جوہر بارو جونیئر ہاکی ٹورنامنٹ بہتر مستقبل کی امیدیں دم توڑنے لگیں

جونیئرز کی کارکردگی کھیل کے تاریک مستقبل کی خبر دے رہی ہے

جونیئرز کی کارکردگی کھیل کے تاریک مستقبل کی خبر دے رہی ہے۔ فوٹو: فائل

چوتھے سلطان آف جوہربارو جونیئر انڈر 21 ہاکی ٹورنامنٹ کے لیے کوچز کی بھاری بھرکم فوج کی رہنمائی میں تیاریوں کا آغاز ہوا تو ہیڈکوچ اور منیجر منظور الحسن، اسسٹنٹ کوچز قمر ابراہیم، عرفان سینئر، کامران اشرف اور ریحان بٹ کا کہنا تھا کہ ورلڈ کپ 2016ء کے پیش نظر انڈر 19 کھلاڑیوں کو ملائشیا میں شیڈول ایونٹ میں شرکت کا موقع دے رہے ہیں۔

اچھے کھلاڑیوں کا پول تیار کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، بہترین دستیاب پلیئرز کے انتخاب کا دعویٰ کرتے ہوئے تربیتی کیمپ کا پہلا مرحلہ کراچی میں مکمل کیا گیا، حتمی تیاریوں کے لیے پاکستان سپورٹس کمپلیکس کے نصیر بندہ سٹیڈیم میں ڈیرے لگائے گئے جہاں پر ناکافی سہولیات اور انتہائی ناقص آسٹرو ٹرف نے کھلاڑیوں کا استقبال کیا، گرین شرٹس لاہور میں مختصر قیام کے بعد ملائشیا روانہ ہوئے تو کسی غیر معمولی کارکردگی کی توقعات نہیں تھیں لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شکستوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوگا جو رکنے کا نام نہیں لے گا۔

پہلے ہی مقابلے میں انگلینڈ نے تمام شعبوں میں آؤٹ کلاس کرتے ہوئے 5-0 سے زیر کرلیا، کسی حکمت عملی کے بغیر کھیلنے والی ٹیم کے خلاف لیوک ٹیلر نے ہیٹ ٹرک مکمل کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، پاکستان کے فارورڈز نے پہلے ہاف میں تھوڑا دم خم دکھاتے ہوئے 3 پنالٹی کارنر حاصل کیے لیکن بیکار گئے۔ دوسرے میچ میں آسٹریلیا کے خلاف گرین شرٹس نے قدرے بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا اور دوسرے ہاف میں برتری ضرور حاصل کی لیکن سٹیمنا کی کمی کا شکار کھلاڑیوں نے حریف کو حاوی ہونے کا موقع فراہم کردیا۔ پے در پے حملوں کے بعد مقابلہ 1-1 سے برابر ہوگیا۔

گول کیپر محمد خالد بہتر کھیل کا مظاہرہ نہ کرتے تو آسٹریلوی ٹیم فتح یاب ہوکر میدان سے بہتر نکلتی۔ اگلے معرکے میں روایتی حریف بھارت نے گرین شرٹس کو دن میں تارے دکھاتے ہوئے پہلے ہاف میں 2 دوسرے میں 4 گول داغ دیئے، منظور الحسن اور ان کے معاون کوچ ایشیائی ٹیم کے تابڑ توڑ حملوں کو روکنے کیلئے کھلاڑیوں کو کوئی حکمت عملی دینے میں ناکام رہے۔

ٹائٹل کی دوڑ سے یقینی طور پر باہر ہونے کے بعد امید تھی کہ پاکستانی ٹیم کم از کم ایک کمزور حریف نیوزی لینڈ پر ہی غلبہ پانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن اس بار بھی کہانی مختلف نہ ہوئی۔ کیویز نے بھی 3-2 سے ہاتھ صاف کرکے ایونٹ میں پہلی کامیابی حاصل کرلی، گرین شرٹس نے 3 گول کے خسارے میں جانے کے بعد خواب غفلت سے جاگتے ہوئے 2 گول کیے لیکن فتح کی روٹھی دیوی کو منانے میں ناکام رہے۔


کمزوروں کی جنگ میں پاکستان اور ملائشیا کا مقابلہ برابر رہا، اس میچ میں بھی گرین شرٹس نے برتری حاصل کرنے کے بعد گنوائی، پھر سکور 1-2 ہوجانے پر بمشکل خسارہ ختم کیا، یوں لیگ مرحلے میں پاکستان کا سفر بغیر کسی فتح کے اختتام کو پہنچا، ناقص ترین کارکردگی کے بعد اگلے میچ میں آخری پوزیشن کی شرمندگی سے بچنے کا چیلنج درپیش تھا جس میں ناکامی ہوئی، ملائشیا نے تو لیگ میچ کی خامیوں پر قابو پاتے ہوئے بہتر کھیل پیش کرکے 3-1 سے کامیابی حاصل کی جبکہ گرین شرٹس کی کمزوریاں مزید نمایاں ہوگئیں۔

