بلوچستان میں خفیہ ایجنسیوں کا کوئی ڈیتھ اسکواڈ نہیں حکومت اور فوج کا مشترکہ جواب
صدر،وزیراعظم اورتمام جماعتوں کو سیاسی حل کے لیے کام کرناچاہیے،جسٹس افتخارچوہدری
سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی کیس میںاخترمینگل کے بیان پروفاقی وصوبائی حکومتوں سمیت سیکریٹری دفاع،ہوم سیکریٹری بلوچستان اورآئی جی ایف سی نے اپنا مشترکہ تحریر ی جواب جمع کرادیاہے۔
جس میںکہاگیاہے کوئی لاپتہ شخص خفیہ ایجنسیوںکی تحویل میں نہیں،آئی ایس آئی اورایم آئی میں کوئی ڈیتھ اسکواڈہے نہ ہی بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن ہورہاہے جبکہ سپریم کورٹ نے لاپتہ افرادسے متعلق ہفتہ واررپورٹ جمع کرانے اورمشترکہ حکومتی جواب کی نقول تمام فریقین کودینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاہے کہ اب مقدمے کوکیس ٹوکیس دیکھیںگے،صدر،وزیر اعظم، نوازشریف، عمران خان سمیت تمام سیاستدانوںکو سیاسی حل کیلیے کام کرنا ہوگا،کسی کوعدالتی اختیارپر شبہ نہیں ہوناچاہیے، فوج بھی ہماری اپنی ہے، بند گلی میں داخل ہونے سے پہلے بلوچستان کامعاملہ حل کرنا ہے، اپنے دائرہ کار اور اختیارات کا بھرپور استعمال کریں گے۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق چیف جسٹس افتخارچوہدری کی سربراہی میں جسٹس جوادایس خواجہ اورجسٹس خلجی عارف حسین پرمشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت شروع ہوئی توچیف سیکریٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد نے عدالت میں مشترکہ جواب جمع کراتے ہوئے موقف اختیارکیاکہ بلوچستان کے حوالے سے ایک اہم مشترکہ اجلاس ہوا جس میں وزیردفاع،آرمی چیف،اٹارنی جنرل شریک ہوئے، جواب وزیراعظم اور خفیہ اداروں کے سربراہان کی موجودگی میں تیارکیاگیا،مشترکہ حکومتی جواب میں سرداراختر مینگل کی طر ف سے لگائے جانے والے تمام الزامات کی تردیدکرتے ہوئے کہا گیا کہ کوئی لاپتہ شخص خفیہ ایجنسیوںکی تحویل میں نہیں اورنہ ہی آئی ایس آئی اورایم آئی کا کوئی ڈیتھ اسکواڈ موجودہے،بلوچستان میں تمام سیاسی جماعتوں پرسیاسی سرگرمیوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں اورنہ ہی کسی جماعت پر کوئی پابندی ہے۔
اختر مینگل کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات درست نہیں۔بیان میں مزید کہا گیاہے کہ بلوچ لیڈروں کی جانب سے صوبائی خودمختاری کے مطالبے کوآئین میں ترمیم کے ذریعے پوراکیاگیاہے، این ایف سی ایوارڈ اورآغاز حقوق بلوچستان دیا گیا،بلوچوں پر سیاسی بنیادوں پربنائے گئے مقدمات موجودہ حکومت نے ختم کیے جن میں اختر مینگل کے خلاف مقدمات بھی تھے،حکومت کی جانب سے ہمیشہ ایک ہی موقف اختیار کیا گیاہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صرف اور صرف بلوچ لیڈرشپ کے ساتھ بات چیت میں ہی ہے،حکومت اورفوج کی جانب سے مشترکہ بیان میںکہاگیاہے کہ بلوچستان میں کسی قسم کاکوئی فوجی آپریشن نہیںکیاجا رہا،اس حوالے سے سیکریٹری دفاع پہلے ہی حلف نامہ جمع کرا چکے ہیں،آئندہ عام انتخابات کا انعقاد صاف وشفاف بنیادوں پر کیاجا رہا ہے،بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوںکوانتخابات میں حصہ لیناچاہیے۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے مشترکہ حکومتی جواب کی نقول تمام فریقین کوفراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومت اس بارے میںپہلے بھی انکارکرچکی ہے اب ہم اس مقدمے کوکیس ٹو کیس دیکھیںگے،بلوچستان کامسئلہ حل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوںکومل کرکردارادا کرناچاہیے۔چیف جسٹس کامزیدکہناتھاکہ عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق کام کرناہے،کسی کو عدالتی دائرہ کار اوراختیارات پر شبہ نہیں ہوناچاہیے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل عرفان قادرنے بلوچ رہنماسرداراختر مینگل کے بیان کے جواب میں وفاق کاالگ سے بھی جواب جمع کراناچاہاتوچیف جسٹس نے اس کی اجازت نہ دیتے ہوئے کہاکہ چیف سیکریٹری نے جواب جمع کرادیاہے جبکہ اختر مینگل کے بیان پربات نہیں ہوگی۔