارضِ مقدس جاتے ہیں اور روضۂ رسول ﷺ پر حاضری دیتے ہیں تو ان کے پہلو میں ان کے دو قریبی ساتھیوں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کو بھی سلام پیش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔
کثیر الجہت شخصیت حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ
ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کا گذر '' بقیع الغرقد '' نامی ایک قبرستان سے ہوا۔ حضرت عمر ؓ نے وہاں کچھ یوں فرمایا : '' السلام علیکم! اے قبرستان والو! ہمارے ہاں کی خبریں تو یہ ہیں کہ تمہاری عورتوں نے دوسری شادی کرلی، تمہارے گھروں میں دوسرے لوگ آبسے ہیں، اور تمہارا سارا مال تقسیم ہوچکا ۔ غیب سے آواز آئی: ''ہمارے ہاں کی خبریں یہ ہیں کہ ہم نے جو نیک اعمال آگے بھیجے ان کا اجر و ثواب ہم نے پالیا، اور جو مال ہم نے اﷲ کی خاطر دوسروں پر خرچ کیا، اس کا نفع ہمیں یہاں مل گیا ہے اور جو مال ہم پیچھے چھوڑ آئے، اس کا ہمیں نقصان ہوا ''
حضرت عمر ؓ کے متعلق جتنا پڑھتے جائیں ایک بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ وہ نہ صرف دنیاوی اعتبار سے بلکہ روحانی اعتبار سے بھی انتہائی حقیقت پسند انسان تھے اور صاف نظر آتا ہے کہ ان کے آخرت پر یقین و ایمان کا ان کی دنیاوی زندگی پر اس قدر زبردست اثر تھا کہ اس مادی دنیا میں ہوتے ہوئے گویا وہ آخرت میں اﷲ تعالیٰ کے سامنے زندگی کے امور سر انجام دے رہے ہیں۔ قبرستان سے متعلق ان کا یہ واقعہ اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
ایک میرا اور آپ کا طرز ِ زندگی ہے کہ ہمارے معاشرتی تعلقات کی بنیاد ہی روپے پیسے کی فراہمی یا دست یابی یا دیگر مفادات ہیں۔ ہم لوگ آخرت میں تو کیا زندہ ہوں گے، اس دنیا میں بھی زندہ نہیں ہیں، بلکہ صرف اپنی ذات میں مٹی ہو چکے ہیں۔
حضرت ابو عبیدہ ابن جراح ؓ ملک ِ شام میں تھے۔ حضرت عمر ؓ ان کے پاس وہاں تشریف لے گئے۔ یاد رہے کہ وہ وہاں سیر و سیاحت کے لیے نہیں جایا کرتے تھے بلکہ لوگوں کے حالات کی جان کاری مقصد ہوا کرتی تھی۔ شہر کے گشت کے لیے نکلے تو حضرت عمر ؓ کے ساتھ دیگر اصحاب ؓ بھی ہم راہ تھے۔ چلتے چلتے پانی کا ایک گھاٹ سامنے آگیا۔ حضرت عمر ؓ اونٹنی پر سوار تھے۔ آپ ؓ اونٹنی سے نیچے اترے اور موزے اتار کر اپنے کندھے پر رکھ لیے اور اونٹنی کی نکیل پکڑ کر گھاٹ میں سے گذرنے لگے۔ حضرت عبیدہ ؓ نے صورت حال دیکھی تو عرض کی '' اے امیر المومنین! یہ آپ کیا کررہے ہیں کہ موزے اتار کر کندھے پر رکھ لیے ہیں اور اونٹنی کی نکیل خود ہاتھ میں تھام لی ہے اور گھاٹ میں سے نکل رہے ہیں! مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہ ہوگی کہ اس شہر والے آپ ؓ کو اس حالت میں دیکھیں! ''
حضرت عمر ؓ نے ان کی یہ بات سن کر فرمایا :'' افسوس اے عبیدہ! اگر آپ کے علاوہ کوئی اور یہ بات کہتا تو میں اسے ایسی سخت سزا دتیا کہ جس سے حضرت محمد ﷺ کی ساری امت کو عبرت ہوتی۔ ہم تو سب سے زیادہ ذلیل قوم تھے، اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت عطا فرمائی۔ اب جس اسلام کے ذریعے اﷲ نے ہمیں عزت عطا فرمائی ہے ہم جب بھی اس کے علاوہ کسی اور چیز سے عزت حاصل کرنی چاہیں گے، تو اﷲ ہمیں ذلیل کر دیں گے''
حضرت عمر ؓ کا کندھے پر موزے رکھنا اور اونٹنی کی نکیل کا پکڑنا دراصل اپنے نفس کو غرور اور تکبر سے دور رکھنے کے لیے ان کا ایک ذاتی صوفیانہ اور درویشانہ عمل تھا۔ جب حضرت محمد ﷺ فتح مکہ کے موقع پر اپنے ہزاروں جان نثاروں کے ہم راہ مکہ شہر میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ کا سر مبارک مارے عجز کے اونٹنی کے کوہان سے ٹکرا رہا تھا۔ حضرت عمر ؓ بارگاہ ِ رسالت ﷺ میں عجز و انکساری کا یہ بے مثال نمونہ دیکھ چکے تھے۔
افسوس کہ ہم نے اپنے معتبر اسلاف کے اعمال کی حقیقت کو جاننے کوئی شعوری کوشش ہی نہیں کی۔
حضرت عمر ؓ شہر کے گشت کے لیے نکلے تو کوئی سڑک بلاک نہیں کی گئی، کہیں کوئی ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اہل کار تعینات کرکے لوگوں کی زندگی کو مزید برباد نہیں کیا گیا۔ کیا ہمارے آج کل کے پروٹوکول کے مارے، غرور اور تکبر میں لت پت ان ''بادشاہوں'' اور ان ہی کی طرح کے سرکاری اہل کاروں نے حضرت عمر ؓ کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ جب حضرت عمر ؓ احساس ِ ذمے داری کے پیش ِ نظر فرمایا کرتے تھے کہ اگر دریا کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرا تو ذمے دار عمر ہو گا۔ اے کاش یہی احساس ِ ذ مے داری ہمیں اور ہمارے حکم رانوں کو بھی نصیب ہوجائے۔ آمین
حضرت عمر ؓ مکہ سے دور ایک میدان میں پہنچنے پر رو پڑے اور کہا کہ: ''اﷲ اکبر، ایک وہ وقت تھا کہ یہاں نمدے کا کرتا پہنے تھک ہار کر بیٹھ جایا کرتا اور باپ سے مار کھایا کرتا تھا مگر اب میرے اوپر خدا کے سوا کوئی حکم ران نہیں'' حضرت عمر ؓ نے مسلمانوں کی بہتری کے لیے جو کیا وہ تو خیر ایک حقیقت ہے ہی لیکن آپ ؓ نے مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے بھی وظائف مقرر کیے۔ نہریں کھدوائیں، مردم شماری، محکمہ پولیس، جیل خانوں کا قیام، مسافروں کے لیے سرائے اور بے آسرا بچوں کی کفالت کے لیے وظائف، آپ ؓ کے بڑے کارناموں میں سے چند ایک ہیں۔ ہمیں اور ہمارے حکم رانوں کو سیرت حضرت عمر فاروقؓ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