ایشین گیمز میں قومی ہاکی ٹیم نے جو تیر مارا اس پر بے جا فخر کرنے والوں کی کمی نہیں، کارکردگی بہتر ہونے کا راگ اب بھی الاپا جارہا ہے، پاکستان ہاکی فیڈریشن سے باہر بیٹھ کر تنقید کرنے والے کئی سابق اولپمئنز کے منہ پر اب عہدوں کے تالے لگ چکے ہیں، بیشتر کو انتظار ہے کہ حکومت جلد از جلد خزانوں کے منہ کھول کر گرانٹ جاری کردے حالانکہ ناقص پالیسیوں کے سبب گزشتہ کروڑوں کی گرانٹ کے مزے لینے کے باوجود ہم تاریخ میں پہلی بار ورلڈ کپ میں شرکت کا حق بھی گنوا بیٹھے،ایشین گیمز کی صورت میں واحد ٹائٹل بھی ہاتھ سے نکل چکا، ثابت یہ کیا جارہا ہے کہ ریو اولمپکس 2016 میں شرکت کا پروانہ مالی گرانٹ کے جہاز پر بیٹھتے ہی تلاش کرلیا جائے گا۔

جونیئرز کی کارکردگی کھیل کے تاریک مستقبل کی خبر دے رہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں کھلاڑیوں کو دستیاب سہولیات کا معیار یورپی ملکوں جیسا نہیں، کھیل میں سرمایہ کاری کا رجحان بھی کم ہے، تاہم بلندبانگ دعوؤں کے ساتھ کام کرنے والی فوج ظفر موج بہتری کے کچھ ایسے آثار تو نمایاں کرے کہ لوگ ان کی مزید حوصلہ افزائی کے لیے آگے آئیں، سکول کالج سطح کی ٹیمیں ختم ہوچکیں، کلب سطح پر کھلاڑی سامنے آئیں بھی تو مینجمنٹ اور کوچز کی اقربا پروری ان کے راستے روکتی ہے، ٹیمیں بن جائیں تو کئی من پسند کھلاڑی ہر میچ کھیلتے اور دوسرے بنچوں پر بیٹھے ہیں، ملکی سطح کے مقابلے کا معیار بلند کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، سلسلہ کئی سال سے اسی انداز میں چلتا آرہا ہے۔

کبھی عہدیدار تو کبھی ان کے عہدوں کی نوعیت بدلتی ہے، فیڈریشن کے اندرموجود لوگ فنڈز کی کمی، باہر بیٹھے ناقص پالیسیوں کا شور مچاتے ہیں۔ معاملات غیر پیشہ وارانہ انداز میں چلائے جانے کی وجہ سے کھلاڑیوں کو ہاکی کی طرف آنے کی ترغیب ملتی ہے نہ ہی ان کو اس کھیل میں اپنا مستقبل محفوظ نظر آتا ہے۔ کرکٹ میں چند فرسٹ کلاس میچ کھیلنے والا بھی انگلش لیگ کا حصہ بن کر لاکھوں کماتا ہے، قومی ٹیم میں شمولیت کا موقع مل جائے تو وارے نیارے، ہاکی والوں کو یومیہ الاؤنس کی ''دولت'' سے نوازا جاتا ہے۔ ملائشین لیگ کھیل کر مالی آسودگی کے مواقع سے دی ایچ ایف کسی عجیب و غریب پالیسی محروم کردیتی ہے۔

اس صورت حال سے کھلاڑی بد دل ہوتے جائیں گے، حکومت چند افراد کے ہاتھوں میں وسائل دینے کے بجائے ہاکی کو پروفیشنل بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے کام کرے،کھلاڑیوں سے نوکریوں کے جھوٹے وعدے کرنے کے بجائے محکموں کو ٹیمیں بنانے کا پابند کیا جائے، میرٹ پر پلیئرز کا انتخاب کرتے ہوئے اچھے عہدے دیئے جائیں، ملکی سطح کے مقابلوں میں شرکت کرنے والوں کو معقول معاوضے کی روایت ڈالی جائے،اچھی کارکردگی پر انعامات کا سلسلہ شروع کیا جائے، مستقبل کا تحفظ اور عزت کا احساس دلائے بغیر نوجوانوں کو قومی کھیل کی طرف راغب کرنا مشکل ہو گا، گنے چنے کھلاڑیوں کو بار بار آزما کر بہتر نتائج کی توقع فضول ہوگی۔

abbas.raza@express.com.pk
Load Next Story