ان کاکہناتھا کہ بلوچستان کے دردناک واقعات سن کرآنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں،حکمران لوگوںکی آنکھوں میں آنسودیکھیں اوران کے زخموں پرمرہم رکھیں،زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بلوچ رہنما اخترمینگل کی واپسی ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اوریہ ایک بڑا موقع ہے، اس معاملے کوسنجیدگی سے حل کرنا ہوگا، اس کیس میں کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچیںگے۔چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو معا وضہ دیاجارہاہے تو چیف سیکریٹری نے کہا کہ معاوضہ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا معاوضہ انسانی جانوں کانعم البدل نہیں۔
بعد ازاںعدالت نے چیف سیکریٹری بلوچستان، آئی جی ایف سی و دیگرحکام کو ہدایت کی کہ وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد اور امن و امان سے متعلق ہفتہ واررپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ عدالت نے صوبائی رکن اسمبلی صادق عمرانی کی جانب سے صوبے کی صورتحال بہتر کرنے کے بارے میں دی گئی تجاویز کوبھی ریکارڈ کاحصہ بنانے کی اجازت دے دی جبکہ مزید سماعت 8 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے حکومت کی جانب سے الگ بیان میں موقف اختیار کیاکہ اخترمینگل نے عدالت میں ریاست کے خلاف سخت زبان اختیار کی،انھوں نے پاکستان کی سالمیت کیخلاف بات کی، ان کے بیان کوواپس کیاجائے عدالت نے اس بیان کو واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ وفاق اور دیگراداروںکی جانب سے جواب چیف سیکریٹری بلوچستان نے جمع کرا دیاہے۔
این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ صدرآصف زرداری، وزیر اعظم راجا پرویز اشرف،نواز شریف، عمران خان سمیت سب کومسئلہ کے سیاسی حل کیلیے کام کرنا ہوگا، بلوچستان کامطلب پاکستان ہے،ممکن ہے کہ ججز متاثرہ علاقوںکااچانک دورہ کریں، آواران، نوشکی،ڈیری بگٹی جانا چاہتے ہیں، ان علاقوں میں ذاتی طورپرجائیں گے اس پر چیف سیکریٹری کاکہنا تھا کہ آپ کا اپنا صوبہ ہے حالات اتنے بھی خراب نہیں کہ آپ وہاںجا نہ سکیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ قبل اس کے کہ بندگلی میں داخل ہو جائیں، ہمیں معاملہ حل کرناہو گا۔چیف جسٹس نے کہاکہ اپنے دائرہ کاراوراختیارات کابھرپور استعمال کریںگے۔
جس میںکہاگیاہے کوئی لاپتہ شخص خفیہ ایجنسیوںکی تحویل میں نہیں،آئی ایس آئی اورایم آئی میں کوئی ڈیتھ اسکواڈہے نہ ہی بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن ہورہاہے جبکہ سپریم کورٹ نے لاپتہ افرادسے متعلق ہفتہ واررپورٹ جمع کرانے اورمشترکہ حکومتی جواب کی نقول تمام فریقین کودینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاہے کہ اب مقدمے کوکیس ٹوکیس دیکھیںگے،صدر،وزیر اعظم، نوازشریف، عمران خان سمیت تمام سیاستدانوںکو سیاسی حل کیلیے کام کرنا ہوگا،کسی کوعدالتی اختیارپر شبہ نہیں ہوناچاہیے، فوج بھی ہماری اپنی ہے، بند گلی میں داخل ہونے سے پہلے بلوچستان کامعاملہ حل کرنا ہے، اپنے دائرہ کار اور اختیارات کا بھرپور استعمال کریں گے۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق چیف جسٹس افتخارچوہدری کی سربراہی میں جسٹس جوادایس خواجہ اورجسٹس خلجی عارف حسین پرمشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت شروع ہوئی توچیف سیکریٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد نے عدالت میں مشترکہ جواب جمع کراتے ہوئے موقف اختیارکیاکہ بلوچستان کے حوالے سے ایک اہم مشترکہ اجلاس ہوا جس میں وزیردفاع،آرمی چیف،اٹارنی جنرل شریک ہوئے، جواب وزیراعظم اور خفیہ اداروں کے سربراہان کی موجودگی میں تیارکیاگیا،مشترکہ حکومتی جواب میں سرداراختر مینگل کی طر ف سے لگائے جانے والے تمام الزامات کی تردیدکرتے ہوئے کہا گیا کہ کوئی لاپتہ شخص خفیہ ایجنسیوںکی تحویل میں نہیں اورنہ ہی آئی ایس آئی اورایم آئی کا کوئی ڈیتھ اسکواڈ موجودہے،بلوچستان میں تمام سیاسی جماعتوں پرسیاسی سرگرمیوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں اورنہ ہی کسی جماعت پر کوئی پابندی ہے۔
