مستقبل کے معمار آج اور کل

بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن جو قوم بچوں کو برائی اور...

shehla_ajaz@yahoo.com

بچّے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں لیکن جو قوم اپنے ہی بچوں کو برائی اور اچھائی میں فرق نہ سمجھا سکے، اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ٹی وی پر کسی نیوز چینل سے سنا کہ آزاد کشمیر میں شادی کی تقریب سے گیارہ سالہ بچّے کو پولیس نے پکڑا، جس پر چوری کا الزام تھا، بچّے کا کہنا تھا کہ وہ اس شادی کی تقریب میں اپنے دوست اور اس کی فیملی کے ساتھ آیا تھا، لیکن وہ لوگ اسے چھوڑ کر چلے گئے اور بچّہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ پولیس بچّے سے چوری کا مال تو برآمد نہ کرا سکی، لیکن پھر بھی بچّے کو حراست میں لے لیا گیا، بعد میں بے چارے پولیس والوں کو نوکری سے برخاست کردیا گیا۔

پولیس جو ہمیشہ سے بدنام ہے، ہمیشہ غلط نہیں کرتی۔ ہماری ایک عزیز کی وفات کے بعد ان کی بیٹی کی شادی جلد کر دی گئی، کزن کی شادی پر اس کے ننھیال والے جو زیادہ تر امریکا سے آئے ہوئے تھے، شادی کی تمام تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے تھے۔ مہندی کی تقریب ایک شادی ہال میں رکھی گئی تھی، لیکن کسی کو بھی اندازہ نہ تھا کہ اس تقریب میں ایسا ہوگا جو خاندان کے بیچ بدگمانیاں پیدا کردے گا۔ دولہا والے مہندی لے کر آچکے تھے۔ اتفاق سے وہ بھی رشتے دار ہی تھے۔ دلہن کے ماموں گانا بجانے میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے تھے، شادی کے اخراجات میں انھوں نے ہال والے کو ایڈوانس رقم دے دی اور اب بقایا رقم کی ادائیگی کرنا تھی۔ منیجر کا بلاوا آیا اور انھوں نے فوراً بقایا رقم کی ادائیگی کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پھر دیوانہ وار وہ اپنی جیب کھنگالتے گئے۔

آج صبح ہی انھوں نے ڈالروں کو روپوں میں تبدیل کروایا تھا، لہٰذا پیسوں کی گنتی میں غلطی کی گنجایش نہ تھی، ہال میں کھلبلی سی مچ گئی، ایک لاکھ روپوں میں سے صرف دو ہزار روپے انھوں نے کسی کو کام سے دیے تھے، پورے 98 ہزار جیب سے غائب تھے۔ ایک ٹینشن ماحول میں پھیل گئی۔ کھانے کا وقت طویل تر ہوگیا، لیکن مسئلہ ایسا تھا کہ ابہام پیدا ہورہا تھا۔ سب نے بہت غور و فکر کیا، لیکن بے سود، پولیس آئی اور اپنے طور پر ہال کے منیجر اور اس کے ملازمین سے پوچھ گچھ کی، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ بہت دماغ لگایا تو ایک بچّی جس کے کپڑوں سے اس کی کمزور معاشی حالت کا اندازہ ہو رہا تھا، سب کو یاد آئی، سر پر اسکارف ڈالے اس بچّی کو اکثر نے کسی خاتون کے ساتھ آئی ملازمہ سمجھا۔ نہ جانے کب، کیسے وہ دولہا والوں کے ساتھ بھیڑ کی سی صورت میں داخل ہوئی، اس پر اس وقت توجہ نہ دی گئی

لیکن اس شکل سے نہایت معصوم نظر آنے والی گیارہ بارہ سال کی بچّی کی گمشدگی کو پیسوں کے غائب ہو جانے کے بعد سب نے محسوس کیا، نہ صرف یہ بلکہ اس کی ویڈیو کو بھی جو کسی مہمان نے اپنے موبائل فون سے بنائی تھی محفوظ کرلیا گیا، پولیس نے بھی اس کی تصویر دیکھی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا، سوائے اس کے کہ خاندان پر مزید شادی کے اخراجات کے 98 ہزار کا بوجھ اور پڑ گیا، باتیں بنانے والوں نے بہت باتیں بھی بنائیں، اس شادی کے بعد اسی طرح کے حادثات، شادی کی تقریبات میں بہت سننے کو ملے، خواتین کے پرس، جیولری، گفٹس وغیرہ بھی پراسرار انداز میں غائب ہونے کی وارداتیں سامنے آئیں، یہاں تک کہ کسی سے دلہن کے زیورات جو رخصتی سے پہلے احتیاط کی وجہ سے اتار کر بڑی حفاظت سے رکھے گئے تھے، پراسرار انداز میں غائب ہونے کا وقوعہ سنا گیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کچھ مخصوص علاقوں کے شادی ہالز میں یہ وارداتیں کی جا رہی ہوں اور اکثر نے اجنبی بچوں کی موجودگی اور پھر ان کے رفوچکر ہونے کی شکایت کی لیکن پولیس ایسے کسی گروہ کو نہ پکڑ سکی۔ ابھی چند برس پہلے دس برس سے 22، 23 سال کے بنگالی بچوں کا گروپ بہت فعال دیکھا گیا۔