اختر مینگل کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات درست نہیں۔بیان میں مزید کہا گیاہے کہ بلوچ لیڈروں کی جانب سے صوبائی خودمختاری کے مطالبے کوآئین میں ترمیم کے ذریعے پوراکیاگیاہے، این ایف سی ایوارڈ اورآغاز حقوق بلوچستان دیا گیا،بلوچوں پر سیاسی بنیادوں پربنائے گئے مقدمات موجودہ حکومت نے ختم کیے جن میں اختر مینگل کے خلاف مقدمات بھی تھے،حکومت کی جانب سے ہمیشہ ایک ہی موقف اختیار کیا گیاہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل صرف اور صرف بلوچ لیڈرشپ کے ساتھ بات چیت میں ہی ہے،حکومت اورفوج کی جانب سے مشترکہ بیان میںکہاگیاہے کہ بلوچستان میں کسی قسم کاکوئی فوجی آپریشن نہیںکیاجا رہا،اس حوالے سے سیکریٹری دفاع پہلے ہی حلف نامہ جمع کرا چکے ہیں،آئندہ عام انتخابات کا انعقاد صاف وشفاف بنیادوں پر کیاجا رہا ہے،بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوںکوانتخابات میں حصہ لیناچاہیے۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے مشترکہ حکومتی جواب کی نقول تمام فریقین کوفراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حکومت اس بارے میںپہلے بھی انکارکرچکی ہے اب ہم اس مقدمے کوکیس ٹو کیس دیکھیںگے،بلوچستان کامسئلہ حل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوںکومل کرکردارادا کرناچاہیے۔چیف جسٹس کامزیدکہناتھاکہ عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق کام کرناہے،کسی کو عدالتی دائرہ کار اوراختیارات پر شبہ نہیں ہوناچاہیے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل عرفان قادرنے بلوچ رہنماسرداراختر مینگل کے بیان کے جواب میں وفاق کاالگ سے بھی جواب جمع کراناچاہاتوچیف جسٹس نے اس کی اجازت نہ دیتے ہوئے کہاکہ چیف سیکریٹری نے جواب جمع کرادیاہے جبکہ اختر مینگل کے بیان پربات نہیں ہوگی۔ان کاکہناتھا کہ بلوچستان کے دردناک واقعات سن کرآنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں،حکمران لوگوںکی آنکھوں میں آنسودیکھیں اوران کے زخموں پرمرہم رکھیں،زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بلوچ رہنما اخترمینگل کی واپسی ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اوریہ ایک بڑا موقع ہے، اس معاملے کوسنجیدگی سے حل کرنا ہوگا، اس کیس میں کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچیںگے۔چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو معا وضہ دیاجارہاہے تو چیف سیکریٹری نے کہا کہ معاوضہ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا معاوضہ انسانی جانوں کانعم البدل نہیں۔
بعد ازاںعدالت نے چیف سیکریٹری بلوچستان، آئی جی ایف سی و دیگرحکام کو ہدایت کی کہ وہ بلوچستان کے لاپتہ افراد اور امن و امان سے متعلق ہفتہ واررپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ عدالت نے صوبائی رکن اسمبلی صادق عمرانی کی جانب سے صوبے کی صورتحال بہتر کرنے کے بارے میں دی گئی تجاویز کوبھی ریکارڈ کاحصہ بنانے کی اجازت دے دی جبکہ مزید سماعت 8 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔اٹارنی جنرل عرفان قادر نے حکومت کی جانب سے الگ بیان میں موقف اختیار کیاکہ اخترمینگل نے عدالت میں ریاست کے خلاف سخت زبان اختیار کی،انھوں نے پاکستان کی سالمیت کیخلاف بات کی، ان کے بیان کوواپس کیاجائے عدالت نے اس بیان کو واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے کہاکہ وفاق اور دیگراداروںکی جانب سے جواب چیف سیکریٹری بلوچستان نے جمع کرا دیاہے۔
این این آئی کے مطابق چیف جسٹس نے کہاکہ صدرآصف زرداری، وزیر اعظم راجا پرویز اشرف،نواز شریف، عمران خان سمیت سب کومسئلہ کے سیاسی حل کیلیے کام کرنا ہوگا، بلوچستان کامطلب پاکستان ہے،ممکن ہے کہ ججز متاثرہ علاقوںکااچانک دورہ کریں، آواران، نوشکی،ڈیری بگٹی جانا چاہتے ہیں، ان علاقوں میں ذاتی طورپرجائیں گے اس پر چیف سیکریٹری کاکہنا تھا کہ آپ کا اپنا صوبہ ہے حالات اتنے بھی خراب نہیں کہ آپ وہاںجا نہ سکیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ قبل اس کے کہ بندگلی میں داخل ہو جائیں، ہمیں معاملہ حل کرناہو گا۔چیف جسٹس نے کہاکہ اپنے دائرہ کاراوراختیارات کابھرپور استعمال کریںگے۔