یہ گروپ چھوٹے بچّوں کو مہارت سے کھیل کود کے بہانے چیکنگ کی غرض سے چھوڑ دیتا تھا۔ یہ بچّے جو بظاہر کھیل کود میں مگن نظر آتے ہیں لیکن دراصل ان کا ذہن کہیں اور چل رہا ہوتا ہے، اس گروپ کی کارروائی ہماری ایک واقف کار نے اپنی نگاہوں سے دیکھی، جن کے پڑوسی طویل عرصے سے اپنا گھر لاک کر کے امریکا میں مقیم تھے۔ گھر کی دیواریں محفوظ اونچی تھیں، آبادی کے بیچ اس گھر میں چوری کا تصور محال تھا۔ لیکن اس گروہ نے جس طرح اس کے لیے ریکی کی، کمال بات ہے دیکھنے والوں نے بتایا کہ گلی کے کونے پر چھوٹے بچّے بظاہر کھیل رہے تھے اور بڑی عمر کے لڑکے مہارت سے پچھلی گلی کے پائپ سے بندر کی طرح چڑھتے گئے اور پہلی منزل سے اندر چھلانگ لگائی۔ شاید انھیں پلمبری کے بھی سارے کام آتے تھے، فرصت سے سب کچھ کھول کھال کے نکالا گیا، جس میں گیس کے چولھے، سنیٹری کا سامان اور وہ سامان جو گھر والوں نے یہ سمجھ کر احتیاط سے رکھا ہوگا کہ جب بھی ملک لوٹا کریں گے،

کام آئے گا، سب برتن اور جو بھی ہاتھ لگا، سب بڑے سفید تھیلے جیسے ہڈی چننے والے اپنی پیٹھ پر اٹھائے پھرتے ہیں، لاد کر چیکنگ کرنے والے بچوں کی مدد سے با آسانی گلی کراس کر گئے۔ وہ بے چاری جو خود اکیلی گھر میں یہ واردات دیکھ رہی تھی، گھبرا کر پولیس کو بھی فون کر ڈالا، 15 سے جواب ملا، آپ اپنے علاقے کے تھانے میں جائیے، مجبوراً پڑوسی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، ویسے بھی دوپہر کو عام طور پر گلی محلے سنسان ہوتے ہیں، لوگ آرام کرتے ہیں، گھر کے مردوں کی غیر موجودگی کا ان لوگوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ خالی گھر جو فروخت کے لیے پڑے ہوتے ہیں، ان کا پسندیدہ واردات کرنے کا مقام ہوتا ہے،

جہاں فراغت سے وہ پائپ سنیٹری کا سامان لاکس وغیرہ نکالتے ہیں۔ یہاں تک کہ اسی محلے میں کسی مذہبی سیاسی جماعت کے ممتاز لیڈر کا پرانا گھر جو فروخت کے لیے خالی پڑا تھا، اس میں بھی اپنی مہارت دِکھا ڈالی اور تو اور اسی لائن میں ایک انگریزی اخبار کے صحافی جو کرایے پر مقیم تھے، ان کی پچھلی گلی کی کھڑکی پر مہارت دِکھائی جا رہی تھی کہ گھر والے چوکنّا ہوگئے اور وارداتیوں نے بھاگنے میں عافیت جانی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ہی علاقے کے گھروں میں یہ وارداتیں جاری تھیں اور پولیس لاعلم ہی رہی۔ یہ گروہ ایسے علاقوں کو نشانہ بناتا ہے جہاں گھر خالی پڑے ہوں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر پرانے علاقوں کے گھر اب اپارٹمنٹس میں تبدیل ہو رہے ہیں اور یہ گروہ ایسے ہی علاقوں کی تلاش میں رہتا ہے۔

آزاد کشمیر میں اس گیارہ سالہ بچّے کے بارے میں جان کر مجھے حیرت نہ ہوئی تھی کہ پولیس نے اسے حراست میں لیا ہے۔ ہوسکتا ہے اس طرح اس گروہ کو پکڑا جا سکتا تھا جو کراچی کے بعد اب دوسرے شہروں میں متحرک ہوچکا ہے، جرم جرم ہوتا ہے لیکن ہمارے تساہلانہ رویے مجرموں کی ایک ایسی پود کو جوان کرنے کے مجرم ہیں جو مستقبل اور حال میں اپنے عمل سے معاشرے میں بدامنی اور ابتری کو جنم دیتے ہیں۔ پھر ہماری اسلامی روایات، اطوار اور قدریں کہاں گئیں۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھول کر اپنے اردگرد دیکھنا ہے۔ ہمارا آج غربت، افلاس، بھوک اور بے تحاشا خواہشات کے انبار میں برباد ہوتا جا رہا ہے تو کیا ہمارا کل محفوظ ہوگا؟
Load Next Story